دین-3 (کلمہ شہادت-1)

دین-3 (کلمہِ شہادت-1)
عارف باللہ شیخ عبدالغنی العمری الحسنی کے تیسرے لیکچر کے ابتدائی حصے کا اردو ترجمہ پیش ِخدمت ہے ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد للہ رب العٰلمین والصلاۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد اشر ف المرسلین و خاتم النبیّین و علیٰ آلہ والصحابۃ والتابعین۔ وامّا بعد:
آج ہم کلمہِ شہادت پر گفتگو کریں گے اور یہ اسکا پہلا حصہ ہے۔ شہادۃ وہ کنجی ہے جس سے اللہ کے رستے کا دروازہ کھلتا ہے۔ چنانچہ دو باتوں کی شہادت زبان سے ادا کرکے سلوک الی اللہ کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اور کسی کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ان دو باتوں کی شہادت دئیے بغیر صراطِ مستقیم پر گامزن ہوسکے۔
ہم یہاں صراطِ مستقیم اور دیگر تمام راستے جو مستقیم نہیں ہیں، انکے درمیان فرق واضح کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ" اور یہ کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اس کی پیروی کرو، اور (دوسرے) راستوں پر نہ چلو پھر وہ (راستے) تمہیں اﷲ کی راہ سے جدا کر دیں گے، یہی وہ بات ہے جس کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
یہ آیت دلیل ہے کہ صراطِ مستقیم ایک ہی ہے جس میں تعدد نہیں۔ یہ صراطِ مستقیم جسکی طرف اللہ نے اپنے بندوں کو بلایا ہے، اس میں داخلہ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت زبان سے ادا کردینے سے ہوتا ہے۔
اسے صراطِ مستقیم کیوں کہا گیا؟ اسلئے کہ جیسا کہ ہم نے اس سے قبل بیان کیا کہ دین کی دو غایتیں ہیں۔ پہلی غایت ہے وصول الی اللہ ،اور دوسری غایت ہے وصولِ جنت۔ اور ہم نے کہا کہ پہلی غایت خواص کیلئے ہے جبکہ دوسری غایت میں عوام بھی شریک ہیں۔ اور صراطِ مستقیم کو صراطِ مستقیم اسلئے کہا جاتا ہے کہ یہ ان دو غایتوں تک پہنچاتا ہے۔ جبکہ اسکے سوا دیگر تمام راستے، غیر مستقیم ہیں کیونکہ یہ ان دو مقامات تک نہیں پہنچاتے۔ اور ان راستوں کو انکی کثرت کی وجہ سے شمار کرنا ممکن نہیں۔ اور جتنے راستے صراطِ مستقیم کی مخالف سمت میں ہیں، سب کے سب آگ تک پہنچاتے ہیں، چنانچہ انہیں استقامت کی صفت سے بیان نہیں کیا گیا، کیونکہ یہ دین کی اس غرض و غایت تک نہیں پہنچاتے جسکا ابھی تذکرہ کیا گیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام کے تمام بندے سالک ہیں، کسی نہ کسی رستے پر چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحاً فَمُلَاقِيهِ."
(اے انسان! تو اپنے رب تک پہنچنے میں سخت مشقتیں برداشت کرتا ہے بالآخر تجھے اسی سے جا ملنا ہے)۔ یہاں خطاب انسان سے ہے اور انسان لفظِ عام (General) ہے، چنانچہ اس میں مؤمن اور کافر، سبھی شامل ہیں۔ اور کدح راستے کی مشقّت کو کہتے ہیں۔ چنانچہ یہ آیت دلیل ہے کہ ہر انسان اللہ کی طرف جارہا ہے اور اسکی دلیل ہے آیت میں موجود لفظ ' فملاقیہ '۔ چنانچہ ہر بندہ خواہ جیسی بھی دوڑ دھوپ سے گذرے، بالآخر اپنے رب سے ملاقات کرنے والا ہے۔ پس فرق یہ ہے صراطِ مستقیم اور دوسرے راستوں میں کہ دوسرے رستے آگ سے ملحق ہیں اور آگ کے سپرد کرتے ہیں ، چنانچہ غیر مستقیم ہیں۔
اصحابِ ہندسہ (Geometry) کا یہ کہنا ہے کہ دو نقاط (Points)کے درمیان مختصر ترین راستہ خطِ مستقیم (Straight Line) کہلاتا ہے۔ چنانچہ اگر دین ایک رستہ ہے تو اس رستے کا پہلا نقطہ (Starting Point) نفس ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسکی غایت(End) ہیں۔ چنانچہ دینِ مشروع جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے محض اپنے فضل سے شرع کیا، وہ مختصر ترین راستہ ہے جس سے اس غایت تک پہنچا جاسکتا ہے۔
اور دیگر تمام رستے، غیر مشروع ہونے کی وجہ سے مخالفت کے حامل ہیں، کیونکہ غیر ماذون ہیں یعنی اجازت یافتہ نہیں ہیں۔ چنانچہ ہر وہ سالک جو ان سُبل(Paths) میں سے کسی سبیل میں چلتا ہے، وہ رستہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر اجازت یافتہ ہے۔ چنانچہ یہاں سے دُوری آئی۔ چنانچہ جب وہ آگ سے ملحق ہوا تو یہی تو دراصل وہ دوری اور بُعد ہے۔ کیونکہ اصحاب النار کی صفت ہے دوری، جبکہ اصحاب الجنۃ کی صفت ہے قُرب۔ آللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " کلّا انھم الیوم لربھم لمحجوبون" (ہرگز نہیں، یہ لوگ اس روز اپنے رب سے حجاب میں ہونگے)۔ حجاب سے مراد ہے بُعد، دوری۔ یہ کلام اصحاب النار کیلئے ہے۔ اور ایک دوسری آیت میں ارشادہے کہ "اولٰئک یُنادون من مکان بعید" ( اور وہ کسی دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں) ۔ اور یہاں اللہ تعالیٰ نے بُعد کو صراحت سے بیان فرمادیا۔
