دین میں غلو کرنے سے بچنا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے لوگو! بچو تم دین میں غلو کرنے سے کیونکہ تم سے پہلے لوگ (قومیں) دین میں اسی غلو کیوجہ سے تباہ وبرباد ہوئے ۔ -- سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 1189 حدیث مرفوع۔ مزید دیکھئے؛ سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 969 حدیث مرفوع اور اور یہی کتاب حدیث 971 اور مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 14 حدیث مرفوع اور یہی کتاب حدیث 1138
دین میں غلو کرنے سے بچو۔ ۔ ۔ ۔
قُلْ يٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِکُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا کَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ (المائدۃ:۷۷)
کہو کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین (کی بات) میں ناحق مبالغہ نہ کرو، اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) پہلے گمراہ ہوئے اوردیگر لوگوں کو گمراہ کر گئے اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے ۔
غلو کی صراحت کے ساتھ ممانعت تو انہی دو آیات کریمہ میں ہے لیکن اس مفہوم کی قرآن مجید میں آیات کریمہ بہت کثرت کے ساتھ ہیں جن میں دین میں غلو سے منع کردیا گیا ہے۔ مثلاً : ملاحظہ فرمائیں ، سورۃ المائدۃ : ۷۲،۷۳ ، سورۃ التوبۃ : ۳۰ ، سورۃ الکھف : ۲۸ ، اور دیگر بہت سی آیات لیکن سوال یہ ہے کہ دین میں یہ غلو ہے کیا جس سے اس قدر سختی کے ساتھ منع کر دیا گیا ہے۔
غلو کا مفہوم:
غلو کے لغوی معنی توحد اعتدال سے تجاوز، افراط وتفریط اور کسی کے مقام ومرتبہ میں کمی و بیشی کرنے کے ہیں۔ جیسا کہ ائمہ لغت نے صراحت فرمائی ہے ۔ (ملاحظہ فرمائیں : الصحاح ۶/۲۴۴۸ ، المقاییس ۴/۳۸۸ ، المفردات : ۳۷۵ ، اللسان : ۵/۳۲۹۰ ، التاج : ۲۰، ۲۲ ، المصباح ۱۷۲)
اور اس کے اصطلاحی معنی بقول علامہ مناوی رحمہ اللہ '' دین میں تعلب ، تشدد اور حد اعتدال سے تجاوز کے ہیں ۔ ( التوقیف : ۲۵۳)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ '' دین میں غلو کے معنی افراط وتفریط کے ہیں ، جیسا کہ یہودیوں نے اور عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں افراط وتفریط سے کام لیا۔ یہودیوں نے ان کی شان اس قدر گھٹا دی کہ وہ انہیں ایک شریف انسان بھی نہیں سمجھتے تھے اور عیسائیوں نے ان کی شان اس قدر بڑھا دی کہ انہیں انسان کی بجائے اللہ سمجھنا شروع کر دیا ۔
(تفسیرالقرطبی ۶/۷۷)
غلو کی انواع واقسام :
غلو کے بارے میں وارد آیات واحادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ دین میں غلو کی کئی قسمیں ہیں ۔ ان میں سے چند اقسام کی طرف اشارہ کیا جاتاہے۔
عقائد میں غلو :
عقائد میں غلو سے مراد یہ ہے کہ قرآن وسنت میں ہمیں جن عقائد کی تعلیم دی گئی ہے ان کو چھوڑ کر ہم خود ساختہ عقائد کو اختیار کرلیں۔ خود ساختہ یا انسانوں کے بنائے ہوئے عقائد پر کتنا ہی خوشنما لیبل کیوں نہ لگا دیا جائے ، دین وشریعت کے نقطہ نظر سے وہ عقائد بہر حال باطل قرار پائیں گے ۔ جیسا کہ اہل کتاب نے ازراہِ کذب وافتراء اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ کہا :
اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ (المائدۃ:۷۳)
'' اللہ تین کا تیسرا ہے۔''
یا جیسے عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ اللہ یا اللہ کے بیٹے ہیں، یا یہودیوں نے اس بات کو عقیدہ کے طور پر اختیار کر لیا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام تو ایک شریف انسان بھی نہیں ہیں ( معاذ اللہ) یا جیسے بعض نام کےمسلمانوں نے بھی بعض عظیم شخصیتوں کے بارے میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ ان کو بھی ان تمام صفات سے موصوف قرار دے دیا جو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص ہیں۔
مشکل کشا اور حاجت روا صرف اللہ کی ذات ہے ، نفع ونقصان صرف اسی کے قبضہ اختیار میں ہے۔ دعائیں اور فریادیں صرف وہی سنتا ہے اولاد دینا یا نہ دینا صرف اسی کی مرضی ومشیئت پر منحصر ہے ۔ الغرض یہ تمام صفات جو اللہ کی ذات پاک سے مخصوص ہیں انہیں غیر اللہ میں تسلیم کیاجائے تو یہ دین میں غلو کی بدترین شکل ہے، جسے شرک کے نام سے بھی موسوم کیاجاتاہے اور شرک اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقابل معافی گناہ ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَکَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا (النساء:۴۸)
اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا
دین میں غلو سے سختی کے ساتھ ممانعت کے باوجود افسوس کہ بہت سے مسلمانوں نے بھی دین میں غلو کو اختیار کرلیا، مولانا حالی نے ایسے ہی غالی مسلمانوں کا شکوہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
کرے گر غیر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
قرآن مجید میں غلو:
قرآن مجید میں غلو سے بڑی سختی کے ساتھ منع کیاگیا تھا مگر افسوس کہ قرآن مجید کے بہت سے ماننے والوں نے خود قرآن مجید ہی میں غلو سے کا م لیناشروع کردیا۔ قرآن مجید میں کئی طرح سے غلو سے کام لیا گیا۔مثلاً :
(۱) غلو کی ایک صورت تو یہ اختیار کی گئی کہ بعض لوگوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس کا ترجمہ کرنا گناہ ہے بلکہ اسے کفر قرار دیا گیا اور اس سے درحقیقت وہ اپنی ان خرافات اور بدعات پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں جسے انہوں نے دین کے نام سے ایجاد کر رکھا ہے۔ جبکہ دین میں اس کا نہ صرف یہ کہ قطعا کوئی حکم نہیں بلکہ قرآن وسنت میں ان سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔
(۲) قرآن مجید میں غلو کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنی مرضی ومشیئت کے مطابق اس کی تفسیر بیان کی جائے۔ پہلے سے تصورات ونظریات قائم کر لئے جائیں اور پھر قرآنی آیات کو توڑ مروڑ کر ان کی تائید میں پیش کیا جائے۔ قرآن مجید نے اس بیماری کا نام ''تحریف'' بھی رکھا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کی اس بیماری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
يُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ (المائدۃ:۴۱)
''(صحیح) باتوں کو ان کے مقامات (میں ثابت ہونے) کے بعد بدل دیتے ہیں۔''
افسوس بعض مسلمانوں نے اپنے ائمہ وفقہاء کی تائید کرتے ہوئے ان کے افکار ونظریات کو دین کا درجہ دے دیا، خواہ وہ قرآن وسنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ غلو سے کام لیتےہوئے یہاں تک کہہ دیاگیا۔
کل آیۃ أو حدیث یخالف ما علیہ أصحابنا فہو مؤول أو منسوخ ۔ ( أصول الکرخی)
