محمود احمد غزنوی
محفلین
http://playit.pk/watch?v=cx7QNakaH6I
عارفِ ربّانی شیخ عبدالغنی العمری الحسنی کے اس لیکچر کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ ابتدائی نصف حصے کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العٰلمین والصلٰوۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد خاتم النبیین و اشرف المرسلین و علیٰ آلہ واصحابہ والتابعین۔ امّا بعد:
دینِ اصلی اور دینِ تاریخی
آج ہم دین اور اسکے ان معنوں کے بارے میں بات کریں گے جن سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ اور قبل اسکے کہ ہم موضوع کے میدان میں داخل ہوں، لازم ہے کہ اس بات کا تذکرہ کرتے چلیں کہ اسلامی کی پہلی تین صدیوں کے گذرجانے کے بعد سے، دین اپنی اصل سے گویا اس قدر دور ہوگیا ہے کہ اسکے معنی ہی الٹ کر رہ گئے ہیں۔ ان تین صدیوں کے بعد امت دین کے ایسے مظاہر میں داخل ہوئی جو اصلِ دین سے کافی مختلف ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر ہونے کی وجہ سے اور انکے ساتھ زندگی گذارنے کی بناء پر اصلی دین پر تھے کیونکہ نورِ نبوت سے براہِ راست متصل تھے، اور نورِ نبوت حق کی دلیل ہوتا ہے۔
چنانچہ اس براہِ راست تعلق سے جس تدیّن (دینداری، مذہبیت) نے جنم لیا ، وہ تدیّن اصلی تھا، ان معنوں میں کہ اس تدیّن کے ذریعے بندے کے معاملات(interactivity) اپنے پروردگار کے ساتھ قائم تھے۔ اور یہ بہت اہم بات ہے کہ بندہ اپنی زندگی میں میں اپنے پروردگار کے ساتھ تعامل (Interaction)رکھتا ہو۔
پوچھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہےکہ آجکا متدیّن یعنی مذہبی انسان ، اصلی دین سے دور ہٹ چکا ہو؟ تو ہم کہتے ہیں کہ ہاں ایسا ہی ہوا ہے۔ لوگوں کی اکثریت، وقت کے ساتھ ساتھ ساتھ اور نورِ نبوت سے دور ہوتے جانے کی بناءپر اسی حال کو پہنچ چکی ہے۔ لیکن امت میں ایک طائفہ (گروہ) ایسا بھی ہے جو دینِ اصلی پر ہے اور حق پر حق کے ساتھ بغیر کسی کمی بیشی کے،قائم ہے۔ اور یہ اس امت پر اللہ کے لطف و کرم کی وجہ سے ہے۔ اور یہ طائفہ جو حق پر حق کے ساتھ قائم ہے، امت کا قلب ہے۔ اور صحابہ کرام کے تدیّن کا تسلسل ہے۔ ان لوگوں کے سوا، باقی سب، تیسری صدی ہجری کے بعد سے آہستہ آہستہ جس تدیّن اور دینداری میں جا داخل ہوئے اس کو ہم تدیّن ِ تاریخی(Historical Religion/Religiosity based in history) کا نام دیتے ہیں.
تدیّن تاریخی کیا ہے؟ تدیّن تاریخی وہ ہے جس میں بندے کا اللہ کے ساتھ معاملہ منقطع ہوجائے، اس تعلق میں کوئی زندگی نہ رہے۔ اور بندہ کا معاملہ اللہ کی بجائے اسکےدین کے ساتھ چلنے لگے۔ مطلب یہ کہ بجائے اسکے کہ دین کو ایک وسیلہ سمجھا جاتا، تدیّن تاریخی کے حامل مذہبی انسان کے نزدیک، وہ ایک مقصد اور غایت بن کر رہ گیا۔
اور اگر لوگوں پر ایک گہری نظر ڈالی جائے تو زیادہ تر اسی صنف میں داخل ہیں۔ لوگوں کا اب تعامل اور دین کے ساتھ معاملہ اسکی نصوص اور احکام کے ساتھ ہی رہ گیا، اللہ کے ساتھ نہیں ۔ اور لازم ہے کہ ہم اس بات کی گہرائی کو سمجھیں۔ کیونکہ باتوںکو سطحیت کے ساتھ لینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخر کار انسان تدیّن تاریخی اور تدیّن اصلی کو ایک ہی بات سمجھنے لگتا ہے۔ اور ہمارا ارادہ ہے کہ تدیّن کی ان دونوں صنفوں کو مزید واضح کریں۔
تدیّن تاریخی کا حامل مذہبی شخص، ضروری نہیں کہ دین کی نصوص اور احکام کے ساتھ خود براہِ راست معاملہ رکھتا ہو، یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس بات کی اہلیت نہ رکھتا ہو، عالم نہ ہو، لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو تاکہ براہِ راست قرآن و سنت سے تعامل کرکے احکام و نصوص کو حاصل کرسکے، چنانچہ وہ کسی فقیہہ کے ساتھ تعامل کرتا ہے۔ اور کبھی اسکا قرآن و سنت اور فقیہہ، دونوں کے ساتھ تعامل ہوتا ہے یعنی قرآن سے جب کسی نص کو حاصل کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے، تو لوگ اس شخص سے رجوع کرتے ہیں جو ان سے زیادہ علم رکھتا ہو، اور یہ شخص فقیہہ کے علاوہ اور کوئی نہیں۔
