محمود احمد غزنوی
محفلین
سیّد عبدالغنی العمری القاسمی الادریسی الحسنی کے پانچویں لیکچر کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے :
http://playit.pk/watch?v=kRD6LJ7oyU0
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمدللہ ربّ العالمین والصلٰوۃ والسلام علیٰ سیّدنا محمّدخاتم النبّیّین و اشرف المرسلین و علیٰ صحبہ والتابعین۔ امّا بعد:
قبل اس کے کہ ہم اس پانچویں حصّے میں دین پر بات کریں، یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بہتر ہوگا اگر ان لیکچرز کو اسی ترتیب کے مطابق سنا جائے جس ترتیب سے یہ بیان کئے جارہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم ان لیکچرز میں جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ تدریجی ہے یعنی پہلے لیکچرز میں بیان کی گئی بات کی بنیاد پر اگلے لیکچرز میں بتدریج آگے بڑھا جارہا ہے۔ اور ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ پہلے بیان کی گئی تفاصیل اور کلام کو ہر لیکچر میں دہرائیں تاکہ ہر نئے سننے والے کو بات از سرِ نو سمجھا سکیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے، چنانچہ بہتر ہوگا کہ جس خاص ترتیب سے یہ لیکچرز جاری کئے جارہے ہیں، اسی ترتیب سے ان کو سنا جائے۔
دوسری بات جو ہم کہنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان لیکچرز میں ہماری گفتگو درس و تدریس کے طور پر نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگ توقع کر رہے ہیں ، کیونکہ اس گفتگو میں ہم درس و تدریس کے انداز میں مسائل کی تمام اطراف و جوانب کا احاطہ نہیں کر رہے۔ ان لیکچرز میں اتنی تفاصیل کی گنجائش نہیں ہے، اور خصوصاّ جب بات دین کی ہورہی ہو تو دین سے زیادہ وسیع اور تفصیل طلب موضوع اور کون سا ہوسکتا ہے۔
اور تیسری بات یہ ہے کہ یہاں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو ہم محض تشبیہ کی غرض سے بیان کر رہے ہیں تعلیم کی غرض سے نہیں۔ یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ بعض باتیں جو ہم یہاں کہہ رہے ہیں وہ علمِ خاص کی بنیاد پر ہیں اور عام طور پر پہلے لوگوں نے ان پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی، اور وہ باتیں ہم محض لوگوں میں شوق اور دلچسپی ابھارنے کی غرض سے کہہ رہے ہیں تاکہ وہ دین میں بلند تر مفاہیم ، حقائق و معارف کی طلب اور سلوک الی اللہ پر کمربستہ ہوں اور اس ضعف کا ازالہ ہوسکے جو عام طور پرعلماء اور عامۃ المسلمین میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ جب ہم علومِ خاصّہ سے کوئی بات کہتے ہیں تو اس کی تفصیل اس طرح سےبیان نہیں کرتے جس طرح سننے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بات اسکی سمجھ میں اچھی طرح آجائے۔ کیونکہ علومِ خاصّہ کی رو سے کہی گئی بات سلوک الی اللہ طے کرنے سے اورقلب پر اُن علوم کے انکشاف سے ہی پوری طرح سمجھ میں آتی ہے۔ چنانچہ ہم ایسی کئی باتیں اور فقرات اس سلسلے میں آگے بھی ذکر کرتے رہیں گے جو سامع اپنے نفس کے زریعے سمجھ نہیں سکتا۔ اور چونکہ لیکچرز کا یہ سلسلہ روایتی درس و تدریس والا سلسلہ نہیں ہے، چنانچہ ہم سننے والے کو پوری طرح کوئی بات سمجھانے کے لئے رکیں گے نہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ دین کے ان پہلوؤں(Aspects) اور حقائق کی لوگوں کو خبر دی جائے جن پہلوؤں کو گویا بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا ہے حتیٰ کہ عامۃ المسلمین کے نزدیک وہ باتیں انکار کے قابل جا ٹھہریں ہیں، جبکہ وہ باتیں اصولِ دین میں سے ہیں اور ایسی باتیں ہیں کہ جن سے ایمان اور یقین قوی ہوتا ہے۔
حلقے کے شروع میں اس بات کی وضاحت کرنے کے بعد ہم آگے بڑھتے ہیں اور آج جس بات کے بیان کا قصد ہے اسکی طرف کلام کا رخ موڑتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ آج اس بات پرکلام کو مرکوز کیا جائے کہ انّ الدّین ھو الاسلام یعنی اسلام ہی دین ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتابِ عزیز میں فرماتا ہے کہ انّ الدّین عنداللہ الاسلام بےشک اللہ کے نزدیک دین تو صرف اسلام ہی ہے۔مطلب یہ کہ اللہ کے نزدیک اسلام کے علاوہ اور کوئی دین نہیں ہے۔ چنانچہ جب بات ایسی ہے تو پتہ چلا کہ ابتدائے انسانیّت سے لے کر اسکی انتہا تک، اور آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک، دین ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام۔
اور قبل اسکے کہ ہم اسلام کے اصطلاحی معنی لیں، دین اس کے لغوی معانی کے ساتھ بھی پوری پوری مطابقت رکھتا ہے۔ اور وہ ہے اللہ کے آگے جھک جانا ، سپر ڈال دینا ( To Surrender)، مطیع ہوجانا۔ اور انبیاء و رسل علیھم السلام تمام کے تمام اللہ کے اطاعت گذار تھے۔، اور تمام مومنین جنہوں نے ان انبیاء و رسل کی پیروی کی، وہ بھی اللہ کے اطاعت گذار تھے۔ اللہ کے آگے سرِتسلیم خم کرنے والے لوگ تھے۔ چنانچہ ہمارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم اسلام کو ان سطحی اور تنگ نظری پر مبنی معنوں میں لیں جن معنوں کا آج کل بہت چرچا کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی کثیر تعداد یہی سمجھتی ہے کہ اسلام کی شروعات شریعتِ محمّدیہ کے آنے سے ہی ہوئی۔ اگرچہ یہ معنی ایک خاص جہت سے بالکل درست ہیں، لیکن اسلام کے معانی کو اسی معنیٰ میں محصور کرلینے سے ذہن دینِ اسلام کے اطلاقی مفہوم سے قاصر رہ جا تا ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ دین ایک ہی ہے جو ابو البشر آدم علیہ السلام سے شروع ہوا۔ چنانچہ اسلام کے اس اصلی مفہوم کو سمجھنے سے ہم وحدتِ ادیان کے قائل لوگوں کی بات کو رد کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ یعنی اس سے وحدتِ ادیان کا امکان ہی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ دین تو بس ایک ہی ہے واحد ہے، چنانچہ جب دوسرا دین ہی کوئی نہیں سوائے اسلام کے ، تو پھر ادیان کی وحدت کا امکان ہی ختم ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وحدتِ ادیان کا قول حق پر مبنی نہیں ہے۔ چنانچہ دین بالاصالت ایک ہی ہے لیکن یہاں کچھ تفاصیل ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے تاکہ اس لبس اور اشتباہ(Confusion) کو رفع کیا جاسکے جو لوگوں کو لاحق ہوسکتا ہے۔
