آبی ٹوکول
محفلین
السلام علیکم باذوق بھائی بات بحث برائے بحث کی صورت اخٌتیار کرچکی ہے اور اسکی وجہ آپ کا اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا ہے ۔ ۔ دیکھیئے بات یہ ہے کہ آپ نے صحابہ کرام سے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نفی فرما کر اطاعت کا اثبات فرمایا تھا ۔ سو پہلے تو ہم اسے آپکے قلم کی لغزش سمجھے مگر اب آپ اس پر مصر ہیں جیسا کہ آپکی عبارت کو ہم نے خط کشید کے ساتھ سرخ رنگ سے نمایاں کیا ہے ۔ ۔ ۔۔وعلیکم السلام آبی ٹو کول بھائی۔
ممکن ہے کہ آپ کو یہ سنگین غلطی نظر آتی ہو ، لیکن بہرحال میری نظر میں یہ "سنگین" غلطی نہیں ہے جیسا کہ میرے متعلق خود آپ بھی یہ حسن ظن رکھتے ہیں کہ :
نبی کریم کے تئیں صحابہ کرام کے محبت کی نفی میں(باذوق) نے جان بوجھ کر نہیں کی اور نہ میرا کوئی ارادہ تھا۔
آپ ایک بار پھر میرا یہ جملہ غور سے پڑھیں :
یہاں صحابہ کے اعمال و افعال کا صرف سبب بیان کیا گیا ہے اور وہ سبب قرآن کا حکم "اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول" ہے ، محبت کے اثبات یا انکار کا ذکر یہاں موجود نہیں۔ اور اتنی بات تو آپ کو بھی معلوم ہونی چاہئے کہ عدم ذکر ، عدم وجود کا ثبوت نہیں ہوتا۔
میں اپنے والد کے ہر حکم کی تعمیل بجا لاؤں اور کچھ دیکھنے والے کہیں کہ باذوق کے اعمال و افعال ، اپنے والد کی فرمانبرداری کے تحت ہیں تو کیا آپ یہ سن کر کہہ سکتے ہیں کہ ایسا کہنے والے باذوق کی اس کے اپنے والد سے محبت کی نفی کر رہے ہیں؟؟
آپ فرماتے ہیں کہ آپ کا منشاء فقط یہاں صحابہ کرام کے اعمال و افعال کا سبب بیان کرنا تھا نہ کہ محبت کا اثبات یا انکار آپکا مدعا تھا تو میرے بھائی پھر محبت کی نفی ہی کیوں فرمائی ؟؟؟؟؟؟؟ جیسا کہ آپ کا فرمان ہے درج زیل ہے ۔
اوپر آپکی عبارت میں خط کشیدہ الفاظ صاف طور پر واضح ہیں کہ آپ نے صحابہ کرام کی اطاعت کا سبب بیان کرتے ہوئے پہلے صحابہ کرام سے نفس محبت کی نفی بیان کی ہے اور پھر بلکہ کا لفظ لا کر فقط قرآنی حکم اطیعواللہ کو صحابہ کرام کی اطاعت کا سبب مانا ہے ۔ کیا وجہ ہے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اطاعت کا ایک سبب ہے لیکن آپ نے اس کا باقاعدہ ذکر فرماتے ہوئے صحابہ کرام سے اس کی باقاعدہ نفی فرمائی اور نہ صرف نفی فرمائی بلکہ اطاعت رسول کا حصر فقط قرآنی حکم اطیعواللہ میں فرمایا ۔ اور جب آپکی اس عبارت پر ہم نے حسن ظن رکھتے ہوئے گرفت کی تو آپ بجائے اسے اپنی غلطی ماننے کے پہلے تو اپنی عبارت پر ہی اڑئے رہے اور دوسری طرف آپ نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے " عدم ذکر عدم وجود کو مستلزم نہیں " کے مشھور اصول کو اپنی ڈھال کے بطور استعمال کرنا چاہا مگر مجھے افسوس ہے کا آپ بیان کردہ یہ اصول اپنی جگہ درست مگر آپکی عبارت پر اس کا اطلاق ہرگز نہیں ہوسکتا کہ آپکی عبارت میں محبت کا زکر بھی موجود ہے اور اس محبت کی صحابہ کرام سے نفی بھی موجود ہے اور پھر مزید وضاحت کے بطور لفظ بلکہ کا استعمال کرنے کے بعد صحابہ کی اطاعت رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کو فقط قرآنی حکم کے ساتھ مختص کرنا بھی موجود ہے آپ بھاگ کر کہاں جائیں گے؟؟ آپکی طرف سے عدم زکر کو عدم وجود نہ ہونے کا مقولہ پیش کرنا اس وقت درست ہوتا کہ جب آپکی عبارت درج زیل طریقے پر ہوتی ۔ ۔صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے اعمال و افعال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "نیک سیرت اور والہانہ محبت" کی بنا پر نہیں بلکہ قرآن کے حکم اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے تقاضے کے تحت تھے۔