چنانچہ جب ہم تدیّن تاریخی پر نظر ڈالتے ہیں تو اس بات کی علت اور سبب معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلامی معاشروں میں فقہاء کو اتنی قدر و منزلت کیوں حاصل ہے۔ اور جب ہم صاحبہ کے فقہاء اور متاخرین کے فقہاء کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں تو ان دونوں میں بہت واضح اور جلی فرق دکھائی دیتا ہے۔ اور وہ یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنھم کے نزدیک فقہ ایک عملی چیز تھی (لغوی معنوں کے اعتبار سے) یعنی فقیہہ کے پاس دین کے احکامات پر عمل کرنے کا علم ہوتا تھا۔ اور وہ فقیہہ صحابی دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے کسی طور بھی مختلف دکھائی نہیں دیتے تھے یعنی متاخرین کے فقہاء کی طرح کسی خاص پیشے یا کسی خاص لباس اور ہئیت سے وابستہ نہیں ہوتے تھے۔ صحابہ میں کئی کبار صحابی گذرے ہیں جو فقہ (لغوی معنوں کے اعتبار سے)کے میدان کے شہسوار بھی تھے جیسے امام علی علیہ السلام، بلکہ چاروں خلفاء، اور عبداللہ بن عباس، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور دین کی سمجھ بوجھ میں ان صحابہ کا مشہور ہونا انکے لئے دوسرے صحابہ پر ایک فضیلت رکھتا ہے۔ تعلیم و تحصیل کے اعتبار سے شروع شروع میں ان فقہاء کو جو تخصص حاصل تھا اور جس انداز میں تھا، بعد کے ادوار میں آنے والے فقہاء اور شرعی علوم کی درسگاہوں میں اس تخصص کی شکل اس حد تک تبدیل ہوگئی کہ۔۔۔ جیسا کہ اب ہم دیکھتے ہیں ۔۔۔فقہائے زمانہ عام انسانوں سے اپنے آپ کو لباس اور دوسرے امور میں اتنا متمیز رکھتے ہیں کہ اس امتیاز اور تخصیص میں اہلِ کتاب کی مانند بالکل جداگانہ ہئیت اختیار کرلی ہوئی ہے۔ اور اسی چیز کے متعلق ہم گفتگو کر رہے ہیں۔ اور یہ سب ترسیم الدین یعنی دین کو کسی مخصوص جداگانہ صورت، شکل یا ہئیت کے ساتھ وابستہ کرنے کا نام ہے۔
یعنی دین اب اس پہلے معنی کی طرح اپنی اصل پر یعنی بندے کے اپنے رب کے ساتھ معاملے اور تعلق پر نہیں بلکہ ایک شعبے یا ایک پیشے کی شکل اختیار کرگیا ہے بالخصوص فقہاء کے معاملے میں۔ اور عام لوگوں کے حق میں یہ دین ایک مقطوعہ معاملہ ہے۔ چنانچہ دین کیلئے لوگ فقیہہ سے مدد حاصل کرتے ہیں اور فقیہہ کی معاونت، اللہ کے ساتھ بندے کے معاملے اور تعلق میں گویا ایک حجاب کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے؟جبکہ فقیہہ تو اپنی زبان سے اللہ اور اسکے ساتھ معاملے کی ہی گفتگو کرتا ہے، اور قرآن و حدیث سے استدلال کرتا ہے، اور سیرتِ نبویہ اور حیاتِ صحابہ سے مثالیں پیش کرتا ہے؟ یہ کیسے ہوگیا کہ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ سب کچھ باہم مخالف لگتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ ظاہر سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ باطنی ہے۔ اصل معاملے اور اصلی دین کی بنیاد باطن میں ہے، ظاہر میں نہیں۔ اگر آج کے فقیہہ کے پاس کوئی شخص نماز کے بارے میں کچھ پوچھنے جاتا ہے تو وہ اسے نماز کی حرکات و سکنات کے بارے میں بتائے گا، اسکے، ارکان، افعال اور احکام بتائے گا لیکن اسے یہ پتہ نہیں ہوگا کہ نماز کا باطنی معاملہ کیا ہے؟ بہت کم بتاسکے گا اگر کچھ جانتا ہوا تو۔ اور فقیہہ اس معاملے میں کسی بھی عام شخص کی طرح حجاب میں ہے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ عام انسان سے بھی بدتر حالت میں ہو۔ ایسا کس لئیے؟ اس لئیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ دینِ حق پر قائم ہے، بخلاف اس عامی کے جو اپنے جہل کا اعتراف اور اقرار کرتا ہے۔ کیونکہ اپنے جہل کا اقرار اسے عبودیتِ حق کے کنارے کے پاس لے آتا ہے۔
اور فقیہہ اپنے سارے ظاہری علم کے باوجود کسی عامی سے بھی بدتر حال میں ہوسکتا ہے، کیونکہ معاملہ (interaction) اسکے حق میں مفقود ہے۔ اور باطن کا معاملہ ظاہر کے معاملے سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان اپنے تدیّن کے میدان میں ظاہری طور جو کچھ پیش کرسکتا ہے، وہ اسکے تدیّن کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔اور اسکے تدیّن کی اولین بنیاد جسے معتبر سمجھنا چاہئیے، وہ پاک پروردگار کے ساتھ اسکا باطنی معاملہ ہے۔ اور یہ باطنی معاملہ، قرونِ اخیرہ کے لوگوں کے حق میں گویا مفقود ہوکر رہ گیا ہے، اور وجہ اسکی وہی ہے یعنی تدیّن تاریخی۔
طریقِ فلسفہ اور طریقِ دین
اور جیسا کہ ہم اپنے گذشتہ لیکچر میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ حقیقتِ وجود اور اسکی معرفت کیلئے فلاسفہ جن حدود پر جاکر رک جاتے ہیں جہاں سے انکو آگے بڑھنا نصیب نہیں ہوتا، دین عقلِ بشری کو ان حدود سے آگے لیکر چلتا ہے۔ سبھی فلسفی یہ چاہتے تھے کہ انہیں ارد گرد کی دنیا میں اور اپنے اندر جو کچھ دکھائی دیتا ہے ، اسکی حقیقت تک پہنچیں۔ لیکن وہ اپنی فکر سے جن حدود تک پہنچ گئے ، ان سے اگے بڑھنا انکو نصیب نہ ہوا۔ ایسا کیوں ہے؟ اسلئیے کہ حقیقت تک رسائی، یا یوں کہیں کہ حقیقت کی راہ پر چلنے کی توفیق اور حق کو پہچاننے کیلئے اسکے راستے کا سفر ، اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک حق سبحانہ کا اذن اور اجازت نہ ہو۔
