الف نظامی
لائبریرین
صحابہ کرام کا دور دین کا بہترین دور تھا۔ اس دور میں کسی کو بھی اور کسی بھی امر پر کوئی اختلاف نہ تھا۔ جس طرح پروانے اپنی ہستی سے بے نیاز و بیخود ہو کر اپنی جانیں شمع پہ وار دینے کے لئے شمع کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں ، عین اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت میں مدہوش ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی اتباع میں محو و منہمک رہتے ۔ انہیں اختلافی مسائل کو کریدنے اور ان پہ بحث کرنے کے لئے کوئی بھی وقت نہ ملتا۔
ان میں سے کسی کو بھی یہ فرصت نصیب نہ ہوتی کہ وہ غیر ضروری باتوں میں اختلافات تلاش کریں ، اور نہ ہی انہیں ایسا کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی۔
دین ایک دوسرے کی محبت اور خیر خواہی کا نام ہے۔ محبت اور خیر خواہی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جسے کسی سے محبت ہوگی اس کا خیر خواہ ہوگا۔ بندہ اسی کا خیر خواہ ہوتا ہے جس سے کہ اسے محبت ہو۔
بحث محبت اور خیر خواہی کے بجائے نفاق اور بد خواہی پیدا کرتی ہے اور یہ دونوں دین کی ضد ہیں۔
جب سے دین میں بحث شروع ہوئی ہے ، صالح اعمال رخصت ہوئے۔ بندے کے ناقص خیال کے مطابق جب تک دین میں محبت اور خیرخواہی قائم رہتی ہے ، عمل بھی قائم رہتا ہے۔ صالح عمل کی توفیق ملتی ہے۔اپنا محاسبہ خود کریں اور خود ہی اس بیان کی تصدیق کریں۔
جب سے دین میں بحث نے قدم رکھا ہے ، صالح اعمال رخصت ہوئے۔ ہماری ساری طاقت اور سارا وقت بحث کی تقریبات میں گذر جاتا ہے۔ ذکر جو دین کی اصل ہے ، کہیں نہیں ہوتا ، کوئی نہیں کرتا۔ نہ جلی ہوتا ہے ۔۔۔ نہ خفی۔۔ ۔نہ انفرادی نہ اجتماعی۔۔۔ یہاں تک کہ نماز بھی اچھی طرح ادا نہیں کی جاتی۔
اس کے باوجود
اپنی ساری طاقت اور سارا وقت بحث ہی کی تیاریوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ نفاق بے لذتی کے سوا کوئی اور شے اپنے پہلو میں نہیں رکھتا۔ آپ ساری دنیا کے مذاہب کا مطالعہ فرمائیے۔۔ جہاں بحث ہوگی۔۔ بے عملی ہوگی ، آزادی ہوگی ، اور مذہب سے بے پرواہی ہوگی۔
یا حی یا قیوم
مذہب کی تبلیغ کرنے والے خود مذہب سے بیگانہ ہوتے ہیں۔ نہ کسی سے کسی کو محبت ہوتی ہے نہ خیر خواہی۔۔۔ یہ مذہب کیسا؟
اللہ رب العلمین کی بھیجی ہوئی کتاب کا اتنا گہرا مطالعہ نہیں کیا جاتا ۔۔۔ جتنا کہ بندوں بیچاروں کے بولے ہوئے کلمات پر تنقید و تبصرہ کیا جاتا ہے۔بحث کے میدان میں اپنے بھائی کو ہرانے کی خاطر سروں پر کتابوں کے بھار لئے پھرتے ہیں۔ اپنی پروا ہی نہیں رہتی کہ کیا کرتے ہیں۔ جن باتوں سے منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں ، خود اسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اے جان من!
اگر آپ کو اللہ کے دین اسلام کی عزت و ناموس کا پاس اور آدمیت کا احترام ہے تو کسی سے بھی ۔۔۔ اور کسی بھی امر پہ بحث و مباحثہ نہ کریں۔ دین کے فضائل ومسائل بیان کریں۔اپنا عقیدہ و مسلک بیان کریں ، کسی کے عقیدہ و مسلک کی ہرگز تردید نہ کریں ، کسی بات پہ نہ اصرار کریں نہ ضد ، کوئی دوسرا کرے تو صرف یہ کہیں ، ۔۔ کہ جو بات آتی تھی بتا دی ، اس سے زیادہ کی مجھے خبر نہیں۔۔ پھر بھی نہ مانے تو خاموشی اختیار کرلیں۔۔ ہار کروہ بھی ہار جائے گا۔
یہ فطرت کا کلی قاعدہ ہے
جو دین میں محبت اور خیر خواہی کو فروغ نہیں دیتا ،
اسے عمل کی توفیق نہیں دی جاتی ،
ابحاث میں الجھ کر عمل سے محروم رہ جاتا ہے۔
آپس میں محبت اور ایک دوسرے کی خیر خواہی دین اسلام کے دو بنیادی اصول ہیں ، ان کو فروغ دیں۔ جو چیز فطرت کو نا پسند ہے ، اللہ کو بھی نا پسند ہے۔۔ اور بے شک
ابحاث فطرت کو ناپسند ہیں۔
یاحی یا قیوم
و ما علینا الا البلاغ
یا اللہ یا رحمن یا رحیم یا حی یا قیوم
