محمود احمد غزنوی
محفلین
عارف باللہ شیخ عبدالغنی العمری الحسنی کے چوتھے لیکچر کے ابتدائی نصف حصے کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے
بسم الله الرحمٰن الرحيم۔ والحمد لله رب العٰلمين۔والصلٰوة والسلام علي سيدنا محمد خاتم النبيّين واشرف المرسلين و علي آله واصحابه اجمعين والتابعين۔ امّا بعد:
ہم نے پچھلے لیکچر کےآخر میں کلمہ شہادت کے دوسرے حصے یعنی اشہد ان محمد رسول اللہ پر بات کرتے کرتے حقیقۃ المحمدیہ کا ذکر کیا تھا۔ چنانچہ آج کے لیکچر میں اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ان دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والوں اورعداوت رکھنے والوں کے عالمی افق پر جھگڑے کا بازار گرم ہے۔ اور یہ جھگڑا دو فریقین کے درمیان ہے۔ ایک کافر اور دوسرا مؤمن۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بہت کم علم رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں مسلمانوں کی اکثریت اپنے جہل پر رہتے ہوئے یہ کام سرانجام دے رہی ہے۔ چنانچہ ہم نے چاہا کہ حقیقتِ محمدیہ پر بات کی جائے تاکہ بات اپنی اصل تک پہنچے اور مسلمان نوجوان اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سے کسی قدر آگاہ ہوں، اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو حقیقۃ محمدیہ کا انکار کرتے ہیں، جیسا کہ تیمیہ وہابیہ ،جو حقیقۃ محمدیہ کے انکار میں ابنِ تیمیہ کے افکار کی تقلید کرتے ہیں اور انکے علاوہ اور بہت سے لوگ جو یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ یہ حقیقت قرآن و سنت میں کسی نص کے ساتھ بیان نہیں کی گئی، اور وہ لوگ بھی جو یہ دعویٰ نہیں رکھتے،ہم اس گروہ کیلئے قرآن و سنت میں سے حقیقتِ محمدیہ اور اسکے وجود پرکچھ دلائل پیش کریں گے۔
سب سے پہلے قرآن شریف میں ہماری پہلی دلیل سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ سورہ حقیقۃ المحمدیہ ہے، ہاں یہ بات وہی لوگ جانتے ہیں جو علماء باللہ ہیں۔ یعنی جنکے پاس اللہ کا دیا ہواعلمِ لدنی ہے جس سے اللہ نے انہیں دوسروں سے مخصوص کیا ہے۔ اور علمائے شریعت کا ان معانی کا انکار اسی جہت سے ہے کہ وہ ایسا علم نہیں رکھتے۔ وہ اس قسم کے مسائل کا ادراک نہیں رکھتے، اس بناء پر کہ انکے پاس انکا علم نہیں ہے، چنانچہ وہ اپنے جہل کی بنیاد پرانکا انکار کر دیتے ہیں۔ گویا وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ "اگر یہ کوئی علم سے تعلق رکھنے والی بات ہوتی تو ہم بھی ضرور اسے جانتے ہوتے" یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ دین اور اسکے تمام مسائل کا علم رکھتے ہیں۔ اور یہ ایک غلط بات ہے، جہل ہے۔ چنانچہ کچھ لوگ یوں کہتے ہیں کہ دین ایک معلوم شئے ہے۔ چنانچہ ان امور پر بات کرنے والوں کا علمائے ظاہر یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ "یہ امور دین سے تعلق نہیں رکھتے اوراگر ان امورکا تعلق دین سے ہوتا تو ہم لوگوں کو بھی ضرور ان باتوں کا علم ہوتا۔"
اس پر ہم یہی کہیں گے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن علوم کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا، وہ دو قسم کے ہیں۔
ایکعلمِ عام۔ اور وہ یہ ہے جو قرآن پاک کے الفاظ اور انکے لکھنے لکھانے سے ہم تک پہنچا ہے، اور اقوال و افعال و تقریراتِ نبوی پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ علماء کو بھی معلوم ہے۔ یہ تما م کا تمام، علم العام ہے۔ یعنی یہ ہر اس شخص کی دسترس میں ہے جو تعلیم و تعلم کے ذریعےاسے حاصل کرنا چاہے ، یعنی مدرسوں کے اساتذہ اور طلباء۔
دوسرا علم ،علمِ خاصہےجسکی تبلیغ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا لیکن آپکو اختیار دیا گیا کہ امت میں سے جس کو اس علم کے قابل سمجھیں ، اسے عطا کریں۔ اور یہ علم الخاص ہے۔ جبکہ اسکے برعکس علمِ عام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ یہ علمِ عام کسی کو دیں یا نہ دیں۔چنانچہ اس حلقے (لیکچر) میں ہم جن امور پر بات کریں گے انکا تعلق اس علمِ خاص سے ہے۔ ہم نے یہ بات(دو علموں والی) اسلئے کی ہے تاکہ اب کوئی شخص یہ نہ کہے کہ ایسی بات کرنا جسکا علم علماء (علمائے ظاہر)کو نہیں دیا گیا، یہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس بات کا اتہام(الزام لگانا) ہے کہ انہوں نے جس بات کی تبلیغ کا حکم تھا، اسکی تبلیغ نہیں کی۔ اور اس بات میں بہت بڑی تدلیس(Confusion) اور خلط(Mixing) پائی جاتی ہے۔
اب ہم منکرین یا قرآن و سنت سے حقیقتِ محمدیہ کی دلیل طلب کرنے والوں کی طرف لوٹتے ہیں۔