چنانچہ اب ہم کلمہِ شہادت کی طرف بیان کا رخ موڑتے ہیں، جو اس صراطِ مستقیم کی کنجی ہے جو جنت اور معرفتِ حق تک بندے کو پہنچاتا ہے۔
سب سے پہلے ہم اس شہادہ مبارکہ کے خصائص کی آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ پرانی امتیں جو پروردگار کی شریعتوں کی حامل تھیں، ان سے اس طرح کلمے کی ادائیگی کا مطابہ نہیں کیا گیا تھا جس طرح ہم سے ہے۔ ان لوگوں کیلئے دین میں داخل ہونے کیلئے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی تھی کہ جسکے مطابق کسی مخصوص لغوی ترکیب کاحامل کوئی جملہ یا جملے زبان سےادا کئے جانا ضروری ہوں۔ انکے لئے اتنا کافی تھا کہ وہ اللہ کے ایک ہونے اور اپنے نبی یا رسول کے منجانب اللہ ہونے پر ایمان رکھتے ہوں۔ دین میں داخل ہونے کیلئے انکے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ یہود کے نزدیک شہادت کے مترادف ایک کلمہ تھا جسے وہ شما یسرائیل (Shema Yisrael) کہتے ہیں۔ یہ عربی زبان سے ملتا جلتا کلمہ ہے شما سے مراد ہے اسمع یعنی سنو، مقصد یہ کہ اس بات کو سمجھو۔ یہ لفظ یہودیوں کے صحیفے سِفر التثنیہ (Book of Deuteronomy) سے ماخوذ ہے جو عہدنامہ قدیم میں شامل ہے۔ اسکا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ " اسمع یا اسرائیل، الرب الٰھنا الٰہ واحد" (سنو اے اسرائیل ! ہمارا پروردگار ، ہمارا معبود خدائے واحد ہے)۔ چنانچہ یہ پورا فقرہ جو سِفر التثنیہ میں آیا ہے، یہود کے نزدیک کلمہ توحید کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اور وہ دو مرتبہ روزانہ اسے پڑھتے ہیں ۔ایک مرتبہ صبح اور ایک مرتبہ رات کی نماز میں۔ لیکن یہاں توحید کے معنی مفہوم کے طور پر لئے گئے ہیں کیونکہ کسی مخصوص لغوی ترکیب اور ترتیب کے ساتھ کوئی جملہ پڑھنا انکے دین میں کوئی شرط نہیں ہے جیسا کہ ہمارے یہاں ہے۔
یہ تو یہود کے حوالے سے تھا، جہاں تک نصاریٰ کی بات ہے جو کہ یہود کی نسبت ہمارے زیادہ قریب ہیں، اگر نصاریٰ کے ہاں کوئی ایسا کلمہ ہوتا جسے پڑھنا دین میں دخول کیلئے شرط ہوتا اور جو اللہ کی الوہیت کے اقرار اور عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت کے اقرار کی شہادت ہوتا تو وہ کبھی بھی اس گمرہی میں نہ پڑتے جس میں انکی اکثریت گرفتار ہوئی۔ ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر بالفرض وہ اس بات کی شہادت دیتے ہوتے کہ لا الہ الا اللہ عیسی رسول اللہ، تو اس کلمے کی شدتِ وضوح(Clarity) اور تواتر کی وجہ سے وہ اس گمرہی میں نہ پڑتے۔ لیکن نصاریٰ کے حق میں یہ گمرہی وقوع پذیر ہوئی اور وہ عیسیٰ علیہ السلام میں الوہیت اور خدا کا بیٹا ہونے کا اعتقاد کرنے لگے۔
اب ہم کلمہ شہادت یعنی اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ کے حوالے سے گفتگو کریں گے کہ دینِ میں اسکا کیا مقام ہے۔
یہ جملہ (اشہد ان لاالہ الا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ) اپنی مخصوص عبارت، اور ترکیب کی وجہ سے بذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔ اور وہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح مسلمان اور علمائے اسلام اس کلمے کو سمجھنے میں اختلافات کا شکار ہوئے۔
حقیقت یہ ہے کہ دینِ اسلام میں داخل ہونے کیلئے اس کلمے کو صرف زبان سے ادا کردینے کا ہی مطالبہ کیا گیا ہے، اسکی فہم اور اسکے علم کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ اور یہ وہ بات ہے جس سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں۔ اور یہ اس کلمے کی قوّت میں سے ہے کہ یہ انسان کے باطن میں اپنی کارفرمائی دکھاتا ہے حتیٰ کہ اسکے ظاہر پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جو شخص اسکا مطلب بھی نہیں جانتا، یہ محض زبان سے ادا کردینے سے اس شخص پر اپنا عمل سرانجام دیتا ہے۔ اور یہ بات اس کلمے کی علوِّ شان اور عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
شرع سے مکلف ہونے کی جہت سے دیکھیں تو اسلام قبول کرنے والے شخص کیلئے بس اتنا ضروری ہے کہ جب اسکا باطن اس کلمے کے معنوں کو اجمالی طور پر قبول کرلے تو اسکے بعد ان دونوں شہادتوں کو زبان سے ادا کرے۔ یعنی کلمہ شہادت ادا کرنے سے پہلے مومن کیلئے ایمان مجمل کا ہونا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ یہ اعتقاد رکھے کہ صرف اللہ عبادت کے لائق ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایک ہے اور اس بات کی تصدیق کرے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہی اللہ کی طرف سے اسکے مبلغ ہیں۔ بس یہ اجمالی ایمان ہے جو اسلام میں داخل ہونے والے کیلئے ہونا ضروری ہے، چنانچہ اس اجمالی ایمان کے ساتھ جب وہ کلمہ شہادت پڑھ لیتا ہے ، تو اسکا شمار مسلمانوں میں ہونے لگتا ہے۔ ہم اس ایمانِ مجمل پر بعد میں گفتگو کریں گے۔