یا ذالجلال و الاکرام یا حنان یا منان
یا بدیع السموت و الارض
کرہ ارض پہ بسنے والے تمام مسلمان بھائی آپس میں متحد ہوں۔
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
آمین آمین آمین
"مکشوفات منازل احسان" از ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی
ان میں سے کسی کو بھی یہ فرصت نصیب نہ ہوتی کہ وہ غیر ضروری باتوں میں اختلافات تلاش کریں ، اور نہ ہی انہیں ایسا کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی۔
دین ایک دوسرے کی محبت اور خیر خواہی کا نام ہے۔ محبت اور خیر خواہی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جسے کسی سے محبت ہوگی اس کا خیر خواہ ہوگا۔ بندہ اسی کا خیر خواہ ہوتا ہے جس سے کہ اسے محبت ہو۔
بحث محبت اور خیر خواہی کے بجائے نفاق اور بد خواہی پیدا کرتی ہے اور یہ دونوں دین کی ضد ہیں۔
جب سے دین میں بحث شروع ہوئی ہے ، صالح اعمال رخصت ہوئے۔ بندے کے ناقص خیال کے مطابق جب تک دین میں محبت اور خیرخواہی قائم رہتی ہے ، عمل بھی قائم رہتا ہے۔ صالح عمل کی توفیق ملتی ہے۔اپنا محاسبہ خود کریں اور خود ہی اس بیان کی تصدیق کریں۔
جب سے دین میں بحث نے قدم رکھا ہے ، صالح اعمال رخصت ہوئے۔ ہماری ساری طاقت اور سارا وقت بحث کی تقریبات میں گذر جاتا ہے۔ ذکر جو دین کی اصل ہے ، کہیں نہیں ہوتا ، کوئی نہیں کرتا۔ نہ جلی ہوتا ہے ۔۔۔ نہ خفی۔۔ ۔نہ انفرادی نہ اجتماعی۔۔۔ یہاں تک کہ نماز بھی اچھی طرح ادا نہیں کی جاتی۔
اس کے باوجود
اپنی ساری طاقت اور سارا وقت بحث ہی کی تیاریوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ نفاق بے لذتی کے سوا کوئی اور شے اپنے پہلو میں نہیں رکھتا۔ آپ ساری دنیا کے مذاہب کا مطالعہ فرمائیے۔۔ جہاں بحث ہوگی۔۔ بے عملی ہوگی ، آزادی ہوگی ، اور مذہب سے بے پرواہی ہوگی۔
یا حی یا قیوم
مذہب کی تبلیغ کرنے والے خود مذہب سے بیگانہ ہوتے ہیں۔ نہ کسی سے کسی کو محبت ہوتی ہے نہ خیر خواہی۔۔۔ یہ مذہب کیسا؟
اللہ رب العلمین کی بھیجی ہوئی کتاب کا اتنا گہرا مطالعہ نہیں کیا جاتا ۔۔۔ جتنا کہ بندوں بیچاروں کے بولے ہوئے کلمات پر تنقید و تبصرہ کیا جاتا ہے۔بحث کے میدان میں اپنے بھائی کو ہرانے کی خاطر سروں پر کتابوں کے بھار لئے پھرتے ہیں۔ اپنی پروا ہی نہیں رہتی کہ کیا کرتے ہیں۔ جن باتوں سے منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں ، خود اسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اے جان من!
اگر آپ کو اللہ کے دین اسلام کی عزت و ناموس کا پاس اور آدمیت کا احترام ہے تو کسی سے بھی ۔۔۔ اور کسی بھی امر پہ بحث و مباحثہ نہ کریں۔ دین کے فضائل ومسائل بیان کریں۔اپنا عقیدہ و مسلک بیان کریں ، کسی کے عقیدہ و مسلک کی ہرگز تردید نہ کریں ، کسی بات پہ نہ اصرار کریں نہ ضد ، کوئی دوسرا کرے تو صرف یہ کہیں ، ۔۔ کہ جو بات آتی تھی بتا دی ، اس سے زیادہ کی مجھے خبر نہیں۔۔ پھر بھی نہ مانے تو خاموشی اختیار کرلیں۔۔ ہار کروہ بھی ہار جائے گا۔
یہ فطرت کا کلی قاعدہ ہے
جو دین میں محبت اور خیر خواہی کو فروغ نہیں دیتا ،
اسے عمل کی توفیق نہیں دی جاتی ،
ابحاث میں الجھ کر عمل سے محروم رہ جاتا ہے۔
آپس میں محبت اور ایک دوسرے کی خیر خواہی دین اسلام کے دو بنیادی اصول ہیں ، ان کو فروغ دیں۔ جو چیز فطرت کو نا پسند ہے ، اللہ کو بھی نا پسند ہے۔۔ اور بے شک
ابحاث فطرت کو ناپسند ہیں۔
یاحی یا قیوم
و ما علینا الا البلاغ
یا اللہ یا رحمن یا رحیم یا حی یا قیوم
یا ذالجلال و الاکرام یا حنان یا منان
یا بدیع السموت و الارض
کرہ ارض پہ بسنے والے تمام مسلمان بھائی آپس میں متحد ہوں۔
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
یا حی یا قیوم برحمتک استغیث
آمین آمین آمین
"مکشوفات منازل احسان" از ابوانیس محمد برکت علی لدھیانوی