اور اس بات سے تمام فلاسفہ لاعلم ہیں کہ اللہ تک کوئی بھی شخص کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اپنے نفس کی جانب سے اپنے نفس کے ذریعے اس تک پہنچنا چاہتا ہو۔ ایسا کوئی شخص نہیں قطعاّ نہیں جو اس تک اسکی مرضی کے بغیر پہنچ جائے۔ چنانچہ جب فلسفی کی عقل ایک خاص مقام پر آکر عاجز رہ جاتی ہے اور رستہ بند پاتی ہے تو اس مقام پر دین ہی ہے جو عقلِ انسانی کو اللہ کے اذن سے یہ موقع دیتا ہے کہ حق اور حقیقت کی معرفت کیلئے رستے پر آگے بڑھ سکے۔
اور فلاسفہ جس میدان میں آکر چار و ناچار رک جاتے ہیں، اس سے آگے بڑھنے کیلئے اور حقائق کی معرفت کیلئے، فلسفیانہ فکر سےہٹ کر، مختلف قسم کے اسباب و وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔مطلب یہ کہ یہاں دو مختلف اور اہم امور ہیں اور ان دونوں اہم امور کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے جیسا کہ ہم نے تدیّن تاریخی اور تدیّن اصلی میں فرق کیا ہے۔
حقیقت کی راہ میں عقل کے کردار کے حوالے سے ضروری ہے کہ ہم فلاسفہ کی راہ اور متشرعین(الٰہی شریعتوں کو ماننے والے) کی راہ میں فرق کو سمجھیں۔
فلاسفہ محض فکر پر ہی تکیہ کرتے ہیں۔ فکر کیا ہے؟ مختصرا ّ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فکر ایک عقلی عمل ہے جو ہمیشہ مسلّمات اور بدیہیات(Axioms ) سے شروع ہوکر تدریجا ّ(Gradually )آگے کو بڑھتا ہے۔ مسلّمات اور بدیہیات ، فکر کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اہلِ فکر ہمیشہ دو مقدمات یعنی دو باتوں کو تسلیم کرکے ان سے نتیجہ یعنی تیسری بات کا استنباط کرتے ہیں اور پھر اگلے مرحلے میں نتیجے کو اسی طریقے سے حاصل کردہ کسی دوسرے نتیجے سے ملا کر ایک تیسرا نتیجہ برآمد کیا جاتا ہے۔ اور یوں درجہ بدرجہ، مرحلہ وار یکے بعد دیگرے نتائج نکلتے چلے جاتے ہیں فکر اسی طریقے سے آگے بڑھتی ہے۔ چنانچہ ایک اچھے فلسفی کیلئے ضروری ہے کہ وہ فکر کے ان اصولوں کو بہت اہمیت دیتا ہو اور منطق(Logic ) انہی اصولوں سے نکلی ہے۔
لیکن منطق مختلف ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ یہاں مختلف قسم کی منطقیں ہیں۔ یعنی ایک تو عام منطق ہے کہ جسے عام لوگ بھی سمجھتے ہیں اور اسے منطق ہی کا نام دیتے ہیں۔ لیکن فکر و فلسفے کے ہر مذہب (School of Thought ) کی منطق ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔ چنانچہ کوئی بھی مفکّر کسی خاص منطق کو اختیار کرلیتا ہے۔ مطلب یہ کہ تما م مفکرین کو ایک ہی منطق کی قیود و حدود کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ بات فقط اشارے کی حد تک بیان کی ہے تاکہ ہم اپنی فہم کو ذرا وسیع کریں
اور حقیقت کے ادراک کیلئے فلاسفہ کا رستہ یہ ہے کہ فلسفی اپنے آپ کو اور اپنے ارد گرد کی دنیا کو دیکھتا ہے اور اپنی فکر سے حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس سے مختلف قسم کے علوم جو فلسفے سے متعلقہ ہیں، انکی بنیاد پڑی۔ چنانچہ سائیکالوجی اور سوشیالوجی کو بھی ان معنوں میں فلسفے کی شاخ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات تو ہوئی طریقِ فلسفہ کی۔
رہی بات طریقِ متشرّعین کی، تو انکا راستہ ذرا مختلف ہے۔ مختلف ان معنوں میں ہے کہ متشرّعین فکر پر اس طرح تکیہ نہیں کرتے جس طرح فلاسفہ کرتے ہیں۔ اور یہی وہ بات ہے جس سے تدیّنِ تاریخی کے حامل مذہبی افراد ناواقف ہیں۔ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ دینی معلومات کا حصول اور پھر ان سے نتائج برآمد کرکے ہی دین کی راہ میں آگے بڑھا جاسکتا ہے یا یہ کہ اس سےدین میں بہتر ہوا جاسکتا ہے۔ اور یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ لیکن یہ بات غلط ہونے کے ساتھ ساتھ عام بھی ہے۔اور اس غلطی میں عوام تو کیا علماء و فقہاء بھی مبتلا ہیں۔ چنانچہ ہم کسی عالم کو دیکھتے ہیں تو وہ اس گمان میں مبتلا ملتا ہے کہ چونکہ اس کے پاس دین کا علم ہے، چنانچہ وہ تدیّن میں اس شخص سے آگے ہے جسکے پاس یہ علم نہیں ہے۔ اور یہ جہلِ کبیر ہے۔
اور جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ کوئی عامی اور ان پڑھ آدمی بھی ممکن ہے کہ کسی عالم سے زیادہ دیندار ہو۔ اور تدیّن میں اس سے آگے بڑھ جائے، اس بات کے ہوتے ہوئے کہ عالم کے پاس اس عامی سے زیادہ معلومات ہیں۔ اور اسکا سبب تدینّ میں اللہ کے ساتھ معاملے کو پیشِ نظر رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ کیونکہ تدیّن کثرتِ معلومات کا نام نہیں ہے، جیسا کہ آجکل سمجھا جانے لگا ہے۔ بلکہ تدیّن تو اللہ کے ساتھ معاملہ کرنے کا نام ہے۔ دینِ اصیل یہی ہے۔