''ہر وہ آیت اور ہر وہ حدیث جو ہمارے بزرگوں کے مذہب کے خلاف ہو گی ، ہم اس کی تاویل کریں گے یا اسے منسوخ قرار دے دیں گے۔''
یعنی اسے مانیں گے نہیں، یہ ذہنیت غلو پر مبنی ہے جب کہ صحیح فکر یہ ہے کہ اگر کوئی بات قرآن وحدیث سے ثابت ہوجائے یا کسی بات کی تائید آیت وحدیث سے ہوجائے تو اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إنما كان قول المؤمنين إذا دعوا إلى الل۔ه ورسوله ليحكم بينهم أن يقولوا سمعنا وأطعنا ۚ وأولئك هم المفلحون ﴿٥١﴾ ومن يطع الل۔ه ورسوله ويخش الل۔ه ويتقه فأولئك هم الفائزون ﴿٥٢﴾
''مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ تعالی اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔اور جو شخص اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اور اس سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔''
کرنے ہی کے لئے پڑھا جائے، دین وشریعت کے احکام ومسائل اس سے سیکھے جائیں اور ان کی تشریح وتوضیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ سے معلوم کی جائے۔ اگر آپ نے قرآن وسنت کے بجائے آراء الرجال یعنی لوگوں کی قیل وقال کو دین وشریعت کا درجہ دینا شروع کردیا اور قرآن وسنت میں تأویل وتحریف سے کام لینا شروع کردیا یا بلا تحقیق احکام قرآن وسنت کو منسوخ قرار دے دیا تو بلاشبہ یہ شدید ضلالت وگمراہی ہے ،
ایسی گمراہی جو آپ کو دین سے بہت دور لے جائے گی کیونکہ جو شخص اپنے فساد طبیعت کے باعث علاج کو ہی بیماری بنا لے گا وہ کب اس بات کا حق دار ہے کہ اسے شفا نصیب ہو جو شخص گلہائے رنگ رنگ کی بہار دکھانے والے کسی چمن زار میں جاکر بھی پھولوں کی بجائے کانٹوں سے اپنے دامن کو بھرتا ہے تو وہ کب اس بات کا سزاوار ہے کہ پھولوں کی بوئے عطر بیز سے اس کے مشام جان معطر ہوں اور جو شخص بیت اللہ میں جاکر بھی بتوں ہی کو یاد کرے وہ کب اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے دل میں اللہ کی محبت کا چراغ جلے یا توحید کے نور سے اس کے دل میں کرن کرن اجالاہو بعینہ جو شخص دین وشریعت کے احکام ومسائل کے سلسلہ میں آراء الرجال یعنی لوگوں کے قیل وقال کو قرآن وسنت پر ترجیح دیتا ہے ، وہ کب اس بات کا سزاوار ہے کہ اسے دین کا فہم نصیب ہو۔
(۳) بہر حال قرآن مجید کے بارے میں غلو کی ایک بدترین صورت یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کے صریح احکام کو ماننے کے بجائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ سے کسبِ فیض کے بجائے ائمہ وفقہاء کرام کے اقوال کو ترجیح دی جائے، حالانکہ تمام ائمہ کرام اور فقہاء عظام نے قرآن وسنت کے دامن سے وابستگی کی بے حد تاکید فرمائی ہے۔
(۴) ہمارے ان بہت سے قراء کا قرآن مجید کی قرأت وتلاوت کا انداز بھی غلو ہی کے ضمن میں آئے گا، جو قرأت وتجوید کے اصولوں سے تجاوز کرتے ہوئے بے حد تطویل، تکلف اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور خوش الحانی کے مظاہرہ میں قواعد وضوابط کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔
اسی طرح کچھ لوگ قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بجائے پانچ سات ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر اسے اتنا اونچا رکھ دیتے ہیں کہ اس تک کسی کا ہاتھ نہ پہنچنے پائے۔ یہ اور اس طرح کی دیگر بہت سی صورتیں ہیں جو ہم نے قرآن مجید میں غلو کے باب میں اختیار کر رکھی ہیں۔
غلو کے نتائج :
علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ ''ہم نے اور ہم سے پہلے لوگوں نے بھی یہ دیکھا ہے کہ جو شخص دین میں غلو سے کام لیتاہے وہ حقیقت میں دین سے محروم ہوجاتاہے۔ یہ بات ممنوع نہیں ہے کہ عبادت کے سلسلہ میں اکمل انداز کو اختیار کیاجائے کیونکہ یہ بات تو دین میں انتہائی قابل ستائش ہے۔ ممنوع یہ ہے کہ ایسا افراط اختیار کیاجائے جس کا نتیجہ یہ ہوکہ انسان اکتاجائے اور پھر اس عبادت کو بجاہی نہ لاسکے یا وہ نفل عبادت ہی میں ایسا مبالغہ کرے کہ فرض عبادت ترک ہوجائے یا فرض عبادت کا وقت ہی ختم ہوجائے۔ مثلاً ایک شخص ساری رات تہجد گزاری اور شب زندہ داری میں گزارے اور پھر رات کے آخری حصہ میں اس پر نیند کا اس قدر غلبہ ہو جائے کہ نمازِ فجر باجماعت ادا نہ کرسکے یا وہ بیدار ہی طلوع آفتاب کے بعد ہوتو نفلی عبادت میں ایسا مبالغہ شریعت میں ممنوع ہے، جس سے فرائض کے ادا کرنے میں کوتاہی ہو ۔ (الفتح ۱/۱۱۷)
دین میں کمی و بیشی ممنوع ہے :
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : '' شریعت میں جو بات مقرر کردی گئی ہے اس پر اپنی طرف سے اضافہ کرنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بندہ اگر از خود اپنے آپ پر سختی کا سبب بنے گا مثلا جو لوگ وضو یا غسل کے مسئلہ میں وسوسوں کا شکار رہتے ہیں اور اس سلسلہ میں بے پناہ تکلیف اٹھاتے ہیں اور وضو وغسل میں اس طرح مبالغہ سے کام لیتے ہیں کہ ان کا وضو اورغسل کبھی مکمل ہوتاہی نہیں ۔ شرعی طور پر سختی کی مثال انسان کاکسی کام کے لئے نذر ماننا ہے ، نذر مان کر انسان خود اپنے آپ ہی کو سختی میں مبتلا کرلیتا ہے کہ شرعا نذر کا پورا کرنا ضروری ہوجاتاہے ۔ ( إغاثۃ اللہفان ۱/۱۳۲)
غلو باعث ہلاکت ہے :
تشدد اور غلو کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو بے جا طور پر سختی اور مصیبت میں ڈال لیتاہے۔ اسی وجہ سے شریعت میں غلو سے منع کر دیاگیا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے سابقہ قوموں کی ہلاکتوں کا سبب بھی قرار دیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حج میں رمی جمار کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کنکریاں لانے کا حکم دیا تو میں چھوٹی چھوٹی سی کنکریاں چن کر لایا اور جب میں نے انہیں آپ کے دست مبارک پر رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بِأَمْثَالِ ہَؤُلَاءِ وَإِيَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ فَإِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ( النسائی ، حدیث: ۲۸۶۳ ، سنن ابن ماجہ : ۳۰۲۹)