چنانچہ اس اشتباہ کے تحت کوئی پوچھ سکتا ہے کہ "اگر دین ایک ہی ہے تو کیا یہود اور نصاریٰ بھی مسلمان ہیں؟ اگر دین ایک ہی ہے اور یہود و نصاریٰ جو کہ دوسری امتوں کے مقابلے میں ہمارے نزدیک ترین ہیں، تو کیا وہ بھی مسلمان ہیں؟"۔ چنانچہ اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ اصطلاحی معنوں کے اعتبار سے یہود، موسیٰ علیہ السلام کی قوم نہیں ہیں۔ کیونکہ یہود ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے موسیٰ علیہ السلام کے راستے سے انحراف ( Deviate) کرکے الگ ہوگئے۔ یہی لوگ یہودی ہیں۔ اور اسی طرح نصاریٰ بھی عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نہیں ہیں اگرچہ وہ اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب کرتے ہوں۔ نصاریٰ وہی ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے عیسیٰ علیہ السلام کے راستے سے منحرف ہوگئے۔ چنانچہ یہود موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے مسلمانوں سے علیحدہ ہوگئے اور اسی طرح نصاریٰ بھی عیسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے مسلمانوں سے علیحدہ ہوگئے۔ اور وہ لوگ جو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے راستے پر باقی رہے خصوصاّ ان کے زمانے میں، تو ان لوگوں کے اسلام پر کسی کو شک نہیں ہے۔ اور منطقی طور پر بھی ہم لوگوں(مسلمانوں) کے لئے یہ بات تسلیم کرنا بالکل آسان ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ تمام انبیاء و رسل مسلم تھے۔ چنانچہ اگر رسول مسلم ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انکے پیروکاروں کو مسلم نہ کہا جائے۔
دین کی وحدت اور اسلام کی ہمہ گیریت کے حوالے سے یہ بات واضح ہوجانے کے بعد لازم ہے کہ ہم اپنے آپ سے یہ پوچھیں کہ اگر دین واحد ہے شروع سے آخر تک، تو کیا وجہ ہے کہ رسولوں کو دی جانے والی شریعتیں ایک دوسرے سےمختلف ہیں؟ تو اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ دین میں تطور ( Evolution/Growth) رونما ہواہے اور اسکی وضاحت کیلئے ہم دین کی معنوی صورت کو ہم اگر ایک شخص کی صورت میں تصور کریں تو کہا جاسکتا ہے کہ دین کی ابتداء ایک بچے کی طرح ت تھی، اور آہستہ آہستہ یہ بچہ نمو پذیر ہوتا گیا نشوونما پاتا گیا حتیٰ کہ اسکی نشوونما مکمل ہوگئی۔ چنانچہ دین کا بچپن کا زمانہ آدم علیہ السلام کے ساتھ شروع ہوا اور سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کے ساتھ اپنے بلوغ اور کمال کی حد کو پہنچ گیا۔ یہ عمومِ دین کے معنوں میں سے ہے اور دین میں اس نشو ونما اور ارتقاء سے مراد شریعت کا ارتقاء ہے یعنی دین کا تشریعی پہلو۔
ہم کہتے ہیں کہ انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ( آج کے دن ہم نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام بطور دین پسند کرلیا)۔ اس آیتِ کریمہ میں خطاب صرف مسلمانوں سے نہیں ہے ۔۔۔ جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے ۔۔۔ بلکہ خطاب تمام انسانوں سے ہے اور تمام بنی نوع انسان کو دین کے اکتمال کی بشارت دی جارہی ہے۔ وہ دینِ عام جس پر آدم علیہ السلام سے لیکر نزولِ آیت تک کے تمام دیندار انسان کاربند رہے، اس دین کی تکمیل کی بشارت دی جارہی ہے۔
اور یہ واضح کرنے کے لئے کہ یہ کوئی نئی یا غیر معروف بات بیان نہیں کی جارہی، ہم ایک حدیث کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ امام بخاری نے عمربن الخطّاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہود یوں میں سے ایک آدمی ایا اور اس نے آکر کہا کہ " اے امیر المؤمنین ! آپکی کتاب میں ایک آیت جو آپ لوگ پڑھا کرتے ہیں، ایسی ہے کہ اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو عید کا دن قرار دیتے"۔ پوچھا کہ کونسی آیت؟ تو وہ بولا " الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا "، یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ "ہم اس دن کو اور اس جگہ کو بھی جانتے ہیں جس میں یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، جمعے کا دن تھا اور آپ عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھے" ۔ اس حدیث مبارکہ میں ہمارے لئے یہ دلیل ہے کہ اس آیت سے اس یہودی کا ذہن اکتمالِ دین کے وہ معنی پا گیا جو آج کےبہت سے مسلمانوں کے ذہن سے اوجھل ہیں۔ چنانچہ اس یہودی نے گویا یہی کہا کہ " اگر یہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو دین ہم لوگوں میں ہی مکمل ہوجاتا، ہماری شریعت آخری قرار پاتی اور بے شک یہ ایک بہت بڑا شرف ہمیں حاصل ہوتا"۔ اور یہ معنی جو اس یہودی نے سمجھے، بیشک نصاریٰ میں سے بھی کئی لوگوں پر مخفی نہیں ہیں۔ اور جب تک نصاریٰ اپنے دین کو تورات و انجیل کی بنیاد پر رکھے رہیں گے، یہ معنی ان میں سے بعض پر روشن ہوتے رہیں گے۔
اور دین کے واحد ہونے اور اس کے استمرار (تسلسل) اور اس میں ارتقاء و تطوّر کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی بناء ( Construction) موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر ہی تھی۔ چنانچہ ان دونوں شریعتوں میں کوئی حدِّ فاصل موجود نہیں ہے۔ اور یہاں ایک اور بات بھی ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ وہ یہودی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں شریعتِ موسوی پر کاربند رہے، وہ حق پر برقرار سمجھے جائیں گے جب تک عیسیٰ علیہ السلام کا انکار نہ کردیں۔ کیونکہ شریعتِ عیسیٰ شریعتِ موسیٰ (علیھما السلام) کا تسلسل ہے۔ پس جب ان دونوں شریعتوں میں یہ معاملہ اس طرح کا ہے تو کیا وجہ ہے کہ گذشتہ تمام شریعتوں اور شریعتِ محمدّیہ میں بھی ایسا ہی معاملہ نہ ہو۔ بلکہ ایسا ہی ہے اور یہی درست بات ہے اور ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی حق ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ محمّدیہ گذشتہ تمام شریعتوں کی جامع ہے۔ اور اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرائع میں تصرف کا حق حاصل تھا کہ ان شریعتوں میں جس بات کو چاہیں برقرار رکھیں اور جس بات کو چاہیں منسوخ مرفادیں اور یہی وجہ ہے کہ شریعتِ محمّدیہ اکمل الشرائع قرار دی گئی ۔
