دین اسلام یا دین انسانیت

خورشیدآزاد

محفلین
توحید، اسلام کے پانچ ستون توحید، نماز، روزہ، زکوٰتہ، حج میں سے پہلا اور بنیادی اہم ستون ہے کیونکہ باقی ستون اسی پر انحصار کرتے ہیں۔ توحید کے بغیر باقی چار ستون کے ماننے اور نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ ہر انسان چاہے وہ مسلمان ہے یا غیرمسلم اپنی زندگی میں قربانی بھی دیتا ہے، خیرات بھی دیتا ہے اور اپنے جسم سے گندگی صاف کرنے کے واسطے ہاتھ منہ بھی دھوتا ہے اور غسل بھی کرتا ہے۔ میری سمجھ کے مطابق توحید کا مطلب ہے آپ اللہ تعالیٰ کے وجود پر، اس کی واحدنیت پر، اس کے پیغمبروں پر، فرشتوں پر اور نازل کردہ کتابوں پرایمان لاتے ہیں یہاں بھی اہم اور بنیادی چیز اللہ تعالٰی کے وجود پر ایمان ہے ۔

اب بھی میرا اللہ تعالٰی کے وجود پر پختہ ایمان ہے۔۔۔۔ میں جب سات آٹھ سال کا تھاتوصبح اپنے گاؤں کی مسجد کادروازہ میں ہی کھولتاتھا۔ اور کیونکہ میری بنیادی دنیاوی اور دینی تعلیم مدرسے میں ہوئی اس لیے میں ایک مذہبی سوچ رکھنے والا جذباتی انسان بنا جو اس بات پر پختہ ایمان رکھتا تھا کہ ایک دن امت مسلمہ میں سے سلطان محمود غزنوی، محمد بن قاسم جیسے مجاہد اٹھیں گے اور پوری دنیا پر اسلام کا بول بالا کریں گے کیونکہ اسلام ہی اس دنیا کا ایک سچا دین ہے۔ لیکن بد قسمتی سےکچھ عرصےسے اس بات پر سےمیراایمان ڈگمگا رہا ہے لیکن اپنی طرف سے پاؤں جمانے کی پوری کوشش کررہا ہوں اور یہ موضوع شروع کرنے کا مقصد اسی کوشش کا حصہ ہے۔

٢٠٠٢ تک ایسا نہیں تھا۔ میں اپنے آپ سے، دنیا سے اور اللہ تعالٰی سے راضی اور خوش تھا اور فخر تھاکہ میں مسلمان کے گھر میں پید ہوا ہوں اور مسلمان ہوں۔ ٢٠٠١ کے وسط میں میری بیٹی رابعہ کا جنم ہوا اور جب وہ ایک سال کی ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ڈیویلپمنٹ ڈیلئے کی مریض ہیں بعد میں اس بیماری کو سریبل پالسی کے نام سے بتایا گیا۔ یہاں کے ڈاکٹروں نے کہا کہ اس بیماری کی وجہ اور علاج کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا اور یہ وقت کے ساتھ ہی پتہ چلے گا کہ مریض کی بیماری کی شدت کیا ہوگی اور کس حد تک علاج بااثر ہوگا اور مشورہ دیا کہ علاج کی تلاش کے بجائے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کیسے رابعہ کوایسی تربیت دی جائے کہ وہ خود پر انحصار کرنا سیکھے۔ شروع شروع میں میں اتنا زیادہ نہیں گھبرایا اور سیدھا انٹرنیٹ کی طرف یہ سوچتے ہوئے رخ کیا کہ یہ ڈاکٹر کیونکہ سرکاری ہیں اس لیے یہ مجھے ایسے ہی ٹرخا رہے ہیں اور ایشیا میں نہیں تو مغرب میں اس کا علاج ضرور ہوگا۔ لیکن وقت نے مجھے بتادیا نہیں بچُو معاملہ انتہائی گھمبیر ہے۔ بہت پریشان ہوا اپنے آپ کو کوسا، اپنی قسمت کو کوسا لیکن بالآخر حقیقت کو تسلیم کرلیا۔ رابعہ اب سپیشل اسکول کے سوئم کلاس میں پڑھ رہی ہے اور خوش ہے۔

