پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سندھ کے سابق وزیر داخلہ نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کی بنیادی رکنیت کے علاوہ باقی سب عہدے تیاگ دئیے۔تیاگنے کے علاوہ ان کی پریس کانفرنس میں دیگر تین باتیں بڑا عجیب ماحول پیدا کئیے ہوئے تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ بار بار قرآن سر پر رکھ کر قسم اٹھا رہے تھے، دوسرے اپنے خاندانی اوصاف کو نا معلوم وجوہ کی بنا پہ بار بار نشر فرما رہے تھے اور تیسرے یہ کہ انہوں نے اپنی زمینوں ، شوگر ملوں حتی کہ پہنے ہوئے کپڑوں کے بارے میں کہا کہ یہ اللہ کی دین ہے لیکن پی پی پی اس کا وسیلہ ہے۔ یا الہی ، اسے کوئی کیا سمجھے کہ وہ ان اثاثوں کی اساس پیپلز پارٹی کو بنا کر کیا ثابت کرنا چاہ رہے تھے۔ کچھ من چلوں نے تو اسے ان کی کرپشن کا اعتراف تک شمار کر ڈالا۔
یہ کانفرنس بھلے غیر روایتی کہی جائے لیکن اس کے کچھ رنگ روایتی بھی تھے پہلا تو یہی کہ وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ پارٹی میں میری سنی نہیں جاتی تھی لیکن اگلے ہی جملے میں وہ زرداری سے عہد وفا کا اعلان فرمانے لگتے۔ حالانکہ زرداری ہی اس پارٹی کے شریک چئیر مین ہیں ۔ تضاد کا یہ رنگ پاکستانی سیاست کی خاص پہچان ہے۔ وہ رحمان ملک پہ خوب گرجے برسے اور ساتھ ہی ساتھ الطاف کو بھی لمبے ہاتھوں لیا لیکن وہ ان باتوں سے پہلو تہی بھی کرتے رہے جو بلا شبہ ان کو معلوم بھی تھیں۔ خاص طور پہ کراچی کی قتل و غارت میں حکومتی مشینری کی معنی خیز خاموشی۔ انہوں نے بہت سی دستاویزات بھی لہرائیں جو ان کے خیال میں پکے ثبوت ہیں چند سیاستدانوں کے ملک دشمن ہونے کے لیکن وہ آخری لمحے تک اپنی پارٹی کا ذکر نہ فرما سکے کہ آخر اس کی چھتر چھایہ میں یہ ملک دشمنی کیوں کر چلتی رہی؟۔ وہ خود اس حکومت کا ایک حصہ تھے تب وہ اان باتوں کا عام کیوں نہ کر سکے؟ اور اگر ان کی خواہش کے مطابق ان کی مان لی جاتی یا ان کو وفاقی وزیر داخلہ بنانے کی کوئی سبیل نکالی جاتی تو کیا پھر بھی وہ اسی حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے؟۔ زرداری پہ جان چھڑکنے کے دعویدار مرزا صاحب نے جہاں رحمان ملک کو جھوٹا قرار دیا وہاں ان سے ایک چُوک ہوئی کہ وہ زرداری صاحب کی مشہور عالم کہہ مکرنیوں کا ذکر نہ کر سکے۔
ان کی پریس کانفرنس پی پی پی کے گلے کا کانٹا تو بنی ہی ہے ساتھ ساتھ ان باتوں کی تصدیق بھی کرتی ہے جو پاکستان کے عوام اپنے حکمرانوں کے بارے میں پہلے سے ہی جانتے تھے لیکن ایک انجانے خوف یا تشکیک کی وجہ سے ان کو عام کرنے سے گھبراتے تھے۔ یہ پریس کانفرنس بہت سے راز افشا کر گئی اور ساتھ ساتھ برطانیہ اور امریکہ کی پاکستان کے خلاف بد نیتی اور ان کے آلہ کار بننے والے سیاستدانوں کو بھی بیچ چوراہے کے کھڑا کر گئی۔
مرزا صاحب سے سیاسی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی پریس کانفرنس کے حوالہ سے انہیں سراہا جانا چاہئیے کہ انہوں نے تھوڑا ہی سہی اس بے حس حکومت کے آگے کچھ کہنے کا حوصلہ تو کیا۔ بلا شبہ انہیں "دیسی وکی لیکس" کہا جا سکتا ہے۔
یہ کانفرنس بھلے غیر روایتی کہی جائے لیکن اس کے کچھ رنگ روایتی بھی تھے پہلا تو یہی کہ وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ پارٹی میں میری سنی نہیں جاتی تھی لیکن اگلے ہی جملے میں وہ زرداری سے عہد وفا کا اعلان فرمانے لگتے۔ حالانکہ زرداری ہی اس پارٹی کے شریک چئیر مین ہیں ۔ تضاد کا یہ رنگ پاکستانی سیاست کی خاص پہچان ہے۔ وہ رحمان ملک پہ خوب گرجے برسے اور ساتھ ہی ساتھ الطاف کو بھی لمبے ہاتھوں لیا لیکن وہ ان باتوں سے پہلو تہی بھی کرتے رہے جو بلا شبہ ان کو معلوم بھی تھیں۔ خاص طور پہ کراچی کی قتل و غارت میں حکومتی مشینری کی معنی خیز خاموشی۔ انہوں نے بہت سی دستاویزات بھی لہرائیں جو ان کے خیال میں پکے ثبوت ہیں چند سیاستدانوں کے ملک دشمن ہونے کے لیکن وہ آخری لمحے تک اپنی پارٹی کا ذکر نہ فرما سکے کہ آخر اس کی چھتر چھایہ میں یہ ملک دشمنی کیوں کر چلتی رہی؟۔ وہ خود اس حکومت کا ایک حصہ تھے تب وہ اان باتوں کا عام کیوں نہ کر سکے؟ اور اگر ان کی خواہش کے مطابق ان کی مان لی جاتی یا ان کو وفاقی وزیر داخلہ بنانے کی کوئی سبیل نکالی جاتی تو کیا پھر بھی وہ اسی حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے؟۔ زرداری پہ جان چھڑکنے کے دعویدار مرزا صاحب نے جہاں رحمان ملک کو جھوٹا قرار دیا وہاں ان سے ایک چُوک ہوئی کہ وہ زرداری صاحب کی مشہور عالم کہہ مکرنیوں کا ذکر نہ کر سکے۔
ان کی پریس کانفرنس پی پی پی کے گلے کا کانٹا تو بنی ہی ہے ساتھ ساتھ ان باتوں کی تصدیق بھی کرتی ہے جو پاکستان کے عوام اپنے حکمرانوں کے بارے میں پہلے سے ہی جانتے تھے لیکن ایک انجانے خوف یا تشکیک کی وجہ سے ان کو عام کرنے سے گھبراتے تھے۔ یہ پریس کانفرنس بہت سے راز افشا کر گئی اور ساتھ ساتھ برطانیہ اور امریکہ کی پاکستان کے خلاف بد نیتی اور ان کے آلہ کار بننے والے سیاستدانوں کو بھی بیچ چوراہے کے کھڑا کر گئی۔
مرزا صاحب سے سیاسی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی پریس کانفرنس کے حوالہ سے انہیں سراہا جانا چاہئیے کہ انہوں نے تھوڑا ہی سہی اس بے حس حکومت کے آگے کچھ کہنے کا حوصلہ تو کیا۔ بلا شبہ انہیں "دیسی وکی لیکس" کہا جا سکتا ہے۔