گذشتہ سے پیوستہ
ہماری امت میں تشدد کے اس رجحان کا ایک بڑا سبب مذہبی حلقوں کے اختلافات ہیں ۔ اسلام کو پھیلنا ہے ۔ ساری دنیا میں جانا ہے ۔ اس میں مختلف نقطہِ نظر پیدا ہونے ہیں ۔اگر آپ یہ چاہیں کہ ایک ہی طریقے پر لوگ سوچیں تو یہ ممکن نہیں ہے ۔ لوگوں کی سوچ و فکر میں بھی اختلافات ہونگے ۔ چونکہ پچھلے 13 ، 14 سو سال کی ایک تاریخ بن چکی ہے ۔ تو انسان کا مسئلہ کیا ہے کہ وہ تاریخ کے واقعات سے بھی اپنی وابستگی پیدا کرلیتا ہے ۔ ان میں کچھ شخصیات ہوتیں ہیں ۔ ان سے محبتیں وابستہ ہوتیں ہیں ۔ یہ سب انسانی نفسیات کے مسئلے ہیں ۔ ان کو آپ ایک حقیقت کے طور پر مان لیں ۔ اور یہ اصول تسلیم کر لیں کہ لوگوں کو اتفاق کرنا ہے ۔ اور ہمیں اختلافات کے باوجود بہت خود اسلوبی سے جینا ہے ۔ محبت سے بات کرنی ہے ۔ خیر خواہی کے جذبے کیساتھ ایک دوسرے سے مکالمہ کرنا ہے ۔ ایک شخص کی رائے آپ کے نزدیک غلط ہے تو تنقید کریں گے ۔ اس کی غلطی واضع کریں گے ۔ لیکن خوشگوار طریقے سے واضع کریں گے ۔آپ دیکھیں کہ سیاسی معاملات میں اختلافات ہوتے ہیں ۔ جب یہ اختلافات ہوتے ہیں تو ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔ دوسرے علم و فنون میں بھی اختلافات ہوتے ہیں ۔ سائنسی جرائد اور مقالوں کا آپ مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں اہلِ علم کے درمیان مناظرے ہورہے ہوتے ہیں ۔ بےشمار چیزوں کے بارے میں اختلافِ رائے ہونگیں ۔ دوسرا پہلے کی غلطی بتائے گا ۔ پہلا دوسرے کی غلطی بتائے گا ۔ یہ علم کی دنیا میں عمومی مکالمے کا انداز ہوتا ہے ۔ یہی انداز اگر مذہب میں بھی رہے تو اس سے تشدد نہیں پیدا ہوتا ۔ لیکن جس وقت آپ نے دوسرے کو کافر قرار دینا ہے ۔ اس کے بارے میں آپ نے کوئی فتویٰ دینے کی کوشش کرنی ہے ۔ اس کو ملت سے کاٹنے کا طریقہ اختیار کرنا ہے ۔ اگر کسی نے کوئی بات کہی ہے اور اگر اس کی کوئی اچھی توجہہ ہوسکتی ہے ۔ تو اچھی توجہہ کرنے کے بجائے اس کی انتہائی بری توجہہ کو ترجیح دینی ہے ۔ لوگوں کو یہ بارو کرانا ہے کہ یہ شخص تمہاری ملت کا شخص نہیں ہے ۔ یعنی دین تو یہ جذبہ پیدا کرتا تھا کہ ہم لوگوں کو اپنے دین میں لانے کی کوشش کریں ۔ ہمارا دامن وسیع ہو ۔ اور ہم بہت بڑے بڑے اختلافات کو سمیٹ کر ملت کے دائرے میں لاکر اس حل کرنے کی کوشش کریں ۔ لیکن اس کے برعکس یہ رویہ پیدا ہوجائے تو ظاہر ہے آپ پھر اپنے پیروکاروں کو کچھ پیغامات دیتے ہیں ۔ اگر آپ دو ، تین دہائیوں پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں کچھ ایسی تحریکیں اٹھیں جو مکمل طور پر تفریق کی تحریکیں تھیں ۔ بعض تحریکوں نے اپنا نام بھی یہی رکھ لیا ۔ کہ انہوں نے مسلمانوں کے بعض گروہوں کے بارے میں یہ فیصلہ سنانا ہے کہ وہ مسلمان ہیں یا مسلمان نہیں ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں تشدد ، دہشت گردی اور دیگر اس قسم کے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں جس کا مظہر ہم سیاسی و مذہبی دونوں سطح پر دیکھ سکتے ہیں ۔ اس کی بنیادوں میں ان محرکات کی ایک وجہ انہی مذہبی طبقات سے شروع ہوئی ہے ۔ کیونکہ ہم نے کبھی بھی مذہب میں صلاح و مشورہ اور مکالمہ نہیں پیدا ہونے دیا ۔ نہ پہلے تھا اور نہ آج ہے ۔ بلکہ آپ خوف محسوس کرتے ہیں ۔ کئ ایسے دانشور اور عالم ہیں ۔ جن کی اپنی آراء ہیں ۔ ایک نقطہِ نظر ہے ۔ وہ معاشرے کے سامنے مگر اس کا اظہار نہیں کرتے ۔ اس طرح کی صورتحال سے دو طرح کے کردار پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یا تو یہ منافقت پیدا کردے گی ۔ یعنی ایک آدمی لکھ کچھ اور رہا ہوگا ۔ کہہ کچھ رہا ہوگا ۔ اور بات کو کچھ اور بنا کر آپ کے سامنے پیش کردیگا ۔ لیکن جو کچھ حقیقت میں ہے ۔ اس کا اظہار نہیں کرے گا ۔ کیونکہ آدمی یہ رسک لینے کے لیئے تیار نہیں ہوتا کہ کہیں اسے معاشرتی طور پر کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑجائے ۔ ایسے بہت سے عالم اور دانشور ہیں جو دین کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں ۔ مگر مصلحت سے کام لیتے ہیں ۔اور یہ مصحلت پوشی کسی قوم کے لیئے اچھی چیز نہیں ہوتی ۔ مگر معاشرے میں تشدد اور دہشت گردی کی جو فضا قائم کردی گئی ہے ۔ اس میں لوگ یہ رویہ اپنانے میں مجبور ہیں ۔ وہ کھل کر اپنی بات نہیں کرسکتے ۔ اور اس طرح علم و تحقیق اور سیکھنے سکھانے کا راستہ بند ہوگیا ۔ چنانچہ اس طرح کی منافقت پیدا ہوجاتی ہے ۔ یا پھر یہ ہوتا ہے کہ کوئی ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ اور جب کوئی ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ تو وہ گروہوں کو آپس میں متحرک کردیتا ہے ۔ جب گروہ بڑے ہوکر پھل پھول جاتے ہیں ۔ تو اس میں سارے محقیق نہیں ہوتے ، سارے دانشور نہیں ہوتے ، سارے علماء نہیں ہوتے ۔ ان کے اندر عام لوگ بھی ہوتے ہیں ۔ عام لوگوں کے بارے میں معاملہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ ان کو دین کے بارے میں جذباتی کر دیتے ہیں ۔ اور یہ باور کرواتے ہیں کہ دیکھو ! ۔۔ یہ دین کا مسئلہ ہے ۔ اور دین اس معاملے میں تم سے حمیت کا تقاضا کرتا ہے ۔ تو ایک جذبہ انسان کے اندر پیدا ہوجاتا ہے ۔ اور اتنا ہی کافی کہ آپ نے یہ جذبہ ایک عام آدمی میں پیدا کردیا ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی انتہائی سطح پر نہ جانا چاہتے ہوں ۔ لیکن اگر آپ نے یہ چیز پیدا کردی ہے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جو نفرت کے جذبات اس کے اندر آپ نے پیدا کیئے ہیں ۔ وہ کسی اقدام میں تبدیل ہوجائیں ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ اسی بنیاد پر لوگوں نے صرف فرقہ بندیوں پر ایک دوسرے کو مارا ہے ۔ اور آپ دیکھیں کہ اس دوران ہم نے اپنی ملت کے بہترین لوگ کھوئے ۔ یہ بات میں بلاتخصیص کہہ رہا ہوں کہ خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو ۔ اگر وہ عالم ہے ۔ کوئی محقیق ہے ۔ دین کی بات کررہا ہے ۔ تو وہ ہمارا سرمایہ ہے ۔ ہمیں اس کی عزت کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے افراد ہیں ۔ ان کے مابیبن اگر کسی چیز کو دیکھنے اور سمجھنے پر اختلاف ہے ۔ تو بجائے ایسی فضا پیدا ہو کہ ہم مکالمہ کرسکیں ۔ مگر جب ہم اس کو حق و باطل کا مسئلہ بنا کر ایک دوسرے کی جان لینے کے لیئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ لوگوں کی اپنی بزرگوں کیساتھ ، اپنے اقابر کیساتھ محبت ہوتی ہے ۔ لہذا ان کو نقصان پہنچنے کی صور ت میں انتقام در انتقام کی فضا پیدا ہوگی ۔ اور یہ صورتحال پہلے زمانوں میں ، قبیلوں کے درمیان پیدا ہوتی تھی ( جیسا کہ ہم پڑھتے تھے ) ۔ وہ اب ہمارے ہاں پیدا ہوگئی ۔
ایک انتہا پسندانہ نظریات ہوتے ہیں ۔ یہ دنیا میں ہر جگہ پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یعنی آپ کسی قوم کو اس سے خالی نہیں دیکھ سکتے ۔ عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی بہت سے ایسے گروہوں مل جائیں کہ جو ایسے رحجان رکھتے ہیں ۔ مگر وہاں مکالمے اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرلیا جاتا ہے ۔ مگر جب ہمارے ہاں معمول کی مذہبی حالات میں بھی یہ فضا نہیں ہے تو آپ اس طرح کے انتہا پسند گروہوں کے درمیان مکالمہ اور بات چیت کی فضا کیسے قائم کر سکتے ہیں ۔
ہماری امت میں تشدد کے اس رجحان کا ایک بڑا سبب مذہبی حلقوں کے اختلافات ہیں ۔ اسلام کو پھیلنا ہے ۔ ساری دنیا میں جانا ہے ۔ اس میں مختلف نقطہِ نظر پیدا ہونے ہیں ۔اگر آپ یہ چاہیں کہ ایک ہی طریقے پر لوگ سوچیں تو یہ ممکن نہیں ہے ۔ لوگوں کی سوچ و فکر میں بھی اختلافات ہونگے ۔ چونکہ پچھلے 13 ، 14 سو سال کی ایک تاریخ بن چکی ہے ۔ تو انسان کا مسئلہ کیا ہے کہ وہ تاریخ کے واقعات سے بھی اپنی وابستگی پیدا کرلیتا ہے ۔ ان میں کچھ شخصیات ہوتیں ہیں ۔ ان سے محبتیں وابستہ ہوتیں ہیں ۔ یہ سب انسانی نفسیات کے مسئلے ہیں ۔ ان کو آپ ایک حقیقت کے طور پر مان لیں ۔ اور یہ اصول تسلیم کر لیں کہ لوگوں کو اتفاق کرنا ہے ۔ اور ہمیں اختلافات کے باوجود بہت خود اسلوبی سے جینا ہے ۔ محبت سے بات کرنی ہے ۔ خیر خواہی کے جذبے کیساتھ ایک دوسرے سے مکالمہ کرنا ہے ۔ ایک شخص کی رائے آپ کے نزدیک غلط ہے تو تنقید کریں گے ۔ اس کی غلطی واضع کریں گے ۔ لیکن خوشگوار طریقے سے واضع کریں گے ۔آپ دیکھیں کہ سیاسی معاملات میں اختلافات ہوتے ہیں ۔ جب یہ اختلافات ہوتے ہیں تو ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔ دوسرے علم و فنون میں بھی اختلافات ہوتے ہیں ۔ سائنسی جرائد اور مقالوں کا آپ مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں اہلِ علم کے درمیان مناظرے ہورہے ہوتے ہیں ۔ بےشمار چیزوں کے بارے میں اختلافِ رائے ہونگیں ۔ دوسرا پہلے کی غلطی بتائے گا ۔ پہلا دوسرے کی غلطی بتائے گا ۔ یہ علم کی دنیا میں عمومی مکالمے کا انداز ہوتا ہے ۔ یہی انداز اگر مذہب میں بھی رہے تو اس سے تشدد نہیں پیدا ہوتا ۔ لیکن جس وقت آپ نے دوسرے کو کافر قرار دینا ہے ۔ اس کے بارے میں آپ نے کوئی فتویٰ دینے کی کوشش کرنی ہے ۔ اس کو ملت سے کاٹنے کا طریقہ اختیار کرنا ہے ۔ اگر کسی نے کوئی بات کہی ہے اور اگر اس کی کوئی اچھی توجہہ ہوسکتی ہے ۔ تو اچھی توجہہ کرنے کے بجائے اس کی انتہائی بری توجہہ کو ترجیح دینی ہے ۔ لوگوں کو یہ بارو کرانا ہے کہ یہ شخص تمہاری ملت کا شخص نہیں ہے ۔ یعنی دین تو یہ جذبہ پیدا کرتا تھا کہ ہم لوگوں کو اپنے دین میں لانے کی کوشش کریں ۔ ہمارا دامن وسیع ہو ۔ اور ہم بہت بڑے بڑے اختلافات کو سمیٹ کر ملت کے دائرے میں لاکر اس حل کرنے کی کوشش کریں ۔ لیکن اس کے برعکس یہ رویہ پیدا ہوجائے تو ظاہر ہے آپ پھر اپنے پیروکاروں کو کچھ پیغامات دیتے ہیں ۔ اگر آپ دو ، تین دہائیوں پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں کچھ ایسی تحریکیں اٹھیں جو مکمل طور پر تفریق کی تحریکیں تھیں ۔ بعض تحریکوں نے اپنا نام بھی یہی رکھ لیا ۔ کہ انہوں نے مسلمانوں کے بعض گروہوں کے بارے میں یہ فیصلہ سنانا ہے کہ وہ مسلمان ہیں یا مسلمان نہیں ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں تشدد ، دہشت گردی اور دیگر اس قسم کے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں جس کا مظہر ہم سیاسی و مذہبی دونوں سطح پر دیکھ سکتے ہیں ۔ اس کی بنیادوں میں ان محرکات کی ایک وجہ انہی مذہبی طبقات سے شروع ہوئی ہے ۔ کیونکہ ہم نے کبھی بھی مذہب میں صلاح و مشورہ اور مکالمہ نہیں پیدا ہونے دیا ۔ نہ پہلے تھا اور نہ آج ہے ۔ بلکہ آپ خوف محسوس کرتے ہیں ۔ کئ ایسے دانشور اور عالم ہیں ۔ جن کی اپنی آراء ہیں ۔ ایک نقطہِ نظر ہے ۔ وہ معاشرے کے سامنے مگر اس کا اظہار نہیں کرتے ۔ اس طرح کی صورتحال سے دو طرح کے کردار پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یا تو یہ منافقت پیدا کردے گی ۔ یعنی ایک آدمی لکھ کچھ اور رہا ہوگا ۔ کہہ کچھ رہا ہوگا ۔ اور بات کو کچھ اور بنا کر آپ کے سامنے پیش کردیگا ۔ لیکن جو کچھ حقیقت میں ہے ۔ اس کا اظہار نہیں کرے گا ۔ کیونکہ آدمی یہ رسک لینے کے لیئے تیار نہیں ہوتا کہ کہیں اسے معاشرتی طور پر کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑجائے ۔ ایسے بہت سے عالم اور دانشور ہیں جو دین کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں ۔ مگر مصلحت سے کام لیتے ہیں ۔اور یہ مصحلت پوشی کسی قوم کے لیئے اچھی چیز نہیں ہوتی ۔ مگر معاشرے میں تشدد اور دہشت گردی کی جو فضا قائم کردی گئی ہے ۔ اس میں لوگ یہ رویہ اپنانے میں مجبور ہیں ۔ وہ کھل کر اپنی بات نہیں کرسکتے ۔ اور اس طرح علم و تحقیق اور سیکھنے سکھانے کا راستہ بند ہوگیا ۔ چنانچہ اس طرح کی منافقت پیدا ہوجاتی ہے ۔ یا پھر یہ ہوتا ہے کہ کوئی ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ اور جب کوئی ردعمل پیدا ہوتا ہے ۔ تو وہ گروہوں کو آپس میں متحرک کردیتا ہے ۔ جب گروہ بڑے ہوکر پھل پھول جاتے ہیں ۔ تو اس میں سارے محقیق نہیں ہوتے ، سارے دانشور نہیں ہوتے ، سارے علماء نہیں ہوتے ۔ ان کے اندر عام لوگ بھی ہوتے ہیں ۔ عام لوگوں کے بارے میں معاملہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ ان کو دین کے بارے میں جذباتی کر دیتے ہیں ۔ اور یہ باور کرواتے ہیں کہ دیکھو ! ۔۔ یہ دین کا مسئلہ ہے ۔ اور دین اس معاملے میں تم سے حمیت کا تقاضا کرتا ہے ۔ تو ایک جذبہ انسان کے اندر پیدا ہوجاتا ہے ۔ اور اتنا ہی کافی کہ آپ نے یہ جذبہ ایک عام آدمی میں پیدا کردیا ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی انتہائی سطح پر نہ جانا چاہتے ہوں ۔ لیکن اگر آپ نے یہ چیز پیدا کردی ہے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ جو نفرت کے جذبات اس کے اندر آپ نے پیدا کیئے ہیں ۔ وہ کسی اقدام میں تبدیل ہوجائیں ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ اسی بنیاد پر لوگوں نے صرف فرقہ بندیوں پر ایک دوسرے کو مارا ہے ۔ اور آپ دیکھیں کہ اس دوران ہم نے اپنی ملت کے بہترین لوگ کھوئے ۔ یہ بات میں بلاتخصیص کہہ رہا ہوں کہ خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو ۔ اگر وہ عالم ہے ۔ کوئی محقیق ہے ۔ دین کی بات کررہا ہے ۔ تو وہ ہمارا سرمایہ ہے ۔ ہمیں اس کی عزت کرنی چاہیئے ۔ کیونکہ وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے افراد ہیں ۔ ان کے مابیبن اگر کسی چیز کو دیکھنے اور سمجھنے پر اختلاف ہے ۔ تو بجائے ایسی فضا پیدا ہو کہ ہم مکالمہ کرسکیں ۔ مگر جب ہم اس کو حق و باطل کا مسئلہ بنا کر ایک دوسرے کی جان لینے کے لیئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ لوگوں کی اپنی بزرگوں کیساتھ ، اپنے اقابر کیساتھ محبت ہوتی ہے ۔ لہذا ان کو نقصان پہنچنے کی صور ت میں انتقام در انتقام کی فضا پیدا ہوگی ۔ اور یہ صورتحال پہلے زمانوں میں ، قبیلوں کے درمیان پیدا ہوتی تھی ( جیسا کہ ہم پڑھتے تھے ) ۔ وہ اب ہمارے ہاں پیدا ہوگئی ۔
ایک انتہا پسندانہ نظریات ہوتے ہیں ۔ یہ دنیا میں ہر جگہ پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یعنی آپ کسی قوم کو اس سے خالی نہیں دیکھ سکتے ۔ عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی بہت سے ایسے گروہوں مل جائیں کہ جو ایسے رحجان رکھتے ہیں ۔ مگر وہاں مکالمے اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرلیا جاتا ہے ۔ مگر جب ہمارے ہاں معمول کی مذہبی حالات میں بھی یہ فضا نہیں ہے تو آپ اس طرح کے انتہا پسند گروہوں کے درمیان مکالمہ اور بات چیت کی فضا کیسے قائم کر سکتے ہیں ۔