'' اس طرح کی کنکریاں ہونی چاہئیں توتم دین میں غلو کرنے سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو ہی نے ہلاک کردیا تھا۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ رمی جمار کے لئے بس چھوٹی چھوٹی ہی کنکریاں کافی ہیں۔ تکلف اور تشدد سے کام لیتے ہوئے بڑے بڑے کنکر استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ افسوس کہ بہت سے حجاج کرام رمی جمار کے وقت اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول جاتے ہیں اور وہ کنکریوں کے بجائے بڑے کنکر بلکہ پتھر استعمال کرتے ہیں اور بعض حضرات تو غلو کی انتہاء کردیتے ہیں کہ وہ کنکریوں کے بجائے جوتے استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ اپنی دانست میں یہ حضرات شاید اپنی غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حدود مقرر فرمادی ہیں انہی کی پابندی کی جائے اور ان سے سر موتجاوز نہ کیاجائے کیونکہ حدود شریعت سے تجاوز دنیا میں ہلاکت کا سبب بنتاہے اور آخرت میں یہ شافع روز جزاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی کا سبب بنے گا جیسا کہ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صنفان من أمتي لن تنالہما شفاعتي ولن أشفع لہما ولن يدخلا في شفاعتي: سلطان غشوم عسوف، وغال مارق في الدين(الترغیب والترہیب لقوام السنۃ :۳/۷۶)
'' میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں ، جن کو میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔ ظالم اور غاصب بادشاہ اور دین میں غلو کرنے والے لوگ ۔''
دین تو آسان ہے :
انسان اپنی مرضی سے دین کو ہوا بنا لے تو الگ بات ہے ورنہ اللہ رب ذوالجلال نے اپنے دین کو بہت آسان بنایا ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَہُ (صحیح البخاری مع الفتح ۳۹/۱ )
بے شک دین آسان ہے اور جوشخص دین میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا۔''
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تفصیل کے ساتھ فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں انہیں ضائع نہ کرو کچھ حدود مقررکردیئے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو کچھ چیزوں کو حرام قرار دے دیاہے ان کے قریب نہ جاؤ اور کچھ چیزوں کو بھولے بغیر ترک کر دیا ہے ان کے بارے میں کرید نہ کرو۔ (جامع الاصول ۵/۵۹)
جیساکہ صحیح بخاری کی مذکورہ بالا حدیث میں ہے اللہ کا دین آسان ہے ، دین کے احکام کو پورا کرنا اس وقت مشکل ہوگا جب کوئی انسان از خود اپنے اوپر ایسی پابندیاں عائد کرلے جن کا دین میں حکم نہ ہو ۔ بطورِ مثال ہم یہاں صحیح بخاری ہی کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے انسان کو دیکھا جسے اس کے دوبیٹے گھسیٹ کر (بیت اللہ کی طرف) لے جارہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا کیا ماجرا ہے ' انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ اس نے نذر مانی تھی کہ یہ پیدل چل کر بیت اللہ جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بات سے بے نیاز ہے کہ یہ اپنے آپ کو عذاب میں ڈالے ' اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ سواری پر سوار ہوجاؤ۔ '' ( بخاری ، حدیث : ۱۸۶۵)
اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَا النَّبِيُّ صلى اللہ عليہ وسلم يَخْطُبُ إِذَا ہُوَ بِرَجُلٍ قَائِمٍ فَسَأَلَ عَنْہُ فَقَالُوا أَبُو إِسْرَائِيلَ نَذَرَ أَنْ يَقُومَ ، وَلاَ يَقْعُدَ ، وَلاَ يَسْتَظِلَّ ، وَلاَ يَتَکَلَّمَ وَيَصُومَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى اللہ عليہ وسلم مُرْہُ فَلْيَتَکَلَّمْ وَلْيَسْتَظِلَّ وَلْيَقْعُدْ وَلْيُتِمَّ صَوْمَہُ.
کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے عرض کیا ، اس کا نام ابو اسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ یہ کھڑا رہے گا ، بیٹھے گا نہیں ، نہ یہ سا یہ استعمال کرے گا اور نہ کسی سے بات کرے گا اورروزے سے رہے گا یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''اسے حکم دو کہ یہ بات کرے، سایہ استعمال کرے اور بیٹھ جائے اور اپنے روزے کو پورا کرے۔ (بخاری ، حدیث : ۶۷۰۴)
روزہ رکھنا حکم شریعت ہے لیکن اس میں اس قسم کی اپنے اوپر پابندیاں عائد کر لینا، جس طرح ابو اسرائیل نے اپنے اوپر عائد کی تھیں ، دین میں غلو ہے اور دین میں غلو
اختیار کرکے انسان اپنے آپ کو از خود مشکلات میں مبتلا کرلیتاہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار خطبہ میں ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللَّہَ تَعَالَى فَرَضَ عَلَيْکُمُ الْحَجَّ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ أَفِي کُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللہِ ثَلاَثَ مِرَاتٍ فَجَعَلَ يُعْرِضُ عَنْہُ ، ثُمَّ قَالَ لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَوْ وَجَبَتْ مَا قُمْتُمْ بِہَا ، ثُمَّ قَالَ دَعُونِي مَا تَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِکُمْ سُؤَالِہِمْ وَاخْتِلاَفِہِمْ عَلَى أَنْبِيَائِہِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَہَيْتُکُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوہُ
''لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض قرار دیا ہے ۔ لہٰذا حج کیا کرو۔''ایک شخص نے عرض کیا '' یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہر سال ، اس نے سوال تین بار دوہرایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں یہ کہہ دیتا ہاں تو ہر سال حج ادا کرنا واجب ہوجاتا اور تمہیں اس کی استطاعت نہ ہوتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''مجھے چھوڑ دو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے کثرت سوال اور اختلاف کے باعث ہی ہلاک ہوئے تھے، جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو مقدور بھر استطاعت بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو۔'' ( صحیح مسلم ، حدیث : ۱۳۳۷)
غلو شرک تک پہنچا دیتاہے :
قرآن مجید کےمطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ غلو انسان کو شرک جیسی مہلک بیماری میں مبتلا کردیتاہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے انبیاء کرام کی شان میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ انہوں نے سیدناعزیر اور سیدنا عیسی علیہما السلام کو اللہ کے بیٹے قرار دے دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی جو لم یلد ولم یولد کے اوصاف سے اتصاف پذیر ہے ، کوئی انسان خواہ وہ مقام ومرتبہ کے اعتبار سے کتنے ہی اونچے مقام پر کیوں فائز نہ ہو' اس کا بیٹا کیسے ہوسکتاہے مگر غلو کی کرشمہ سازی ملاحظہ کیجئے کہ اس نے انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیا ہے اور خالق ومخلوق کے درمیان فرق کو ملحوظ نہ رہنے دیا ۔ قوموں کو تباہ وبرباد کرنے والا یہ ایسا شدید مرض ہے کہ رحمۃ للعالمین ، سرور دنیا ودین صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند رہے کہ سابقہ امتوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آپ کی امت بھی کہیں اس میں مبتلا نہ ہوجائے۔ آخر وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فکر دامن گیر رہا حتی کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت بالکل آخری لمحات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَعْنَۃُ اللہِ عَلَى الْيَہُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِہِمْ مَسَاجِدَ (البخاری ، حدیث : ۴۳۵ ، ومسلم ، حدیث : ۵۳۱)
