nazar haffi
محفلین
تحریر: نذر حافی
آج ایک مرتبہ پھر پشاور کے مصروف ترین علاقہ مینا بازار میں واقع مسجد چشتیہ کے اندر بم دھماکے کے باعث 7 افراد جاں بحق جبکہ 30 سے زائد زخمی ہوگئے۔ یہ دین سے غداری کی انتہاہے،تاریخ وفاداروں اور غداروں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ غداری کی ہزار شکلیں ہیں، صرف بےگناہ انسانوں کو قتل کرنا ہی ملک و ملت کے ساتھ غداری نہیں ہے، بلکہ قاتلوں کو شاباش دینا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا، ان کے جرائم پر پردہ ڈالنا، انہیں اقتدار اور سیاست میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کرنا، ان کے ساتھ مذاکرات کی فضا تیار کرنا، انہیں سیاسی لیڈروں کے طور پر متعارف کرانا، یہ سب ملک و قوم اور ملت کے ساتھ غداری ہے۔
یہ غداری ہے۔۔۔ مساجد میں شہید ہوجانے والے بےگناہ نمازیوں کے خون کے ساتھ،
یہ غداری ہے۔۔۔ بازاروں کے چوراہوں پہ بمب بلاسٹ کے شکار ہوجانے والے معصوم انسانوں کے ساتھ،
یہ غداری ہے ۔۔۔داتا دربار اور بری امام جیسے مقدس مزارات پر خاک و خون میں لت پت ہوجانے والے انسانوں کے ساتھ۔
یہ غداری ہے۔۔۔۔ پاکستان کے سبز پرچم اور ملت پاکستان کے سرخ خون کے ساتھ۔
یہ غداری ہے۔۔۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے پاکستان کے دیانتدار بیوروکریٹس کے خون ساتھ۔۔۔
یہ غداری ہے۔۔۔ یہ غداری ہے۔۔۔ یہ غداری ہے۔۔۔
ہمیں اپنی ملت کی سلامتی کو مصلحتوں کے عوض فروخت نہیں کرنا چاہیے، ہمیں یہ بات خود بھی سمجھنی چاہیے اور پوری ملت پاکستان کو سمجھانی چاہیے کہ دشمن کا دوست، صرف اور صرف دشمن ہوتا ہے۔ اس وقت دہشت گردوں کے یاروں کے خلاف آواز اٹھائیے، غداری کے خلاف آواز اٹھائیے۔ ابھی وقت ہے، ابھی بولئے، ابھی مہم چلائیے، ابھی قوم کو یہ شعور دیجئے کہ غداروں کا جو یار ہے، وہ بھی غدار ہے۔ غداری کو موضوع بنائیے اور غداری کو مسترد کیجئے۔ جو شخص اپنی ملت کے قاتلوں اور دشمنوں کے لئے قابلِ اعتماد ہو، وہ ملت کا خیر خواہ کیسے ہوسکتا ہے۔
یہ اسی صدی کی بات ہے کہ اپنی ملت کے ساتھ غداری کرنے والوں میں سے ایک ایسا بھی تھا کہ وہ تاریخ کے نامور بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اتنا بڑا بادشاہ کہ اپنے آپ کو علی الاعلان بادشاہ کہتا اور اپنے نام کے ساتھ بادشاہ لکھتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ دنیائے سیاست میں اس کے نام کا سکّہ چلتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ کے تمام منصوبے اس کے تعاون اور مدد سے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا تھا کہ وہ اور امریکہ و یورپ کا اہم اتحادی ہے، وہ ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے ملک کو مسلسل مغرب کے سانچے میں ڈھالتا جا رہا تھا۔ اس نے دینی طالبعلموں کو اچھوت اور دینی مدارس کو پسماندگی کے مراکز قرار دے دیا تھا، وہ مذہبی حلقوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے زبان سے دین کی سربلندی کی باتیں کرتا تھا اور عملاً امریکہ و یورپ کا مطیع تھا۔