ہم نے کہا کہ متشرّعین فلاسفہ سے مختلف ہیں کیونکہ وہ فکر پر تکیہ نہیں کرتے ، ان معنوں میں کہ وہ اپنے تدیّن میں آگے بڑھنے کیلئے اپنے پاس موجود مقدمات سے نتائج برآمد نہیں کرتے۔ اچھا تو پھر اس صورت میں اہلِ شریعت، تدیّن میں تقدم کیلئے جو کچھ کرتے ہیں اسے کیا کہا جائے گا؟ اسے کہا جائے گا شریعتوں کے احکام کے مطابق عمل کرنا۔ اور یہیں سے اہلِ شریعت کی منطق فلاسفہ کی منطق سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ ہم اسے منطقِ دینی یا منطقِ ایمانی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن منطقِ دینی زیادہ بہتر نام ہے۔
وارد
منطقِ دینی، منطقِ فلسفی سے الگ ہوتی ہے۔ لازم ہے کہ اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ منطقِ دینی کے مطابق متدیّن کو آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ نے جو حکم دیا ہے اسے پورا کرے، اللہ نے جو اس پر فرض کیا ہے۔۔۔ یعنی عبادات جنہیں ہم شعائر کہتے ہیں۔۔۔ انکو ادا کرے، ان شعائر کی ادائیگی کے بعد اللہ کی جانب سے چو چیز بندے کی طرف آتی ہے اسے وارد کہا جاتا ہے۔ وارد کسی عمل کے نتیجے کی مانند ہے۔ اور یہ بات لفظ 'جزاء 'سے صرفِ نظر کرکے کہی گئی ہے، کیونکہ لوگ بشمول عوام الناس اور علماء، عملِ شرعی کے نتیجے کو عموماّ جزائے آخرت سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ اور یہ ایک غلط بات ہے۔ جزاء ایک تیسری شئے ہے۔ اور اسے دنیوی جزاء بھی سمجھا جاتا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ کچھ اعمال ایسے ہیں جن سے رزق بڑھتا ہے، عمر میں اضافہ ہوتا ہے، یا صالحین کے قلوب میں اس بندے کیلئے محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، الیٰ غیر ذاٰلک۔ لیکن ہم جو بات کہہ رہے ہیں اور جسے ہم دین اور دینداری کے معنی کو سمجھنے کیلئے بنیادی بات سمجھتے ہیں، وہ یہی وارد ہے جو عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ بات صوفیہ اور متصوفین دوسروں کی نسبت زیادہ بہتری سے جانتے ہیں۔ اور یہ بات صوفیہ کو دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی ہے، اگرچہ انکے اس امتیاز کیلئے اور بھی کئی وجوہ اور تفاصیل ہیں اور یہی بات ہے جس سے یہ صوفیہ دینِ تاریخی کی بجائے دینِ اصلی پر اور حق پر قائم ہیں۔ وارد وہ نورانیت ہے جسے اللہ تعالیٰ عبادت کرنے والے بندے کے دل میں انڈیل دیتا ہے۔
فلسفی کی عقل کو فکر کے تدریجی عمل کے ذریعے نئی نئی معلومات ملتی ہیں چنانچہ وہ حق کی معرفت کیلئے اپنے نفس کے ذریعے اپنے نفس کی جانب سے آگے بڑھتا ہے، یہی جبکہ متدیّن اپنے نفس کی جانب سے اپنے رب کی طرف سفر کرتا ہے، ان معنوں میں کہ شرع پر عمل کرنے والے کی طرف نورانی وارد پہنچتا ہے جو اسکے قلب کو صاف کرتا ہے جس سے اسکا قلب پہلے سے زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نور ہمیشہ وسعت عطا کرتا ہے، برخلاف ظلمت کے کہ جو ہمیشہ تنگی پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہنم میں اندھیرا ہوگا۔ اگر جہنم کی آگ میں نور کا امکان بھی ہوتا تو اسے عذاب الشدید کے لفظ سے بیان نہ کیا جاتا۔ اور جہنم کو عذاب کیلئے بنایا گیا ہے نعمت کیلئے نہیں، اگرچہ حظوظ و لذّات سے گھرا ہوا ہے۔۔ یہ صفائی اور یہ وسعت جو نور کی بدولت آتی ہے، اسی کی بدولت اس بندے کا قلب اللہ کے ساتھ تلقیّ یعنی اسکا پیغام وصول کرنے، اس سے ملنے کے قابل بنتاجاتا ہے۔ چنانچہ متدیّن کی عقل اسے ان نئی معلومات تک لیکر جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے وارد کی شکل میں اسکے قلب میں ڈالی ہوتی ہیں۔
اور فلسفی کا معاملہ اسکے برعکس ہے کیونکہ اسے اس چیز کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا جس چیز سے اس نے رہائی پانی چاہی تھی۔ اور یہاں پر فلسفی اور متدیّن کا فرق واضح ہوتا ہے۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ فلسفی کا ادنیٰ ترین متدیّن کے ساتھ موازنہ کیا جاسکے۔ کیونکہ فلسفی کو بالآخر جو شئے زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتی ہے وہ اسکے نفس کے ذریعے اسکے نفس کی جانب سے ہی ہوتی ہے جبکہ متدیّن کو جو کچھ ملا وہ اسکے نفس کی جانب سے نہیں بلکہ اسکے رب کی عطا سے ملا۔
لیکن جو کچھ معلومات مومن کے قلب پر عملِ صالح کے نتیجے کے طور پر وارد ہوتی ہیں، لازم ہے کہ انکی اصل قرآن و سنت میں پائی جاتی ہو اور قرآن و سنت کی سند اسے حاصل ہو تاکہ اس کا نور جانا جاسکے اور پہچانا جاسکے کہ یہ حق کی طرف سے ہے۔ اور اگر قرآن و سنت کی سند اور اصل کے بغیر مطلقاّ امور اخذ کئے جائیں تب اس عمل میں خواہشِ نفس داخل ہوجاتی ہے اور وارد میں ظلمت بھی کھنچی چلی آتی ہے۔ اور یہ اُن مختلف اسباب میں سے ایک سبب ہے جنکی بناء پر لوگوں کو دینداری درست رکھنے کیلئےشیخ یعنی مرشد کی ضرورت پڑتی ہے۔
اور اب ہم گفتگو کو دین اور اسکے معنوں کی طرف موڑتے ہیں۔