''یہود ونصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔''
اس حدیث کے راوی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یحذر ما صنعوا '' کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو یہود ونصاریٰ کے ان جیسے افعال کے ارتکاب سے ڈرارہے تھے کیونکہ انبیاء واولیاء کی شان میں غلو ان کی عبادت کا سبب بن جاتاہے اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
لاَ تُطْرُونِي کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُولُوا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہ(صحیح البخاری ، حدیث : ۳۴۴۵)
''میری شان میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جیسے عیسائیوں نے ابن مریم کی شان میں مبالغہ سے کام لیا تھا۔ میں تو اللہ کا بندہ ہوں لہذا مجھے عبد اللہ اور رسول اللہ کہو۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بڑی سختی کے ساتھ غلو سے منع فرمایا ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تین بار ارشاد فرمایا :
ہلک المتنطعون (صحیح مسلم ، حدیث : ۲۶۷)
''غلو کرنے والے ہلاک ہوگئے۔''
''متنطعون'' ان لوگوں کو کہتے ہیں جو حد اعتدال سے تجاوز کرتےہوئے اپنے اقوال وافعال میں بے حد مبالغہ اور غلو سے کا م لیں۔
اسلام دین اعتدال ہے :
اسلام دین جمال وکمال ہے ، یہ راہ اعتدال ہے ، جس میں کوئی افراط وتفریط نہیں ۔ امام جعفر طحاوی رحمہ اللہ نے اسلام کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے :
'' ارض وسماء میں اللہ کا دین ایک ہی ہے اور وہ ہے دین اسلام ، جو غلو وتقصیر ، تشبیہ وتعطیل، جبر وقدر اور امن ومایوسی (امید وخوف) کے درمیان ہے ۔'' ( شرح عقیدۃ طحاویہ ص : ۵۸۵)
ابن عقیل نے ایک دلچسپ بات لکھی ہے اور وہ یہ کہ مجھ سے ایک شخص نے پوچھا کہ پانی میں بے شمار غوطے لگانے کے باوجود مجھے یہ شک ہوتاہے کہ معلوم نہیں کہ غسل صحیح ہوا بھی ہے یا نہیں ، تو اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ، میں نے کہا جناب! میری رائے یہ ہے کہ جائیں آپ سے تو نماز ہی ساقط ہوگئی ہے ، اس نے پوچھا وہ کیسے ، میں نے کہا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاَثَۃٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ وَعَنِ الصَّبِىِّ حَتَّى يَکْبَرَ
'' تین شخص مرفوع القلم ہیں ۔ مجنون حتی کہ صحت یاب ہوجائے ۔ سویا ہوا حتی کہ بیدار ہوجائے اور بچہ حتی کہ بالغ ہوجائے۔''(ابوداود)
اور جوشخص پانی میں بار بار غوطہ لگانے کے باوجود یہ شک کرے کہ معلوم نہیں اس کے جسم کو پانی لگا ہے یا نہیں تووہ مجنون ہے اور مجنون مرفوع القلم ہے اور اس سے نماز (اور دیگر تمام فرائض وواجبات ) ساقط ہیں۔ (اغاثۃ اللہفان ، امام ابن القیم ج ۱،ص:۱۵۴)
ہمارے بہت سے صوفی منش احباب جو طہارت ' وضو اور غسل کے بارے میں اسی قسم کی تشکیک میں مبتلا رہتے ہیں ، انہیں اپنے طرز عمل پر خاص غور فرمانا چاہیے۔
شیخ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ شریعت نے ہر قسم کے غلو اور تشدد سے منع کیا ہے خواہ اس کا تعلق عقائد سےہویا اعمال سے ۔ ( فتح المجید ، ص:۲۲۷)
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیطان بڑا عیار ہے اور اس کی ایک بہت عجیب تدبیر یہ ہے کہ وہ انسانی نفوس کو ٹٹول کر یہ جائزہ لے لیتاہے کہ کس کی طبیعت افراط کی طرف مائل ہے اور کس کی تفریط کی طرف اور پھر جس کی طرف کسی کی طبیعت کا میلان ہوتاہے وہ اپنی دسیسہ کاریوں سے اسے اسی طرف لگا دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت یا تو وادی تقصیر میں سرگرداں ہوتی ہے یا وادی مبالغہ وغلو میں حیران یعنی یا تو وہ احکام شریعت پر عمل کرنے میں کوتاہی اور دون ہمتی کا ثبوت دیتے ہیں یا اس قدر مبالغہ اور غلو سے کام لیتے ہیں کہ حد اعتدال سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب کہ بہت قلیل سعادت مند ہی ایسے ہوتے ہیں جو صراط مستقیم پر رہتے ہیں، جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعین فرمایا ہے اور بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور طریقہ ہی راہِ اعتدال ہے۔ (اغاثۃ اللہفان ، ج۱،ص:۱۳۷)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص دینی اعمال میں غلو سے کام لے گا اور نرمی کے پہلو کو ترک کرے گا تو بالآخر وہ عاجز ودرماندہ ہوجائے گا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ یہ بھی غلو ہے کہ انسان رخصت کی جگہ عزیمت کو اختیار کرے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی کسی مجبوری ومعذوری اور بیماری کی وجہ سے پانی کے استعمال سے عاجز وقاصر ہے اور اس صورت میں اسے تیمم کرنے کی ضرورت ہے مگر وہ اس رخصت سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور تیمم نہیں کرتا بلکہ پانی ہی کے استعمال کرنے پر اصرار کرتاہے تو وہ یقینا نقصان اٹھائے گا۔ (فتح الباری ۱/۱۱۷)
خلاصہ کلام :
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام دین اعتدال ہے اس کی پاکیزہ تعلیمات میں حسن وجمال ہے ، جن کے مطابق بلاکم وکاست عمل ہی میں دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی کا راز مضمر ہے جبکہ دین میں اپنی طرف سے افراط وتفریط کا نام غلو ہے اور غلو حرام ہے۔ کیونکہ غلو کے درج ذیل نقصانات ہیں۔
۱) غلو انسان کو شرک میں مبتلا کرکے اللہ تعالیٰ سے دور کردیتاہے اور جہنم میں پہنچا دیتاہے۔
۲) غلو کے نتیجہ میں انسان نہ صرف یہ کہ اپنے عمل کو ہمیشہ جاری نہیں رکھ سکتا بلکہ تنگ آکر بسا اوقات ترک بھی کردیتاہے۔
۳) غلو اس بات کی علامت ہے کہ انسان کا ایمان اور اس کی عقل کمزور ہے اور اس پر شیطان نے تسلط جمالیا ہے۔
۴) غلو انسان کی جہالت اور فہمِ دین میں نقص کی دلیل ہے۔
۵) غلو انسان کو شیطانی وسوسوں میں مبتلا کردیتاہے۔
۶) غلو کرنے والے کا دل تنگ ہوکر حزن وملال میں مبتلا ہوجاتاہے ۔
اللہ ربّ ذوالجلال والاکرام سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے فضل وکرم کے ساتھ غلو سے محفوظ رکھے اور افراط وتفریط کے بغیر اعتدال یعنی اپنے پسندیدہ دین اسلام کے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا ربّ العالمین