اس نے انگریزوں کی خوشنودی اور رضا مندی کے لیے اپنی قومی عزت اور ملکی وقار کو بڑے خوبصورت انداز میں نیلام کر دیا تھا۔ وہ دین کی باتوں سے صرف زبانی چسکا لیتا تھا اور پردے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ گردانتا تھا۔ اس نے بے پردگی اور بے حجابی کی تبلیغ کا آغاز اپنے ہی گھر سے کیا۔ 1928ء کے شروع میں پہلی بار اس کی بیوی اور بیٹی مجمع عام میں بے حجاب آئیں۔ اس نے ترکی کا دورہ کرنے کے بعد 1934ء میں کشف حجاب یعنی بے پردگی کا قانون بنایا جو 1935ء میں عملی طور پر نافذ ہوا۔ 1928ء سے لیکر 1935ء تک وہ اپنی ہی ملکی، قومی اور اسلامی حدود و روایات کے خلاف ترقی اور خوشحالی کے نام پر سرد جنگ لڑتا رہا۔
عوام الناس کو "بے پردگی" سے مرعوب کرنے کے لئے جنوری 1935ء میں ایک یونیورسٹی کے افتتاحی پروگرام میں اس بادشاہ کی بیوی اور دو بیٹیاں اور اس کے وزراء و مشراء کی بیویاں اور بیٹیاں سب بے پردگی کے عالم میں شریک ہوئیں۔ اسی روز اس جشن میں خطاب کرتے ہوئے اس بادشاہ نے اعلان کیا کہ "آج ہم نے زندان کی تمام سلاخوں کو توڑ دیا ہے۔ اب قفس میں رہنے والے قیدی آزاد ہیں اور اُنھیں اختیار ہے کہ وہ اپنے لیے قفس کی جگہ حسین و خوبصورت گھر بنائیں۔ یہ بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھا۔ جی ہاں وہی رضا شاہ پہلوی جو اغیار کے ہر حکم کو فرمانبردار بیٹے کی طرح بجا لاتا تھا۔ جس نے اپنی عزّت اور خودمختاری کو امریکہ و یورپ کے اشاروں پر قربان کر دیا تھا۔ جو امریکہ کی آنکھوں کا تارا، برطانیہ کا چہیتا اور ترکی کا لاڈلا تھا۔
اسے گھمنڈ تھا کہ امریکہ و یورپ کے ساتھ اس کے مضبوط تعلقات ہیں۔ اسے گمان تھا کہ وہ روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس کے روشن خیالی اور ترقی کے نعروں کے خلاف زبان کھولنے والے غیر مہذب، جاہل اور پسماندہ لوگ ہیں۔ لیکن وقت آنے پر ثابت ہوا کہ اس نے اپنے گرد امریکہ اور یورپ کے وعدوں کی جو فصیلیں کھڑی کی ہوئی تھیں، وہ ریت کی دیواریں تھیں۔ آج شہنشاہ ایران کی شخصیّت حرف غلط کی طرح مٹ چکی ہے۔ مغرب کی وہی خرافات جنہیں شہنشاہ ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری سمجھتا تھا، شہنشاہیّت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئیں اور شہنشاہ کے بلند و بانگ دعوے اور نعرے ہی اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے۔
ہمارے سیاستدان اور اربابِ اقتدار بھی جب دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے نعرے لگاتے ہیں تو انہیں سابقہ حکمرانوں کی تاریخ سامنے رکھنی چاہیے۔ انہیں ہر یو ٹرن لینے سے پہلے، ہر سرخ بتی پر اشارہ توڑنے سے پہلے، ہر ایمرجنسی کا سائرن بجانے سے پہلے، امریکی اور برطانوی کارندوں کے ساتھ ملی بھگت کرنے سے پہلے اور ملت پاکستان کے قاتلوں اور دہشت گردوں کے ساتھ دوستی کے لئے ہاتھ بڑھانے سے پہلے، صرف ایک مرتبہ اتنا سوچ لینا چاہیے کہ زمانہ محمد علی جناح کا احترام اور میر جعفر پر لعنت کیوں کرتا ہے؟ سیاستدان اور حکمران اپنی ملت کی سلامتی کے امین ہوتے ہیں، فوج اور پولیس اپنی قوم کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے اور جو لوگ بھی اپنے فریضے کی ادائیگی میں وفاداری کے ساتھ اپنی جان قربان کر دیتے ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں، لیکن جو لوگ قوم کے ساتھ خیانت کرتے ہیں، رہتی دنیا ان پر لعنتیں بھیجتی رہتی ہے۔