ہم نے کہا کہ سورہ فاتحہ پوری کی پوری دراصل حقیقتِ محمدیہ کی سورت ہے۔ جس نے جان لیا ، جان لیا، اور جو لاعلم رہا، لاعلم رہا۔ اور سورۃ فاتحہ کے وہ اسرار جو حقیقتہ المحمدیہ کی خبر دیتے ہیں اور جنکا مکمل علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، ان میں سے ایک ہےاس سورت کی ابتداء 'ب' سے ہونا ۔سورہ فاتحہ حرف 'ب' سے شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ بسملہ کو 'ب' سے شروع کرنا مراتب کی ترتیب میں حقیقتِ محمدیہ کی دلالت کرتا ہے۔ یہ اسلئیے کہ عربی اور دیگر کئی زبانوں (فرانسیسی، انگریزی و غیرھا) کے حروفِ تہجی میں 'ب' دوسرے نمبر پر ملتی ہے۔ اور جو شخص مراتبِ وجود پر نظر ڈالتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ حقیقتِ محمدیہ وجود کے دوسرے مرتبے کا نام ہے۔ اور یہ بات اس علمِ خاص سے ہے جسے صرف علماء باللہ ہی جانتے ہیں(یعنی مراتبِ وجود پر نظر)۔
اور سورہ فاتحہ میں بسملہ کے خصائص اور حقیقۃ المحمدیہ کے مرتبے کے خصائص میں سے ایک بات'بسم' میں الف کا حذف ہوجاناہے۔ لکھنے میں بھی اوربولنے میں بھی۔ چنانچہ بسملہ میں الف اصل کے اعتبار سے موجود ہے لیکن کتابت اور تلفظ میں محذوف (Hidden)ہے۔ اور یہ حقیقتِ محمدیہ کے مرتبے کی خصوصیت ہے۔ کیونکہ الف کا مراتبِ وجود میں پہلا مرتبہ ہے۔ اور اسے احدیّتِ ذات کہا جاتا ہے۔ احدیّتِ ذات کے کیا معنی ہیں؟ احدیّتِ ذات، ذات کے عقلی تعیّنات میں سے پہلا تعیّن ہے۔ ہم ذات میں سے سوائے احدیت کے اور کسی مرتبے کو نہیں جانتے۔ اور احدیّت ذات کا تنزّل ہے۔ مطلب یہ کہ مرتبہ احدیت سے ماوراء ہوکر ذات کو ہرگز جانا نہیں جاسکتا۔ یعنی ذات (Essence of Self)علم کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی اور نہ ہی عقل، ذات کا تعقل یا تصور کرسکتی ہے۔ اور الف یعنی احدیتِ ذات کو کسی شئے سے اتصال نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شئے اس سے متصل ہوسکتی ہے۔ چنانچہ لکھنے میں بھی الف جب کسی کلمے کے شروع میں آئے، تو ہمیشہ دوسرے حروف سےمنفصل(Separate)ہوتا ہے، البتہ وہ الف جو کلمات کے آخر میں آتا ہے (مدّ کیلئے)، تو اسکا تعلق ایک اور مرتبے سے ہے۔
ہم 'ب' کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ 'ب' حقیقۃ المحمدیہ کا مرتبہ ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ سیدی ابومدین رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ " میں نے کوئی شئے ایسی نہیں دیکھی جس پر 'ب' نہ ہو"۔یہ بات وہ حقیقتِ محمدیہ کے مشہد(Perspective) سے کہتے تھے۔ ہم قرآنِ پاک کی طرف دوبارہ لوٹیں گے، اس سے پہلے سنت میں سے بھی ایک دلیل دیکھتے ہیں۔مسندِ امام احمد میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا "انى عبدالله فى ام الكتاب وخاتم النبيّين و ان آدم عليه السلام لمنجدل فى طينته وسأنبئكم بتأويل ذالك دعوة ابى ابراهيم و بشارة عيسىٰ بى ورؤية امّى التى رأت وكذالك امّهات النبيّين ترين"میں ام الکتاب میں نبی اور خاتم النبیین تھا، جبکہ آدم علیہ السلام ابھی گوندھی ہوئی مٹی کی حالت میں تھے۔ اور میں تمہیں اسکی تاویل سے آگاہ کرتا ہوں اور وہ ہے میرے با پ ابراہیم علیہ السلام کی دعا، اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت۔ اور وہ خواب جو میری والدہ نے دیکھا اور اسی طرح انبیاء کی ماؤں نے دیکھا۔
انى عبدالله فى ام الكتاب وخاتم النبيّين و ان آدم عليه السلام لمنجدل فى طينته میں ام الکتاب میں نبی اور خاتم النبیّین تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی گوندھی ہوئی مٹی کے مرحلے میں تھے)۔ یعنی نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اس وقت بھی ثابت شدہ تھی جبکہ آدم علیہ السلام کی ابھی تخلیق بھی نہیں ہوئی تھی۔ یعنی آدم علیہ السلام کی خلق سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی تھے اور خاتم النبیین تھے۔
چنانچہ اگر ہم معنی میں کچھ غور کریں کہ اگر ابھی آدم علیہ السلام کی تخلیق نہیں ہوئی تھی، تو یقیناّ محمد ابن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نامی شخص کی تخلیق بھی ابھی نہیں ہوئی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکی ذریت سے ہیں۔ تو پھر نبوت کا تعلق اس وقت کس شئے سے تھا؟نبوت کا تعلق اس وقت جس چیز سے تھا وہی حقیقتِ محمدیہ ہے ۔ یعنی وہ شئے حقیقت(Reality) ہے، شخص(Person) نہیں۔ اورعقلاء میں سے کوئی بھی دو اشخاص اس بات میں اختلاف نہیں کریں گے۔ اب ہم بقیہ حدیث کو بھی بیان کرتے ہیں۔