اور ہم گذشتہ حلقوں میں حقیقتِ محمّدیہ کے ضمن میں بیان کر آئے ہیں کہ کس طرح تمام کے تمام انبیاء اس بات کے مکلّف تھے کہ اگر ان کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریعف لے آئیں تو وہ آپ کی اتباع کریں گے۔ اوریہ کہ نبوّت اور رسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بالاصالت ثابت ہے۔ اگر ہم اس ساری بات کو سمجھ جائیں تو حتمی طور پر یہ بھی جان جائیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ کی لائی ہوئی شریعت بھی آپ کی طرح خاتم ہے۔ کیونکہ کمال تک پہنچ جانے کے بعد کسی نئی چیز کا شامل ہونا کمال کے منافی ہے۔ چنانچہ بعثتِ محمدّیہ کے ساتھ اکتمالِ شریعت نے کسی نئی شریعت کی راہ بند کردی۔ اور رسالتِ محّمدیہ کے بعد کوئی رسالت نہیں ، جیسا کہ سب کو معلوم ہے۔
اور یہ دینِ شامل کہ جو تمام انسانیت کو محیط ہے، اس میں مفاصل اور مراحل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول پر ذرا توقف کرنا چاہئیے کہ وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ چنانچہ انبیاء و رسل کی تعداد اگرچہ بہت زیادہ ہے لیکن اس آیت میں پانچ کا خصوصیت سے ذکر کیا گیا اور وہ ہیں نوح علیہ السلام جو کہ اوّل الرسل ہیں ، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام اور سیّدنا محمد سلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ سب کبار الرسل ہیں اور انسانیت کو دی گئی شریعتوں اور دینِ واحد کے مفاصل( Joints or Phases) ہیں۔ اور آیت میں اگر انکی ترتیب کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا گیا ہے، جو ہمارے گذشتہ لیکچرز میں کی گئی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالاصلت نبی اور رسول ہیں جبکہ باقی انبیاء بالتبع۔ چنانچہ آیت میں اسی کی جانب اشارہ ہے جب بالجملہ تمام انبیاء کا ذکر کیا گیا اور تفصیل بیان کرتے وقت پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیھم السلام کے ناموں سے پہلے کیا گیا اگرچہ زمانی طور پر یہ لوگ آپ سے پہلے گذرے ہیں۔
اور کسی کہنے والے نے کہا کہ ایسا اس لئے ہے کیونکہ قرآن اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ، چنانچہ ان کا ذکر پہلے کیا گیا ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک عمومی معنی ہیں جن سے کسی خاص بات کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی حکمت میں ان کا کچھ دخل ہے، اور جن معنوں کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ معنی ایت کی اس ترتیب سے حاصل ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ حقیقتِ محمّدیہ تمام انبیاء و مرسلین سے پہلے ہے اور اسے اسے اوّلیت حاصل ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قبل ہی نبی تھے۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے بھی پہلے، آپ نبی تھے (حقیقتِ محمّدیہ)۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا ذکر اس آیت میں دیگر انبیاء سے پہلے کیا گیا ہے۔
اور یہ آیت شدتِ وضوح کے ساتھ اس بات کا افادہ کر رہی ہے کہ دین ایک ہی ہے۔ اور جس میثاق کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے وہ فی نفسہِ دین کا میثاق ہے۔ میثاقِ عبودیّت ہے۔ دین اللہ تعالیٰ کی طاعت اور بندگی کا نام ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت اور عبودیت کے معانی تبدیل نہیں ہوتے اور ایک رسول سے دوسرے رسول تک اور ایک نبی سے دوسرے نبی تک، یہ معنی یکساں ہی رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اور دین ایک ہی ہے۔ آدم علیہ السلام کا اسلام ہی نوح علیہ السلام کا اسلام ہے وہی ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہ السلام کا اسلام ہے اور وہی اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اور ہر نبی کے اعتبار سے اس کا اسلام کامل ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام الکامل الاکمل کے درجے پر ہے۔
اور یہ بات ہم کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں کہہ رہے جیسا کہ کچھ لوگوں کو وہم ہوا اور انہوں نے کہا کہ چونکہ تم لوگ مسلمان ہو، اس لئے تم اپنے دین اور اپنے نبی کی مدح سرائی میں یہ بات کہہ رہے ہو۔ نہیں ، واللہ ہم اس نقطہِ نظر سے یہ بات نہیں کہہ رہے۔ اور اگر ہم جانتے کہ یہودیت اس سے زیادہ حق پر ہے تو ہم اس بات کا ضرور ذکر کرتے اور بغیر کسی خوف کے یہ بات بیان کرتے، اور اسی طرح نصرانیت۔ لیکن یہ معنی جو ہم نے بیان کئے ہیں، یہ حقیقت میں ایسے ہی ہیں اور اللہ کے نزدیک اسی طرح ہیں، اور راسخین فی العلم کے نزدیک بھی یہی بات ہے۔ چنانچہ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ لوگوں کی رضا و خوشنودی کی خاطر حقائق کو تبدیل کرسکیں۔ حق اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔
چنانچہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام کمالات کے جامع ہیں، اور ان کی شریعت، تمام شرائع سے اکمل ہے اور دین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ شریعفہ سے مکمل ہوگیا، چنانچہ اب کسی ایسے شخص کا انتظار نہیں کیا جائے گا جو اللہ کی طرف سے نئی شریعت لے کر آئے۔
امام احمد نےاپنی مسند میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ , فَقَرَأَهُ عَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَغَضِبَ , وَقَالَ : " أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً , لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ , أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَوْ أَنَّ مُوسَى كَانَ حَيًّا , مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي ۔( عمر بن الخطّاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جو انہیں بعض اہلِ کتب نے دی تھی ، اورعمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کتاب میں سے کچھ پڑھنا شروع کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہِ مبارک پر غصے کے آثار ظاہر ہوئے۔ اور آپ نے فرمایا " اے عمر ابن خطاب کیا تم لوگ متحیر( Puzzled/Confused) ہو؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ میں تم لوگوں کے پاس ایک صاف ستھری خالص اور سفید چیز لے کر آیا ہوں۔ تم اِن لوگوں سے کسی شئے کے بارے میں مت پوچھو ایسا نہ ہوکہ جواب میں اگر وہ تمہیں حق بتائیں تو تم اس کو جھٹلا بیٹھو اور اگر وہ جھوٹ بتلائیں تو تم اس کو سچ سمجھنے لگو۔ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر آج موسیٰ زندہ ہوتے تو میری اطاعت اور پیروی کے سوا ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ ہوتا")۔