آج ملت پاکستان کی مظلومیت تو دیکھئے! کراچی سے لے کر خیبر تک اور پنجاب و بلوچستان سے لے کر گلگت و بلتستان تک ہماری قوم کا ہر بچہ، ہر لمحے اپنی غیر متوقع موت کا انتظار کر رہا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اگلے لمحے کیا ہوجائیگا۔ قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور کچھ تو اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔۔۔ کہیں نہیں ۔۔کہیں نہیں ۔۔۔ لہو کا سراغ۔۔۔اب ہم جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں، جس صوبے کے بھی رہنے والے ہوں اور جو بھی زبان بولتے ہوں، ہمارے سامنے بھی صرف ایک ہی راستہ ہے، چاہے تو دہشت گردوں، غداروں، خونخواروں، قاتلوں، درندوں، وحشیوں اور بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کرنے والوں کے پرچم تلے جمع ہوجائیں اور چاہے تو امن کے علمبرداروں اور وطن کے وفاداروں کے کندھوں سے کندھا ملا لیں۔
ہماری آنکھوں کے سامنے جس طرح میر جعفر اور میر صادق جیسے پاکستان کے دشمنوں اور غداروں کی نسلِ نو پاکستان کو توڑنے کے لئے ڈٹی ہوئی ہے، اسی طرح محمد علی جناح جیسے وفاداروں کی اولاد بھی پاکستان کو بچانے کے لئے سینہ سپر ہے۔ اس وقت طالبان کے یاروں کے خلاف آواز اٹھائیے، غداری کے خلاف آواز اٹھائیے۔ ابھی وقت ہے، ابھی بولئے، ابھی مہم چلائیے، ابھی قوم کو یہ شعور دیجئے کہ غداروں کا جو یار ہے، وہ بھی غدار ہے۔ غداری کو موضوع بنائیے اور غداری کو مسترد کیجئے۔ غداری کے خلاف عوامی شعور کو اس قدر بیدار کیجئے کہ لوگ آسانی سے اس حقیقت کو سمجھنے لگیں کہ اب ہمارے سامنے راستہ صرف ایک ہے، دوسرا نہیں، ملک و قوم کے ساتھ غداری یا وفاداری۔۔۔ غداروں سے نفرت یعنی دین اور ملک و قوم سے محبت۔
آج ایک مرتبہ پھر پشاور کے مصروف ترین علاقہ مینا بازار میں واقع مسجد چشتیہ کے اندر بم دھماکے کے باعث 7 افراد جاں بحق جبکہ 30 سے زائد زخمی ہوگئے۔ یہ دین سے غداری کی انتہاہے،تاریخ وفاداروں اور غداروں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ غداری کی ہزار شکلیں ہیں، صرف بےگناہ انسانوں کو قتل کرنا ہی ملک و ملت کے ساتھ غداری نہیں ہے، بلکہ قاتلوں کو شاباش دینا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا، ان کے جرائم پر پردہ ڈالنا، انہیں اقتدار اور سیاست میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کرنا، ان کے ساتھ مذاکرات کی فضا تیار کرنا، انہیں سیاسی لیڈروں کے طور پر متعارف کرانا، یہ سب ملک و قوم اور ملت کے ساتھ غداری ہے۔
یہ غداری ہے۔۔۔ مساجد میں شہید ہوجانے والے بےگناہ نمازیوں کے خون کے ساتھ،
یہ غداری ہے۔۔۔ بازاروں کے چوراہوں پہ بمب بلاسٹ کے شکار ہوجانے والے معصوم انسانوں کے ساتھ،
یہ غداری ہے ۔۔۔داتا دربار اور بری امام جیسے مقدس مزارات پر خاک و خون میں لت پت ہوجانے والے انسانوں کے ساتھ۔
یہ غداری ہے۔۔۔۔ پاکستان کے سبز پرچم اور ملت پاکستان کے سرخ خون کے ساتھ۔
یہ غداری ہے۔۔۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے پاکستان کے دیانتدار بیوروکریٹس کے خون ساتھ۔۔۔
یہ غداری ہے۔۔۔ یہ غداری ہے۔۔۔ یہ غداری ہے۔۔۔
