خورشیدآزاد
محفلین
توحید، اسلام کے پانچ ستون توحید، نماز، روزہ، زکوٰتہ، حج میں سے پہلا اور بنیادی اہم ستون ہے کیونکہ باقی ستون اسی پر انحصار کرتے ہیں۔ توحید کے بغیر باقی چار ستون کے ماننے اور نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ ہر انسان چاہے وہ مسلمان ہے یا غیرمسلم اپنی زندگی میں قربانی بھی دیتا ہے، خیرات بھی دیتا ہے اور اپنے جسم سے گندگی صاف کرنے کے واسطے ہاتھ منہ بھی دھوتا ہے اور غسل بھی کرتا ہے۔ میری سمجھ کے مطابق توحید کا مطلب ہے آپ اللہ تعالیٰ کے وجود پر، اس کی واحدنیت پر، اس کے پیغمبروں پر، فرشتوں پر اور نازل کردہ کتابوں پرایمان لاتے ہیں یہاں بھی اہم اور بنیادی چیز اللہ تعالٰی کے وجود پر ایمان ہے ۔
اب بھی میرا اللہ تعالٰی کے وجود پر پختہ ایمان ہے۔۔۔۔ میں جب سات آٹھ سال کا تھاتوصبح اپنے گاؤں کی مسجد کادروازہ میں ہی کھولتاتھا۔ اور کیونکہ میری بنیادی دنیاوی اور دینی تعلیم مدرسے میں ہوئی اس لیے میں ایک مذہبی سوچ رکھنے والا جذباتی انسان بنا جو اس بات پر پختہ ایمان رکھتا تھا کہ ایک دن امت مسلمہ میں سے سلطان محمود غزنوی، محمد بن قاسم جیسے مجاہد اٹھیں گے اور پوری دنیا پر اسلام کا بول بالا کریں گے کیونکہ اسلام ہی اس دنیا کا ایک سچا دین ہے۔ لیکن بد قسمتی سےکچھ عرصےسے اس بات پر سےمیراایمان ڈگمگا رہا ہے لیکن اپنی طرف سے پاؤں جمانے کی پوری کوشش کررہا ہوں اور یہ موضوع شروع کرنے کا مقصد اسی کوشش کا حصہ ہے۔
٢٠٠٢ تک ایسا نہیں تھا۔ میں اپنے آپ سے، دنیا سے اور اللہ تعالٰی سے راضی اور خوش تھا اور فخر تھاکہ میں مسلمان کے گھر میں پید ہوا ہوں اور مسلمان ہوں۔ ٢٠٠١ کے وسط میں میری بیٹی رابعہ کا جنم ہوا اور جب وہ ایک سال کی ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ڈیویلپمنٹ ڈیلئے کی مریض ہیں بعد میں اس بیماری کو سریبل پالسی کے نام سے بتایا گیا۔ یہاں کے ڈاکٹروں نے کہا کہ اس بیماری کی وجہ اور علاج کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا اور یہ وقت کے ساتھ ہی پتہ چلے گا کہ مریض کی بیماری کی شدت کیا ہوگی اور کس حد تک علاج بااثر ہوگا اور مشورہ دیا کہ علاج کی تلاش کے بجائے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کیسے رابعہ کوایسی تربیت دی جائے کہ وہ خود پر انحصار کرنا سیکھے۔ شروع شروع میں میں اتنا زیادہ نہیں گھبرایا اور سیدھا انٹرنیٹ کی طرف یہ سوچتے ہوئے رخ کیا کہ یہ ڈاکٹر کیونکہ سرکاری ہیں اس لیے یہ مجھے ایسے ہی ٹرخا رہے ہیں اور ایشیا میں نہیں تو مغرب میں اس کا علاج ضرور ہوگا۔ لیکن وقت نے مجھے بتادیا نہیں بچُو معاملہ انتہائی گھمبیر ہے۔ بہت پریشان ہوا اپنے آپ کو کوسا، اپنی قسمت کو کوسا لیکن بالآخر حقیقت کو تسلیم کرلیا۔ رابعہ اب سپیشل اسکول کے سوئم کلاس میں پڑھ رہی ہے اور خوش ہے۔