لیکن اس واقعے کے بعد میرے خیالات ایک دم تبدیل ہوگئے پہلے اللہ تعالٰی کی طرف باغیانہ خیالات آنے لگے اور رابعہ کے علاج اور ٹریٹمنٹ کے لیے ہسپتالوں کے چکر لگاتے ہوئے ان خیالات میں شدت آنے لگی۔ پھر رابعہ کو سپیشل نرسری سکول میں داخل کراتے ہوئے اس کے فرشتہ سفت اساتذہ کرام اور اسکول کا انسانیت کے لیے بے لوث خدمات کا ذاتی مشائدہ کرتے ہوئے جو آج بھی جاری ہے میرے خیالات تبدیل سے تبدیل تر ہونے لگے۔

ایک دن ہسپتال راہ داری میں ایک رشتہ دار کے ساتھ بیٹھا تھا باتوں ہی باتوں میں بے اختیار میرے منہ سے سوال نکلا کیا یہ نرس جو ہمارے سامنے انسانیت کی خدمت کررہی ہیں دوزخ میں جائیں گے؟؟ اس نے حسب توقع کہا دیکھو جو بھی ہو کیونکہ انہوں نے کلمہ نہیں پڑھا ہے یہ دوزخ میں ہی جائیں گے۔۔۔۔۔ہاں مسلمان اپنے اپنے گناہوں کی سزا بگتا کر بالآخر جنت میں جائیں گے۔ میں اس کے جواب پر تلملا اٹھا اور چپ ہوگیا لیکن تصور ہی تصور میں میری آنکھوں کے سامنے میری رابعہ کےغیرمسلم اساتذہ کرام کی اشکال گھومنے لگیں جوماں باپ سے بھی زیادہ محبت، محنت اور لگن سے ان معذور افراد کو نہ صرف دنیاوی تعلیم دیتے بالکہ زندگی کا قرینہ سکھاتے ہیں جو بلاشبہ ان معذور افراد کےلیے زمیں پر خدا کا درجہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ اپنے آپ سے سوال کیا کیا یہ لوگ بھی دوزخ میں جائیں گے؟۔۔۔۔نہیں نہیں اللہ تعالٰی اگر ہے تو اتنی ناانصافی نہیں کرسکتا۔۔۔!!

کیا مدرٹریسا جیسے لوگ دوزخ میں جائیں گے؟ کیا تمام غیر مسلموں کے انسانیت کے لیے بے لوث خدمات اللہ تعالٰی کے ہاں کوئی وقعت نہیں رکھتیں؟؟ اس قسم کے بے شمار خیالات مجھے پریشان کرتے ہیں۔۔۔
 
اگر ہم کسی ایسے مقام سے ان امور پر نظر دوڑائیں جہاں سے دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے تمام امور کی اصل حقیقت ہماری نظر میں آجائے، تو شائد یہ عقدہ وا ہوجائے کہ اللہ اور اسکے رسول نے یہ کیوں کہا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اسکے رسول پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہیں۔ ہماری نظر اعمال پر بلکہ انکی ظاہری صورت پر رہتی ہے، ان اعمال کی اصل روح ہے انکا فی سبیل اللہ ہونا۔ اگر اللہ کیلئے نہیں ہیں تو اپنے اپنے جذبات، خیالات اور نظریات کی پیروی ہوئی۔ گویا اللہ کے مقابلے میں آپ نے اپنے نفس کو ترجیح دی۔۔ ۔ اور یہ ایک ایسا جرم ہے کہ جس میں کافر تو مبتلا ہوتے ہی ہیں بیشمار مسلمان بھی اسی میں گرفتار ہیں۔ اور اسی لئے ابدی عذاب صرف انکے لئے ہے جن کے اندر ایک ذرّہ بھی ایمان کا نہیں ہوگا۔ اب کسی کے ایمان کی کیا حقیقت ہے یہ تو اللہ ہی بہتر فیصلہ کرسکتا ہے۔۔ ۔ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ عادل ہے، ظالم نہین۔ اور مدر ٹریسا کی طرح کوئی ساری زندگی انسانیت کی خدمت کرتا رہے لیکن اگر اپنے خالق و مالک کو پیچاننے کیلئے ایک ذرّے جتنا بھی ایمان نہیں تو گویا ساری زندگی اندھیرے میں ہی بسر کردی اور تخلیق کی غرض و غایت یعنی خدا شناسی اور عرفانِ ذات کو کلیۃّ ہی نظرانداز کردیا تو پھر ہم سے بڑا ظالم بھی کوئی نہیں۔ ۔ ۔
 