اس وقت ہم ان مختلف معانی کی طرف نظر ڈالتے ہیں جو علماء نے اس کلمے کے بارے میں بیان کئے ہیں، اور بہتر تھا کہ وہ ایسے معانی نہ ہی بیان کرتے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کلمے کے حوالے سے فرمایا " فاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ " (پس جان لیجئے کہ نہیں کوئی معبود مگر یہ کہ اللہ)۔ یہاں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا ہے۔ فاعلم انہ لا الہ الا اللہ۔ یعنی جان لیجئے۔ چنانچہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لا الہ الا اللہ کو جان لینا، اسکا علم رکھنا، ہر کسی کی پہنچ میں نہیں ہے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مخصوص ہے اور جو کچھ علومِ الٰہیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مخصوص ہے اس میں انکے وارثین یعنی وارثینِ نبوت، اولیائے کاملین بھی شامل ہیں۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے وارثین کے علاوہ اور کسی کو لا الہ الا اللہ کے علم تک رسائی نہیں ہے سوائے اس کلمے کے لغوی معنوں اور قرآن و سنت سے اخذ کئے گئے ظاہری معنوں کے۔
ہماری مراد یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ کی ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت ہر مومن کی دسترس میں نہیں۔ چنانچہ لا الہ الا اللہ کے معانی میں علمائے شریعت اور عوام المومنین کا کلام کرنا اس جگہ داخل ہونے کی کوشش کرنے کے مترادف ہے جو انکے لئے نہیں ہے۔ چنانچہ اسی آیت کے اگلے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ مومنین اور مومنات کی غلطیوں پر آپ انکے لئے مغفرت طلب کیجئے۔ یعنی ان مومنین اور مومنات کی نسبت فرمایا گیا جو اس کلمے میں اپنی طرف سےکلام کرکےاپنے مقام سے بالاتر امر میں دخل دینے کا نامناسب کام کرتے ہیں۔
لا الہ الا اللہ کے معانی میں بہت سے قدیم و جدید علماء نے کلام کیا ہے۔ اور ہم مختصراّ کچھ معانی یہاں بیان کرتے ہیں۔
کلمہ شہادت میں سب سے پہلے لفظ 'اشہد' ادا کیا جاتا ہے۔ اور اشہد کا مادہ 'شہد' ہے جسکے لغت میں کئی معنی بیان ہوئے ہیں، چنانچہ حاضر کرنا، حاضر ہونا، اقرار کرنا، اور بات سے دلیل دینا، گواہی دینا اور شہود کے معنی بھی ہیں یعنی دیکھنا۔ اور یہاں مراد ہے بصیرت کی نگاہ سے دیکھنا۔ چنانچہ جس بات کو نظرِ بصیرت سے دیکھا گیا ہے یا جسکی گواہی دی گئی ہے وہ ہے لا الہ الا اللہ۔ اسکا پہلا جزو یعنی لا الہ نفی ہے، جبکہ دوسرا جزو الا اللہ اثبات ہے۔ اور لا سے نفی کی گئی ہے۔ اصحابِ لغت کا کہنا ہے کہ یہاں استعمال ہونے والا 'لا' نفیِ جنس والا 'لا 'ہے۔ اور اسکے بعد جو بھی لفظ آئے، اس لفظ کی ساری جنس مراد لی جاتی ہے۔یعنی اشتراک اور عموم کا مفہوم نکلتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لا الہ الا اللہ کی حقیقت میں کوئی اشتراک نہیں ہے کہ جسکے لئے لا نافیہ جنس استعمال کرنا پڑے۔ ہاں صورت کے لحاظ سے یہ ہے لیکن معنی کے لحاظ سے نہیں ہے کیونکہ ایسا کبھی بھی درست نہیں ہوسکتا۔ وجہ یہ کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی الوہیت میں تعدد نہیں ہے۔، لیکن دین کے پہلے مرتبے یعنی مرتبہ ِ اسلام پر فائز لوگ اسکے برعکس مفہوم لیتے ہیں اور لا الہ الا اللہ کے معنی کی تفصیل میں جاتے ہوئے انکو یہ وہم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بہت سے خداؤں سے الوہیت کی نفی کی جارہی ہے، اور ایک خدا کیلئے اسکا اثبات کیا جارہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ معنی شرکیہ معنی ہیں۔ اور لا الہ الا اللہ کی حقیقت انکو تسلیم نہیں کرتی، خواہ مسلمان کی عقلِ شرکی ان معنوں کو بیشک تسلیم کرلے۔ لیکن ہم سلوک الی اللہ دین کی مدد سے طے کرتے ہیں عقل کی مدد سے نہیں۔ اور ہم جن باتوں کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں یہ ان میں سے ایک ہے۔
اسکے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کلمے میں نفی کے بعد استثناء بھی وارد ہوا ہے۔ یعنی ' الّا '۔ اصحابِ لغت کا کہنا ہے کہ جب نفی کے ساتھ استثناء وارد ہو تو وہ حصر کیلئے ہوتا ہے۔ یعنی مطلب یہ کہ الوہیت صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ میں ہی محصور ہے۔