لیکن اس واقعے کے بعد میرے خیالات ایک دم تبدیل ہوگئے پہلے اللہ تعالٰی کی طرف باغیانہ خیالات آنے لگے اور رابعہ کے علاج اور ٹریٹمنٹ کے لیے ہسپتالوں کے چکر لگاتے ہوئے ان خیالات میں شدت آنے لگی۔ پھر رابعہ کو سپیشل نرسری سکول میں داخل کراتے ہوئے اس کے فرشتہ سفت اساتذہ کرام اور اسکول کا انسانیت کے لیے بے لوث خدمات کا ذاتی مشائدہ کرتے ہوئے جو آج بھی جاری ہے میرے خیالات تبدیل سے تبدیل تر ہونے لگے۔
ایک دن ہسپتال راہ داری میں ایک رشتہ دار کے ساتھ بیٹھا تھا باتوں ہی باتوں میں بے اختیار میرے منہ سے سوال نکلا کیا یہ نرس جو ہمارے سامنے انسانیت کی خدمت کررہی ہیں دوزخ میں جائیں گے؟؟ اس نے حسب توقع کہا دیکھو جو بھی ہو کیونکہ انہوں نے کلمہ نہیں پڑھا ہے یہ دوزخ میں ہی جائیں گے۔۔۔۔۔ہاں مسلمان اپنے اپنے گناہوں کی سزا بگتا کر بالآخر جنت میں جائیں گے۔ میں اس کے جواب پر تلملا اٹھا اور چپ ہوگیا لیکن تصور ہی تصور میں میری آنکھوں کے سامنے میری رابعہ کےغیرمسلم اساتذہ کرام کی اشکال گھومنے لگیں جوماں باپ سے بھی زیادہ محبت، محنت اور لگن سے ان معذور افراد کو نہ صرف دنیاوی تعلیم دیتے بالکہ زندگی کا قرینہ سکھاتے ہیں جو بلاشبہ ان معذور افراد کےلیے زمیں پر خدا کا درجہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ اپنے آپ سے سوال کیا کیا یہ لوگ بھی دوزخ میں جائیں گے؟۔۔۔۔نہیں نہیں اللہ تعالٰی اگر ہے تو اتنی ناانصافی نہیں کرسکتا۔۔۔!!
کیا مدرٹریسا جیسے لوگ دوزخ میں جائیں گے؟ کیا تمام غیر مسلموں کے انسانیت کے لیے بے لوث خدمات اللہ تعالٰی کے ہاں کوئی وقعت نہیں رکھتیں؟؟ اس قسم کے بے شمار خیالات مجھے پریشان کرتے ہیں۔۔۔
اب بھی میرا اللہ تعالٰی کے وجود پر پختہ ایمان ہے۔۔۔۔ میں جب سات آٹھ سال کا تھاتوصبح اپنے گاؤں کی مسجد کادروازہ میں ہی کھولتاتھا۔ اور کیونکہ میری بنیادی دنیاوی اور دینی تعلیم مدرسے میں ہوئی اس لیے میں ایک مذہبی سوچ رکھنے والا جذباتی انسان بنا جو اس بات پر پختہ ایمان رکھتا تھا کہ ایک دن امت مسلمہ میں سے سلطان محمود غزنوی، محمد بن قاسم جیسے مجاہد اٹھیں گے اور پوری دنیا پر اسلام کا بول بالا کریں گے کیونکہ اسلام ہی اس دنیا کا ایک سچا دین ہے۔ لیکن بد قسمتی سےکچھ عرصےسے اس بات پر سےمیراایمان ڈگمگا رہا ہے لیکن اپنی طرف سے پاؤں جمانے کی پوری کوشش کررہا ہوں اور یہ موضوع شروع کرنے کا مقصد اسی کوشش کا حصہ ہے۔