arifkarim

معطل
میری بنیادی دنیاوی اور دینی تعلیم مدرسے میں ہوئی اس لیے میں ایک مذہبی سوچ رکھنے والا جذباتی انسان بنا جو اس بات پر پختہ ایمان رکھتا تھا کہ ایک دن امت مسلمہ میں سے سلطان محمود غزنوی، محمد بن قاسم جیسے مجاہد اٹھیں گے اور پوری دنیا پر اسلام کا بول بالا کریں گے کیونکہ اسلام ہی اس دنیا کا ایک سچا دین ہے۔ لیکن بد قسمتی سےکچھ عرصےسے اس بات پر سےمیراایمان ڈگمگا رہا ہے لیکن اپنی طرف سے پاؤں جمانے کی پوری کوشش کررہا ہوں اور یہ موضوع شروع کرنے کا مقصد اسی کوشش کا حصہ ہے۔
اسمیں‌آپکا کوئی قصور نہیں۔ ان علماء کا ہے جنہوں نے آپکے ننھے سے دل میں‌اسلامی پراپیگنڈا نصب کیا تھا۔ یہ لوگ ’’اللہ‘‘ کی جنت کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں۔ اور میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ بعض‌علما ء فدائی حملے کرنے والے" گریجویٹس" کو سند کے طور پر جنت کے سرٹیفکیٹس بھی عطا کر تے ہیں۔ جہاں اسلامی تعلیم کا یہ حال ہو وہاں آپکے جذبات کو ضرب پہنچنا ایک فطری عمل ہے۔ اور میں انکی قدر کرتاہوں۔
 
اسمیں‌آپکا کوئی قصور نہیں۔ ان علماء کا ہے جنہوں نے آپکے ننھے سے دل میں‌اسلامی پراپیگنڈا نصب کیا تھا۔ یہ لوگ ’’اللہ‘‘ کی جنت کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں۔ اور میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ بعض‌علما ء فدائی حملے کرنے والے" گریجویٹس" کو سند کے طور پر جنت کے سرٹیفکیٹس بھی عطا کر تے ہیں۔ جہاں اسلامی تعلیم کا یہ حال ہو وہاں آپکے جذبات کو ضرب پہنچنا ایک فطری عمل ہے۔ اور میں انکی قدر کرتاہوں۔
معاف کیجئے گا آپ خورشید صاحب کی الجھن کو بائی پاس کرگئے ہیں۔ بنیادی طور پر انکی الجھن مولویوں کی پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک جینوئن سوال انکے اندر ابھرا ہے۔ اور یہ بھی کہ سوال یہ نہیں تھا کہ یہ الجھن کیسے پیدا ہوئی۔۔۔بلکہ سوال یہ ہے کہ اس الجھن کا حل کیا ہے؟
 

S. H. Naqvi

محفلین
میرے محترم آپ کا مراسلہ پڑھا اور اس میں آپ کی ذہنی کیفیت کا جو عکس نظر آیا اس کے مطابق آپ کو یہ سب لکھنا ہی چاہیے تھا اور بہت اچھا سوال چھوڑا ہے آپ نے۔
اسلام اللہ کا دین ہے اور نہ صرف اللہ کا دین بلکہ اللہ کا پسندیدہ اور مکمل دین ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ : دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ اور اہل کتاب نے جو اس دین سے اختلاف کیا تو علم حاصل ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا۔ اور جو شخص اللہ کی آیتوں کو نہ مانے تو اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ سورۃ: 3 آیہ: 19 رکوع: 2
توحید کا اپنا ایک نظریہ ہے ایک انسان جو خالصتا اللہ کو مانتا ہے اور شرک سے بچتا ہے اور انسانیت کی فلاح کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہوئے دکھی دلوں کے لیے کام کرتا ہے اور اس تک اسلام کی روشنی نہیں پونچتی تو اس کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اورمیرے ذاتی عقیدے کے مطابق وہ جنت کامستحق ہے لیکن ایک انسان جو نیک اعمال کرتے ہوئے اللہ کے دین اسلام کو ٹھکرا دے تو بلا شبہ اس کے اعمال اکارت ہیں دین اس تک پہنچے اور وہ اس کی تکذیب کرے اور اس سے برات کرے تو پھر وہ صریح گمراہی میں ہے قرآن پاک میںارشاد ربانی ہے کہ : اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا کسی اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلا دیں گے اور قیامت کے دن اسے جہنم میں داخل کریں گے۔ اور وہ بری جگہ ہے۔ سورۃ: 4 آیہ: 115 رکوع: 17
اور ہر مسلمان کواسی لیے حکم ہے کہ وہ دین کو بھیلائے اور اسکی تبلیغ کرے تا کہ روئے زمین میں بسنے والا کوئی انسان بھی اس سے محروم نہ رہے اسی لیے نیکے کا حکم دینے والے کو جنت کی بشارت آئی ہے کہ: نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے۔ اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے۔ یہی مومن لوگ ہیں اور اے پیغمبر مومنوں کو بہشت کی خوشخبری سنا دو۔ سورۃ: 9 آیہ: 112 رکوع: 14 