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے لوگو! بچو تم دین میں غلو کرنے سے کیونکہ تم سے پہلے لوگ (قومیں) دین میں اسی غلو کیوجہ سے تباہ وبرباد ہوئے ۔ -- سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 1189 حدیث مرفوع۔ مزید دیکھئے؛ سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 969 حدیث مرفوع اور اور یہی کتاب حدیث 971 اور مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 14 حدیث مرفوع اور یہی کتاب حدیث 1138
دین میں غلو کرنے سے بچو۔ ۔ ۔ ۔
قُلْ يٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِکُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا کَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ (المائدۃ:۷۷)
کہو کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین (کی بات) میں ناحق مبالغہ نہ کرو، اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) پہلے گمراہ ہوئے اوردیگر لوگوں کو گمراہ کر گئے اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے ۔
غلو کی صراحت کے ساتھ ممانعت تو انہی دو آیات کریمہ میں ہے لیکن اس مفہوم کی قرآن مجید میں آیات کریمہ بہت کثرت کے ساتھ ہیں جن میں دین میں غلو سے منع کردیا گیا ہے۔ مثلاً : ملاحظہ فرمائیں ، سورۃ المائدۃ : ۷۲،۷۳ ، سورۃ التوبۃ : ۳۰ ، سورۃ الکھف : ۲۸ ، اور دیگر بہت سی آیات لیکن سوال یہ ہے کہ دین میں یہ غلو ہے کیا جس سے اس قدر سختی کے ساتھ منع کر دیا گیا ہے۔
غلو کا مفہوم:
غلو کے لغوی معنی توحد اعتدال سے تجاوز، افراط وتفریط اور کسی کے مقام ومرتبہ میں کمی و بیشی کرنے کے ہیں۔ جیسا کہ ائمہ لغت نے صراحت فرمائی ہے ۔ (ملاحظہ فرمائیں : الصحاح ۶/۲۴۴۸ ، المقاییس ۴/۳۸۸ ، المفردات : ۳۷۵ ، اللسان : ۵/۳۲۹۰ ، التاج : ۲۰، ۲۲ ، المصباح ۱۷۲)
اور اس کے اصطلاحی معنی بقول علامہ مناوی رحمہ اللہ '' دین میں تعلب ، تشدد اور حد اعتدال سے تجاوز کے ہیں ۔ ( التوقیف : ۲۵۳)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ '' دین میں غلو کے معنی افراط وتفریط کے ہیں ، جیسا کہ یہودیوں نے اور عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں افراط وتفریط سے کام لیا۔ یہودیوں نے ان کی شان اس قدر گھٹا دی کہ وہ انہیں ایک شریف انسان بھی نہیں سمجھتے تھے اور عیسائیوں نے ان کی شان اس قدر بڑھا دی کہ انہیں انسان کی بجائے اللہ سمجھنا شروع کر دیا ۔
(تفسیرالقرطبی ۶/۷۷)
غلو کی انواع واقسام :
غلو کے بارے میں وارد آیات واحادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ دین میں غلو کی کئی قسمیں ہیں ۔ ان میں سے چند اقسام کی طرف اشارہ کیا جاتاہے۔
عقائد میں غلو :
عقائد میں غلو سے مراد یہ ہے کہ قرآن وسنت میں ہمیں جن عقائد کی تعلیم دی گئی ہے ان کو چھوڑ کر ہم خود ساختہ عقائد کو اختیار کرلیں۔ خود ساختہ یا انسانوں کے بنائے ہوئے عقائد پر کتنا ہی خوشنما لیبل کیوں نہ لگا دیا جائے ، دین وشریعت کے نقطہ نظر سے وہ عقائد بہر حال باطل قرار پائیں گے ۔ جیسا کہ اہل کتاب نے ازراہِ کذب وافتراء اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ کہا :
اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ (المائدۃ:۷۳)
'' اللہ تین کا تیسرا ہے۔''
یا جیسے عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے بارے میں یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ اللہ یا اللہ کے بیٹے ہیں، یا یہودیوں نے اس بات کو عقیدہ کے طور پر اختیار کر لیا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام تو ایک شریف انسان بھی نہیں ہیں ( معاذ اللہ) یا جیسے بعض نام کےمسلمانوں نے بھی بعض عظیم شخصیتوں کے بارے میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ ان کو بھی ان تمام صفات سے موصوف قرار دے دیا جو صرف اللہ وحدہ لاشریک لہ کی ذات گرامی کے ساتھ مخصوص ہیں۔
مشکل کشا اور حاجت روا صرف اللہ کی ذات ہے ، نفع ونقصان صرف اسی کے قبضہ اختیار میں ہے۔ دعائیں اور فریادیں صرف وہی سنتا ہے اولاد دینا یا نہ دینا صرف اسی کی مرضی ومشیئت پر منحصر ہے ۔ الغرض یہ تمام صفات جو اللہ کی ذات پاک سے مخصوص ہیں انہیں غیر اللہ میں تسلیم کیاجائے تو یہ دین میں غلو کی بدترین شکل ہے، جسے شرک کے نام سے بھی موسوم کیاجاتاہے اور شرک اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقابل معافی گناہ ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَکَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَمَنْ يُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا (النساء:۴۸)
اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا
دین میں غلو سے سختی کے ساتھ ممانعت کے باوجود افسوس کہ بہت سے مسلمانوں نے بھی دین میں غلو کو اختیار کرلیا، مولانا حالی نے ایسے ہی غالی مسلمانوں کا شکوہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
کرے گر غیر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
کہے آگ کو اپنا قبلہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
قرآن مجید میں غلو:
قرآن مجید میں غلو سے بڑی سختی کے ساتھ منع کیاگیا تھا مگر افسوس کہ قرآن مجید کے بہت سے ماننے والوں نے خود قرآن مجید ہی میں غلو سے کا م لیناشروع کردیا۔ قرآن مجید میں کئی طرح سے غلو سے کام لیا گیا۔مثلاً :
(۱) غلو کی ایک صورت تو یہ اختیار کی گئی کہ بعض لوگوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس کا ترجمہ کرنا گناہ ہے بلکہ اسے کفر قرار دیا گیا اور اس سے درحقیقت وہ اپنی ان خرافات اور بدعات پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں جسے انہوں نے دین کے نام سے ایجاد کر رکھا ہے۔ جبکہ دین میں اس کا نہ صرف یہ کہ قطعا کوئی حکم نہیں بلکہ قرآن وسنت میں ان سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔
(۲) قرآن مجید میں غلو کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنی مرضی ومشیئت کے مطابق اس کی تفسیر بیان کی جائے۔ پہلے سے تصورات ونظریات قائم کر لئے جائیں اور پھر قرآنی آیات کو توڑ مروڑ کر ان کی تائید میں پیش کیا جائے۔ قرآن مجید نے اس بیماری کا نام ''تحریف'' بھی رکھا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کی اس بیماری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
يُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ (المائدۃ:۴۱)
''(صحیح) باتوں کو ان کے مقامات (میں ثابت ہونے) کے بعد بدل دیتے ہیں۔''
افسوس بعض مسلمانوں نے اپنے ائمہ وفقہاء کی تائید کرتے ہوئے ان کے افکار ونظریات کو دین کا درجہ دے دیا، خواہ وہ قرآن وسنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں۔ غلو سے کام لیتےہوئے یہاں تک کہہ دیاگیا۔