اگر آپکی عبارت درج بالا طریق پر ہوتی اور ہم آپ پر صحابہ کرام کی محبت کی نفی کا الزام لگاتے تو تب آپ یہ مقولہ پیش کر سکتے تھے کہ آپ نے تو محبت کا زکر ہی نہیں کیا لہذا یہ ضروری نہیں کہ عدم ذکر عدم وجود کو بھی مستلزم ہو ۔ ۔ مگر ہائے افسوس کے آپ نے بھی وہی روش اپنائی جو کے بہت سے بڑے ناموں نے اپنائی کہ جب ان کو انکی عبارات کی سنگینی پر مطلع کیا گیا تو انھوں نے اپنے علم کے زعم میں آکر یہ نہ دیکھا کہ ان کی عبارات کا ظاہر کس کے خلاف جارہا بلکہ اپنی علمیت کو دیکھا اور پھر اندھی تاویلات کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے گئے اور ایسے گرئے کہ آپ ہی اپنی تاویلات کے دام میں آگئے جس طرح کہ آپ یہاں آچکے ہیں ۔ ۔صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے اعمال و افعال قرآن کے حکم اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے تقاضے کے تحت تھے۔
آپ نے پہلے تو اپنی عبارت کی صحت پر اصرار فرمایا اور بعد میں اس کی تاویل بھی فرمائی کہ جس کی حقیقت ہم نے سب کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے اور جو سب کے سامنے ہے ۔ ۔ ۔ ہائے افسوس کے آپ یہ بھی بھول گئے آپ نے یہ اتنا لمبا چوڑا مراسلہ فقط لکھا ہی عارف کریم صاحب کی اس بات کے رد میں تھا کہ جو انھوں نے درج زیل الفاظ میں لگائی تھی ۔ ۔
تو باذوق بھائی آپ تو آئے ہی اس تھریڈ میں عارف کریم بھائی کی اس بات کا رد کرنے تھے کہ جو انھوں نے صحابہ کرام کی والہانہ محبت کے عنوان سے کہی تھی ۔ ۔ ۔اصل پيغام ارسال کردہ از: Arifkarim
صحابہ رسول صللہعلیہسلم بھی عام انسانوں ہی میں سے تھے۔ کوئی روبوٹ یا فرشتے نہیں تھے کہ جو کمانڈ دے دی۔ بغیر کسی سوچ و بچار کے اسپر عمل کر دیا۔ ہاں آپؐ کی نیک سیرت اور والہانہ محبت کی بنا پر جان نچھاور کرنے والے تھے۔
لہزا ثابت ہوا کے آپکی تمام تاویلات باطل ہیں ۔ ۔ آپ نے سبب کا کہا تو محبت بھی اطاعت کا سب سے بنیادی سبب ہے تو آپ کو چاہیے تھا کا سبب بیان کرتے ہوئے محبت کا بھی اثبات فرماتے اور اپنی عبارت یوں لکھتے کہ ۔ ۔
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے اعمال و افعال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "نیک سیرت اور والہانہ محبت" کے ساتھ ساتھ قرآن کے حکم اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے تقاضے کے تحت تھے۔
تو تب ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہ ہوتی ۔ ۔ ۔آپ نے فرمایا کہ ۔ ۔
تو بھائی عرض یہ ہے کہ آپ اپنے والد محترم کی اطاعت بجا لائیں اور کوئی دیکھنے والا آپ سے یہ کہے کہ آپ اپنے والد کی اطاعت اپنے والد کی محبت میں نہیں بلکہ قرآنی حکم کے مطابق بجا لارہے ہیں تو تب آپ کو کیسا محسوس ہوگا ذرا تفصیل سے بتائیے گا ۔ ۔ ۔میں اپنے والد کے ہر حکم کی تعمیل بجا لاؤں اور کچھ دیکھنے والے کہیں کہ باذوق کے اعمال و افعال ، اپنے والد کی فرمانبرداری کے تحت ہیں تو کیا آپ یہ سن کر کہہ سکتے ہیں کہ ایسا کہنے والے باذوق کی اس کے اپنے والد سے محبت کی نفی کر رہے ہیں؟؟
یہ عجیب بات نہیں ہے میرے بھائی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عقیدہ اعمال سے نہیں بلکہ ایمان سے بحث کرتا ہے اور نفس ایمان کی حقیقت میں اعمال شامل نہیں ہیں اور محبت جو کہ وھبی امر ہے اس مطلق محبت کا محبت رسول کی صورت میں ظہور ہونا ایمان کا حصہ ہےبڑی عجیب بات ہے کہ پہلے تو آپ نے لکھا تھا کہ :
مگر جب کوئی قادیانی آپ کی "منطق" کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسی "محبت" کی اولین ترجیح کی بات کرتا ہے تو آپ اسے "عقیدہ" کی جانب کھینچ لے جاتے ہیں؟؟