سمیں‌آپکا کوئی قصور نہیں۔ ان علماء کا ہے جنہوں نے آپکے ننھے سے دل میں‌اسلامی پراپیگنڈا نصب کیا تھا۔ یہ لوگ ’’اللہ‘‘ کی جنت کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں۔ اور میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ بعض‌علما ء فدائی حملے کرنے والے" گریجویٹس" کو سند کے طور پر جنت کے سرٹیفکیٹس بھی عطا کر تے ہیں۔ جہاں اسلامی تعلیم کا یہ حال ہو وہاں آپکے جذبات کو ضرب پہنچنا ایک فطری عمل ہے۔ اور میں انکی قدر کرتاہوں۔
میرے محترم گستاخی کی معافی،مگر کیا یہ سب آپ اس نے سوچ کر لکھا ہے اور کیا آپ دین سے اس حد تک لاعلم ہیں؟؟؟ اللہ نے جا بجا اپنی جنت کو اپنے ماننے والوں کے لیے ہی مخصوص کیا ہے اور اب یہ الگ بات ہے کہ ہم دین میں کتنے داخل ہوئے ہیں اور ہمیں کتنا حق ہے کہ ہم اسے اپنی جاگیر سمجھنے میں حق بجانب ہوں؟ اور مجھے افسوس ہے کہ آپ نے ایک جاہلانہ طرز عمل کو اسلام سے ڈائریکٹ منسوب کر دیا ہے اور ایک طبقے کی فکر کو جو حقیقی اسلام سے متصادم ہے، اسلام کے نام پر بیان کیا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
توحید، اسلام کے پانچ ستون توحید، نماز، روزہ، زکوٰتہ، حج میں سے پہلا اور بنیادی اہم ستون ہے کیونکہ باقی ستون اسی پر انحصار کرتے ہیں۔ توحید کے بغیر باقی چار ستون کے ماننے اور نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ ہر انسان چاہے وہ مسلمان ہے یا غیرمسلم اپنی زندگی میں قربانی بھی دیتا ہے، خیرات بھی دیتا ہے اور اپنے جسم سے گندگی صاف کرنے کے واسطے ہاتھ منہ بھی دھوتا ہے اور غسل بھی کرتا ہے۔ میری سمجھ کے مطابق توحید کا مطلب ہے آپ اللہ تعالیٰ کے وجود پر، اس کی واحدنیت پر، اس کے پیغمبروں پر، فرشتوں پر اور نازل کردہ کتابوں پرایمان لاتے ہیں یہاں بھی اہم اور بنیادی چیز اللہ تعالٰی کے وجود پر ایمان ہے ۔

اب بھی میرا اللہ تعالٰی کے وجود پر پختہ ایمان ہے۔۔۔۔ میں جب سات آٹھ سال کا تھاتوصبح اپنے گاؤں کی مسجد کادروازہ میں ہی کھولتاتھا۔ اور کیونکہ میری بنیادی دنیاوی اور دینی تعلیم مدرسے میں ہوئی اس لیے میں ایک مذہبی سوچ رکھنے والا جذباتی انسان بنا جو اس بات پر پختہ ایمان رکھتا تھا کہ ایک دن امت مسلمہ میں سے سلطان محمود غزنوی، محمد بن قاسم جیسے مجاہد اٹھیں گے اور پوری دنیا پر اسلام کا بول بالا کریں گے کیونکہ اسلام ہی اس دنیا کا ایک سچا دین ہے۔ لیکن بد قسمتی سےکچھ عرصےسے اس بات پر سےمیراایمان ڈگمگا رہا ہے لیکن اپنی طرف سے پاؤں جمانے کی پوری کوشش کررہا ہوں اور یہ موضوع شروع کرنے کا مقصد اسی کوشش کا حصہ ہے۔