یہاں ایک اور بات بھی ہے جس میں لغت اور نحو کی رو سے اختلاف رونما ہوا ہے۔ چنانچہ اس پر رائے کے اعتبار سے دو فریق بن گئے ہیں۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ لا الہ کے جملے میں الہ مبتداء ہے اور اسکی خبر محذوف ہے۔ چنانچہ اس محذوف خبر کیلئے وہ جملے کی مختلف تقدیرات بیان کرتے ہیں یعنی لا الہ کا مطلب ہے نہیں کوئی خدا جو موجود ہو، یا نہیں کوئی خدا جسکی عبادت کی جاتی ہو، یا نہیں کوئی خدا جو عبادت کے لائق ہو، یا نہیں کوئی خدا ہمارے لئے، یا نہیں کوئی خدا دنیا کےلئے، وغیرہ وغیرہ۔ اور خبرِ محذوف کیلئے جتنی بھی تقدیرات فرض کی گئی ہیں ان میں سے جو بات انکی عقل کے موافق قابلِ قبول لگتی ہے، وہ اسکو اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ ایک گروہ ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک یہاں کوئی خبرِ مقدر اور خبرِ مخذوف نہیں ہے۔ چنانچہ وہ لا الہ الا اللہ کے جملہ اسمیہ میں کسی خبرِ مخذوف کو نہیں مانتے اور اسے ویسے ہی رکھتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات نحو اور جملہ استثناء کی ترکیب کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر لا الہ کی خبر محذوف نہ مانی جائے تو ضروری ہے کہ وہ خبر کلمے میں موجود لفظ اللہ ہو۔ اور چونکہ مبتداء یعنی الٰہ اسم نکرہ ہے ، چنانچہ اسکی خبر بھی نکرہ ہونی چاہئیے جبکہ اللہ تو اسم معرفہ ہے۔ چنانچہ انکی یہ بات اس وجہ سے درست نہیں ہے۔
مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اعراب کی مدد سےمفہوم کوسمجھا جاتا ہے اور تراکیب کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔ لیکن دونوں فریقین لا الہ الاللہ کے اعراب کو درست طور پر بیان نہیں کرپائے چنانچہ اختلاف رونما ہوا۔ فقط یہ بات کہنا مقصود تھا۔
چنانچہ ہم بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ ایساکلمہ ہے جسے یہ خاصیت حاصل ہے کہ یہ اعراب کے قواعد کا پابند نہیں ہے۔ چنانچہ اس بات کے بعد اگر ہم چاہیں کہ دین کے مرتبہ اولیٰ یعنی مرتبہ اسلام سے تعلق رکھنے والے افراد یعنی عامۃ المسلمین اور اسلام قبول کرنے والے افراد کو اس کلمے کے ایسے معنی بتائے جائیں جو قدرے زیادہ درست ہوں اعراب کے اعتبار سے، چنانچہ اعراب کے موافق جو قریبی معنی کئے جاسکتے ہیں عوام کیلئے، وہ یہ ہیں کہ کلمے میں وارد لفظ اللہ کو مبتدائے موخر سمجھا جائے اور الٰہ کو اسکی خبرِ مقدم سمجھا جائے۔ چنانچہ درمیانی راہ نکالتے ہوئے جملے کی تقدیر نطق کے اعتبار سے (حقیقت کے اعتبار سے نہیں) یہ ہوگی '" اللہ ھو الالٰہ" تاکہ اسم معرفہ اللہ کیلئے اسم نکرہ الٰہ استعمال نہ ہو جو حصر کا فائدہ نہیں دیتا۔ چنانچہ حصر کا فائدہ دینے کیلئے تقدیر کلام یہ ہوگی کہ "اللہ ھو الالٰہ" اللہ ہی معبود ہے۔ ایسامحض کلمہ لا الہ الا اللہ کے معنی کے قریب لانے کیلئے تاویلاّ کہا گیا ہے، ورنہ چاہئیے تو یہ کہ اس کلمہ مبارکہ کو بالکل نہ چھیڑا جائے۔ اور اسکی یہی ترکیب برقرار رکھی جائے تاکہ وہ انسان کے باطن میں اپنا فعل سرانجام دیکر اسکے ظاہر تک پہنچے۔ اور وہ بعد میں اسکے حقائق سے آگاہ ہوسکے۔لا الہ الا اللہ۔
یہاں ہم متاخرین میں سے بعض متکلمین کا کلام بھی بیان کرین گے جو عقائد کی تفصیلات میں اپنی عقل کے ذریعے گئے۔ چنانچہ انہوں نے لا الہ الا اللہ کے ایسے مطالب نکالے جو انکی عقول کیلئے قابلِ قبول ہوں یا محض صوفیہ کی مخالفت میں انہوں نے ایسے معنی بیان کئے ۔ ہماری مراد ان متاخرین متسلفہ (سلفی ہونے کا دعویٰ کرنے والے) کے سوا اور کوئی نہیں، جو لا الہٰ الا اللہ میں الہٰ کی خبر کو مخذوف مانتے ہیں اور" معبود بحق" کو خبرِ محذوف سمجھتے ہیں چنانچہ کلمہ لا الہ الا اللہ کی تقدیرِ جملہ یوں بیان کرتے ہیں " لا الہ معبود بحق الا اللہ" یعنی نہیں کوئی خدا مستحقِ عبادت مگر یہ کہ اللہ۔ چنانچہ یہ معنی بیان کرکے وہ صوفیہ کا کلام پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صوفیہ کے نزدیک الٰہ کی خبر محذوف "موجود" ہے چنانچہ بقول انکے صوفیہ کے نزدیک لا الہ الا اللہ کی تقدیرِ کلام ہے"لا الہ موجود الّا اللہ"یعنی کہ نہیں کوئی خدا موجودمگر یہ کہ اللہ ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ صوفیہ کے بیان کردہ معنی باطل ہیں اور درست معنی یہی ہیں کہ " اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں"۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ہی لفظ یعنی "معبودِ برحق" اور "موجود" استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ان دونوں معانی کو کلام میں مقدر کرنے اور بطور خبرِ محذوف پیش کرتے وقت کلمہ شہادت کے پہلے لفظ یعنی "اشہد" کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر ہم کلمہ شہادت کو لفظ اشہد سے شروع کرتے ہیں اور اسکے بعد فرض کرتے ہیں کہ لا نفی جنس کی خبر کیا ہونی چاہئیے تو اسکی خبر اشہد کیوں نہیں؟ چنانچہ تقدیرِ کلام ہوگی "لا الٰہ مشہود الا اللہ"۔ نہیں کوئی خدا مشہود مگر یہ کہ اللہ ۔چنانچہ یہ بات ہمیشہ معنی کے اعتبارسے درست ہے، البتہ لفظ کے اعتبار سے نہیں۔ یعنی مطلب یہ کہ کلمہ کے الفاظ میں اضافے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چنانچہ ہمیشہ کلمہ شہادت یہی رہے گا کہ اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد رسول اللہ۔ اسکے الفاظ میں تبدیلی کی قطعاّ کوئی اجازت نہیں۔
لیکن یہ معنی جو بیان کئے گئے ہیں (نہیں کوئی خدا مشہود مگر یہ کہ اللہ)، ان معنوں سے زیادہ درست ہیں جو متسلفہ نے بیان کئے ہیں۔ کیونکہ بات یہاں ہورہی ہے اس توحید کی جسکا تعلق شہود سے ہے، وجود سے نہیں۔ کیونکہ کلمے کے شروع میں جو نفی وارد ہوئی ہے الٰہ کی، اسکی وجہ سے غیریت کے شہود کا وہم پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ وہم عادتاّ بھی پیدا ہوتا ہے اور تربیتاّ بھی۔ چنانچہ یہ کلمہ بندوں کی پاک فطرت کے مطابق توحیدی کلمہ ہے۔ اور یہاں توحید سے ہماری مراد توحیدِ شہود کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ کیونکہ خداؤں کی کثرت جو غافل کو نظر آتی ہے، یہ کثرت انکےشہود میں ہی تو ہے، حقیقت میں تو ایسے خدا کوئی وجود نہیں رکھتے۔ لیکن اصحابِ عقائد اسکے برعکس سوچتے ہیں اور متسلفہ بھی انہی میں سے ہیں جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ جھوٹے خدا موجود ہیں لیکن انکی عبادت نہیں کرنی چاہئیے چنانچہ اسی لئے انہوں نے کلمہ توحید میں الٰہ بحق یعنی مستحقِ عبادت کی قید لگائی۔
جبکہ یہ ساری بات ہی اصل کے مخالف ہے۔ یہ بات لا الہ الا اللہ کے برعکس ہے۔ اور یہ شرکیہ معنی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے معبودانِ باطلہ کا وجود تسلیم کیا اور پھر ان سے انکی صفت کی نفی کی۔ جبکہ محققین اہل ِ لا الہ الا اللہ جو علم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پر ہیں ، اس بات کو سرے سے بے بنیاد سمجھتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ معاملے کا تعلق شہود سے ہے وجود سے نہیں۔، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔
ااور متسلفہ نے معانی کو مختلط کیا اور یہ سمجھنے لگے کہ معبودانِ باطلہ موجود ہیں، لیکن انکی عبادت نہیں کرنی چاہئیے۔ چنانچہ انہوں نے انکو موجود سمجھتے ہوئے ان سے انکی صفت ِ الوہیت کی نفی کی۔ ان پر معانی اسلئیے مختلط ہوئے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مشرک لوگ ان خداؤں کی عبادت کرتے ہیں۔، جبکہ وہ لوگ حقیقت میں عبادت تو اللہ ہی کی کرتے ہیں لیکن ان صورتوں کی طرف متوجہ ہوکر جنہیں وہ خدا سمجھتے ہیں۔ اور ان دونوں معنوں میں اچھا بھلا فرق ہے۔
معبودانِ باطلہ میں تو تقریباّ ہر شئے آجاتی ہے۔ چنانچہ کوئی سورج کا پجاری ہے تو کوئی چاند کا، کوئی پتھر کا تو کوئی درخت کا۔ چنانچہ جو شئے بھی اللہ نے پیدا کی، اسکی پوجا کی گئی۔ چنانچہ بیشک یہ اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک سرّ کی طرف اشارہ ہے۔
مشرکین اپنے مزعومہ خداؤں کی جو عبادت کر رہے ہوتے ہیں، محققین کے نزدیک یہ عبادت درحقیقت اللہ کیلئے ہی ہے لیکن صورت کے حجاب کی اوٹ میں ہے۔
اور موحدین کی عبادت اور مشرکین کی عبادت میں فرق یہ ہے کہ موحدین کی عبادت ماذون ہے یعنی اللہ کی طرف سے اسکی اجازت دی گئی ہے۔ بس یہی فرق ہے ان دونوں میں۔ اور مشرکین کی عبادت وہ ہے جسکے لئے اللہ نے کوئی سند نہیں اتاری اور اسے مشروع نہیں کیا چنانچہ یہ غیر ماذون ہے۔ اس معنی میں کہ اللہ نے جب بندوں کو اپنی عبادت کی طرف بلایا، تو اسکی ایک خاص شکل اور مخصوص ہئیت کے ساتھ اسکو مقرر کیا ، اسکی کچھ حدود و قیود کو متعین کیا۔ اور اسی چیز کا نام شریعت ہے۔ چنانچہ انسان نے جو بھی عبادت شریعت کی راہ سے کی، وہ درست ہے۔ عبادت درست ہو یا غلط ، باطن کی جہت سے برابر ہے۔ پس ہمارے لئے ظاہر شرع کافی ہے کہ جس سےانسان شرک کے دائرے سے نکل آیا۔ لیکن متسلفہ کے زعم میں بات اسکے برخلاف ہے، چنانچہ وہ ابن تیمیہ کے اندازِ فکر کی اتباع میں اس امت پر شرک کا احتمال کرنے لگے۔ اور ایسا کرکے انہوں نے اصولِ دین میں سے ایک بڑی اور بنیادی بات کی مخالفت کی۔
