دید کی خواہش تو ہے پر اب کہ بینائی کہاں (اصلاح)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دید کی خواہش تو ہے پر اب کہ بینائی کہاں
زندگی مجھ کو بتا دے تو مجھے لائی کہاں

میں کروں ترکِ وفا یا تم کرو ترکِ وفا
جان جائے گی مگر ،جائے گی رسوائی کہاں

تم بھی ہو اب ساتھ میرے اور سکوں بھی ہے بہت
ان بہاروں کے دنوں میں آنکھ بر آئی کہاں

میں تو خود زندان میں اترا ہوں اپنے شوق سے
اس نے میرے پاؤ ں میں زنجیر پہنائی کہاں

طفلِ مکتب ہوں ابھی اصلاح کے قابل نہیں
شاعری میں میر، غالب سی وہ گہرائی کہاں

خرم شہزاد خرم
 

مغزل

محفلین
ہاں بھئی اب چونکہ میری ’’ غزل کی ہیت میں خرافات اور بے بحر یا نثری شاعری ‘‘ کا معاملہ حل ہوگیا ہے
سو تازہ غزل بھیجنے لگا ہوں ۔سواگت کرنا۔
 

الف عین

لائبریرین
ابھی ابھی ایک مسئلہ ہے خرم۔۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ’آنکھ بر آئی‘ کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ امید تو بر آتی ہے۔ اور اگر ’آنکھ بھر آئی ہے‘ تو پھر ’کہاں‘ سوال پیدا کرتا ہے۔
 
Top