ہم ایک ایک کرکے اس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ کو بیان کریں گے تاکہ اس کے کچھ معنوں پر ذرا توقف کریں۔
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ چنانچہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کتاب لے کر آئے جو انہوں نے اہلِ کتب سے حاصل کی تھی ، اور ایسا لگتا ہے کہ ان کا گذر کچھ یہودیوں پر ہوا ہوگا جنہوں نے آپ کو یہ کتاب دی۔ فَقَرَأَهُ عَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَغَضِبَ , وَقَالَ : " أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ متھوّکون کا مطلب ہے متحیّرون، یعنی حیرت میں مبتلا لوگ۔ کیونکہ متحیر وہ ہوتا ہے جو اشیاء کا باہم موازنہ کرتا ہے اور کچھ یہاں سے لیتا ہے کچھ وہاں سے تاکہ ان کو جانچ کر بہتر نتیجے اور حق بات تک پہنچ سکے۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں کو اس بات کی حاجت نہیں ہوتی کیونکہ وہ شریعتِ اکمل پر ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو اس حال میں ہو، وہ متحیر کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ تو درست نہیں ہے۔ اور جب عمر رضی اللہ عنہ سے یہ فعل سرزد ہوا، تو یقیناّ یہ ان کے اسلام کے ابتدائی دور کی بات ہوگی جب ان پر شریعتِ محمّدیہ کا کمال پوری طرح واضح نہیں ہوا ہوگا۔ کیونکہ جو شخص ان حقائق کو جانتا ہے اس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ دائیں اور بائیں حق کی تلاش کے لئے دیکھے، اور یقیناّ عمر رضی اللہ عنہ بعد میں ان حقائق سے اچھی طرح آگاہ ہوگئے تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تم لوگوں کے پاس ایک صاف ستھری خالص اور سفید چیزلے کر آیا ہوں۔ سفیدی(بیاض) اور ستھرائی (نقیٰ)، کے اوصاف اس بات کی دلیل ہیں کہ شریعتِ محمّدیہ ہر قسم کے نقص اور کھوٹ سے پاک ہے۔ چنانچہ جب سفیدی خالص اور بے لوث ہو تو اس سے زیادہ کامل کوئی شئے نہیں۔ اور اس میں سابقہ شریعتوں کی جانب بھی اشارہ ہے کہ وہ سفیدی پر ضرور ہیں لیکن نقی نہیں ،۔ اور نقیٰ سے یہاں مراد ہے کمال۔ ناکہ ملاوٹ اور کھوٹ(جیسا کہ سننے والے کو گمان گذر سکتا ہے)۔ لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ یعنی ان سے دین کے حوالے سے کچھ مت پوچھو- ایسا نہ ہو کہ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ وہ جواب میں تمہیں سچی بات کی خبر دیں لیکن تم اس بات کو جھٹلا بیٹھو۔ یہاں واجب ہے کہ ہم اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ضروری نہیں اہلِ کتاب کا پورے کا پورا کلام باطل ہو۔ بلکہ مومن کے لئے اب بھی ضروری ہے کہ وہ اہلِ کلام سے گفتگو کرتے وقت احتیاط سے کام لے کیونکہ کئی چیزیں جو وہ اپنی کتب سے بیان کرتے ہیں، وہ حق ہوتی ہیں، اور ہمارے لوگ خصوصاّ عوام اس حق کو نہ دیکھ پانے کی وجہ سے اس کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔ اہلِ کتاب سے معاملہ کرنے کا یہ ایک پہلو تھا، دوسرا پہلو آگے بیان ہوا کہ أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ یا یہ کہ وہ تمہیں باطل بات کی خبر دیں اور تم حق بات سے ناواقف ہونے کی بناء پراس کو حق اور سچ سمجھ بیٹھو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شریعتِ کاملہ کے ساتھ تشریف آوری نے ہمیں اس بات سے غنی کردیا کہ ہم اہلِ کتاب سے دین کے مسائل پوچھیں۔ اور اس بے احتیاجی کی وجہ سے ہم اس بات سے محفوظ ہوگئے کہ ہم حق کو جھٹلائیں یا باطل کو سچ قرار دیں۔ اور یہ اس امّتِ خاص پر اللہ تعالیٰ کی عنایتوں اور نعمتوں میں سے ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَوْ أَنَّ مُوسَى كَانَ حَيًّا , مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر آج موسیٰ زندہ ہوتے تو میری اطاعت اور پیروی کے سوا ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ ہوتا۔
اور یہ وہ معنی ہیں جو ہم نے گذشتہ حلقوں میں اللہ کی طرف سے انبیاء و مرسلین سے اس میثاق کے حوالے سے بیان کئے تھے کہ جب وہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پالیں، تو اس کی اتباع کریں ۔یعنی موسیٰ علیہ السلام جو صاحبِ شریعت رسول ہیں، اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتے تو صرف آپکی اتباع کرنے والے لوگوں میں سے ایک ہوتے۔ اور ان کی صفتِ رسالت ان سے ہٹا لی جاتی۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تو رسول نہ ہوتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ رسالت بالاصالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے۔ سابق رسل اپنی اپنی امتوں میں رسالت میں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نائبین تھے فقط ۔اور وہ مستقل بالذات( Independent)رسول نہیں تھے. اور یہ وہ معنی ہیں جن سے ہمارے اس زمانے کے مسلمانوں اور اہلِ کتاب کی ایک کثیر تعداد ناواقف ہے۔ بیشتر مسلمان یہی سمجھتے ہیں کہ سیّدنا محمّد صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء و رسل میں سے ایک نبی اور رسول ہیں اور اگرچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی سب انبیاء و رسل سے افضل بھی سمجھتے ہوں، لیکن اس سب کے باوجود وہ آپ کو ان میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر یہ بات درست ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کبھی نہ کہتے کہ موسیٰ علیہ السلام میرے سامنے ہوتے تو میری پیروی کرتے۔ کیونکہ رسول رسول کی پیروی نہیں کرتا۔ چنانچہ واجب ہے کہ ہم ان امور کو سمجھیں کہ جن کے ہمارے عقائد پر کافی اہم اثرات پڑتے ہیں۔
اور اگر سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے انبیاء و رسل کی طرح ان میں سے فقط ایک نبی اور رسول ہوتے یعنی ان کی طرح ہوتے اگرچہ بعض خصائص میں دیگر سے افضل بھی ہوتے، تو اس صورت میں ہمارے لئے یہ جائز نہ ہوتا کہ ہم اہلِ کتاب کو محمّدی اسلام کی طرف دعوت دیں۔ کیونکہ ایسی صورت میں ہماری یہ دعوت ان کے لئے کسی کمال کی حامل نہ ہوتی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اہلِ کتاب کو اسلام کی طرف دعوت دے رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت ہم انہیں اس کمال کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں جس سے وہ محروم ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ دعوت منطقی بھی ہے اور قابلِ قبول بھی۔
۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔
http://playit.pk/watch?v=kRD6LJ7oyU0
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمدللہ ربّ العالمین والصلٰوۃ والسلام علیٰ سیّدنا محمّدخاتم النبّیّین و اشرف المرسلین و علیٰ صحبہ والتابعین۔ امّا بعد:
قبل اس کے کہ ہم اس پانچویں حصّے میں دین پر بات کریں، یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بہتر ہوگا اگر ان لیکچرز کو اسی ترتیب کے مطابق سنا جائے جس ترتیب سے یہ بیان کئے جارہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہم ان لیکچرز میں جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ تدریجی ہے یعنی پہلے لیکچرز میں بیان کی گئی بات کی بنیاد پر اگلے لیکچرز میں بتدریج آگے بڑھا جارہا ہے۔ اور ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ پہلے بیان کی گئی تفاصیل اور کلام کو ہر لیکچر میں دہرائیں تاکہ ہر نئے سننے والے کو بات از سرِ نو سمجھا سکیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے، چنانچہ بہتر ہوگا کہ جس خاص ترتیب سے یہ لیکچرز جاری کئے جارہے ہیں، اسی ترتیب سے ان کو سنا جائے۔
دوسری بات جو ہم کہنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان لیکچرز میں ہماری گفتگو درس و تدریس کے طور پر نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگ توقع کر رہے ہیں ، کیونکہ اس گفتگو میں ہم درس و تدریس کے انداز میں مسائل کی تمام اطراف و جوانب کا احاطہ نہیں کر رہے۔ ان لیکچرز میں اتنی تفاصیل کی گنجائش نہیں ہے، اور خصوصاّ جب بات دین کی ہورہی ہو تو دین سے زیادہ وسیع اور تفصیل طلب موضوع اور کون سا ہوسکتا ہے۔
اور تیسری بات یہ ہے کہ یہاں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو ہم محض تشبیہ کی غرض سے بیان کر رہے ہیں تعلیم کی غرض سے نہیں۔ یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ بعض باتیں جو ہم یہاں کہہ رہے ہیں وہ علمِ خاص کی بنیاد پر ہیں اور عام طور پر پہلے لوگوں نے ان پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی، اور وہ باتیں ہم محض لوگوں میں شوق اور دلچسپی ابھارنے کی غرض سے کہہ رہے ہیں تاکہ وہ دین میں بلند تر مفاہیم ، حقائق و معارف کی طلب اور سلوک الی اللہ پر کمربستہ ہوں اور اس ضعف کا ازالہ ہوسکے جو عام طور پرعلماء اور عامۃ المسلمین میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ جب ہم علومِ خاصّہ سے کوئی بات کہتے ہیں تو اس کی تفصیل اس طرح سےبیان نہیں کرتے جس طرح سننے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بات اسکی سمجھ میں اچھی طرح آجائے۔ کیونکہ علومِ خاصّہ کی رو سے کہی گئی بات سلوک الی اللہ طے کرنے سے اورقلب پر اُن علوم کے انکشاف سے ہی پوری طرح سمجھ میں آتی ہے۔ چنانچہ ہم ایسی کئی باتیں اور فقرات اس سلسلے میں آگے بھی ذکر کرتے رہیں گے جو سامع اپنے نفس کے زریعے سمجھ نہیں سکتا۔ اور چونکہ لیکچرز کا یہ سلسلہ روایتی درس و تدریس والا سلسلہ نہیں ہے، چنانچہ ہم سننے والے کو پوری طرح کوئی بات سمجھانے کے لئے رکیں گے نہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ دین کے ان پہلوؤں(Aspects) اور حقائق کی لوگوں کو خبر دی جائے جن پہلوؤں کو گویا بالکل ہی نظر انداز کردیا گیا ہے حتیٰ کہ عامۃ المسلمین کے نزدیک وہ باتیں انکار کے قابل جا ٹھہریں ہیں، جبکہ وہ باتیں اصولِ دین میں سے ہیں اور ایسی باتیں ہیں کہ جن سے ایمان اور یقین قوی ہوتا ہے۔
حلقے کے شروع میں اس بات کی وضاحت کرنے کے بعد ہم آگے بڑھتے ہیں اور آج جس بات کے بیان کا قصد ہے اسکی طرف کلام کا رخ موڑتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ آج اس بات پرکلام کو مرکوز کیا جائے کہ انّ الدّین ھو الاسلام یعنی اسلام ہی دین ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتابِ عزیز میں فرماتا ہے کہ انّ الدّین عنداللہ الاسلام بےشک اللہ کے نزدیک دین تو صرف اسلام ہی ہے۔مطلب یہ کہ اللہ کے نزدیک اسلام کے علاوہ اور کوئی دین نہیں ہے۔ چنانچہ جب بات ایسی ہے تو پتہ چلا کہ ابتدائے انسانیّت سے لے کر اسکی انتہا تک، اور آدم علیہ السلام سے لے کر سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک، دین ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام۔
اور قبل اسکے کہ ہم اسلام کے اصطلاحی معنی لیں، دین اس کے لغوی معانی کے ساتھ بھی پوری پوری مطابقت رکھتا ہے۔ اور وہ ہے اللہ کے آگے جھک جانا ، سپر ڈال دینا ( To Surrender)، مطیع ہوجانا۔ اور انبیاء و رسل علیھم السلام تمام کے تمام اللہ کے اطاعت گذار تھے۔، اور تمام مومنین جنہوں نے ان انبیاء و رسل کی پیروی کی، وہ بھی اللہ کے اطاعت گذار تھے۔ اللہ کے آگے سرِتسلیم خم کرنے والے لوگ تھے۔ چنانچہ ہمارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم اسلام کو ان سطحی اور تنگ نظری پر مبنی معنوں میں لیں جن معنوں کا آج کل بہت چرچا کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی کثیر تعداد یہی سمجھتی ہے کہ اسلام کی شروعات شریعتِ محمّدیہ کے آنے سے ہی ہوئی۔ اگرچہ یہ معنی ایک خاص جہت سے بالکل درست ہیں، لیکن اسلام کے معانی کو اسی معنیٰ میں محصور کرلینے سے ذہن دینِ اسلام کے اطلاقی مفہوم سے قاصر رہ جا تا ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ دین ایک ہی ہے جو ابو البشر آدم علیہ السلام سے شروع ہوا۔ چنانچہ اسلام کے اس اصلی مفہوم کو سمجھنے سے ہم وحدتِ ادیان کے قائل لوگوں کی بات کو رد کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ یعنی اس سے وحدتِ ادیان کا امکان ہی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ دین تو بس ایک ہی ہے واحد ہے، چنانچہ جب دوسرا دین ہی کوئی نہیں سوائے اسلام کے ، تو پھر ادیان کی وحدت کا امکان ہی ختم ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وحدتِ ادیان کا قول حق پر مبنی نہیں ہے۔ چنانچہ دین بالاصالت ایک ہی ہے لیکن یہاں کچھ تفاصیل ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے تاکہ اس لبس اور اشتباہ(Confusion) کو رفع کیا جاسکے جو لوگوں کو لاحق ہوسکتا ہے۔