امت اور فردِ مسلم، محض کلمہ شہادت کے ادا کردینے سے شرک سے باہر نکل آیا اور توحید میں داخل ہوگیا، اگرچہ شرکِ اصغر سے ابھی رہا نہیں ہوا لیکن اگر وہ کلمہ توحید کے اعتقاد پر تھا اور اسی پر اسکی موت واقع ہوئی، تو شرکِ اصغر اسکے لئے مضر ثابت نہیں ہوگا۔ یہی حق بات ہے کہ جس کو ہم کہے بغیر نہیں رہیں گے۔
جہاں تک ان لوگوں (یعنی ابن تیمیہ کے پیروکار) کی فہمِ توحید کی بات ہے، تو یہ فہم فکری اور نظری (Product of reason)ہے اور اسکی بنیاد بھی اسی شرکِ اصغر پر ہے جو عام مسلمین کو بھی لاحق ہے۔ یعنی جو لوگ دین کے پہلے مرتبے اسلام پر ہیں، ان میں اور ان مفکرین میں شرکِ اصغر کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن ان مفکرین نے چونکہ اس بات میں دخل دینے کی کوشش کی جس میں دخل دینے کی انکی اہلیت نہیں تھی (مرتبے کی وجہ سے)، چنانچہ آفت میں مبتلا ہوئے۔ کیونکہ انہوں نے لا الہ الا للہ کا علم اپنے نفوس کے ذریعے حاصل کرنا چاہا، جبکہ لا الہ الا اللہ کا علم اللہ کی خاص عطا ہے جسے چاہے وہ دے۔ اور یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے مخصوص ہے۔ لا الہ الا اللہ کا علم ، علومِ عوام میں سے نہیں کہ ہر مسلم اس سے بہرہ مند ہو۔ لیکن ہمارے متسلف بھائی بڑی شدت کے ساتھ مراتبِ دین کے تفوق کا انکار کرتے ہیں اور اس گمان میں ہیں کہ دین کی فہم اور اسکا ادراک بس ایک ہی سطح میں محصور ہے۔ لیکن یہ اعتقاد کبرو تکبر سے ہے اور اللہ پر تعلی کے قبیل سے ہے۔ بندے کو بندہ ہی رہنا چاہئیے اور اس بات کی پیروی کرنی چاہئیے جسکو اللہ نے مشروع کیا۔ اللہ جو دے، وہ لے لو اور جس چیز سے روک دے رک جاؤ اور سمجھ نہ آئے تو سوال کرو، لیکن ان لوگوں نے زور زبردستی کی اور بہت بڑی بے ادبی کے مرتکب ہوئے۔ ہم اللہ سے اپنے لئےاور اپنے ان بھائیوں کیلئےمعافی کے امیدوار ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
آخری تدوین:
اور ہم نے کہا کہ کہ عبادتِ حق میں ان لوگوں نے جو حصر کیا ہے، یہ جہل کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ تمام لوگوں کے نزدیک حقیقت میں معبود اللہ ہی ہے۔ یعنی یہ کہ غیر مسلم بھی اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں لیکن اسکے باوجود وہ اصحاب النار ہیں۔ چنانچہ واجب ہے کہ ہم عبادتِ قہریّہ اور عبادتِ مشروعہ کے درمیان فرق کو سمجھیں۔ عبادتِ قہریّہ وہ ہے جس میں تمام جن و انس اپنی فطرت کی رُو سے چار و ناچار مجبول ہیں ، جبکہ عبادتِ شرعیہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے مشروع کی ہے اور انکو اس پر مکلف کیا ہے۔
پھر اللہ کی عبادت کرنے والے آگ میں کیوں جائیں گے؟ اسلئے کہ انہوں نے اللہ کی عبادت اس طریق سے کی جسکی اللہ نے انکو اجازت نہیں دی تھی۔ وہ اذن والی ،اجازت والی عبادت نہیں تھی۔ چنانچہ اس بات کی طرف اللہ تعالیٰ کی اس آیت میں اشارہ ہے، "يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا -وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا" یعنی اےعزت و تکریم والے نبی، ہم نے تمہیں شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کے اذن سے اسکا داعی اور ایک روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔
اس آیت میں موجود لفظ "اذن" اسی بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے جسکا ہم نے ذکر کیا۔مثال کے طور پر اگر اللہ تعالٰی کو یہ منظور ہوتا اور وہ اس بات کا اذن کرتا کہ اسکی عبادت بدھ مت(Budhism) کے طریقے سے کی جائے، اتو اس صورت میں وصول الی اللہ اور جنت میں دخول، بدھ مت کے ذریعے ہی ممکن ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت نہیں دی ۔ اذن جاری نہیں کیا۔ چنانچہ ہمیں چاہئیے کہ اس بات کو سمجھیں۔
اور ہم نے جس عبودیت کا ذکر عبودیت قہریہ کے نام سے کیا ہے، یہ وہی عبودیت ہے جس میں ہر انسان شامل ہے، اور کوئی شخص اس سے خارج نہیں۔ حتیٰ کہ فرعون جس نے اپنے آپ میں ربوبیت کا اعتقاد کیا تھا، وہ بھی اس عبودیتِ قہریہ سے باہر نہیں ہے۔ اور جس وقت وہ اپنے رب ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا اور کلمہ کفر زبان سے نکال رہا تھا،عین اس لمحے میں بھی وہ عبد تھا، عبدیت سے خارج نہیں تھا۔ مخلوقات میں سے کسی مخلوق کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس عبودیتِ قہریہ سے خارج ہوسکے۔
اب رہ گئی بات دوسری عبودیت کی جسے جو عبودیت تکلیفیہ ہے، جس میں بندہ اللہ کی نازل کردہ شرع کے موافق بندگی سرانجام دیتا ہے۔ یعنی طریقِ ماذون، یہ عبودیت، عبودیتِ خاصّہ ہے۔ اور یہی عبودیت اخروی نفع اور سعادت کی حامل ہے۔