انى عبدالله فى ام الكتاب وخاتم النبيّين و ان آدم عليه السلام لمنجدل فى طينته وسأنبئكم بتأويل ذالك ۔ (میں ام الکتاب میں نبی اور خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام اس وقت گوندھی ہوئی مٹی کی حالت میں تھے، اور میں تمہیں اس بات کی تاویل سے آگاہ کرتا ہوں) چنانچہ آپ نے قرآن میں سے اس حقیقت کی دلیل بیان فرمائی ۔ اور وہ ہےدعوة ابى ابراهيم میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا،و بشارة عيسىٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت،و ورؤية امّى التى رأت اور وہ خواب جو میری والدہ نے دیکھا جب ان میں سے ایک نور نکلا جس سے ملکِ شام کے محلات روشن ہوگئے۔ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے بارے میں سورہ بقرۃ میں ارشاد ہے " رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ"۔(اے ہمارے رب ان میں رسول کو بھیج جو انہی میں سے ہو اور ان پر تیری آیات پڑھے، اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انکا تزکیہ کرے۔ بیشک تُو بڑی عزت والا اور حکمت والا ہے)۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا مانگی جبکہ اس سے پہلی والی آیت میں وہ اپنے لئے اور اپنی ذرّیت کیلئے دعا مانگ رہے تھے یعنی " رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ"۔ا ے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج کے) قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت) کی نظر فرما، بیشک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کیلئے ابراہیم علیہ السلام کی دعا دراصل اس دعا کی تکمیل ہے جو انہون نے اس سے پہلی آیت میں اپنے آپ کیلئے اور اپنی ذریت کیلئے مانگی۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کیسے معلوم تھا کہ ایک نبی مبعوث ہوگا؟ انہیں یہ علم کہاں سے ملا؟ کیا اس شخص سے ملا جو ابھی تک عالمِ حس و شہادت (Physical world) میں پیدانہیں ہوئے تھے؟ یا انکا یہ علم اس حقیقت کے بارے میں تھا جو ابراہیم علیہ السلام کی اور آدم علیہ السلام کی اصل تھی؟۔ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے نفس کی حقیقت کی جہت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا علم رکھتے تھے۔ آپ حقیقتِ محمدیہ سے واقف تھے۔ اور یہ جانتے تھے کہ لازم ہے کہ یہ حقیقتِ محمدیہ ایک ایسے شخص میں جلوہ آراء ہوگی جو تمام کمالات اور تمام فضائل کا جامع ہوگا۔ اور وہ آئے گا اور رسول ہوگا بلکہ تمام رسالتوں کا خاتم ہوگا۔ پس آپ نے دعا کی کہ وہ شخص انکی ذریت میں سے ہو تاکہ انکی ذریت کو ایک عظیم شرف حاصل ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عملی طور پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبولیت بخشی اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آپکی ذریت یعنی بنو اسمٰعیل میں پیدا فرمایا۔ یعنی عربوں میں مبعوث فرمایا۔۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام انسانیت کی طرف مبعوث ہوئے ہیں،جیسا کہ سب کو معلوم ہے۔
حدیث میں اسکے بعد ارشاد ہواہے:و بشارة عيسىٰ بى ۔اور میرے بارے میں عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت۔ سورہ الصّف میں ارشاد ہے " وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ"۔( اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف رسول ہوں اور توریت کی تصدیق کرنے والاہوں اس رسول کی بشارت سنانے والا ہوں جومیرے بعد آئے گا اور جسکا نام احمد ہے)۔چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام اس ہستی کی بشارت دے رہے ہیں اُنکی پیدائش سے پہلے، کہ جنکا نام محمد ہے۔ انہیں یہ علم کہاں سے ہوا؟ جبکہ عام طور پر لوگوں کی عادت تو یہی ہے کہ وہ انسان کو اسکی ولادت یا وفات کے بعد جانتے ہیں، اگر اسکا تعلق گذشتہ امتوں سے ہو تو۔ چنانچہ جب ہم گذشتہ امتوں کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں شخص تھا۔ اور یہ علم تاریخ اور قصص و روایات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ لیکن ایک شخص جو ابھی وجود میں نہیں آیا، ابھی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی وہ پرانی امتوں میں سے ہے، تو اسکا علم کیسے ہوگا؟ کوئی صورت نہیں سوائے اسکے کہ اس شخص کی حقیقت خود عیسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے موجود تھی۔ بلکہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی ہی اصل تھی۔
اور عیسیٰ علیہ السلام پر وحی اس حقیقتِ محمدیہ کی جہت سے نازل ہوتی تھی۔ ہمیں اس میں قطعاّ کوئی شک نہیں ہے۔اور عیسیٰ علیہ السلام اس حقیقت کو احمد کے نام سے جانتے تھے۔ اور احمد معانی کے اعتبار سے محمد ہی کا ایک جزو ہے۔ مطلب یہ کہ حقیقتِ محمدیہ کے مراتب کی تکمیل نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے ہونی تھی۔ لیکن عیسیٰ علیہ السلام اس حقیقت کو احمدی رُخ سے جانتے تھے محمدی رُخ سے نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کی طرف رہنمائی کی۔ اور اس مقام پر کافی کلام ہے، ہوسکتا ہے کہ ہم آنے والے کسی لیکچر میں اسکی طرف واپس لوٹیں، ان شاء اللہ، تاکہ یہ لیکچر طوالت کا شکار نہ ہو۔
اور ہم دوبارہ حقیقتِ محمدیہ کی طرف لوٹتے ہیں۔اور ابراہیم علیہ السلام کی دعااور عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کے علاوہ قرآن میں اور مقامات پر بھی اسکے اشارات ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں فرماتے ہیں " وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ"۔(اور جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کردوں اور پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو اس شئے کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہوگی، تو تم ضرور بالضرور اس پر ایمان لاؤگےاور ضرور بالضرور اسکی مدد کروگے۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس بھاری عہد کو مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے کہا کہ ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا کہ تم گواہ ہوجاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں"۔
یہ پختہ عہد جو اللہ نے تمام انبیاء سے لیا کہ جسکی رُو سے تمام انبیاءسیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور یہ عہد کیا کہ اگر انہوں نے اس رسول کو پایا، تو اسکی نصرت کریں گے۔، یہ عہد اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ رسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بالاصالت ہے اور باقی تمام انبیاء کیلئے نیابت کے طور پر ہے۔ جیسا کہ مثلاّ حاکم کا اپنے نائب کے ساتھ معاملہ ہے کہ اسکا نائب اوامر و نواہی جاری کرتا ہے، لیکن جب اصلی حاکم حاضر ہوجائے تو اس نائب (Vice)کے احکامات کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور اس وقت وہ نائب رعایا کے حکم میں ہوتا ہے۔ اور اوامر و نواہی اصلی حاکم کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو بالاصالت نبی اور رسول ہیں، جیسا کہ یہ بات پچھلے حلقے میں بھی بیان کی گئی تھی۔ آپ نبی ہیں، آپ رسول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر انبیاء سے عہد لیا گیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکے زمانے میں تشریف لے آئیں تو ان انبیاء کو ان پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے وہ انبیاء مومنین کی صف میں داخل ہوگئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب الامر قرار پا گئے۔ یعنی آپ انبیاء کی طرف بھی رسول ہیں۔ یہی اسکے معنی ہیں۔
اور آیت میں جو نصرت دینے کا عہد لیا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ نصرت یہ ہے کہ تمام مفاہیم اور معیارات کو ترک کرکے اس حکم کو نافذ کیا جائے۔ یعنی اس نصرت کا تعلق کسی قسم کی شروط سے نہیں ہے کہ پہلے انبیاء یہ دیکھیں کہ ان میں یہ شرطیں پائی جارہی ہیں ،تب ہم انکی نصرت کریں گے۔ نہیں، بلکہ محض اس بات کا ادراک کرلینے سے کہ آپ آگئے ہیں اور وہ نبی آپ ہی ہیں، وہ لوگ انکے تابعین بن جائیں گے۔ مطلق طور پر انکی اتباع کریں گے۔ یہی معنی ہیں نصرت کے۔
اور یہ آیت اپنے اندر کثیر معانی رکھتی ہے اور بہت اسرار کی حامل ہے، جنکے بیان کی یہاں گنجائش نہیں۔ ہمارا مقصد تو فقط یہ ہے کہ ان رکاوٹوں کو زائل کریں جوحقیقتِ محمدیہ کے وجود کی تصدیق کے حوالے سے، لوگوں کیراہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔
چنانچہ حقیقتِ محمّدیہ سب سے پہلی تخلیق ہے، اور اس پہلی تخلیق سے باقی تمام مخلوقات اور عوالم ظاہر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حقیقت کے اعتبار سے حق تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان ایک واسطہ ہیں۔ اور ان معنی کی طرف اس امت کے اقطاب نے بہت اشارات بیان کئے ہیں، جیسا کہ سیدی عبدالسلام ابن بشیش المغربی رضی اللہ عنہ کا مشہور درود ہے(صلٰوۃ مشیشیہ) جس میں آپ فرماتے ہیں کہ إذْ لَوْلا الوَاسِطَةُ لَذَهَبَ كَما قيلَ المَوْسُوطُ
اور یہ علم محقق(Established) ہے۔ کہ اگر حقیقتِ محمدیہ نہ ہوتی تو کائنات کی کوئی بھی کائن(ہونے والی) شئے نہ وجود سے ظاہر ہوتی اور نہ شہود سے۔ اور ہم ان معنوں میں طوالت نہیں کرتے کیونکہ یہ بات ماننے والوں میں پہلے ہی کافی مشہور ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