چنانچہ اس اشتباہ کے تحت کوئی پوچھ سکتا ہے کہ "اگر دین ایک ہی ہے تو کیا یہود اور نصاریٰ بھی مسلمان ہیں؟ اگر دین ایک ہی ہے اور یہود و نصاریٰ جو کہ دوسری امتوں کے مقابلے میں ہمارے نزدیک ترین ہیں، تو کیا وہ بھی مسلمان ہیں؟"۔ چنانچہ اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ اصطلاحی معنوں کے اعتبار سے یہود، موسیٰ علیہ السلام کی قوم نہیں ہیں۔ کیونکہ یہود ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے موسیٰ علیہ السلام کے راستے سے انحراف ( Deviate) کرکے الگ ہوگئے۔ یہی لوگ یہودی ہیں۔ اور اسی طرح نصاریٰ بھی عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نہیں ہیں اگرچہ وہ اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب کرتے ہوں۔ نصاریٰ وہی ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے عیسیٰ علیہ السلام کے راستے سے منحرف ہوگئے۔ چنانچہ یہود موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے مسلمانوں سے علیحدہ ہوگئے اور اسی طرح نصاریٰ بھی عیسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے مسلمانوں سے علیحدہ ہوگئے۔ اور وہ لوگ جو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے راستے پر باقی رہے خصوصاّ ان کے زمانے میں، تو ان لوگوں کے اسلام پر کسی کو شک نہیں ہے۔ اور منطقی طور پر بھی ہم لوگوں(مسلمانوں) کے لئے یہ بات تسلیم کرنا بالکل آسان ہے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ تمام انبیاء و رسل مسلم تھے۔ چنانچہ اگر رسول مسلم ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انکے پیروکاروں کو مسلم نہ کہا جائے۔
دین کی وحدت اور اسلام کی ہمہ گیریت کے حوالے سے یہ بات واضح ہوجانے کے بعد لازم ہے کہ ہم اپنے آپ سے یہ پوچھیں کہ اگر دین واحد ہے شروع سے آخر تک، تو کیا وجہ ہے کہ رسولوں کو دی جانے والی شریعتیں ایک دوسرے سےمختلف ہیں؟ تو اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ دین میں تطور ( Evolution/Growth) رونما ہواہے اور اسکی وضاحت کیلئے ہم دین کی معنوی صورت کو ہم اگر ایک شخص کی صورت میں تصور کریں تو کہا جاسکتا ہے کہ دین کی ابتداء ایک بچے کی طرح ت تھی، اور آہستہ آہستہ یہ بچہ نمو پذیر ہوتا گیا نشوونما پاتا گیا حتیٰ کہ اسکی نشوونما مکمل ہوگئی۔ چنانچہ دین کا بچپن کا زمانہ آدم علیہ السلام کے ساتھ شروع ہوا اور سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کے ساتھ اپنے بلوغ اور کمال کی حد کو پہنچ گیا۔ یہ عمومِ دین کے معنوں میں سے ہے اور دین میں اس نشو ونما اور ارتقاء سے مراد شریعت کا ارتقاء ہے یعنی دین کا تشریعی پہلو۔
ہم کہتے ہیں کہ انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ( آج کے دن ہم نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام بطور دین پسند کرلیا)۔ اس آیتِ کریمہ میں خطاب صرف مسلمانوں سے نہیں ہے ۔۔۔ جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے ۔۔۔ بلکہ خطاب تمام انسانوں سے ہے اور تمام بنی نوع انسان کو دین کے اکتمال کی بشارت دی جارہی ہے۔ وہ دینِ عام جس پر آدم علیہ السلام سے لیکر نزولِ آیت تک کے تمام دیندار انسان کاربند رہے، اس دین کی تکمیل کی بشارت دی جارہی ہے۔
اور یہ واضح کرنے کے لئے کہ یہ کوئی نئی یا غیر معروف بات بیان نہیں کی جارہی، ہم ایک حدیث کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ امام بخاری نے عمربن الخطّاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ یہود یوں میں سے ایک آدمی ایا اور اس نے آکر کہا کہ " اے امیر المؤمنین ! آپکی کتاب میں ایک آیت جو آپ لوگ پڑھا کرتے ہیں، ایسی ہے کہ اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو عید کا دن قرار دیتے"۔ پوچھا کہ کونسی آیت؟ تو وہ بولا " الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا "، یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ "ہم اس دن کو اور اس جگہ کو بھی جانتے ہیں جس میں یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، جمعے کا دن تھا اور آپ عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھے" ۔ اس حدیث مبارکہ میں ہمارے لئے یہ دلیل ہے کہ اس آیت سے اس یہودی کا ذہن اکتمالِ دین کے وہ معنی پا گیا جو آج کےبہت سے مسلمانوں کے ذہن سے اوجھل ہیں۔ چنانچہ اس یہودی نے گویا یہی کہا کہ " اگر یہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو دین ہم لوگوں میں ہی مکمل ہوجاتا، ہماری شریعت آخری قرار پاتی اور بے شک یہ ایک بہت بڑا شرف ہمیں حاصل ہوتا"۔ اور یہ معنی جو اس یہودی نے سمجھے، بیشک نصاریٰ میں سے بھی کئی لوگوں پر مخفی نہیں ہیں۔ اور جب تک نصاریٰ اپنے دین کو تورات و انجیل کی بنیاد پر رکھے رہیں گے، یہ معنی ان میں سے بعض پر روشن ہوتے رہیں گے۔
اور دین کے واحد ہونے اور اس کے استمرار (تسلسل) اور اس میں ارتقاء و تطوّر کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی بناء ( Construction) موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر ہی تھی۔ چنانچہ ان دونوں شریعتوں میں کوئی حدِّ فاصل موجود نہیں ہے۔ اور یہاں ایک اور بات بھی ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ وہ یہودی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں شریعتِ موسوی پر کاربند رہے، وہ حق پر برقرار سمجھے جائیں گے جب تک عیسیٰ علیہ السلام کا انکار نہ کردیں۔ کیونکہ شریعتِ عیسیٰ شریعتِ موسیٰ (علیھما السلام) کا تسلسل ہے۔ پس جب ان دونوں شریعتوں میں یہ معاملہ اس طرح کا ہے تو کیا وجہ ہے کہ گذشتہ تمام شریعتوں اور شریعتِ محمدّیہ میں بھی ایسا ہی معاملہ نہ ہو۔ بلکہ ایسا ہی ہے اور یہی درست بات ہے اور ہمیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی حق ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ محمّدیہ گذشتہ تمام شریعتوں کی جامع ہے۔ اور اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرائع میں تصرف کا حق حاصل تھا کہ ان شریعتوں میں جس بات کو چاہیں برقرار رکھیں اور جس بات کو چاہیں منسوخ مرفادیں اور یہی وجہ ہے کہ شریعتِ محمّدیہ اکمل الشرائع قرار دی گئی ۔
اور ہم گذشتہ حلقوں میں حقیقتِ محمّدیہ کے ضمن میں بیان کر آئے ہیں کہ کس طرح تمام کے تمام انبیاء اس بات کے مکلّف تھے کہ اگر ان کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریعف لے آئیں تو وہ آپ کی اتباع کریں گے۔ اوریہ کہ نبوّت اور رسالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بالاصالت ثابت ہے۔ اگر ہم اس ساری بات کو سمجھ جائیں تو حتمی طور پر یہ بھی جان جائیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ کی لائی ہوئی شریعت بھی آپ کی طرح خاتم ہے۔ کیونکہ کمال تک پہنچ جانے کے بعد کسی نئی چیز کا شامل ہونا کمال کے منافی ہے۔ چنانچہ بعثتِ محمدّیہ کے ساتھ اکتمالِ شریعت نے کسی نئی شریعت کی راہ بند کردی۔ اور رسالتِ محّمدیہ کے بعد کوئی رسالت نہیں ، جیسا کہ سب کو معلوم ہے۔