لیکن جب ہم ان معانی میں گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے یہ دوست (متسلفہ) صوفیہ پر یہ الزام تراشی کرتے ہیں کہ" یہ لوگ سارے ادیان کو ملا کر ایک ہی دین بنا رہے ہیں اور وحدتِ ادیان کی دعوت دے رہے ہیں"۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ " یہ لوگ سب انسانوں کیلئے موت کے بعد جنت میں داخلے کے قائل ہیں، اور حق اور باطل کو برابر قرار دے رہے ہیں اور شریعت اور اسکی مخالف باتوں کو برابر قرار دے رہے ہیں"۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کوئی بھی عاقل ہماری بات سے یہ مفہوم نہیں نکالے گا۔، اور ایسا گمان اسکے ذہن میں کبھی نہیں گذرے گا۔ چنانچہ جس طرح بات کرنے والے کا عاقل ہونا ضروری ہے، اسی طرح بات کو سننے والے کا بھی عاقل ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص صوفیہ کا کوئی ایسا کلام سنے تو عقل والے کو چاہئیے کہ یہ بات کہے " یقیناّ یہ لوگ کوئی ایسے معنی مراد لے رہے ہیں جن سے میں لاعلم ہوں"۔ ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص دین اور عقل پر قائم رہتے ہوئے یہ کہے کہ مشرک اور موحد برابر ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔
اس برکت والے کلمہ شہادت( یعنی لا الٰہ الا اللہ) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی رسالت کی شہادت کو بھی شامل کیا ۔ اشہد ان محمد رسول اللہ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ گذشتہ امتوں میں سے کسی کے پاس یہ کلمہ نہیں تھا(یعنی انکے نبی کی رسالت کی شہادت)۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہی اس فضل کو مخصوص کیا گیا کہ اللہ نے کلمے میں اپنے نام کے ساتھ آپ کا نام بھی شامل کیا؟ اور یہ وہ بات ہے کہ جس کو متسلفہ اور انکے امام ابن تیمیہ نے کثیر مواقع پر نظر انداز کیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ تعظیمِ رسول کے حوالے سے کچھ امور کو شرک سمجھنے لگے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم شرک ہوتی تو اسلام میں داخلے کیلئے اللہ کے نام کے ساتھ آپکے نام کی گواہی شرط نہ قرار پاتی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے جانے والے معاملے کو (اور ہم لفظ معاملے پر زور دے رہے ہیں) قرآن میں تاکید کے ساتھ بیان نہ کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ " من یطع الرسول فقد اطاع اللہ" جو رسول کی اطاعت کرتا ہے، تو اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اطاعت معاملے کی ایک شاخ ہے۔ اور من یطع الرسول فقد اطاع اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اطاعتِ رسول بعینہِ اللہ کی اطاعت ہے۔ اس بات کی وضاحت یوں ہوتی ہے کہ آیت میں اطاعت کا فعل پہلے فعلِ مضارع کے صیغے میں آیا ہے اور اسکے بعد فعلِ ماضی کے صیغے میں۔ زیادہ تر مسلمان اس آیت سے یہ معانی مراد لیتے ہیں کہ جس نے اللہ کی اطاعت کی تو اس نے ایسا کرکے گویا اللہ کی اطاعت کرلی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طاعت ایک ہی ہے واحد ہے، لیکن اسکو نسبتیں دو حاصل ہیں۔ ایک نسبت اللہ سے اور ایک نسبت رسول سےصلی اللہ علیہ وسلم۔ فقط اتنی بات ہے۔ کہ نسبتیں دو ہیں، طاعت ایک ہے۔ پس جو رسول کی اطاعت کرتا ہے اس اطاعتِ رسول میں ہی اس نے اللہ کی اطاعت کرلی۔ یہی معنی ہیں اسکے۔ اور یہی توحید ہے۔ توحید یہی ہے۔
چنانچہ جیسا کہ ہم نے کہا کہ کلمہ شہادت کے دوسرے حصے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اللہ کے ساتھ معاملات، اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوں۔ پس ہم اللہ کے ساتھ اسکے رسول کے اندر تعامل کرتے ہیں۔ جو کچھ ہمارے پاس اللہ کی جانب سے آیا، وہ ہم نے اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا۔ ا اور ہم رسول سے ہٹ کراللہ کی اطاعت کیسے کریں جبکہ اسکی طرف ہمارے رسول نے ہی ہمیں متوجہ کیا۔ قرآن ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سنا۔ ہم نے جبرئیل کو وحی لیکر آتے ہوئے تو نہیں دیکھا۔ پس ہمارے جتنے بھی معاملات اللہ کے ساتھ ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ہیں۔ چنانچہ اللہ کے نبی کے ساتھ معاملت فی ذاتہ اللہ کے ساتھ معاملت ہے۔ لیکن یہ بات بھی متسلفہ کے حق میں آفات میں سے ایک آفت ہے۔