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
عارفِ ربّانی شیخ عبدالغنی العمری الحسنی کے اس لیکچر کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ ابتدائی نصف حصے کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العٰلمین والصلٰوۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد خاتم النبیین و اشرف المرسلین و علیٰ آلہ واصحابہ والتابعین۔ امّا بعد:
دینِ اصلی اور دینِ تاریخی
آج ہم دین اور اسکے ان معنوں کے بارے میں بات کریں گے جن سے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔ اور قبل اسکے کہ ہم موضوع کے میدان میں داخل ہوں، لازم ہے کہ اس بات کا تذکرہ کرتے چلیں کہ اسلامی کی پہلی تین صدیوں کے گذرجانے کے بعد سے، دین اپنی اصل سے گویا اس قدر دور ہوگیا ہے کہ اسکے معنی ہی الٹ کر رہ گئے ہیں۔ ان تین صدیوں کے بعد امت دین کے ایسے مظاہر میں داخل ہوئی جو اصلِ دین سے کافی مختلف ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر ہونے کی وجہ سے اور انکے ساتھ زندگی گذارنے کی بناء پر اصلی دین پر تھے کیونکہ نورِ نبوت سے براہِ راست متصل تھے، اور نورِ نبوت حق کی دلیل ہوتا ہے۔
چنانچہ اس براہِ راست تعلق سے جس تدیّن (دینداری، مذہبیت) نے جنم لیا ، وہ تدیّن اصلی تھا، ان معنوں میں کہ اس تدیّن کے ذریعے بندے کے معاملات(interactivity) اپنے پروردگار کے ساتھ قائم تھے۔ اور یہ بہت اہم بات ہے کہ بندہ اپنی زندگی میں میں اپنے پروردگار کے ساتھ تعامل (Interaction)رکھتا ہو۔
پوچھنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہےکہ آجکا متدیّن یعنی مذہبی انسان ، اصلی دین سے دور ہٹ چکا ہو؟ تو ہم کہتے ہیں کہ ہاں ایسا ہی ہوا ہے۔ لوگوں کی اکثریت، وقت کے ساتھ ساتھ ساتھ اور نورِ نبوت سے دور ہوتے جانے کی بناءپر اسی حال کو پہنچ چکی ہے۔ لیکن امت میں ایک طائفہ (گروہ) ایسا بھی ہے جو دینِ اصلی پر ہے اور حق پر حق کے ساتھ بغیر کسی کمی بیشی کے،قائم ہے۔ اور یہ اس امت پر اللہ کے لطف و کرم کی وجہ سے ہے۔ اور یہ طائفہ جو حق پر حق کے ساتھ قائم ہے، امت کا قلب ہے۔ اور صحابہ کرام کے تدیّن کا تسلسل ہے۔ ان لوگوں کے سوا، باقی سب، تیسری صدی ہجری کے بعد سے آہستہ آہستہ جس تدیّن اور دینداری میں جا داخل ہوئے اس کو ہم تدیّن ِ تاریخی(Historical Religion/Religiosity based in history) کا نام دیتے ہیں.
تدیّن تاریخی کیا ہے؟ تدیّن تاریخی وہ ہے جس میں بندے کا اللہ کے ساتھ معاملہ منقطع ہوجائے، اس تعلق میں کوئی زندگی نہ رہے۔ اور بندہ کا معاملہ اللہ کی بجائے اسکےدین کے ساتھ چلنے لگے۔ مطلب یہ کہ بجائے اسکے کہ دین کو ایک وسیلہ سمجھا جاتا، تدیّن تاریخی کے حامل مذہبی انسان کے نزدیک، وہ ایک مقصد اور غایت بن کر رہ گیا۔
اور اگر لوگوں پر ایک گہری نظر ڈالی جائے تو زیادہ تر اسی صنف میں داخل ہیں۔ لوگوں کا اب تعامل اور دین کے ساتھ معاملہ اسکی نصوص اور احکام کے ساتھ ہی رہ گیا، اللہ کے ساتھ نہیں ۔ اور لازم ہے کہ ہم اس بات کی گہرائی کو سمجھیں۔ کیونکہ باتوںکو سطحیت کے ساتھ لینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آخر کار انسان تدیّن تاریخی اور تدیّن اصلی کو ایک ہی بات سمجھنے لگتا ہے۔ اور ہمارا ارادہ ہے کہ تدیّن کی ان دونوں صنفوں کو مزید واضح کریں۔
تدیّن تاریخی کا حامل مذہبی شخص، ضروری نہیں کہ دین کی نصوص اور احکام کے ساتھ خود براہِ راست معاملہ رکھتا ہو، یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس بات کی اہلیت نہ رکھتا ہو، عالم نہ ہو، لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو تاکہ براہِ راست قرآن و سنت سے تعامل کرکے احکام و نصوص کو حاصل کرسکے، چنانچہ وہ کسی فقیہہ کے ساتھ تعامل کرتا ہے۔ اور کبھی اسکا قرآن و سنت اور فقیہہ، دونوں کے ساتھ تعامل ہوتا ہے یعنی قرآن سے جب کسی نص کو حاصل کرنے کی قابلیت نہیں رکھتے، تو لوگ اس شخص سے رجوع کرتے ہیں جو ان سے زیادہ علم رکھتا ہو، اور یہ شخص فقیہہ کے علاوہ اور کوئی نہیں۔