کل آیۃ أو حدیث یخالف ما علیہ أصحابنا فہو مؤول أو منسوخ ۔ ( أصول الکرخی)
''ہر وہ آیت اور ہر وہ حدیث جو ہمارے بزرگوں کے مذہب کے خلاف ہو گی ، ہم اس کی تاویل کریں گے یا اسے منسوخ قرار دے دیں گے۔''
یعنی اسے مانیں گے نہیں، یہ ذہنیت غلو پر مبنی ہے جب کہ صحیح فکر یہ ہے کہ اگر کوئی بات قرآن وحدیث سے ثابت ہوجائے یا کسی بات کی تائید آیت وحدیث سے ہوجائے تو اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إنما كان قول المؤمنين إذا دعوا إلى الل۔ه ورسوله ليحكم بينهم أن يقولوا سمعنا وأطعنا ۚ وأولئك هم المفلحون ﴿٥١﴾ ومن يطع الل۔ه ورسوله ويخش الل۔ه ويتقه فأولئك هم الفائزون ﴿٥٢﴾
''مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب اللہ تعالی اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔اور جو شخص اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اور اس سے ڈرے گا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔''
کرنے ہی کے لئے پڑھا جائے، دین وشریعت کے احکام ومسائل اس سے سیکھے جائیں اور ان کی تشریح وتوضیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ سے معلوم کی جائے۔ اگر آپ نے قرآن وسنت کے بجائے آراء الرجال یعنی لوگوں کی قیل وقال کو دین وشریعت کا درجہ دینا شروع کردیا اور قرآن وسنت میں تأویل وتحریف سے کام لینا شروع کردیا یا بلا تحقیق احکام قرآن وسنت کو منسوخ قرار دے دیا تو بلاشبہ یہ شدید ضلالت وگمراہی ہے ،
ایسی گمراہی جو آپ کو دین سے بہت دور لے جائے گی کیونکہ جو شخص اپنے فساد طبیعت کے باعث علاج کو ہی بیماری بنا لے گا وہ کب اس بات کا حق دار ہے کہ اسے شفا نصیب ہو جو شخص گلہائے رنگ رنگ کی بہار دکھانے والے کسی چمن زار میں جاکر بھی پھولوں کی بجائے کانٹوں سے اپنے دامن کو بھرتا ہے تو وہ کب اس بات کا سزاوار ہے کہ پھولوں کی بوئے عطر بیز سے اس کے مشام جان معطر ہوں اور جو شخص بیت اللہ میں جاکر بھی بتوں ہی کو یاد کرے وہ کب اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے دل میں اللہ کی محبت کا چراغ جلے یا توحید کے نور سے اس کے دل میں کرن کرن اجالاہو بعینہ جو شخص دین وشریعت کے احکام ومسائل کے سلسلہ میں آراء الرجال یعنی لوگوں کے قیل وقال کو قرآن وسنت پر ترجیح دیتا ہے ، وہ کب اس بات کا سزاوار ہے کہ اسے دین کا فہم نصیب ہو۔
(۳) بہر حال قرآن مجید کے بارے میں غلو کی ایک بدترین صورت یہ بھی ہے کہ قرآن مجید کے صریح احکام کو ماننے کے بجائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ سے کسبِ فیض کے بجائے ائمہ وفقہاء کرام کے اقوال کو ترجیح دی جائے، حالانکہ تمام ائمہ کرام اور فقہاء عظام نے قرآن وسنت کے دامن سے وابستگی کی بے حد تاکید فرمائی ہے۔
(۴) ہمارے ان بہت سے قراء کا قرآن مجید کی قرأت وتلاوت کا انداز بھی غلو ہی کے ضمن میں آئے گا، جو قرأت وتجوید کے اصولوں سے تجاوز کرتے ہوئے بے حد تطویل، تکلف اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور خوش الحانی کے مظاہرہ میں قواعد وضوابط کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔
اسی طرح کچھ لوگ قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بجائے پانچ سات ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر اسے اتنا اونچا رکھ دیتے ہیں کہ اس تک کسی کا ہاتھ نہ پہنچنے پائے۔ یہ اور اس طرح کی دیگر بہت سی صورتیں ہیں جو ہم نے قرآن مجید میں غلو کے باب میں اختیار کر رکھی ہیں۔
غلو کے نتائج :
علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے کہ ''ہم نے اور ہم سے پہلے لوگوں نے بھی یہ دیکھا ہے کہ جو شخص دین میں غلو سے کام لیتاہے وہ حقیقت میں دین سے محروم ہوجاتاہے۔ یہ بات ممنوع نہیں ہے کہ عبادت کے سلسلہ میں اکمل انداز کو اختیار کیاجائے کیونکہ یہ بات تو دین میں انتہائی قابل ستائش ہے۔ ممنوع یہ ہے کہ ایسا افراط اختیار کیاجائے جس کا نتیجہ یہ ہوکہ انسان اکتاجائے اور پھر اس عبادت کو بجاہی نہ لاسکے یا وہ نفل عبادت ہی میں ایسا مبالغہ کرے کہ فرض عبادت ترک ہوجائے یا فرض عبادت کا وقت ہی ختم ہوجائے۔ مثلاً ایک شخص ساری رات تہجد گزاری اور شب زندہ داری میں گزارے اور پھر رات کے آخری حصہ میں اس پر نیند کا اس قدر غلبہ ہو جائے کہ نمازِ فجر باجماعت ادا نہ کرسکے یا وہ بیدار ہی طلوع آفتاب کے بعد ہوتو نفلی عبادت میں ایسا مبالغہ شریعت میں ممنوع ہے، جس سے فرائض کے ادا کرنے میں کوتاہی ہو ۔ (الفتح ۱/۱۱۷)
دین میں کمی و بیشی ممنوع ہے :
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : '' شریعت میں جو بات مقرر کردی گئی ہے اس پر اپنی طرف سے اضافہ کرنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بندہ اگر از خود اپنے آپ پر سختی کا سبب بنے گا مثلا جو لوگ وضو یا غسل کے مسئلہ میں وسوسوں کا شکار رہتے ہیں اور اس سلسلہ میں بے پناہ تکلیف اٹھاتے ہیں اور وضو وغسل میں اس طرح مبالغہ سے کام لیتے ہیں کہ ان کا وضو اورغسل کبھی مکمل ہوتاہی نہیں ۔ شرعی طور پر سختی کی مثال انسان کاکسی کام کے لئے نذر ماننا ہے ، نذر مان کر انسان خود اپنے آپ ہی کو سختی میں مبتلا کرلیتا ہے کہ شرعا نذر کا پورا کرنا ضروری ہوجاتاہے ۔ ( إغاثۃ اللہفان ۱/۱۳۲)
غلو باعث ہلاکت ہے :
تشدد اور غلو کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو بے جا طور پر سختی اور مصیبت میں ڈال لیتاہے۔ اسی وجہ سے شریعت میں غلو سے منع کر دیاگیا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے سابقہ قوموں کی ہلاکتوں کا سبب بھی قرار دیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حج میں رمی جمار کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کنکریاں لانے کا حکم دیا تو میں چھوٹی چھوٹی سی کنکریاں چن کر لایا اور جب میں نے انہیں آپ کے دست مبارک پر رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بِأَمْثَالِ ہَؤُلَاءِ وَإِيَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ فَإِنَّمَا أَہْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ( النسائی ، حدیث: ۲۸۶۳ ، سنن ابن ماجہ : ۳۰۲۹)