بسم الله الرحمٰن الرحيم۔ والحمد لله رب العٰلمين۔والصلٰوة والسلام علي سيدنا محمد خاتم النبيّين واشرف المرسلين و علي آله واصحابه اجمعين والتابعين۔ امّا بعد:
ہم نے پچھلے لیکچر کےآخر میں کلمہ شہادت کے دوسرے حصے یعنی اشہد ان محمد رسول اللہ پر بات کرتے کرتے حقیقۃ المحمدیہ کا ذکر کیا تھا۔ چنانچہ آج کے لیکچر میں اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ان دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والوں اورعداوت رکھنے والوں کے عالمی افق پر جھگڑے کا بازار گرم ہے۔ اور یہ جھگڑا دو فریقین کے درمیان ہے۔ ایک کافر اور دوسرا مؤمن۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بہت کم علم رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں مسلمانوں کی اکثریت اپنے جہل پر رہتے ہوئے یہ کام سرانجام دے رہی ہے۔ چنانچہ ہم نے چاہا کہ حقیقتِ محمدیہ پر بات کی جائے تاکہ بات اپنی اصل تک پہنچے اور مسلمان نوجوان اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سے کسی قدر آگاہ ہوں، اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو حقیقۃ محمدیہ کا انکار کرتے ہیں، جیسا کہ تیمیہ وہابیہ ،جو حقیقۃ محمدیہ کے انکار میں ابنِ تیمیہ کے افکار کی تقلید کرتے ہیں اور انکے علاوہ اور بہت سے لوگ جو یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ یہ حقیقت قرآن و سنت میں کسی نص کے ساتھ بیان نہیں کی گئی، اور وہ لوگ بھی جو یہ دعویٰ نہیں رکھتے،ہم اس گروہ کیلئے قرآن و سنت میں سے حقیقتِ محمدیہ اور اسکے وجود پرکچھ دلائل پیش کریں گے۔
سب سے پہلے قرآن شریف میں ہماری پہلی دلیل سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ سورہ حقیقۃ المحمدیہ ہے، ہاں یہ بات وہی لوگ جانتے ہیں جو علماء باللہ ہیں۔ یعنی جنکے پاس اللہ کا دیا ہواعلمِ لدنی ہے جس سے اللہ نے انہیں دوسروں سے مخصوص کیا ہے۔ اور علمائے شریعت کا ان معانی کا انکار اسی جہت سے ہے کہ وہ ایسا علم نہیں رکھتے۔ وہ اس قسم کے مسائل کا ادراک نہیں رکھتے، اس بناء پر کہ انکے پاس انکا علم نہیں ہے، چنانچہ وہ اپنے جہل کی بنیاد پرانکا انکار کر دیتے ہیں۔ گویا وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ "اگر یہ کوئی علم سے تعلق رکھنے والی بات ہوتی تو ہم بھی ضرور اسے جانتے ہوتے" یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ دین اور اسکے تمام مسائل کا علم رکھتے ہیں۔ اور یہ ایک غلط بات ہے، جہل ہے۔ چنانچہ کچھ لوگ یوں کہتے ہیں کہ دین ایک معلوم شئے ہے۔ چنانچہ ان امور پر بات کرنے والوں کا علمائے ظاہر یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ "یہ امور دین سے تعلق نہیں رکھتے اوراگر ان امورکا تعلق دین سے ہوتا تو ہم لوگوں کو بھی ضرور ان باتوں کا علم ہوتا۔"
اس پر ہم یہی کہیں گے کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن علوم کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا، وہ دو قسم کے ہیں۔
ایکعلمِ عام۔ اور وہ یہ ہے جو قرآن پاک کے الفاظ اور انکے لکھنے لکھانے سے ہم تک پہنچا ہے، اور اقوال و افعال و تقریراتِ نبوی پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ علماء کو بھی معلوم ہے۔ یہ تما م کا تمام، علم العام ہے۔ یعنی یہ ہر اس شخص کی دسترس میں ہے جو تعلیم و تعلم کے ذریعےاسے حاصل کرنا چاہے ، یعنی مدرسوں کے اساتذہ اور طلباء۔
دوسرا علم ،علمِ خاصہےجسکی تبلیغ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا لیکن آپکو اختیار دیا گیا کہ امت میں سے جس کو اس علم کے قابل سمجھیں ، اسے عطا کریں۔ اور یہ علم الخاص ہے۔ جبکہ اسکے برعکس علمِ عام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ یہ علمِ عام کسی کو دیں یا نہ دیں۔چنانچہ اس حلقے (لیکچر) میں ہم جن امور پر بات کریں گے انکا تعلق اس علمِ خاص سے ہے۔ ہم نے یہ بات(دو علموں والی) اسلئے کی ہے تاکہ اب کوئی شخص یہ نہ کہے کہ ایسی بات کرنا جسکا علم علماء (علمائے ظاہر)کو نہیں دیا گیا، یہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس بات کا اتہام(الزام لگانا) ہے کہ انہوں نے جس بات کی تبلیغ کا حکم تھا، اسکی تبلیغ نہیں کی۔ اور اس بات میں بہت بڑی تدلیس(Confusion) اور خلط(Mixing) پائی جاتی ہے۔
اب ہم منکرین یا قرآن و سنت سے حقیقتِ محمدیہ کی دلیل طلب کرنے والوں کی طرف لوٹتے ہیں۔
