خرم شہزاد خرم
لائبریرین
دید کی خواہش تو ہے پر اب کہ بینائی کہاں
زندگی مجھ کو بتا دے تو ہمیں لائی کہاں
میں کرؤں ترکِ وفا یا تم کرو ترکِ وفا
جان جائے گی مگر جائے گی رسوائی کہاں
تم بھی ہو اب سنگ میرے اور سکوں بھی ہے بہت
ان بہاروں کے دنوں میں آنکھ بر آئی کہاں
دیدہِ موسٰی سے بڑ کر دم ہے میری آنکھ میں
پر وہ جلوہ طور کا اور حسنِ زیبائی کہاں
میں تو خود زندان میں اترا ہوں اپنے شوق سے
اس نے میرے پاؤ میں زنجیر پہنائی کہاں
طفلِ مکتب ہوں ابھی اصلاح کے قابل بھی نہیں
شاعری میں میر، غالب سی وہ گہرائی کہاں
خرم شہزاد خرم
زندگی مجھ کو بتا دے تو ہمیں لائی کہاں
میں کرؤں ترکِ وفا یا تم کرو ترکِ وفا
جان جائے گی مگر جائے گی رسوائی کہاں
تم بھی ہو اب سنگ میرے اور سکوں بھی ہے بہت
ان بہاروں کے دنوں میں آنکھ بر آئی کہاں
دیدہِ موسٰی سے بڑ کر دم ہے میری آنکھ میں
پر وہ جلوہ طور کا اور حسنِ زیبائی کہاں
میں تو خود زندان میں اترا ہوں اپنے شوق سے
اس نے میرے پاؤ میں زنجیر پہنائی کہاں
طفلِ مکتب ہوں ابھی اصلاح کے قابل بھی نہیں
شاعری میں میر، غالب سی وہ گہرائی کہاں
خرم شہزاد خرم