یہاں در اصل آپ کو مغالطہ لگا ہے اور یہ فلسفیانہ بحث ہے کیونکہ عقیدہ ایمان کا نام اور ایمان عقیدے کا اور عقیدے میں محبت رسول کا شامل ہونا ہمارے نزدیک ایمان کا حصہ ہے اور عقیدہ اعمال سے تقویت ضرور پاتا ہے جنم اعمال سے نہیں لیتا بلکہ پہلے عقیدہ ہوتا ہے بعد میں اعمال آتے ہیں جیسے کوئی غیر مسلم مسلمان ہونا چاہے تو اسے پہلے نماز جو کہ ایک احسن عمل ہے اسکا نہیں کہا جائے گا بلکہ پہلے اس کا عقیدہ تو حید و رسالت درست کروایا جائے گا اور شہادتین کے بعد اس پر نماز فرض ہوگی ۔ ۔ ۔ امیر کرتا سمجھ گئے ہونگے ۔ ۔ ۔آپ خود ذرا اپنے الفاظ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔
تمہارا تو عقیدہ ہی صحیح نہیں سو تم پہلے اپنا عقیدہ ٹھیک کرو پھر محبت کی بات کرنا
یعنی یہاں "عقیدہ" کو آپ نے اولین ترجیح دی اور "محبت" کو ثانی کر دیا۔ یعنی کہ خود ہی اپنے پہلے موقف کی تردید کر ڈالی۔
اب ظاہر ہے "عقیدہ" بنتا ہے اتباع اور اطاعتِ نبوی سے۔ اور یہی سبب ہے کہ میں نے اعمال و افعال میں ترجیح "محبت" کو نہیں بلکہ اطاعتِ نبوی یعنی بقول آپ کے "عقیدہ" کو دی تھی۔
میرے عزیز بھائی ! جوش میں نہ آئیں ، کچھ ہوش سے بھی کام لیں۔
یہ میں ذاتی طور پر نہیں کہہ رہا کہ : جو نفس اطاعت سے محروم ہو یا کمزور ہو وہ مومن ہی نہیں!
بلکہ یہ تو فرمانِ نبوی ہے ، جس کا حوالہ میں تفسیرِ ابن کثیر (النساء:82) کے حوالے سے دے چکا ہوں۔
میرے بھائی ہم ہوش میں ہی ہیں اور آپکا پیش کردہ فرمان رسول ہرگز ہمارے خلاف نہیں ہے بلکہ اگر غور کیا جائے تو اس میں بھی ہماری ہی بات کی دلیل ہے ۔ ۔ ۔
جبکہ میں کہوں گا کہ مطلق محبت نہیں بلکہ ایمان کا حصہ "محبت کا کامل درجہ" ہے۔ کیونکہ اگر مطلق محبت ایمان کا حصہ ہوتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کبھی اللہ تعالیٰ سے درخواست نہ کرتے کہ : اے اللہ ، (امہات المومنین کے درمیان) عدل و انصاف پر ضرور میرا مواخذہ کر ، لیکن محبت پر میری گرفت نہ کرنا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں۔
میرے بھائی یہاں بھی آپ کو شدید مغالطہ لگا بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے ساتھ محبت کی نہیں بلکہ امت کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مطلق محبت کی ہورہی ہے اور یہ محبت بلاشبہ ایمان کا حصہ ہے
حالانکہ "اطاعت" ہوتی ہے اعمال و افعال کے ذریعے اور "محبت" کو خود آپ نے "وھبی" قبول کیا ہے۔
پھر ان دونوں میں "تقدم" دینے کی ضرورت ہی کیوں درپیش ہے؟ جب کوئی چیز ہمارے اختیار میں نہیں اور کوئی چیز اپنے اختیار میں ہو تو دونوں میں سے کسی کو کسی پر ترجیح کی ضرورت کیوں کر درپیش ہوگی؟
تقدم کی ضرورت مطلقا محبت اور اطاعت کے باب میں ایک دوسرے کی حیثیت کو متعین کرنے کی وجہ سے پیش آتی ہے اور اسے فلسفیانہ بحث کہا جاتا ہے باقی یاہں ہم کو کیون ضرورت پیش آئی تو اس کی وجہ آپکی عبارت بنی کہ ایک چیز جو صحابہ کرام میں پہلے سے موجود تھی آپ نے اس کا انکار کیوں کر کیا؟؟؟؟؟؟؟
اصل پيغام ارسال کردہ از: آبی ٹوکول
جس نفس میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں اس میں ایمان بھی نہیں
اب آپ جب اس امر پر دلیل مانگ رہے ہیں تو پھر میں سوائے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کے اور کچھ نہیں کہہ سکتابڑے بھائی ! اس کی کوئی دلیل ؟؟
جبکہ سب کو پتا ہے کہ ایمان اختیاری چیز ہے اور آپ نے ہم کو بتایا ہے کہ محبت "وھبی" ہوتی ہے یعنی کہ جس میں ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