La Alma
لائبریرین
دیتا رہا دہائی یہ، سودائی دیر تک
رہتی نہیں ہے ساتھ یہ دانائی دیر تک
شب پردۂ ِحیات پہ رقصاں رہی اجل
بیٹھے رہے تھے پاس ، تماشائی دیر تک
ٹوٹا خمار کتنے زمانوں کا روزِ حشر
لی وقت نے جو زور کی انگڑائی دیر تک
کل بزم میں جو دشمنِ جاں کی سنی غزل
کھوئی رہی تھی قوتِ گویائی دیر تک
پہلے خرابہ کم تھا انگارِ سبو کا کیا؟
جو اور مے ان آنکھوں سے چھلکائی دیر تک
کمبخت تیری یاد نے قبلہ بھلا دیا
روئی صفِ مجاز میں تنہائی دیر تک
المٰی فریبِ عشق میں پھر آ گیا ہے دل
ہر چند بات اُس کو تھی سمجھائی دیر تک