'' اس طرح کی کنکریاں ہونی چاہئیں توتم دین میں غلو کرنے سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو ہی نے ہلاک کردیا تھا۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ رمی جمار کے لئے بس چھوٹی چھوٹی ہی کنکریاں کافی ہیں۔ تکلف اور تشدد سے کام لیتے ہوئے بڑے بڑے کنکر استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ افسوس کہ بہت سے حجاج کرام رمی جمار کے وقت اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول جاتے ہیں اور وہ کنکریوں کے بجائے بڑے کنکر بلکہ پتھر استعمال کرتے ہیں اور بعض حضرات تو غلو کی انتہاء کردیتے ہیں کہ وہ کنکریوں کے بجائے جوتے استعمال کرنے لگ جاتے ہیں۔ اپنی دانست میں یہ حضرات شاید اپنی غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ ایمان کا اولین تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حدود مقرر فرمادی ہیں انہی کی پابندی کی جائے اور ان سے سر موتجاوز نہ کیاجائے کیونکہ حدود شریعت سے تجاوز دنیا میں ہلاکت کا سبب بنتاہے اور آخرت میں یہ شافع روز جزاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی کا سبب بنے گا جیسا کہ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صنفان من أمتي لن تنالہما شفاعتي ولن أشفع لہما ولن يدخلا في شفاعتي: سلطان غشوم عسوف، وغال مارق في الدين(الترغیب والترہیب لقوام السنۃ :۳/۷۶)
'' میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں ، جن کو میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔ ظالم اور غاصب بادشاہ اور دین میں غلو کرنے والے لوگ ۔''
دین تو آسان ہے :
انسان اپنی مرضی سے دین کو ہوا بنا لے تو الگ بات ہے ورنہ اللہ رب ذوالجلال نے اپنے دین کو بہت آسان بنایا ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَہُ (صحیح البخاری مع الفتح ۳۹/۱ )
بے شک دین آسان ہے اور جوشخص دین میں سختی کرے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا۔''
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تفصیل کے ساتھ فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں انہیں ضائع نہ کرو کچھ حدود مقررکردیئے ہیں ان سے تجاوز نہ کرو کچھ چیزوں کو حرام قرار دے دیاہے ان کے قریب نہ جاؤ اور کچھ چیزوں کو بھولے بغیر ترک کر دیا ہے ان کے بارے میں کرید نہ کرو۔ (جامع الاصول ۵/۵۹)
جیساکہ صحیح بخاری کی مذکورہ بالا حدیث میں ہے اللہ کا دین آسان ہے ، دین کے احکام کو پورا کرنا اس وقت مشکل ہوگا جب کوئی انسان از خود اپنے اوپر ایسی پابندیاں عائد کرلے جن کا دین میں حکم نہ ہو ۔ بطورِ مثال ہم یہاں صحیح بخاری ہی کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے انسان کو دیکھا جسے اس کے دوبیٹے گھسیٹ کر (بیت اللہ کی طرف) لے جارہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا کیا ماجرا ہے ' انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ اس نے نذر مانی تھی کہ یہ پیدل چل کر بیت اللہ جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بات سے بے نیاز ہے کہ یہ اپنے آپ کو عذاب میں ڈالے ' اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ سواری پر سوار ہوجاؤ۔ '' ( بخاری ، حدیث : ۱۸۶۵)
اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَا النَّبِيُّ صلى اللہ عليہ وسلم يَخْطُبُ إِذَا ہُوَ بِرَجُلٍ قَائِمٍ فَسَأَلَ عَنْہُ فَقَالُوا أَبُو إِسْرَائِيلَ نَذَرَ أَنْ يَقُومَ ، وَلاَ يَقْعُدَ ، وَلاَ يَسْتَظِلَّ ، وَلاَ يَتَکَلَّمَ وَيَصُومَ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى اللہ عليہ وسلم مُرْہُ فَلْيَتَکَلَّمْ وَلْيَسْتَظِلَّ وَلْيَقْعُدْ وَلْيُتِمَّ صَوْمَہُ.
کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے عرض کیا ، اس کا نام ابو اسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ یہ کھڑا رہے گا ، بیٹھے گا نہیں ، نہ یہ سا یہ استعمال کرے گا اور نہ کسی سے بات کرے گا اورروزے سے رہے گا یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''اسے حکم دو کہ یہ بات کرے، سایہ استعمال کرے اور بیٹھ جائے اور اپنے روزے کو پورا کرے۔ (بخاری ، حدیث : ۶۷۰۴)
روزہ رکھنا حکم شریعت ہے لیکن اس میں اس قسم کی اپنے اوپر پابندیاں عائد کر لینا، جس طرح ابو اسرائیل نے اپنے اوپر عائد کی تھیں ، دین میں غلو ہے اور دین میں غلو
اختیار کرکے انسان اپنے آپ کو از خود مشکلات میں مبتلا کرلیتاہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار خطبہ میں ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللَّہَ تَعَالَى فَرَضَ عَلَيْکُمُ الْحَجَّ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ أَفِي کُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللہِ ثَلاَثَ مِرَاتٍ فَجَعَلَ يُعْرِضُ عَنْہُ ، ثُمَّ قَالَ لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَوْ وَجَبَتْ مَا قُمْتُمْ بِہَا ، ثُمَّ قَالَ دَعُونِي مَا تَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِکُمْ سُؤَالِہِمْ وَاخْتِلاَفِہِمْ عَلَى أَنْبِيَائِہِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَہَيْتُکُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوہُ
''لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض قرار دیا ہے ۔ لہٰذا حج کیا کرو۔''ایک شخص نے عرض کیا '' یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہر سال ، اس نے سوال تین بار دوہرایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں یہ کہہ دیتا ہاں تو ہر سال حج ادا کرنا واجب ہوجاتا اور تمہیں اس کی استطاعت نہ ہوتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''مجھے چھوڑ دو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے کثرت سوال اور اختلاف کے باعث ہی ہلاک ہوئے تھے، جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو مقدور بھر استطاعت بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو۔'' ( صحیح مسلم ، حدیث : ۱۳۳۷)
غلو شرک تک پہنچا دیتاہے :
قرآن مجید کےمطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ غلو انسان کو شرک جیسی مہلک بیماری میں مبتلا کردیتاہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے انبیاء کرام کی شان میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ انہوں نے سیدناعزیر اور سیدنا عیسی علیہما السلام کو اللہ کے بیٹے قرار دے دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی جو لم یلد ولم یولد کے اوصاف سے اتصاف پذیر ہے ، کوئی انسان خواہ وہ مقام ومرتبہ کے اعتبار سے کتنے ہی اونچے مقام پر کیوں فائز نہ ہو' اس کا بیٹا کیسے ہوسکتاہے مگر غلو کی کرشمہ سازی ملاحظہ کیجئے کہ اس نے انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیا ہے اور خالق ومخلوق کے درمیان فرق کو ملحوظ نہ رہنے دیا ۔ قوموں کو تباہ وبرباد کرنے والا یہ ایسا شدید مرض ہے کہ رحمۃ للعالمین ، سرور دنیا ودین صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند رہے کہ سابقہ امتوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آپ کی امت بھی کہیں اس میں مبتلا نہ ہوجائے۔ آخر وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فکر دامن گیر رہا حتی کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت بالکل آخری لمحات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَعْنَۃُ اللہِ عَلَى الْيَہُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِہِمْ مَسَاجِدَ (البخاری ، حدیث : ۴۳۵ ، ومسلم ، حدیث : ۵۳۱)