٢٠٠٢ تک ایسا نہیں تھا۔ میں اپنے آپ سے، دنیا سے اور اللہ تعالٰی سے راضی اور خوش تھا اور فخر تھاکہ میں مسلمان کے گھر میں پید ہوا ہوں اور مسلمان ہوں۔ ٢٠٠١ کے وسط میں میری بیٹی رابعہ کا جنم ہوا اور جب وہ ایک سال کی ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ڈیویلپمنٹ ڈیلئے کی مریض ہیں بعد میں اس بیماری کو سریبل پالسی کے نام سے بتایا گیا۔ یہاں کے ڈاکٹروں نے کہا کہ اس بیماری کی وجہ اور علاج کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا اور یہ وقت کے ساتھ ہی پتہ چلے گا کہ مریض کی بیماری کی شدت کیا ہوگی اور کس حد تک علاج بااثر ہوگا اور مشورہ دیا کہ علاج کی تلاش کے بجائے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کیسے رابعہ کوایسی تربیت دی جائے کہ وہ خود پر انحصار کرنا سیکھے۔ شروع شروع میں میں اتنا زیادہ نہیں گھبرایا اور سیدھا انٹرنیٹ کی طرف یہ سوچتے ہوئے رخ کیا کہ یہ ڈاکٹر کیونکہ سرکاری ہیں اس لیے یہ مجھے ایسے ہی ٹرخا رہے ہیں اور ایشیا میں نہیں تو مغرب میں اس کا علاج ضرور ہوگا۔ لیکن وقت نے مجھے بتادیا نہیں بچُو معاملہ انتہائی گھمبیر ہے۔ بہت پریشان ہوا اپنے آپ کو کوسا، اپنی قسمت کو کوسا لیکن بالآخر حقیقت کو تسلیم کرلیا۔ رابعہ اب سپیشل اسکول کے سوئم کلاس میں پڑھ رہی ہے اور خوش ہے۔
لیکن اس واقعے کے بعد میرے خیالات ایک دم تبدیل ہوگئے پہلے اللہ تعالٰی کی طرف باغیانہ خیالات آنے لگے اور رابعہ کے علاج اور ٹریٹمنٹ کے لیے ہسپتالوں کے چکر لگاتے ہوئے ان خیالات میں شدت آنے لگی۔ پھر رابعہ کو سپیشل نرسری سکول میں داخل کراتے ہوئے اس کے فرشتہ سفت اساتذہ کرام اور اسکول کا انسانیت کے لیے بے لوث خدمات کا ذاتی مشائدہ کرتے ہوئے جو آج بھی جاری ہے میرے خیالات تبدیل سے تبدیل تر ہونے لگے۔
ایک دن ہسپتال راہ داری میں ایک رشتہ دار کے ساتھ بیٹھا تھا باتوں ہی باتوں میں بے اختیار میرے منہ سے سوال نکلا کیا یہ نرس جو ہمارے سامنے انسانیت کی خدمت کررہی ہیں دوزخ میں جائیں گے؟؟ اس نے حسب توقع کہا دیکھو جو بھی ہو کیونکہ انہوں نے کلمہ نہیں پڑھا ہے یہ دوزخ میں ہی جائیں گے۔۔۔۔۔ہاں مسلمان اپنے اپنے گناہوں کی سزا بگتا کر بالآخر جنت میں جائیں گے۔ میں اس کے جواب پر تلملا اٹھا اور چپ ہوگیا لیکن تصور ہی تصور میں میری آنکھوں کے سامنے میری رابعہ کےغیرمسلم اساتذہ کرام کی اشکال گھومنے لگیں جوماں باپ سے بھی زیادہ محبت، محنت اور لگن سے ان معذور افراد کو نہ صرف دنیاوی تعلیم دیتے بالکہ زندگی کا قرینہ سکھاتے ہیں جو بلاشبہ ان معذور افراد کےلیے زمیں پر خدا کا درجہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ اپنے آپ سے سوال کیا کیا یہ لوگ بھی دوزخ میں جائیں گے؟۔۔۔۔نہیں نہیں اللہ تعالٰی اگر ہے تو اتنی ناانصافی نہیں کرسکتا۔۔۔!!
کیا مدرٹریسا جیسے لوگ دوزخ میں جائیں گے؟ کیا تمام غیر مسلموں کے انسانیت کے لیے بے لوث خدمات اللہ تعالٰی کے ہاں کوئی وقعت نہیں رکھتیں؟؟ اس قسم کے بے شمار خیالات مجھے پریشان کرتے ہیں۔۔۔