چنانچہ جب ہم تدیّن تاریخی پر نظر ڈالتے ہیں تو اس بات کی علت اور سبب معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلامی معاشروں میں فقہاء کو اتنی قدر و منزلت کیوں حاصل ہے۔ اور جب ہم صاحبہ کے فقہاء اور متاخرین کے فقہاء کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں تو ان دونوں میں بہت واضح اور جلی فرق دکھائی دیتا ہے۔ اور وہ یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنھم کے نزدیک فقہ ایک عملی چیز تھی (لغوی معنوں کے اعتبار سے) یعنی فقیہہ کے پاس دین کے احکامات پر عمل کرنے کا علم ہوتا تھا۔ اور وہ فقیہہ صحابی دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے کسی طور بھی مختلف دکھائی نہیں دیتے تھے یعنی متاخرین کے فقہاء کی طرح کسی خاص پیشے یا کسی خاص لباس اور ہئیت سے وابستہ نہیں ہوتے تھے۔ صحابہ میں کئی کبار صحابی گذرے ہیں جو فقہ (لغوی معنوں کے اعتبار سے)کے میدان کے شہسوار بھی تھے جیسے امام علی علیہ السلام، بلکہ چاروں خلفاء، اور عبداللہ بن عباس، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور دین کی سمجھ بوجھ میں ان صحابہ کا مشہور ہونا انکے لئے دوسرے صحابہ پر ایک فضیلت رکھتا ہے۔ تعلیم و تحصیل کے اعتبار سے شروع شروع میں ان فقہاء کو جو تخصص حاصل تھا اور جس انداز میں تھا، بعد کے ادوار میں آنے والے فقہاء اور شرعی علوم کی درسگاہوں میں اس تخصص کی شکل اس حد تک تبدیل ہوگئی کہ۔۔۔ جیسا کہ اب ہم دیکھتے ہیں ۔۔۔فقہائے زمانہ عام انسانوں سے اپنے آپ کو لباس اور دوسرے امور میں اتنا متمیز رکھتے ہیں کہ اس امتیاز اور تخصیص میں اہلِ کتاب کی مانند بالکل جداگانہ ہئیت اختیار کرلی ہوئی ہے۔ اور اسی چیز کے متعلق ہم گفتگو کر رہے ہیں۔ اور یہ سب ترسیم الدین یعنی دین کو کسی مخصوص جداگانہ صورت، شکل یا ہئیت کے ساتھ وابستہ کرنے کا نام ہے۔
یعنی دین اب اس پہلے معنی کی طرح اپنی اصل پر یعنی بندے کے اپنے رب کے ساتھ معاملے اور تعلق پر نہیں بلکہ ایک شعبے یا ایک پیشے کی شکل اختیار کرگیا ہے بالخصوص فقہاء کے معاملے میں۔ اور عام لوگوں کے حق میں یہ دین ایک مقطوعہ معاملہ ہے۔ چنانچہ دین کیلئے لوگ فقیہہ سے مدد حاصل کرتے ہیں اور فقیہہ کی معاونت، اللہ کے ساتھ بندے کے معاملے اور تعلق میں گویا ایک حجاب کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے؟جبکہ فقیہہ تو اپنی زبان سے اللہ اور اسکے ساتھ معاملے کی ہی گفتگو کرتا ہے، اور قرآن و حدیث سے استدلال کرتا ہے، اور سیرتِ نبویہ اور حیاتِ صحابہ سے مثالیں پیش کرتا ہے؟ یہ کیسے ہوگیا کہ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وہ سب کچھ باہم مخالف لگتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ ظاہر سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ باطنی ہے۔ اصل معاملے اور اصلی دین کی بنیاد باطن میں ہے، ظاہر میں نہیں۔ اگر آج کے فقیہہ کے پاس کوئی شخص نماز کے بارے میں کچھ پوچھنے جاتا ہے تو وہ اسے نماز کی حرکات و سکنات کے بارے میں بتائے گا، اسکے، ارکان، افعال اور احکام بتائے گا لیکن اسے یہ پتہ نہیں ہوگا کہ نماز کا باطنی معاملہ کیا ہے؟ بہت کم بتاسکے گا اگر کچھ جانتا ہوا تو۔ اور فقیہہ اس معاملے میں کسی بھی عام شخص کی طرح حجاب میں ہے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ عام انسان سے بھی بدتر حالت میں ہو۔ ایسا کس لئیے؟ اس لئیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ دینِ حق پر قائم ہے، بخلاف اس عامی کے جو اپنے جہل کا اعتراف اور اقرار کرتا ہے۔ کیونکہ اپنے جہل کا اقرار اسے عبودیتِ حق کے کنارے کے پاس لے آتا ہے۔
اور فقیہہ اپنے سارے ظاہری علم کے باوجود کسی عامی سے بھی بدتر حال میں ہوسکتا ہے، کیونکہ معاملہ (interaction) اسکے حق میں مفقود ہے۔ اور باطن کا معاملہ ظاہر کے معاملے سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان اپنے تدیّن کے میدان میں ظاہری طور جو کچھ پیش کرسکتا ہے، وہ اسکے تدیّن کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔اور اسکے تدیّن کی اولین بنیاد جسے معتبر سمجھنا چاہئیے، وہ پاک پروردگار کے ساتھ اسکا باطنی معاملہ ہے۔ اور یہ باطنی معاملہ، قرونِ اخیرہ کے لوگوں کے حق میں گویا مفقود ہوکر رہ گیا ہے، اور وجہ اسکی وہی ہے یعنی تدیّن تاریخی۔
طریقِ فلسفہ اور طریقِ دین
اور جیسا کہ ہم اپنے گذشتہ لیکچر میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ حقیقتِ وجود اور اسکی معرفت کیلئے فلاسفہ جن حدود پر جاکر رک جاتے ہیں جہاں سے انکو آگے بڑھنا نصیب نہیں ہوتا، دین عقلِ بشری کو ان حدود سے آگے لیکر چلتا ہے۔ سبھی فلسفی یہ چاہتے تھے کہ انہیں ارد گرد کی دنیا میں اور اپنے اندر جو کچھ دکھائی دیتا ہے ، اسکی حقیقت تک پہنچیں۔ لیکن وہ اپنی فکر سے جن حدود تک پہنچ گئے ، ان سے اگے بڑھنا انکو نصیب نہ ہوا۔ ایسا کیوں ہے؟ اسلئیے کہ حقیقت تک رسائی، یا یوں کہیں کہ حقیقت کی راہ پر چلنے کی توفیق اور حق کو پہچاننے کیلئے اسکے راستے کا سفر ، اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک حق سبحانہ کا اذن اور اجازت نہ ہو۔