''یہود ونصاریٰ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔''
اس حدیث کے راوی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یحذر ما صنعوا '' کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو یہود ونصاریٰ کے ان جیسے افعال کے ارتکاب سے ڈرارہے تھے کیونکہ انبیاء واولیاء کی شان میں غلو ان کی عبادت کا سبب بن جاتاہے اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
لاَ تُطْرُونِي کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُولُوا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہ(صحیح البخاری ، حدیث : ۳۴۴۵)
''میری شان میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جیسے عیسائیوں نے ابن مریم کی شان میں مبالغہ سے کام لیا تھا۔ میں تو اللہ کا بندہ ہوں لہذا مجھے عبد اللہ اور رسول اللہ کہو۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بڑی سختی کے ساتھ غلو سے منع فرمایا ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تین بار ارشاد فرمایا :
ہلک المتنطعون (صحیح مسلم ، حدیث : ۲۶۷)
''غلو کرنے والے ہلاک ہوگئے۔''
''متنطعون'' ان لوگوں کو کہتے ہیں جو حد اعتدال سے تجاوز کرتےہوئے اپنے اقوال وافعال میں بے حد مبالغہ اور غلو سے کا م لیں۔
اسلام دین اعتدال ہے :
اسلام دین جمال وکمال ہے ، یہ راہ اعتدال ہے ، جس میں کوئی افراط وتفریط نہیں ۔ امام جعفر طحاوی رحمہ اللہ نے اسلام کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے :
'' ارض وسماء میں اللہ کا دین ایک ہی ہے اور وہ ہے دین اسلام ، جو غلو وتقصیر ، تشبیہ وتعطیل، جبر وقدر اور امن ومایوسی (امید وخوف) کے درمیان ہے ۔'' ( شرح عقیدۃ طحاویہ ص : ۵۸۵)
ابن عقیل نے ایک دلچسپ بات لکھی ہے اور وہ یہ کہ مجھ سے ایک شخص نے پوچھا کہ پانی میں بے شمار غوطے لگانے کے باوجود مجھے یہ شک ہوتاہے کہ معلوم نہیں کہ غسل صحیح ہوا بھی ہے یا نہیں ، تو اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ، میں نے کہا جناب! میری رائے یہ ہے کہ جائیں آپ سے تو نماز ہی ساقط ہوگئی ہے ، اس نے پوچھا وہ کیسے ، میں نے کہا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلاَثَۃٍ عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ وَعَنِ الصَّبِىِّ حَتَّى يَکْبَرَ
'' تین شخص مرفوع القلم ہیں ۔ مجنون حتی کہ صحت یاب ہوجائے ۔ سویا ہوا حتی کہ بیدار ہوجائے اور بچہ حتی کہ بالغ ہوجائے۔''(ابوداود)
اور جوشخص پانی میں بار بار غوطہ لگانے کے باوجود یہ شک کرے کہ معلوم نہیں اس کے جسم کو پانی لگا ہے یا نہیں تووہ مجنون ہے اور مجنون مرفوع القلم ہے اور اس سے نماز (اور دیگر تمام فرائض وواجبات ) ساقط ہیں۔ (اغاثۃ اللہفان ، امام ابن القیم ج ۱،ص:۱۵۴)
ہمارے بہت سے صوفی منش احباب جو طہارت ' وضو اور غسل کے بارے میں اسی قسم کی تشکیک میں مبتلا رہتے ہیں ، انہیں اپنے طرز عمل پر خاص غور فرمانا چاہیے۔
شیخ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ شریعت نے ہر قسم کے غلو اور تشدد سے منع کیا ہے خواہ اس کا تعلق عقائد سےہویا اعمال سے ۔ ( فتح المجید ، ص:۲۲۷)
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیطان بڑا عیار ہے اور اس کی ایک بہت عجیب تدبیر یہ ہے کہ وہ انسانی نفوس کو ٹٹول کر یہ جائزہ لے لیتاہے کہ کس کی طبیعت افراط کی طرف مائل ہے اور کس کی تفریط کی طرف اور پھر جس کی طرف کسی کی طبیعت کا میلان ہوتاہے وہ اپنی دسیسہ کاریوں سے اسے اسی طرف لگا دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت یا تو وادی تقصیر میں سرگرداں ہوتی ہے یا وادی مبالغہ وغلو میں حیران یعنی یا تو وہ احکام شریعت پر عمل کرنے میں کوتاہی اور دون ہمتی کا ثبوت دیتے ہیں یا اس قدر مبالغہ اور غلو سے کام لیتے ہیں کہ حد اعتدال سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب کہ بہت قلیل سعادت مند ہی ایسے ہوتے ہیں جو صراط مستقیم پر رہتے ہیں، جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعین فرمایا ہے اور بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور طریقہ ہی راہِ اعتدال ہے۔ (اغاثۃ اللہفان ، ج۱،ص:۱۳۷)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص دینی اعمال میں غلو سے کام لے گا اور نرمی کے پہلو کو ترک کرے گا تو بالآخر وہ عاجز ودرماندہ ہوجائے گا۔ آپ نے مزید فرمایا کہ یہ بھی غلو ہے کہ انسان رخصت کی جگہ عزیمت کو اختیار کرے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی کسی مجبوری ومعذوری اور بیماری کی وجہ سے پانی کے استعمال سے عاجز وقاصر ہے اور اس صورت میں اسے تیمم کرنے کی ضرورت ہے مگر وہ اس رخصت سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور تیمم نہیں کرتا بلکہ پانی ہی کے استعمال کرنے پر اصرار کرتاہے تو وہ یقینا نقصان اٹھائے گا۔ (فتح الباری ۱/۱۱۷)
خلاصہ کلام :
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام دین اعتدال ہے اس کی پاکیزہ تعلیمات میں حسن وجمال ہے ، جن کے مطابق بلاکم وکاست عمل ہی میں دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی کا راز مضمر ہے جبکہ دین میں اپنی طرف سے افراط وتفریط کا نام غلو ہے اور غلو حرام ہے۔ کیونکہ غلو کے درج ذیل نقصانات ہیں۔
۱) غلو انسان کو شرک میں مبتلا کرکے اللہ تعالیٰ سے دور کردیتاہے اور جہنم میں پہنچا دیتاہے۔
۲) غلو کے نتیجہ میں انسان نہ صرف یہ کہ اپنے عمل کو ہمیشہ جاری نہیں رکھ سکتا بلکہ تنگ آکر بسا اوقات ترک بھی کردیتاہے۔
۳) غلو اس بات کی علامت ہے کہ انسان کا ایمان اور اس کی عقل کمزور ہے اور اس پر شیطان نے تسلط جمالیا ہے۔
۴) غلو انسان کی جہالت اور فہمِ دین میں نقص کی دلیل ہے۔
۵) غلو انسان کو شیطانی وسوسوں میں مبتلا کردیتاہے۔
۶) غلو کرنے والے کا دل تنگ ہوکر حزن وملال میں مبتلا ہوجاتاہے ۔
اللہ ربّ ذوالجلال والاکرام سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے فضل وکرم کے ساتھ غلو سے محفوظ رکھے اور افراط وتفریط کے بغیر اعتدال یعنی اپنے پسندیدہ دین اسلام کے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا ربّ العالمین