ہمیں اپنی ملت کی سلامتی کو مصلحتوں کے عوض فروخت نہیں کرنا چاہیے، ہمیں یہ بات خود بھی سمجھنی چاہیے اور پوری ملت پاکستان کو سمجھانی چاہیے کہ دشمن کا دوست، صرف اور صرف دشمن ہوتا ہے۔ اس وقت دہشت گردوں کے یاروں کے خلاف آواز اٹھائیے، غداری کے خلاف آواز اٹھائیے۔ ابھی وقت ہے، ابھی بولئے، ابھی مہم چلائیے، ابھی قوم کو یہ شعور دیجئے کہ غداروں کا جو یار ہے، وہ بھی غدار ہے۔ غداری کو موضوع بنائیے اور غداری کو مسترد کیجئے۔ جو شخص اپنی ملت کے قاتلوں اور دشمنوں کے لئے قابلِ اعتماد ہو، وہ ملت کا خیر خواہ کیسے ہوسکتا ہے۔
یہ اسی صدی کی بات ہے کہ اپنی ملت کے ساتھ غداری کرنے والوں میں سے ایک ایسا بھی تھا کہ وہ تاریخ کے نامور بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اتنا بڑا بادشاہ کہ اپنے آپ کو علی الاعلان بادشاہ کہتا اور اپنے نام کے ساتھ بادشاہ لکھتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ دنیائے سیاست میں اس کے نام کا سکّہ چلتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ کے تمام منصوبے اس کے تعاون اور مدد سے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا تھا کہ وہ اور امریکہ و یورپ کا اہم اتحادی ہے، وہ ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے ملک کو مسلسل مغرب کے سانچے میں ڈھالتا جا رہا تھا۔ اس نے دینی طالبعلموں کو اچھوت اور دینی مدارس کو پسماندگی کے مراکز قرار دے دیا تھا، وہ مذہبی حلقوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے زبان سے دین کی سربلندی کی باتیں کرتا تھا اور عملاً امریکہ و یورپ کا مطیع تھا۔
اس نے انگریزوں کی خوشنودی اور رضا مندی کے لیے اپنی قومی عزت اور ملکی وقار کو بڑے خوبصورت انداز میں نیلام کر دیا تھا۔ وہ دین کی باتوں سے صرف زبانی چسکا لیتا تھا اور پردے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ گردانتا تھا۔ اس نے بے پردگی اور بے حجابی کی تبلیغ کا آغاز اپنے ہی گھر سے کیا۔ 1928ء کے شروع میں پہلی بار اس کی بیوی اور بیٹی مجمع عام میں بے حجاب آئیں۔ اس نے ترکی کا دورہ کرنے کے بعد 1934ء میں کشف حجاب یعنی بے پردگی کا قانون بنایا جو 1935ء میں عملی طور پر نافذ ہوا۔ 1928ء سے لیکر 1935ء تک وہ اپنی ہی ملکی، قومی اور اسلامی حدود و روایات کے خلاف ترقی اور خوشحالی کے نام پر سرد جنگ لڑتا رہا۔
عوام الناس کو "بے پردگی" سے مرعوب کرنے کے لئے جنوری 1935ء میں ایک یونیورسٹی کے افتتاحی پروگرام میں اس بادشاہ کی بیوی اور دو بیٹیاں اور اس کے وزراء و مشراء کی بیویاں اور بیٹیاں سب بے پردگی کے عالم میں شریک ہوئیں۔ اسی روز اس جشن میں خطاب کرتے ہوئے اس بادشاہ نے اعلان کیا کہ "آج ہم نے زندان کی تمام سلاخوں کو توڑ دیا ہے۔ اب قفس میں رہنے والے قیدی آزاد ہیں اور اُنھیں اختیار ہے کہ وہ اپنے لیے قفس کی جگہ حسین و خوبصورت گھر بنائیں۔ یہ بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھا۔ جی ہاں وہی رضا شاہ پہلوی جو اغیار کے ہر حکم کو فرمانبردار بیٹے کی طرح بجا لاتا تھا۔ جس نے اپنی عزّت اور خودمختاری کو امریکہ و یورپ کے اشاروں پر قربان کر دیا تھا۔ جو امریکہ کی آنکھوں کا تارا، برطانیہ کا چہیتا اور ترکی کا لاڈلا تھا۔
