دینی مدارس کے حوالے سے چند وضاحتیں

شمشاد

لائبریرین
محلے میں جو کمیٹی بنتی ہے، اس میں ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ میں سرپنچ ہوں، چندہ میرے پاس ہونا چاہیے، اب کس کس کو محلہ کمیٹی کا صدر بنائیں۔
 
کمیٹیاں تو موجود ہیں لیکن کمیٹی والے اکثروبیشتر دلچسپی نہیں لیتے اور تمام تر ذمہ داری حافظ صاحب پر ڈال دیتے ہیں۔ جب ایک آدمی کے ہاتھ میں سارا انتظام و انصرام آ جائے گا تو خرابیوں کا پیدا ہونا یقینی امر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محلے داروں اور معلمین کے کمبی نیشن سے ادارے چلائے جائیں اور مدرسے کے کام کو دینی فریضہ سمجھ کر باہمی مشاورت سےسرانجام دیا جائے۔ امید ہے کافی افاقہ ہوگا۔بہتر تو یہی آپ کی تجویز انتہائی قابل عمل ہے
 

شمشاد

لائبریرین
زلفی بھائی کے مراسلے کو مدون کر کے انہی کے نام سے کیوں آگے بڑھا دیا؟ اس طرح تو پڑھنے والا یہی سمجھے گا کہ یہ انہی کے الفاظ ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ اس کا اقتباس لے کر اپنا مراسلہ الگ سے پوسٹ کرتے۔
 
اوکے جی آپ استاد جی میری رہنمائی کے لئے موجود ہیں تو مجھے کوئی پریشانی نہیں آپ کی بات پر عمل کرتے ہوئے خیال رکھوں گا
 

ابن عادل

محفلین
راقم بھی ایک مدرسے سے حصول علم کا شرف حاصل کرچکا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ میرے دائیں جانب میرا ایک روم میٹ اہل حدیث مسلک کے مطابق نماز ادا کررہا ہوتا تھا ۔ اور دوسری جانب احناف کے مسلک کے مطابق ۔ اور الحمد للہ اب بھی بہت سے مدارس میں یہی ماحول ہے ۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ مسلکی تعلیم دی جاتی ہے لیکن کہیں بھی مسلکی قتل وغارت گری کی صورتحال نظر نہیں آتی ۔ موجودہ حالات میں تکفیری فتنے کی بات تو میرے خیال میں نائن الیون کی مہربانی ہے ۔ اور کچھ ہماری ایجنسیوں کی کہ لڑاو اور حکومت کرو ۔
یہ بات تسلیم کہ مدارس میں خامیاں ہیں نصاب کے حوالے سے ، فکر کے حوالے سے ، ماحول کے حوالے سے اور دیگر بہت سے حوالوں سے لیکن یہ خرابیاں کہاں نہیں ۔ ایک معاشرہ جو خرابیوں کی دلدل میں دھنسا ہو تو کیا اس معاشرے کے مدارس میں فرشتے آئیں گے ۔ ۔۔! مجموعی طور پر میں جن مدارس میں گیا ہوں جن میں اہل حدیث ، دیوبندی ، بریلوی اور اہل تشیع سب ہی شامل ہیں ۔ برداشت کا عنصر پایا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ خبر ''تماشا'' بنتی ہے اور سنجیدگی اپنے مقام پر گمنام رہتی ہے ۔
 
اپ نے جو تجویز دی ہے میں اس پوری طرح متفق ہوں اگر اس پر عمل ہوجائے کافی حد تک بہتری آجائے گا لیکن میں یہاں اس بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ سارا کام حکومت پر نہیں چھوڑنا چاہییے ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں
ہم نے اپنى ذاتى ذمہ دارى پورى كر دى ، مدرسے سے بھی پڑھ ڈالا، سكول يونيورسٹی سے بھی ہو آئے۔فكر آخرت ركھنے والے باشعورلوگوں كى اكثريت اپنے بچوں كو دونوں طرح كى تعليم خود دلا رہی ہے ، حكومت كے انتظار ميں نسلوں كو بے دين تو نہيں كرسكتے۔حكومت اتنى ذرا مہربانى كر دے كہ ان مدارس بورڈز کے دائرے سے باہر بننے والے غير قانونى مدارس كو صاف كر دے ، باقى كام علماء كرام اور عوام الناس وسائل اور ہمت كے مطابق بخوبى كر رہے ہيں۔
 
درست كہا شمشاد بھائى ، يہ مغرب سے مرعوب لوگ ہيں، كوئى فرانسيسى يا جرمن ، انگريزى سے بے بہرہ ہو اور السنہء شرق كا ماہر orientalist بن كر آتا ہے تو يہ ديدہ ودل فرش راہ كرتے ہيں ، اور دينى جامعات كے فاضل عربى يا علوم اسلاميه كا مذاق اڑاتے ہيں كہ انگريزى نہيں جانتا، كوئى انگريزى گزيدہ يہ نہيں سوچتا كہ يہ اس كا ڈسپلن نہيں ہے ۔
اگر ڈگرى كا نام الشھادہ العالمية في العلوم الاسلامية ہو تو حقارت سے ديكھتے ہيں اور ماسٹرز ان اسلامك اسٹڈيز كا استقبال گريڈ 17 ميں ہوتا ہے،اب اگر مسلسل اعراض ، تحقير اور معاندانہ رويے كے باوجود دينى مدارس و جامعات كام كر رہے ہيں تو ان اللہ كے وليوں كى ہمت ہے جو ان كا انتظام سنبھالے ہوئے ہيں ۔
 
Top