ہم نے کہا کہ سورہ فاتحہ پوری کی پوری دراصل حقیقتِ محمدیہ کی سورت ہے۔ جس نے جان لیا ، جان لیا، اور جو لاعلم رہا، لاعلم رہا۔ اور سورۃ فاتحہ کے وہ اسرار جو حقیقتہ المحمدیہ کی خبر دیتے ہیں اور جنکا مکمل علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، ان میں سے ایک ہےاس سورت کی ابتداء 'ب' سے ہونا ۔سورہ فاتحہ حرف 'ب' سے شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ بسملہ کو 'ب' سے شروع کرنا مراتب کی ترتیب میں حقیقتِ محمدیہ کی دلالت کرتا ہے۔ یہ اسلئیے کہ عربی اور دیگر کئی زبانوں (فرانسیسی، انگریزی و غیرھا) کے حروفِ تہجی میں 'ب' دوسرے نمبر پر ملتی ہے۔ اور جو شخص مراتبِ وجود پر نظر ڈالتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ حقیقتِ محمدیہ وجود کے دوسرے مرتبے کا نام ہے۔ اور یہ بات اس علمِ خاص سے ہے جسے صرف علماء باللہ ہی جانتے ہیں(یعنی مراتبِ وجود پر نظر)۔
اور سورہ فاتحہ میں بسملہ کے خصائص اور حقیقۃ المحمدیہ کے مرتبے کے خصائص میں سے ایک بات'بسم' میں الف کا حذف ہوجاناہے۔ لکھنے میں بھی اوربولنے میں بھی۔ چنانچہ بسملہ میں الف اصل کے اعتبار سے موجود ہے لیکن کتابت اور تلفظ میں محذوف (Hidden)ہے۔ اور یہ حقیقتِ محمدیہ کے مرتبے کی خصوصیت ہے۔ کیونکہ الف کا مراتبِ وجود میں پہلا مرتبہ ہے۔ اور اسے احدیّتِ ذات کہا جاتا ہے۔ احدیّتِ ذات کے کیا معنی ہیں؟ احدیّتِ ذات، ذات کے عقلی تعیّنات میں سے پہلا تعیّن ہے۔ ہم ذات میں سے سوائے احدیت کے اور کسی مرتبے کو نہیں جانتے۔ اور احدیّت ذات کا تنزّل ہے۔ مطلب یہ کہ مرتبہ احدیت سے ماوراء ہوکر ذات کو ہرگز جانا نہیں جاسکتا۔ یعنی ذات (Essence of Self)علم کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی اور نہ ہی عقل، ذات کا تعقل یا تصور کرسکتی ہے۔ اور الف یعنی احدیتِ ذات کو کسی شئے سے اتصال نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شئے اس سے متصل ہوسکتی ہے۔ چنانچہ لکھنے میں بھی الف جب کسی کلمے کے شروع میں آئے، تو ہمیشہ دوسرے حروف سےمنفصل(Separate)ہوتا ہے، البتہ وہ الف جو کلمات کے آخر میں آتا ہے (مدّ کیلئے)، تو اسکا تعلق ایک اور مرتبے سے ہے۔
ہم 'ب' کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ 'ب' حقیقۃ المحمدیہ کا مرتبہ ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ سیدی ابومدین رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ " میں نے کوئی شئے ایسی نہیں دیکھی جس پر 'ب' نہ ہو"۔یہ بات وہ حقیقتِ محمدیہ کے مشہد(Perspective) سے کہتے تھے۔ ہم قرآنِ پاک کی طرف دوبارہ لوٹیں گے، اس سے پہلے سنت میں سے بھی ایک دلیل دیکھتے ہیں۔مسندِ امام احمد میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا "انى عبدالله فى ام الكتاب وخاتم النبيّين و ان آدم عليه السلام لمنجدل فى طينته وسأنبئكم بتأويل ذالك دعوة ابى ابراهيم و بشارة عيسىٰ بى ورؤية امّى التى رأت وكذالك امّهات النبيّين ترين"میں ام الکتاب میں نبی اور خاتم النبیین تھا، جبکہ آدم علیہ السلام ابھی گوندھی ہوئی مٹی کی حالت میں تھے۔ اور میں تمہیں اسکی تاویل سے آگاہ کرتا ہوں اور وہ ہے میرے با پ ابراہیم علیہ السلام کی دعا، اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت۔ اور وہ خواب جو میری والدہ نے دیکھا اور اسی طرح انبیاء کی ماؤں نے دیکھا۔
انى عبدالله فى ام الكتاب وخاتم النبيّين و ان آدم عليه السلام لمنجدل فى طينته میں ام الکتاب میں نبی اور خاتم النبیّین تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی گوندھی ہوئی مٹی کے مرحلے میں تھے)۔ یعنی نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اس وقت بھی ثابت شدہ تھی جبکہ آدم علیہ السلام کی ابھی تخلیق بھی نہیں ہوئی تھی۔ یعنی آدم علیہ السلام کی خلق سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی تھے اور خاتم النبیین تھے۔
چنانچہ اگر ہم معنی میں کچھ غور کریں کہ اگر ابھی آدم علیہ السلام کی تخلیق نہیں ہوئی تھی، تو یقیناّ محمد ابن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نامی شخص کی تخلیق بھی ابھی نہیں ہوئی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکی ذریت سے ہیں۔ تو پھر نبوت کا تعلق اس وقت کس شئے سے تھا؟نبوت کا تعلق اس وقت جس چیز سے تھا وہی حقیقتِ محمدیہ ہے ۔ یعنی وہ شئے حقیقت(Reality) ہے، شخص(Person) نہیں۔ اورعقلاء میں سے کوئی بھی دو اشخاص اس بات میں اختلاف نہیں کریں گے۔ اب ہم بقیہ حدیث کو بھی بیان کرتے ہیں۔