اور اس بات سے تمام فلاسفہ لاعلم ہیں کہ اللہ تک کوئی بھی شخص کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اپنے نفس کی جانب سے اپنے نفس کے ذریعے اس تک پہنچنا چاہتا ہو۔ ایسا کوئی شخص نہیں قطعاّ نہیں جو اس تک اسکی مرضی کے بغیر پہنچ جائے۔ چنانچہ جب فلسفی کی عقل ایک خاص مقام پر آکر عاجز رہ جاتی ہے اور رستہ بند پاتی ہے تو اس مقام پر دین ہی ہے جو عقلِ انسانی کو اللہ کے اذن سے یہ موقع دیتا ہے کہ حق اور حقیقت کی معرفت کیلئے رستے پر آگے بڑھ سکے۔
اور فلاسفہ جس میدان میں آکر چار و ناچار رک جاتے ہیں، اس سے آگے بڑھنے کیلئے اور حقائق کی معرفت کیلئے، فلسفیانہ فکر سےہٹ کر، مختلف قسم کے اسباب و وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔مطلب یہ کہ یہاں دو مختلف اور اہم امور ہیں اور ان دونوں اہم امور کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے جیسا کہ ہم نے تدیّن تاریخی اور تدیّن اصلی میں فرق کیا ہے۔
حقیقت کی راہ میں عقل کے کردار کے حوالے سے ضروری ہے کہ ہم فلاسفہ کی راہ اور متشرعین(الٰہی شریعتوں کو ماننے والے) کی راہ میں فرق کو سمجھیں۔
فلاسفہ محض فکر پر ہی تکیہ کرتے ہیں۔ فکر کیا ہے؟ مختصرا ّ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فکر ایک عقلی عمل ہے جو ہمیشہ مسلّمات اور بدیہیات(Axioms ) سے شروع ہوکر تدریجا ّ(Gradually )آگے کو بڑھتا ہے۔ مسلّمات اور بدیہیات ، فکر کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور اہلِ فکر ہمیشہ دو مقدمات یعنی دو باتوں کو تسلیم کرکے ان سے نتیجہ یعنی تیسری بات کا استنباط کرتے ہیں اور پھر اگلے مرحلے میں نتیجے کو اسی طریقے سے حاصل کردہ کسی دوسرے نتیجے سے ملا کر ایک تیسرا نتیجہ برآمد کیا جاتا ہے۔ اور یوں درجہ بدرجہ، مرحلہ وار یکے بعد دیگرے نتائج نکلتے چلے جاتے ہیں فکر اسی طریقے سے آگے بڑھتی ہے۔ چنانچہ ایک اچھے فلسفی کیلئے ضروری ہے کہ وہ فکر کے ان اصولوں کو بہت اہمیت دیتا ہو اور منطق(Logic ) انہی اصولوں سے نکلی ہے۔
لیکن منطق مختلف ہوسکتی ہے۔ یعنی یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ یہاں مختلف قسم کی منطقیں ہیں۔ یعنی ایک تو عام منطق ہے کہ جسے عام لوگ بھی سمجھتے ہیں اور اسے منطق ہی کا نام دیتے ہیں۔ لیکن فکر و فلسفے کے ہر مذہب (School of Thought ) کی منطق ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔ چنانچہ کوئی بھی مفکّر کسی خاص منطق کو اختیار کرلیتا ہے۔ مطلب یہ کہ تما م مفکرین کو ایک ہی منطق کی قیود و حدود کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ بات فقط اشارے کی حد تک بیان کی ہے تاکہ ہم اپنی فہم کو ذرا وسیع کریں
اور حقیقت کے ادراک کیلئے فلاسفہ کا رستہ یہ ہے کہ فلسفی اپنے آپ کو اور اپنے ارد گرد کی دنیا کو دیکھتا ہے اور اپنی فکر سے حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس سے مختلف قسم کے علوم جو فلسفے سے متعلقہ ہیں، انکی بنیاد پڑی۔ چنانچہ سائیکالوجی اور سوشیالوجی کو بھی ان معنوں میں فلسفے کی شاخ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ یہ بات تو ہوئی طریقِ فلسفہ کی۔
رہی بات طریقِ متشرّعین کی، تو انکا راستہ ذرا مختلف ہے۔ مختلف ان معنوں میں ہے کہ متشرّعین فکر پر اس طرح تکیہ نہیں کرتے جس طرح فلاسفہ کرتے ہیں۔ اور یہی وہ بات ہے جس سے تدیّنِ تاریخی کے حامل مذہبی افراد ناواقف ہیں۔ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ دینی معلومات کا حصول اور پھر ان سے نتائج برآمد کرکے ہی دین کی راہ میں آگے بڑھا جاسکتا ہے یا یہ کہ اس سےدین میں بہتر ہوا جاسکتا ہے۔ اور یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ لیکن یہ بات غلط ہونے کے ساتھ ساتھ عام بھی ہے۔اور اس غلطی میں عوام تو کیا علماء و فقہاء بھی مبتلا ہیں۔ چنانچہ ہم کسی عالم کو دیکھتے ہیں تو وہ اس گمان میں مبتلا ملتا ہے کہ چونکہ اس کے پاس دین کا علم ہے، چنانچہ وہ تدیّن میں اس شخص سے آگے ہے جسکے پاس یہ علم نہیں ہے۔ اور یہ جہلِ کبیر ہے۔
اور جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ کوئی عامی اور ان پڑھ آدمی بھی ممکن ہے کہ کسی عالم سے زیادہ دیندار ہو۔ اور تدیّن میں اس سے آگے بڑھ جائے، اس بات کے ہوتے ہوئے کہ عالم کے پاس اس عامی سے زیادہ معلومات ہیں۔ اور اسکا سبب تدینّ میں اللہ کے ساتھ معاملے کو پیشِ نظر رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ کیونکہ تدیّن کثرتِ معلومات کا نام نہیں ہے، جیسا کہ آجکل سمجھا جانے لگا ہے۔ بلکہ تدیّن تو اللہ کے ساتھ معاملہ کرنے کا نام ہے۔ دینِ اصیل یہی ہے۔
ہم نے کہا کہ متشرّعین فلاسفہ سے مختلف ہیں کیونکہ وہ فکر پر تکیہ نہیں کرتے ، ان معنوں میں کہ وہ اپنے تدیّن میں آگے بڑھنے کیلئے اپنے پاس موجود مقدمات سے نتائج برآمد نہیں کرتے۔ اچھا تو پھر اس صورت میں اہلِ شریعت، تدیّن میں تقدم کیلئے جو کچھ کرتے ہیں اسے کیا کہا جائے گا؟ اسے کہا جائے گا شریعتوں کے احکام کے مطابق عمل کرنا۔ اور یہیں سے اہلِ شریعت کی منطق فلاسفہ کی منطق سے علیحدہ ہوجاتی ہے۔ ہم اسے منطقِ دینی یا منطقِ ایمانی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن منطقِ دینی زیادہ بہتر نام ہے۔
وارد
منطقِ دینی، منطقِ فلسفی سے الگ ہوتی ہے۔ لازم ہے کہ اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ منطقِ دینی کے مطابق متدیّن کو آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ نے جو حکم دیا ہے اسے پورا کرے، اللہ نے جو اس پر فرض کیا ہے۔۔۔ یعنی عبادات جنہیں ہم شعائر کہتے ہیں۔۔۔ انکو ادا کرے، ان شعائر کی ادائیگی کے بعد اللہ کی جانب سے چو چیز بندے کی طرف آتی ہے اسے وارد کہا جاتا ہے۔ وارد کسی عمل کے نتیجے کی مانند ہے۔ اور یہ بات لفظ 'جزاء 'سے صرفِ نظر کرکے کہی گئی ہے، کیونکہ لوگ بشمول عوام الناس اور علماء، عملِ شرعی کے نتیجے کو عموماّ جزائے آخرت سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ اور یہ ایک غلط بات ہے۔ جزاء ایک تیسری شئے ہے۔ اور اسے دنیوی جزاء بھی سمجھا جاتا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ کچھ اعمال ایسے ہیں جن سے رزق بڑھتا ہے، عمر میں اضافہ ہوتا ہے، یا صالحین کے قلوب میں اس بندے کیلئے محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، الیٰ غیر ذاٰلک۔ لیکن ہم جو بات کہہ رہے ہیں اور جسے ہم دین اور دینداری کے معنی کو سمجھنے کیلئے بنیادی بات سمجھتے ہیں، وہ یہی وارد ہے جو عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ بات صوفیہ اور متصوفین دوسروں کی نسبت زیادہ بہتری سے جانتے ہیں۔ اور یہ بات صوفیہ کو دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی ہے، اگرچہ انکے اس امتیاز کیلئے اور بھی کئی وجوہ اور تفاصیل ہیں اور یہی بات ہے جس سے یہ صوفیہ دینِ تاریخی کی بجائے دینِ اصلی پر اور حق پر قائم ہیں۔ وارد وہ نورانیت ہے جسے اللہ تعالیٰ عبادت کرنے والے بندے کے دل میں انڈیل دیتا ہے۔
فلسفی کی عقل کو فکر کے تدریجی عمل کے ذریعے نئی نئی معلومات ملتی ہیں چنانچہ وہ حق کی معرفت کیلئے اپنے نفس کے ذریعے اپنے نفس کی جانب سے آگے بڑھتا ہے، یہی جبکہ متدیّن اپنے نفس کی جانب سے اپنے رب کی طرف سفر کرتا ہے، ان معنوں میں کہ شرع پر عمل کرنے والے کی طرف نورانی وارد پہنچتا ہے جو اسکے قلب کو صاف کرتا ہے جس سے اسکا قلب پہلے سے زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نور ہمیشہ وسعت عطا کرتا ہے، برخلاف ظلمت کے کہ جو ہمیشہ تنگی پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہنم میں اندھیرا ہوگا۔ اگر جہنم کی آگ میں نور کا امکان بھی ہوتا تو اسے عذاب الشدید کے لفظ سے بیان نہ کیا جاتا۔ اور جہنم کو عذاب کیلئے بنایا گیا ہے نعمت کیلئے نہیں، اگرچہ حظوظ و لذّات سے گھرا ہوا ہے۔۔ یہ صفائی اور یہ وسعت جو نور کی بدولت آتی ہے، اسی کی بدولت اس بندے کا قلب اللہ کے ساتھ تلقیّ یعنی اسکا پیغام وصول کرنے، اس سے ملنے کے قابل بنتاجاتا ہے۔ چنانچہ متدیّن کی عقل اسے ان نئی معلومات تک لیکر جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے وارد کی شکل میں اسکے قلب میں ڈالی ہوتی ہیں۔
اور فلسفی کا معاملہ اسکے برعکس ہے کیونکہ اسے اس چیز کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا جس چیز سے اس نے رہائی پانی چاہی تھی۔ اور یہاں پر فلسفی اور متدیّن کا فرق واضح ہوتا ہے۔ یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ فلسفی کا ادنیٰ ترین متدیّن کے ساتھ موازنہ کیا جاسکے۔ کیونکہ فلسفی کو بالآخر جو شئے زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتی ہے وہ اسکے نفس کے ذریعے اسکے نفس کی جانب سے ہی ہوتی ہے جبکہ متدیّن کو جو کچھ ملا وہ اسکے نفس کی جانب سے نہیں بلکہ اسکے رب کی عطا سے ملا۔
لیکن جو کچھ معلومات مومن کے قلب پر عملِ صالح کے نتیجے کے طور پر وارد ہوتی ہیں، لازم ہے کہ انکی اصل قرآن و سنت میں پائی جاتی ہو اور قرآن و سنت کی سند اسے حاصل ہو تاکہ اس کا نور جانا جاسکے اور پہچانا جاسکے کہ یہ حق کی طرف سے ہے۔ اور اگر قرآن و سنت کی سند اور اصل کے بغیر مطلقاّ امور اخذ کئے جائیں تب اس عمل میں خواہشِ نفس داخل ہوجاتی ہے اور وارد میں ظلمت بھی کھنچی چلی آتی ہے۔ اور یہ اُن مختلف اسباب میں سے ایک سبب ہے جنکی بناء پر لوگوں کو دینداری درست رکھنے کیلئےشیخ یعنی مرشد کی ضرورت پڑتی ہے۔
اور اب ہم گفتگو کو دین اور اسکے معنوں کی طرف موڑتے ہیں۔
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
آخری تدوین: