راقم بھی ایک مدرسے سے حصول علم کا شرف حاصل کرچکا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ میرے دائیں جانب میرا ایک روم میٹ اہل حدیث مسلک کے مطابق نماز ادا کررہا ہوتا تھا ۔ اور دوسری جانب احناف کے مسلک کے مطابق ۔ اور الحمد للہ اب بھی بہت سے مدارس میں یہی ماحول ہے ۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ مسلکی تعلیم دی جاتی ہے لیکن کہیں بھی مسلکی قتل وغارت گری کی صورتحال نظر نہیں آتی ۔ موجودہ حالات میں تکفیری فتنے کی بات تو میرے خیال میں نائن الیون کی مہربانی ہے ۔ اور کچھ ہماری ایجنسیوں کی کہ لڑاو اور حکومت کرو ۔
یہ بات تسلیم کہ مدارس میں خامیاں ہیں نصاب کے حوالے سے ، فکر کے حوالے سے ، ماحول کے حوالے سے اور دیگر بہت سے حوالوں سے لیکن یہ خرابیاں کہاں نہیں ۔ ایک معاشرہ جو خرابیوں کی دلدل میں دھنسا ہو تو کیا اس معاشرے کے مدارس میں فرشتے آئیں گے ۔ ۔۔! مجموعی طور پر میں جن مدارس میں گیا ہوں جن میں اہل حدیث ، دیوبندی ، بریلوی اور اہل تشیع سب ہی شامل ہیں ۔ برداشت کا عنصر پایا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ خبر ''تماشا'' بنتی ہے اور سنجیدگی اپنے مقام پر گمنام رہتی ہے ۔