ہماری اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں الوہیت کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ ہر گز نہیں۔ آپ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہی ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ چنانچہ کلمہ شہادت میں محمد رسول اللہ کی شہادت، لا الہ الا اللہ کی شہادت کے ساتھ پہلو بہ پہلو مل کر، توحید کہلاتی ہے۔ توحید یہ نہیں ہے جیسا کہ ہم نے کچھ عرصہ قبل مصر کے ایک فقیہہ کو ٹی وی پر کہتے ہوئے سنا کہ" جس نے صرف لا الہ الا اللہ کی گواہی دی، فقط یہی بات اسکے مسلمان ہونے کیلئے کافی ہے"۔ یہ سراسر باطل بات ہے۔ اکیلا لا الٰہ الا اللہ نہ تو اسلام ہے اور نہ ہی توحید ہے۔ اور جو شخص مسلمان ہونا چاہے یا طریقِ توحید پر اپنا قدم بڑھانا چاہے، تو وہ یہ گواہی دے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔
اور یہ جو کچھ ہم نے بیان کیا۔ یہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی عمومیات میں سے ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھ لے ہم اہلِ تحقیق کے حقائق بیان کر رہے ہیں۔ ہم صرف ان حقائق کی مبادیات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں تاکہ سننے والے کا سینہ کشادہ ہو اور وہ تقلید سے نکل آئے اور کلمہ توحید تقلید سے حاصل نہیں ہوتا۔
کیا وجہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ شرف حاصل ہوا کہ انکا نام اللہ کے نام کے ساتھ شہادت ادا کرتے ہوئے لیا جائے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ رسالت بالاصالت (اصل کے اعتبار سے)صرف آپ ہی کیلئے ہے۔ اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو مخاطب کیا ہے، وہ طرزِ تخاطب اور ہے جبکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کے وقت طرزِ تخاطب دوسرا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا ایھا الرسول اور یا ایھا النبی کہہ کر مخاطب کیا گیا یعنی صفت کے ساتھ۔ جبکہ دوسرے انبیاء کو یا ابراہیم، یا موسیٰ اور اسی طرح دوسرے ناموں سے پکارا گیا۔ علیھم السلام اجمعین۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت اور رسالت کی صفت کے ساتھ پکارنا اس بات کی دلیل ہے کہ نبوت اور رسالت بالاصالت صرف آپ ہی کیلئے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ بہت سے مسلمانوں پر یہ معانی دشوار ہیں، کیونکہ مسلمانوں کی اکثریت دین کے پہلے مرتبے یعنی مرتبہ اسلام سے تعلق رکھتی ہے بلکہ قریب ہے کہ وہ اسلام کے اپتدائی قدموں پر ہی ہوں اور اسکے بعد آگے بڑھ نہ پائے ہوں۔ چنانچہ انہوں نے جب کلمہ شہادت ادا کیا اور اسلام کے اعمال سرانجام دئیے تو کلمہ شہادت ادا کرتے وقت جو اجمالی معنی پہلے بیان ہوئے، ان پر ہی باقی رہے اور ان معانی میں ہی رک کر رہ گئے سوائے چند قلیل لوگوں کے۔ اور کلمہ شہادت کے بعد انہوں نے تقلید کے طور پر اعمالِ اسلام سرانجام دئے۔ چنانچہ اسی پر اکتفا کرلینے سے دین کا ثمر یعنی دین میں ترقی انہیں حاصل نہ ہوئی تاکہ انکے علم میں اور انکے نور میں اضافہ ہوتا۔ چنانچہ وہ ان مطالب و مفاہیم سے ناواقف رہے جو ہمارے نزدیک بنیاد ی مفاہیم ہیں اور جن اساسی معنوں کی وجہ سے اللہ نے اس امت کو دوسری امتوں سے خصوصی امتیاز بخشا ہے۔ کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبی بالاصالت ہیں۔
اور یہاں سے ہم اس بات پر گفتگو کریں گے جسے صوفیہ نے حقیقۃ المحمدیہ کا نام دیا ہے۔ اور حقیقۃ المحمدیہ پر بات کرنے سے پہلے لازم ہے کہ ہم حقائق کی اصل کی طرف پلٹیں تاکہ انسان پر یہ معانی واضح ہوں۔اس بات کو اگلے حلقے میں بیان کریں گے۔ اور اس حلقے کو ہم اس ہستی پر درود بھیج کر ختم کرتے ہیں جنکا نام اللہ نے اپنے نام کے ساتھ رکھا۔
الصلٰوۃ علیٰ من قارن اللہ اسمہ باسمہ و جعلہ دالاّ علیہ مبعوثاّ الیٰ محابہ و مراضیہ و مفتاحاّ لمغالق العموم والاسرار سیدنا محمد وعلیٰ آلہ و صحبہ و کل امتہ والتابعین و سلم تسلیما۔ والحمد للہ رب العٰلمین۔
درود ہوں ان پر جنکا نام اللہ نے اپنے نام کے ساتھ رکھا اور انہیں اپنی ذات کیلئے دلیل بنایا اور اپنے پسندیدہ رضا کے حامل امور کے ساتھ مبعوث فرمایا، اور عموم و اسرار کے عقدوں کی فتح باب کیلئے مفتاح بنایا اور درود وو سلامتی ہو انکی آل و اصحاب، تابعین اور تمام امت پر ۔ الحمد للہ رب العٰلمین۔
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
ختم شد
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
بہت شکریہ، غزنوی صاحب۔

ایک گزارش ہے ،جناب، کہ اس سلسلے کے تمام مضامین اس خاکسار کو ٹیگ کر دیا کریں تاکہ Miss نہ ہوں۔
نوازش ہوگی۔
 
Top