اسے گھمنڈ تھا کہ امریکہ و یورپ کے ساتھ اس کے مضبوط تعلقات ہیں۔ اسے گمان تھا کہ وہ روز بروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس کے روشن خیالی اور ترقی کے نعروں کے خلاف زبان کھولنے والے غیر مہذب، جاہل اور پسماندہ لوگ ہیں۔ لیکن وقت آنے پر ثابت ہوا کہ اس نے اپنے گرد امریکہ اور یورپ کے وعدوں کی جو فصیلیں کھڑی کی ہوئی تھیں، وہ ریت کی دیواریں تھیں۔ آج شہنشاہ ایران کی شخصیّت حرف غلط کی طرح مٹ چکی ہے۔ مغرب کی وہی خرافات جنہیں شہنشاہ ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری سمجھتا تھا، شہنشاہیّت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئیں اور شہنشاہ کے بلند و بانگ دعوے اور نعرے ہی اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے۔
ہمارے سیاستدان اور اربابِ اقتدار بھی جب دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے نعرے لگاتے ہیں تو انہیں سابقہ حکمرانوں کی تاریخ سامنے رکھنی چاہیے۔ انہیں ہر یو ٹرن لینے سے پہلے، ہر سرخ بتی پر اشارہ توڑنے سے پہلے، ہر ایمرجنسی کا سائرن بجانے سے پہلے، امریکی اور برطانوی کارندوں کے ساتھ ملی بھگت کرنے سے پہلے اور ملت پاکستان کے قاتلوں اور دہشت گردوں کے ساتھ دوستی کے لئے ہاتھ بڑھانے سے پہلے، صرف ایک مرتبہ اتنا سوچ لینا چاہیے کہ زمانہ محمد علی جناح کا احترام اور میر جعفر پر لعنت کیوں کرتا ہے؟ سیاستدان اور حکمران اپنی ملت کی سلامتی کے امین ہوتے ہیں، فوج اور پولیس اپنی قوم کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے اور جو لوگ بھی اپنے فریضے کی ادائیگی میں وفاداری کے ساتھ اپنی جان قربان کر دیتے ہیں، وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں، لیکن جو لوگ قوم کے ساتھ خیانت کرتے ہیں، رہتی دنیا ان پر لعنتیں بھیجتی رہتی ہے۔
آج ملت پاکستان کی مظلومیت تو دیکھئے! کراچی سے لے کر خیبر تک اور پنجاب و بلوچستان سے لے کر گلگت و بلتستان تک ہماری قوم کا ہر بچہ، ہر لمحے اپنی غیر متوقع موت کا انتظار کر رہا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اگلے لمحے کیا ہوجائیگا۔ قاتل دندناتے پھر رہے ہیں اور کچھ تو اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔۔۔ کہیں نہیں ۔۔کہیں نہیں ۔۔۔ لہو کا سراغ۔۔۔اب ہم جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں، جس صوبے کے بھی رہنے والے ہوں اور جو بھی زبان بولتے ہوں، ہمارے سامنے بھی صرف ایک ہی راستہ ہے، چاہے تو دہشت گردوں، غداروں، خونخواروں، قاتلوں، درندوں، وحشیوں اور بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کرنے والوں کے پرچم تلے جمع ہوجائیں اور چاہے تو امن کے علمبرداروں اور وطن کے وفاداروں کے کندھوں سے کندھا ملا لیں۔
ہماری آنکھوں کے سامنے جس طرح میر جعفر اور میر صادق جیسے پاکستان کے دشمنوں اور غداروں کی نسلِ نو پاکستان کو توڑنے کے لئے ڈٹی ہوئی ہے، اسی طرح محمد علی جناح جیسے وفاداروں کی اولاد بھی پاکستان کو بچانے کے لئے سینہ سپر ہے۔ اس وقت طالبان کے یاروں کے خلاف آواز اٹھائیے، غداری کے خلاف آواز اٹھائیے۔ ابھی وقت ہے، ابھی بولئے، ابھی مہم چلائیے، ابھی قوم کو یہ شعور دیجئے کہ غداروں کا جو یار ہے، وہ بھی غدار ہے۔ غداری کو موضوع بنائیے اور غداری کو مسترد کیجئے۔ غداری کے خلاف عوامی شعور کو اس قدر بیدار کیجئے کہ لوگ آسانی سے اس حقیقت کو سمجھنے لگیں کہ اب ہمارے سامنے راستہ صرف ایک ہے، دوسرا نہیں، ملک و قوم کے ساتھ غداری یا وفاداری۔۔۔ غداروں سے نفرت یعنی دین اور ملک و قوم سے محبت۔