اور یہ دینِ شامل کہ جو تمام انسانیت کو محیط ہے، اس میں مفاصل اور مراحل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول پر ذرا توقف کرنا چاہئیے کہ وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ چنانچہ انبیاء و رسل کی تعداد اگرچہ بہت زیادہ ہے لیکن اس آیت میں پانچ کا خصوصیت سے ذکر کیا گیا اور وہ ہیں نوح علیہ السلام جو کہ اوّل الرسل ہیں ، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام ، عیسیٰ علیہ السلام اور سیّدنا محمد سلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ سب کبار الرسل ہیں اور انسانیت کو دی گئی شریعتوں اور دینِ واحد کے مفاصل( Joints or Phases) ہیں۔ اور آیت میں اگر انکی ترتیب کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا گیا ہے، جو ہمارے گذشتہ لیکچرز میں کی گئی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالاصلت نبی اور رسول ہیں جبکہ باقی انبیاء بالتبع۔ چنانچہ آیت میں اسی کی جانب اشارہ ہے جب بالجملہ تمام انبیاء کا ذکر کیا گیا اور تفصیل بیان کرتے وقت پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیھم السلام کے ناموں سے پہلے کیا گیا اگرچہ زمانی طور پر یہ لوگ آپ سے پہلے گذرے ہیں۔
اور کسی کہنے والے نے کہا کہ ایسا اس لئے ہے کیونکہ قرآن اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ، چنانچہ ان کا ذکر پہلے کیا گیا ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک عمومی معنی ہیں جن سے کسی خاص بات کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی حکمت میں ان کا کچھ دخل ہے، اور جن معنوں کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ معنی ایت کی اس ترتیب سے حاصل ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ حقیقتِ محمّدیہ تمام انبیاء و مرسلین سے پہلے ہے اور اسے اسے اوّلیت حاصل ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قبل ہی نبی تھے۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے بھی پہلے، آپ نبی تھے (حقیقتِ محمّدیہ)۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا ذکر اس آیت میں دیگر انبیاء سے پہلے کیا گیا ہے۔
اور یہ آیت شدتِ وضوح کے ساتھ اس بات کا افادہ کر رہی ہے کہ دین ایک ہی ہے۔ اور جس میثاق کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے وہ فی نفسہِ دین کا میثاق ہے۔ میثاقِ عبودیّت ہے۔ دین اللہ تعالیٰ کی طاعت اور بندگی کا نام ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت اور عبودیت کے معانی تبدیل نہیں ہوتے اور ایک رسول سے دوسرے رسول تک اور ایک نبی سے دوسرے نبی تک، یہ معنی یکساں ہی رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اور دین ایک ہی ہے۔ آدم علیہ السلام کا اسلام ہی نوح علیہ السلام کا اسلام ہے وہی ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہ السلام کا اسلام ہے اور وہی اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اور ہر نبی کے اعتبار سے اس کا اسلام کامل ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام الکامل الاکمل کے درجے پر ہے۔
اور یہ بات ہم کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں کہہ رہے جیسا کہ کچھ لوگوں کو وہم ہوا اور انہوں نے کہا کہ چونکہ تم لوگ مسلمان ہو، اس لئے تم اپنے دین اور اپنے نبی کی مدح سرائی میں یہ بات کہہ رہے ہو۔ نہیں ، واللہ ہم اس نقطہِ نظر سے یہ بات نہیں کہہ رہے۔ اور اگر ہم جانتے کہ یہودیت اس سے زیادہ حق پر ہے تو ہم اس بات کا ضرور ذکر کرتے اور بغیر کسی خوف کے یہ بات بیان کرتے، اور اسی طرح نصرانیت۔ لیکن یہ معنی جو ہم نے بیان کئے ہیں، یہ حقیقت میں ایسے ہی ہیں اور اللہ کے نزدیک اسی طرح ہیں، اور راسخین فی العلم کے نزدیک بھی یہی بات ہے۔ چنانچہ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ لوگوں کی رضا و خوشنودی کی خاطر حقائق کو تبدیل کرسکیں۔ حق اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔
چنانچہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام کمالات کے جامع ہیں، اور ان کی شریعت، تمام شرائع سے اکمل ہے اور دین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ شریعفہ سے مکمل ہوگیا، چنانچہ اب کسی ایسے شخص کا انتظار نہیں کیا جائے گا جو اللہ کی طرف سے نئی شریعت لے کر آئے۔
امام احمد نےاپنی مسند میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ , فَقَرَأَهُ عَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَغَضِبَ , وَقَالَ : " أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً , لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ , أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَوْ أَنَّ مُوسَى كَانَ حَيًّا , مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي ۔( عمر بن الخطّاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جو انہیں بعض اہلِ کتب نے دی تھی ، اورعمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کتاب میں سے کچھ پڑھنا شروع کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہِ مبارک پر غصے کے آثار ظاہر ہوئے۔ اور آپ نے فرمایا " اے عمر ابن خطاب کیا تم لوگ متحیر( Puzzled/Confused) ہو؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ میں تم لوگوں کے پاس ایک صاف ستھری خالص اور سفید چیز لے کر آیا ہوں۔ تم اِن لوگوں سے کسی شئے کے بارے میں مت پوچھو ایسا نہ ہوکہ جواب میں اگر وہ تمہیں حق بتائیں تو تم اس کو جھٹلا بیٹھو اور اگر وہ جھوٹ بتلائیں تو تم اس کو سچ سمجھنے لگو۔ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر آج موسیٰ زندہ ہوتے تو میری اطاعت اور پیروی کے سوا ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ ہوتا")۔
ہم ایک ایک کرکے اس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ کو بیان کریں گے تاکہ اس کے کچھ معنوں پر ذرا توقف کریں۔
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكِتَابٍ أَصَابَهُ مِنْ بَعْضِ أَهْلِ الْكُتُبِ چنانچہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کتاب لے کر آئے جو انہوں نے اہلِ کتب سے حاصل کی تھی ، اور ایسا لگتا ہے کہ ان کا گذر کچھ یہودیوں پر ہوا ہوگا جنہوں نے آپ کو یہ کتاب دی۔ فَقَرَأَهُ عَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَغَضِبَ , وَقَالَ : " أَمُتَهَوِّكُونَ فِيهَا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ متھوّکون کا مطلب ہے متحیّرون، یعنی حیرت میں مبتلا لوگ۔ کیونکہ متحیر وہ ہوتا ہے جو اشیاء کا باہم موازنہ کرتا ہے اور کچھ یہاں سے لیتا ہے کچھ وہاں سے تاکہ ان کو جانچ کر بہتر نتیجے اور حق بات تک پہنچ سکے۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں کو اس بات کی حاجت نہیں ہوتی کیونکہ وہ شریعتِ اکمل پر ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو اس حال میں ہو، وہ متحیر کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ تو درست نہیں ہے۔ اور جب عمر رضی اللہ عنہ سے یہ فعل سرزد ہوا، تو یقیناّ یہ ان کے اسلام کے ابتدائی دور کی بات ہوگی جب ان پر شریعتِ محمّدیہ کا کمال پوری طرح واضح نہیں ہوا ہوگا۔ کیونکہ جو شخص ان حقائق کو جانتا ہے اس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ دائیں اور بائیں حق کی تلاش کے لئے دیکھے، اور یقیناّ عمر رضی اللہ عنہ بعد میں ان حقائق سے اچھی طرح آگاہ ہوگئے تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا , وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تم لوگوں کے پاس ایک صاف ستھری خالص اور سفید چیزلے کر آیا ہوں۔ سفیدی(بیاض) اور ستھرائی (نقیٰ)، کے اوصاف اس بات کی دلیل ہیں کہ شریعتِ محمّدیہ ہر قسم کے نقص اور کھوٹ سے پاک ہے۔ چنانچہ جب سفیدی خالص اور بے لوث ہو تو اس سے زیادہ کامل کوئی شئے نہیں۔ اور اس میں سابقہ شریعتوں کی جانب بھی اشارہ ہے کہ وہ سفیدی پر ضرور ہیں لیکن نقی نہیں ،۔ اور نقیٰ سے یہاں مراد ہے کمال۔ ناکہ ملاوٹ اور کھوٹ(جیسا کہ سننے والے کو گمان گذر سکتا ہے)۔ لَا تَسْأَلُوهُمْ عَنْ شَيْءٍ یعنی ان سے دین کے حوالے سے کچھ مت پوچھو- ایسا نہ ہو کہ فَيُخْبِرُوكُمْ بِحَقٍّ فَتُكَذِّبُوا بِهِ وہ جواب میں تمہیں سچی بات کی خبر دیں لیکن تم اس بات کو جھٹلا بیٹھو۔ یہاں واجب ہے کہ ہم اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ضروری نہیں اہلِ کتاب کا پورے کا پورا کلام باطل ہو۔ بلکہ مومن کے لئے اب بھی ضروری ہے کہ وہ اہلِ کلام سے گفتگو کرتے وقت احتیاط سے کام لے کیونکہ کئی چیزیں جو وہ اپنی کتب سے بیان کرتے ہیں، وہ حق ہوتی ہیں، اور ہمارے لوگ خصوصاّ عوام اس حق کو نہ دیکھ پانے کی وجہ سے اس کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔ اہلِ کتاب سے معاملہ کرنے کا یہ ایک پہلو تھا، دوسرا پہلو آگے بیان ہوا کہ أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوا بِهِ یا یہ کہ وہ تمہیں باطل بات کی خبر دیں اور تم حق بات سے ناواقف ہونے کی بناء پراس کو حق اور سچ سمجھ بیٹھو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شریعتِ کاملہ کے ساتھ تشریف آوری نے ہمیں اس بات سے غنی کردیا کہ ہم اہلِ کتاب سے دین کے مسائل پوچھیں۔ اور اس بے احتیاجی کی وجہ سے ہم اس بات سے محفوظ ہوگئے کہ ہم حق کو جھٹلائیں یا باطل کو سچ قرار دیں۔ اور یہ اس امّتِ خاص پر اللہ تعالیٰ کی عنایتوں اور نعمتوں میں سے ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَوْ أَنَّ مُوسَى كَانَ حَيًّا , مَا وَسِعَهُ إِلَّا أَنْ يَتَّبِعَنِي قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر آج موسیٰ زندہ ہوتے تو میری اطاعت اور پیروی کے سوا ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ ہوتا۔
اور یہ وہ معنی ہیں جو ہم نے گذشتہ حلقوں میں اللہ کی طرف سے انبیاء و مرسلین سے اس میثاق کے حوالے سے بیان کئے تھے کہ جب وہ اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پالیں، تو اس کی اتباع کریں ۔یعنی موسیٰ علیہ السلام جو صاحبِ شریعت رسول ہیں، اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتے تو صرف آپکی اتباع کرنے والے لوگوں میں سے ایک ہوتے۔ اور ان کی صفتِ رسالت ان سے ہٹا لی جاتی۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تو رسول نہ ہوتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ رسالت بالاصالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے۔ سابق رسل اپنی اپنی امتوں میں رسالت میں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نائبین تھے فقط ۔اور وہ مستقل بالذات( Independent)رسول نہیں تھے. اور یہ وہ معنی ہیں جن سے ہمارے اس زمانے کے مسلمانوں اور اہلِ کتاب کی ایک کثیر تعداد ناواقف ہے۔ بیشتر مسلمان یہی سمجھتے ہیں کہ سیّدنا محمّد صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء و رسل میں سے ایک نبی اور رسول ہیں اور اگرچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی سب انبیاء و رسل سے افضل بھی سمجھتے ہوں، لیکن اس سب کے باوجود وہ آپ کو ان میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر یہ بات درست ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کبھی نہ کہتے کہ موسیٰ علیہ السلام میرے سامنے ہوتے تو میری پیروی کرتے۔ کیونکہ رسول رسول کی پیروی نہیں کرتا۔ چنانچہ واجب ہے کہ ہم ان امور کو سمجھیں کہ جن کے ہمارے عقائد پر کافی اہم اثرات پڑتے ہیں۔
اور اگر سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے انبیاء و رسل کی طرح ان میں سے فقط ایک نبی اور رسول ہوتے یعنی ان کی طرح ہوتے اگرچہ بعض خصائص میں دیگر سے افضل بھی ہوتے، تو اس صورت میں ہمارے لئے یہ جائز نہ ہوتا کہ ہم اہلِ کتاب کو محمّدی اسلام کی طرف دعوت دیں۔ کیونکہ ایسی صورت میں ہماری یہ دعوت ان کے لئے کسی کمال کی حامل نہ ہوتی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اہلِ کتاب کو اسلام کی طرف دعوت دے رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت ہم انہیں اس کمال کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں جس سے وہ محروم ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ دعوت منطقی بھی ہے اور قابلِ قبول بھی۔
۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