انى عبدالله فى ام الكتاب وخاتم النبيّين و ان آدم عليه السلام لمنجدل فى طينته وسأنبئكم بتأويل ذالك ۔ (میں ام الکتاب میں نبی اور خاتم النبیین تھا جبکہ آدم علیہ السلام اس وقت گوندھی ہوئی مٹی کی حالت میں تھے، اور میں تمہیں اس بات کی تاویل سے آگاہ کرتا ہوں) چنانچہ آپ نے قرآن میں سے اس حقیقت کی دلیل بیان فرمائی ۔ اور وہ ہےدعوة ابى ابراهيم میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا،و بشارة عيسىٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت،و ورؤية امّى التى رأت اور وہ خواب جو میری والدہ نے دیکھا جب ان میں سے ایک نور نکلا جس سے ملکِ شام کے محلات روشن ہوگئے۔ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے بارے میں سورہ بقرۃ میں ارشاد ہے " رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ"۔(اے ہمارے رب ان میں رسول کو بھیج جو انہی میں سے ہو اور ان پر تیری آیات پڑھے، اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انکا تزکیہ کرے۔ بیشک تُو بڑی عزت والا اور حکمت والا ہے)۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا مانگی جبکہ اس سے پہلی والی آیت میں وہ اپنے لئے اور اپنی ذرّیت کیلئے دعا مانگ رہے تھے یعنی " رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ"۔ا ے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج کے) قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت) کی نظر فرما، بیشک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کیلئے ابراہیم علیہ السلام کی دعا دراصل اس دعا کی تکمیل ہے جو انہون نے اس سے پہلی آیت میں اپنے آپ کیلئے اور اپنی ذریت کیلئے مانگی۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کیسے معلوم تھا کہ ایک نبی مبعوث ہوگا؟ انہیں یہ علم کہاں سے ملا؟ کیا اس شخص سے ملا جو ابھی تک عالمِ حس و شہادت (Physical world) میں پیدانہیں ہوئے تھے؟ یا انکا یہ علم اس حقیقت کے بارے میں تھا جو ابراہیم علیہ السلام کی اور آدم علیہ السلام کی اصل تھی؟۔ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے نفس کی حقیقت کی جہت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا علم رکھتے تھے۔ آپ حقیقتِ محمدیہ سے واقف تھے۔ اور یہ جانتے تھے کہ لازم ہے کہ یہ حقیقتِ محمدیہ ایک ایسے شخص میں جلوہ آراء ہوگی جو تمام کمالات اور تمام فضائل کا جامع ہوگا۔ اور وہ آئے گا اور رسول ہوگا بلکہ تمام رسالتوں کا خاتم ہوگا۔ پس آپ نے دعا کی کہ وہ شخص انکی ذریت میں سے ہو تاکہ انکی ذریت کو ایک عظیم شرف حاصل ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عملی طور پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبولیت بخشی اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آپکی ذریت یعنی بنو اسمٰعیل میں پیدا فرمایا۔ یعنی عربوں میں مبعوث فرمایا۔۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام انسانیت کی طرف مبعوث ہوئے ہیں،جیسا کہ سب کو معلوم ہے۔
حدیث میں اسکے بعد ارشاد ہواہے:و بشارة عيسىٰ بى ۔اور میرے بارے میں عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت۔ سورہ الصّف میں ارشاد ہے " وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ"۔( اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف رسول ہوں اور توریت کی تصدیق کرنے والاہوں اس رسول کی بشارت سنانے والا ہوں جومیرے بعد آئے گا اور جسکا نام احمد ہے)۔چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام اس ہستی کی بشارت دے رہے ہیں اُنکی پیدائش سے پہلے، کہ جنکا نام محمد ہے۔ انہیں یہ علم کہاں سے ہوا؟ جبکہ عام طور پر لوگوں کی عادت تو یہی ہے کہ وہ انسان کو اسکی ولادت یا وفات کے بعد جانتے ہیں، اگر اسکا تعلق گذشتہ امتوں سے ہو تو۔ چنانچہ جب ہم گذشتہ امتوں کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں شخص تھا۔ اور یہ علم تاریخ اور قصص و روایات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ لیکن ایک شخص جو ابھی وجود میں نہیں آیا، ابھی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی وہ پرانی امتوں میں سے ہے، تو اسکا علم کیسے ہوگا؟ کوئی صورت نہیں سوائے اسکے کہ اس شخص کی حقیقت خود عیسیٰ علیہ السلام سے بھی پہلے موجود تھی۔ بلکہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی ہی اصل تھی۔