٢٠٠٢ تک ایسا نہیں تھا۔ میں اپنے آپ سے، دنیا سے اور اللہ تعالٰی سے راضی اور خوش تھا اور فخر تھاکہ میں مسلمان کے گھر میں پید ہوا ہوں اور مسلمان ہوں۔ ٢٠٠١ کے وسط میں میری بیٹی رابعہ کا جنم ہوا اور جب وہ ایک سال کی ہوئی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ڈیویلپمنٹ ڈیلئے کی مریض ہیں بعد میں اس بیماری کو سریبل پالسی کے نام سے بتایا گیا۔ یہاں کے ڈاکٹروں نے کہا کہ اس بیماری کی وجہ اور علاج کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا اور یہ وقت کے ساتھ ہی پتہ چلے گا کہ مریض کی بیماری کی شدت کیا ہوگی اور کس حد تک علاج بااثر ہوگا اور مشورہ دیا کہ علاج کی تلاش کے بجائے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کیسے رابعہ کوایسی تربیت دی جائے کہ وہ خود پر انحصار کرنا سیکھے۔ شروع شروع میں میں اتنا زیادہ نہیں گھبرایا اور سیدھا انٹرنیٹ کی طرف یہ سوچتے ہوئے رخ کیا کہ یہ ڈاکٹر کیونکہ سرکاری ہیں اس لیے یہ مجھے ایسے ہی ٹرخا رہے ہیں اور ایشیا میں نہیں تو مغرب میں اس کا علاج ضرور ہوگا۔ لیکن وقت نے مجھے بتادیا نہیں بچُو معاملہ انتہائی گھمبیر ہے۔ بہت پریشان ہوا اپنے آپ کو کوسا، اپنی قسمت کو کوسا لیکن بالآخر حقیقت کو تسلیم کرلیا۔ رابعہ اب سپیشل اسکول کے سوئم کلاس میں پڑھ رہی ہے اور خوش ہے۔

لیکن اس واقعے کے بعد میرے خیالات ایک دم تبدیل ہوگئے پہلے اللہ تعالٰی کی طرف باغیانہ خیالات آنے لگے اور رابعہ کے علاج اور ٹریٹمنٹ کے لیے ہسپتالوں کے چکر لگاتے ہوئے ان خیالات میں شدت آنے لگی۔ پھر رابعہ کو سپیشل نرسری سکول میں داخل کراتے ہوئے اس کے فرشتہ سفت اساتذہ کرام اور اسکول کا انسانیت کے لیے بے لوث خدمات کا ذاتی مشائدہ کرتے ہوئے جو آج بھی جاری ہے میرے خیالات تبدیل سے تبدیل تر ہونے لگے۔

ایک دن ہسپتال راہ داری میں ایک رشتہ دار کے ساتھ بیٹھا تھا باتوں ہی باتوں میں بے اختیار میرے منہ سے سوال نکلا کیا یہ نرس جو ہمارے سامنے انسانیت کی خدمت کررہی ہیں دوزخ میں جائیں گے؟؟ اس نے حسب توقع کہا دیکھو جو بھی ہو کیونکہ انہوں نے کلمہ نہیں پڑھا ہے یہ دوزخ میں ہی جائیں گے۔۔۔۔۔ہاں مسلمان اپنے اپنے گناہوں کی سزا بگتا کر بالآخر جنت میں جائیں گے۔ میں اس کے جواب پر تلملا اٹھا اور چپ ہوگیا لیکن تصور ہی تصور میں میری آنکھوں کے سامنے میری رابعہ کےغیرمسلم اساتذہ کرام کی اشکال گھومنے لگیں جوماں باپ سے بھی زیادہ محبت، محنت اور لگن سے ان معذور افراد کو نہ صرف دنیاوی تعلیم دیتے بالکہ زندگی کا قرینہ سکھاتے ہیں جو بلاشبہ ان معذور افراد کےلیے زمیں پر خدا کا درجہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ اپنے آپ سے سوال کیا کیا یہ لوگ بھی دوزخ میں جائیں گے؟۔۔۔۔نہیں نہیں اللہ تعالٰی اگر ہے تو اتنی ناانصافی نہیں کرسکتا۔۔۔!!

کیا مدرٹریسا جیسے لوگ دوزخ میں جائیں گے؟ کیا تمام غیر مسلموں کے انسانیت کے لیے بے لوث خدمات اللہ تعالٰی کے ہاں کوئی وقعت نہیں رکھتیں؟؟ اس قسم کے بے شمار خیالات مجھے پریشان کرتے ہیں۔۔۔

اللہ کیا نازک سوال آپ نے اٹھا دیا ہے خورشید بھائی۔
میرے خیال میں ہر "سوچنے" والے دماغ میں ایسے سوالات اٹھتے ہوں گے اور آپ یقینا اکیلے نہیں ہیں۔ کیا یہ بات آپکے لیے کچھ تسلی کا باعث ہو سکتی ہے کہ "آپ اکیلے نہیں ہیں؟"

یہ سوال بہت دفعہ اٹھ کر سامنے آتا ہے کہ "انسانیت" افضل ہے یا "مذہب"۔
کیا مذہب کا انسانیت پر اجارہ ہے؟
کیا مذہب کے بغیر ایک شخص انسانیت کی خدمت نہیں کر سکتا؟

اور سچ بات ہے کہ یہاں آ کر عقل ماؤف ہونے لگتی ہے اور اُن لوگوں پر رشک آنے لگتا ہے جو بند آنکھوں کے ساتھ اپنے اسلاف کے دین پر چلنے کو ہی زندگی سمجھتے ہیں۔


اگر ہم کسی ایسے مقام سے ان امور پر نظر دوڑائیں جہاں سے دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے تمام امور کی اصل حقیقت ہماری نظر میں آجائے، تو شائد یہ عقدہ وا ہوجائے کہ اللہ اور اسکے رسول نے یہ کیوں کہا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اسکے رسول پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہیں۔ ہماری نظر اعمال پر بلکہ انکی ظاہری صورت پر رہتی ہے، ان اعمال کی اصل روح ہے انکا فی سبیل اللہ ہونا۔ اگر اللہ کیلئے نہیں ہیں تو اپنے اپنے جذبات، خیالات اور نظریات کی پیروی ہوئی۔ گویا اللہ کے مقابلے میں آپ نے اپنے نفس کو ترجیح دی۔۔ ۔ اور یہ ایک ایسا جرم ہے کہ جس میں کافر تو مبتلا ہوتے ہی ہیں بیشمار مسلمان بھی اسی میں گرفتار ہیں۔ اور اسی لئے ابدی عذاب صرف انکے لئے ہے جن کے اندر ایک ذرّہ بھی ایمان کا نہیں ہوگا۔ اب کسی کے ایمان کی کیا حقیقت ہے یہ تو اللہ ہی بہتر فیصلہ کرسکتا ہے۔۔ ۔ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ عادل ہے، ظالم نہین۔ اور مدر ٹریسا کی طرح کوئی ساری زندگی انسانیت کی خدمت کرتا رہے لیکن اگر اپنے خالق و مالک کو پیچاننے کیلئے ایک ذرّے جتنا بھی ایمان نہیں تو گویا ساری زندگی اندھیرے میں ہی بسر کردی اور تخلیق کی غرض و غایت یعنی خدا شناسی اور عرفانِ ذات کو کلیۃّ ہی نظرانداز کردیا تو پھر ہم سے بڑا ظالم بھی کوئی نہیں۔ ۔ ۔

غزنوی بھائی،
مدر ٹریسا کے متعلق تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر اپنی ذات اپنے جذبات، خیالات و نظریات کی پیروی میں یہ انسانیت کی خدمت کرتی تھیں۔
جب انسان کے گرد ایک حلقہ بنا ہوتا ہے تو ممکن ہی نہیں ہوتا کہ انسان اس حلقے سے آگے دیکھ سکے۔ طالبان کے حلقے میں رہنے والے خود کش حملوں سے آگے کی بات نہیں دیکھ سکتے، افریقہ میں رہنے والے ایسے بھی ہیں جنہوں نے کبھی اسلام کا نام بھی نہیں سنا ہو گا۔۔۔۔۔
بات گھوم پھر کر پھر وہیں آ کر رک جاتی ہے، اگر ہم مسلم گھروں میں آنکھ نہ کھولے ہوتے تو شاید ہی اسلام قبول کر پاتے۔
اگر مسلمانوں نے فتوحات نہ کی ہوتیں تو شاید ہی کفار مکہ اسلام قبول کرتے۔

ایک سوچنے والے دماغ کو یہ بات تو سمجھ آ جاتی ہے کہ کوئی طاقت ہے جو یہ کائنات چلا رہی ہے، مگر افریقہ کے جنگلات میں رہنے والے شخص سے یہ توقع کرنا کہ وہ رسول محمد عربی (ص) کو بھی پہچان پائے گا، یہ بہت ہی مشکل بات ہے۔ اللہ کی طرف تو فطرت رہنمائی کر دیتی ہے، مگر اسلام (رسول اللہ) کی طرف رہنمائی پانے کے لیے کئی سو کتب کا مطالعہ کرنا پڑے گا، ورنہ اسکے بغیر انسان نہ تاریخ سے واقف ہو سکتا ہے، نہ رسول اللہ ص سے آشنائی حاصل کر سکتا ہے، اور نہ اسلام والے اللہ کو اپنا رب تسلیم کر سکتا ہے۔۔۔۔ یعنی فطرت جس اللہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے وہ اسلام والا اللہ نہیں، بلکہ انسان اپنے رب کو مختلف شکلوں میں دیکھنے لگتا ہے)

بہت پیچیدہ سوالات ہیں کہ جہاں پر سوچ کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
محترم خورشید بھائی آپ کا مراسلہ پڑھا اور آپ کے درد سے اچھی طرح وقفیت ہوئی کیوں کہ ہمارے پاس تو اکثر ہی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات اس سے بھی درد ناک قسم کی صورت حال سامنے آتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک اسی قسم کا کیس سامنے آیا کہ ایک 9 سال کا بچھ چند دن سر درد کی ہسٹری کے ساتھ سی ٹی سکین برین کے لیے ہمارے پاس آیا، جب سکین کیا گیا تو اس کے برین میں ایک خطرناک قسم کےٹیومر کی موجودگی کا پتا چلا۔ وہ بچہ دو بہنوں کے بعد بہت ہی منتوں مرادوں سے مانگا جانے والا اپنے والدین کا اکلوتا لخت جگر تھا۔ 9 سال تک اس کو پھول کی طرح رکھنے والوں پر اس خبر سے کیا گزری ہو گی اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں لیکن وہ متوسط طبقے کے لوگ جب تک وہ زندہ ہے اس کے علاج پر اٹھنے والے لاکھوں روبے کا انتظام کس طرح کریں گے اس کا ندازہ شاید آپ بھی نہ کر سکیں۔ آپ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے اگر آپ کو ایک آزمائش میں ڈالا ہے تو اس لڑنے کا حوصلہ بھی دیا ہے، دولت بھی دی ہے کہ آپ احسن طریقے سے اپنی بچی کا علاج کروارہے ہیں۔ سو آپ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور ہر حال میں شکر گزار بن کر اس کی رضا پر راضی رہنے کی کوشش کریں۔ یقین جانے اس کی رضا پر راضی ہونا اور صبر کرنا بھی کسی کسی کے حصے میں آتا ہے۔
اب آتے ہیں آپ کے مراسلے کے اصل سوال کی طرف، دیکھیں جو لوگ اگر خالص توحید پر چلتے ہوئے اللہ کو ایک مانیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کی مخلوق کی خدمت کرتے رہیں تو بے شک اللہ بہت مہربان ہے اور اللہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا لیکن اس میں ایک نقطہ ہے کہ اگر ان تک اسلام کا پیغام نہ پونچا ہو اور وہ اس سے لا علم ہوں تو بلا شبہ ان افعال کی بدولت وہ جنت کے مستحق ہو سکتے ہیں لیکن اگر ان تک اللہ کا پیغام اور دین اسلام کی روشنی واضح انداز میں پہنچ چکی ہو اور وہ اسکی تکزیب کرتے ہوں اور انھوں نے اسے جٹھلا دیا ہو تو پھر بلا شبہ ان کے اعمال اکارت ہیں کیوں کہ اللہ کی آخری کتاب میں رب العالمیں کا ارشاد ہے کہ:‌ دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ اور اہل کتاب نے جو اس دین سے اختلاف کیا تو علم حاصل ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا۔ اور جو شخص اللہ کی آیتوں کو نہ مانے تو اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ سورۃ: 3 آیہ: 19 رکوع: 2
اب جو جان بوجھ کر اللہ کے دین کو ٹھکرا دے تو اس کے اعمال اللہ کے کس کام کے اور جنت دوذوخ تو اللہ کی ہی ہے نا۔۔۔۔! اسی سلسلے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا کسی اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلا دیں گے اور قیامت کے دن اسے جہنم میں داخل کریں گے۔ اور وہ بری جگہ ہے۔ سورۃ: 4 آیہ: 115 رکوع: 17
اور پھر مزید ارشاد ہے کہ: پھر کیا یہ کافر اللہ کے دین کے سوا کسی اور دین کے طالب ہیں حالانکہ سب اہل آسمان و زمین خوشی یا ناخوشی سے اللہ کے فرمانبردار ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ سورۃ: 3 آیہ: 83 رکوع: 9
اس سے آپ اللہ کے دین کی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں اور خدمت انسانیت کو ہی دین سمجھ کر اصل دین کو پس پردہ ڈالنے کو آسانے سے سمجھ سکتے ہیں۔
اسمیں‌آپکا کوئی قصور نہیں۔ ان علماء کا ہے جنہوں نے آپکے ننھے سے دل میں‌اسلامی پراپیگنڈا نصب کیا تھا۔ یہ لوگ ’’اللہ‘‘ کی جنت کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں۔ اور میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ بعض‌علما ء فدائی حملے کرنے والے" گریجویٹس" کو سند کے طور پر جنت کے سرٹیفکیٹس بھی عطا کر تے ہیں۔ جہاں اسلامی تعلیم کا یہ حال ہو وہاں آپکے جذبات کو ضرب پہنچنا ایک فطری عمل ہے۔ اور میں انکی قدر کرتاہوں۔
عارف کریم صاحب معذرت چاہتا ہوں اگر آپ کر برالگےتو، آپ ماشااللہ صاحب علم ہیں، آپ ایک مخصوص طبقے کی سوچ کو اسلام سے نتھی کر کے سارے اسلام کو اسے سے کیوں تعبیر کر رہے ہیں؟؟؟
جہاں تک اللہ کی جنت کا سوال ہے تو اللہ کی جنت بلا شبہ اس کے فرما نبردار بندوں کے لیے ہی ہے اور اس کے فرمانبردار بندے وہی ہیں جو اس کے دین پر پورے پورے چلتے ہیں اور اللہ کا پسندیدہ دین تو یقینا اسلام ہی ہے جہ کہ کامل ہے، اب یہ الگ بات ہے کہ کون اللہ کا فرمانبردار بندہ ہے اور دین میں کس قدر داخل ہوا ہے اور اپنے اعمال کے زریعے خود کو اس جنت کا کس قدر حق دار ثابت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔!
 

S. H. Naqvi

محفلین
طالبان کے حلقے میں رہنے والے خود کش حملوں سے آگے کی بات نہیں دیکھ سکتے،
نکتہ اعتراض، بات کیا ہو رہی ہے اور محترمہ اس میں خودکش حملوں کو لے آئی ہیں، ایڈمن پلیز نوٹ اٹ۔
اگر مسلمانوں نے فتوحات نہ کی ہوتیں تو شاید ہی کفار مکہ اسلام قبول کرتے۔
شدید احتجاج۔۔۔۔۔۔! اسلام نے دلوں کو فتح کیا ہے نہ کہ فتوحات کی وجہ سے اسلام پھیلا ہے۔
بس کو اپنے مرکز سے ہٹا کر دوسری طرف کرنے کی بھر پور کوشش، اب اگر میں بھی اصل بات کو چھوڑ کر ان کے اس جملےکا جو کے اسلام کی صریح توہین ہے، جواب دینا شروع کر دوں تو برائے مہربانی پھر مجھے مورد الزام نہ ٹھہرایے گا۔۔۔۔۔۔۔!
 
Top