اور عیسیٰ علیہ السلام پر وحی اس حقیقتِ محمدیہ کی جہت سے نازل ہوتی تھی۔ ہمیں اس میں قطعاّ کوئی شک نہیں ہے۔اور عیسیٰ علیہ السلام اس حقیقت کو احمد کے نام سے جانتے تھے۔ اور احمد معانی کے اعتبار سے محمد ہی کا ایک جزو ہے۔ مطلب یہ کہ حقیقتِ محمدیہ کے مراتب کی تکمیل نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے ہونی تھی۔ لیکن عیسیٰ علیہ السلام اس حقیقت کو احمدی رُخ سے جانتے تھے محمدی رُخ سے نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کی طرف رہنمائی کی۔ اور اس مقام پر کافی کلام ہے، ہوسکتا ہے کہ ہم آنے والے کسی لیکچر میں اسکی طرف واپس لوٹیں، ان شاء اللہ، تاکہ یہ لیکچر طوالت کا شکار نہ ہو۔
اور ہم دوبارہ حقیقتِ محمدیہ کی طرف لوٹتے ہیں۔اور ابراہیم علیہ السلام کی دعااور عیسیٰ علیہ السلام کی دعا کے علاوہ قرآن میں اور مقامات پر بھی اسکے اشارات ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں فرماتے ہیں " وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ"۔(اور جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کردوں اور پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو اس شئے کی تصدیق کرنے والا ہو جو تمہارے پاس ہوگی، تو تم ضرور بالضرور اس پر ایمان لاؤگےاور ضرور بالضرور اسکی مدد کروگے۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس بھاری عہد کو مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے کہا کہ ہم نے اقرار کیا۔ فرمایا کہ تم گواہ ہوجاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں"۔
یہ پختہ عہد جو اللہ نے تمام انبیاء سے لیا کہ جسکی رُو سے تمام انبیاءسیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور یہ عہد کیا کہ اگر انہوں نے اس رسول کو پایا، تو اسکی نصرت کریں گے۔، یہ عہد اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ رسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بالاصالت ہے اور باقی تمام انبیاء کیلئے نیابت کے طور پر ہے۔ جیسا کہ مثلاّ حاکم کا اپنے نائب کے ساتھ معاملہ ہے کہ اسکا نائب اوامر و نواہی جاری کرتا ہے، لیکن جب اصلی حاکم حاضر ہوجائے تو اس نائب (Vice)کے احکامات کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے اور اس وقت وہ نائب رعایا کے حکم میں ہوتا ہے۔ اور اوامر و نواہی اصلی حاکم کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو بالاصالت نبی اور رسول ہیں، جیسا کہ یہ بات پچھلے حلقے میں بھی بیان کی گئی تھی۔ آپ نبی ہیں، آپ رسول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر انبیاء سے عہد لیا گیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکے زمانے میں تشریف لے آئیں تو ان انبیاء کو ان پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے وہ انبیاء مومنین کی صف میں داخل ہوگئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب الامر قرار پا گئے۔ یعنی آپ انبیاء کی طرف بھی رسول ہیں۔ یہی اسکے معنی ہیں۔
اور آیت میں جو نصرت دینے کا عہد لیا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ نصرت یہ ہے کہ تمام مفاہیم اور معیارات کو ترک کرکے اس حکم کو نافذ کیا جائے۔ یعنی اس نصرت کا تعلق کسی قسم کی شروط سے نہیں ہے کہ پہلے انبیاء یہ دیکھیں کہ ان میں یہ شرطیں پائی جارہی ہیں ،تب ہم انکی نصرت کریں گے۔ نہیں، بلکہ محض اس بات کا ادراک کرلینے سے کہ آپ آگئے ہیں اور وہ نبی آپ ہی ہیں، وہ لوگ انکے تابعین بن جائیں گے۔ مطلق طور پر انکی اتباع کریں گے۔ یہی معنی ہیں نصرت کے۔
اور یہ آیت اپنے اندر کثیر معانی رکھتی ہے اور بہت اسرار کی حامل ہے، جنکے بیان کی یہاں گنجائش نہیں۔ ہمارا مقصد تو فقط یہ ہے کہ ان رکاوٹوں کو زائل کریں جوحقیقتِ محمدیہ کے وجود کی تصدیق کے حوالے سے، لوگوں کیراہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔
چنانچہ حقیقتِ محمّدیہ سب سے پہلی تخلیق ہے، اور اس پہلی تخلیق سے باقی تمام مخلوقات اور عوالم ظاہر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حقیقت کے اعتبار سے حق تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان ایک واسطہ ہیں۔ اور ان معنی کی طرف اس امت کے اقطاب نے بہت اشارات بیان کئے ہیں، جیسا کہ سیدی عبدالسلام ابن بشیش المغربی رضی اللہ عنہ کا مشہور درود ہے(صلٰوۃ مشیشیہ) جس میں آپ فرماتے ہیں کہ إذْ لَوْلا الوَاسِطَةُ لَذَهَبَ كَما قيلَ المَوْسُوطُ
اور یہ علم محقق(Established) ہے۔ کہ اگر حقیقتِ محمدیہ نہ ہوتی تو کائنات کی کوئی بھی کائن(ہونے والی) شئے نہ وجود سے ظاہر ہوتی اور نہ شہود سے۔ اور ہم ان معنوں میں طوالت نہیں کرتے کیونکہ یہ بات ماننے والوں میں پہلے ہی کافی مشہور ہے۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
آخری تدوین: