محمود احمد غزنوی
محفلین
عارفِ ربانی شیخ عبدالغنی العمری الحسنی کے نویں لیکچر کے ابتدائی نصف حصے کا ترجمہ کیا ہے جو پیشِ خدمت ہے۔۔۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد للہ ربّ العالمین والصلٰوۃ والسلام علیٰ خاتم النبیّین و اشرف المرسلین سیّدنا محمّد وعلیٰ آلہ واصحابہ والتّابعین۔ امّا بعد:
آج ہم اس فرقہ بندی پر گفتگو کریں گے جو امت میں ظہورپذیر ہوئی اور ایک فریق کے مقابلے میں کسی دوسرے فریق کی حمایت کی بجائے اس معاملے پر شریعت اور حقیقت کی جہت سے نظر ڈالیں گے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
ضروری ہے کہ ہم اس بات کا ذکر پہلے سے ہی کردیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے ، تاکہ دین اس امت کو آراء کے اختلاف کے باوجود مجتمع رکھ سکے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ۔ (بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو پارہ پار کردیا اور فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی معاملے میں ان میں سے نہیں، انکا معاملہ اللہ کے سپرد ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرمادے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔) اور ہم آگاہ کرتے چلیں کہ زیادہ تر مسلمان اس آیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو پارہ پارہ کردیا اور فرقوں میں بٹ گئے، وہ کسی معاملے میں آپ میں سے نہیں ہیں(لیسوا منک فی شئی)، جبکہ معنی بالکل مختلف ہیں۔ اور یہ اسلئے کہ معاملے کا تعلق امتِ واحدہ سے ہے۔ چاہے یہ خاص امتِ محمدیہ ہو یا عام۔ اور ہوسکتا ہے کہ ہم اس بات کی کچھ تفصیل یہاں پیش کریں۔
لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کسی معاملے میں بھی ان میں سے نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ اطلاق کے حامل ہیں، تقلید سے آزاد ہیں۔ چنانچہ جو بھی محمدی ہوتا ہے یعنی محمدی المقام ہوتا ہے، لازماّ وہ مطلق یعنی وسعت و اطلاق کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی مقام سے ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ عقیدۃ المحمدیہ یعنی عقیدہ اسلامیہ اپنی کامل صورت میں مجمل (Summed up ) ہوتا ہے۔ اور یہ اجمال (Summation) تدین کے مراحل عبور کرتے ہوئے بتدریج ( Gradually)حاصل ہوتا ہے،اور رفتہ رفتہ اطلاق (Limitless vastness ) کے درجے تک جاپہنچتا ہے۔ چنانچہ جوں جوں انسان سلوک الی اللہ میں آگے قدم بڑھاتا جاتا ہے، اسکا باطن وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور نظر کو وسعت حاصل ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ وصول کے بعد اسے یہ تحقق ( Realization) حاصل ہوتا ہے کہ وہ اطلاق کا حامل ہوجاتا ہے اور امت میں رونما ہونے والے تمام کے تمام اختلافات اسکی وسعت کے دامن میں سما جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اپنے فہم و ادراک سے وہ ان تمام اختلافات پر حاوی ہوتا ہے۔ اور ہم دیکھیں گے کہ ایسا کس طرح ہوتا ہے۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اس آیت میں مخاطلب کیا گیا ہے کہ لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ کہ آپ کسی معاملے میں بھی ان میں سے نہیں ہیں، کیونکہ یہ لوگ تو دین میں تفرقہ بازی کرنے کی وجہ سے اپنے اپنے عقیدے اور مذہب و مسلک میں مقیّد(Confined & defined) ہوگئے، اگر وہ اصحابِ عقائد ہیں تو اپنے مخصوص مسلکی عقیدے سے، اور اگر وہ اصحاب الفقہ ہیں تو اپنے مخصوص فقہی مذہب سے منسوب ہوکر وابستہ ہوگئے۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اپنے اپنے مسالک اور مذاہب سے وابستہ تقیدات کے اسیر لوگ، ہر معنی اور مفہوم میں منسوب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہونگے۔ کیونکہ بیشک اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اطلاق کی وجہ سے ان میں سے نہیں ہیں، لیکن یہ تو آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہی ہیں۔، کیونکہ یہ تقیدات دراصل تفاصیل ہیں آپکے اطلاق کی۔ اور ضروری ہے کہ اس فہم کو اور اس نکتے کو ہم سب لوگ سمجھیں تاکہ کوئی بھی گروہ اس زعم کا شکار نہ ہو کہ بس تنہا وہی حق پر ہے اور باقی سب لوگ گمراہی پر ہیں یا کفر پر ہیں۔ جیساکہ ہم اپنے زمانے میں ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ بات ہمارے نزدیک دین کی اصل کے خلاف ہے۔ چنانچہ جب تک کوئی بندہ یا کوئی جماعت (کوئی بھی ہو) اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، تو وہ اسلام کے اندر داخل ہے اور ہمیں چاہئیے کہ ہم اسکے اسلام کا اعتبار کریں۔ ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت بڑی نافرمانی اور گناہ کے مرتکب ہونگے۔
یہ افتراق جو امت میں رونما ہوا ہے، یہ قضا و قدر کی جانب سے ہے اور اسکا نافذ ہونا ایک لازمی امر تھا۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ اسکو روکا جاسکے۔ اور کوئی بھی شخص جو یہ گمان کرتا ہے کہ مختلف طریقوں میں سے کسی طریقے سے اس فرقہ بندی سے بچا جاسکتا تھا، وہ اصل معاملے سے لاعلم ہے اور جہلِ عظیم میں مبتلا ہے، اور اسے چاہئیے کہ ان مسائل میں گفتگو نہ کیا کرے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہر فرقہ اور ہر مذہب ومسلک یہ سمجھتا ہے کہ وہ شریعت پر قائم ہے اور اسکے مخالفین شریعت کے مخالف ہیں اور فاسق ہیں، تو اسکی یہ بات درست نہیں کیونکہ ہر مسلک اور ہر فرقہ شریعت سے ہی نکلا ہے لیکن مختلف فہوم (Understandings)اور زاویہ ہائے نگاہ سے۔ چنانچہ اگر کوئی فرقہ دوسرے فرقے کے نقطہ ہائے نظر کاانکار کرتا ہے تو اس سے یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہتی ہے کہ تمام فرقے ایک ہی شریعت سے نکلے ہیں، چاہے وہ کسی نہ کسی مسئلے میں درست رائے رکھتے ہوں یا غلط۔ چنانچہ اس بناء پر انکا معاملہ ان مجتھدین جیسا ہے جو غلطی پر ہوں۔ اور امت کے علماء میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ خطائے اجتہادی کے مرتکب کو فاسق کہا جائے۔ چنانچہ اس میدان میں اتنی وسعت ہے کہ ہم ایک دوسرے کو برداشت کر سکیں اور آگے بڑھ سکیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حدیث میں ذکر فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم نے ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ بخاری کے الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ فَمَنْ " تم اپنے سے پہلے گذرنے والی قوموں کے طریقوں کی پوری مطابقت کے ساتھ پیروی کروگے، اس حد تک کہ اگر وہ کسی ضب یعنیLizard کا پیچھا کرتے ہوئے اسکے بل میں جا داخل ہوئے تو تم بھی ایسا کروگے۔ ہم (صحابہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا وہ قومیں یہود اور نصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا ، اور کون؟"۔ یہ حدیث ہمیں ایک حقیقت کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے جو لحظہ بہ لحظہ وقوع پذیر ہورہی ہے، اور ممکن نہیں کہ اس بات کو جھٹلایا جاسکے۔ اور وہ یہ کہ یہ امت بھی فرقہ بندی کی تفاصیل میں ان باتوں میں پڑے گی جن میں پرانی امتیں جا پڑی تھیں، چاہے یہ تفرقہ بازی مختلف قسم کی آراء کے تنوّع (Diversity of opinions ) کے نتیجے میں ہو یا گمرہی اور اپنی اصل سے خروج کی شکل میں ہو۔ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ اس حد تک کہ اگر وہ کسی ضب کا پیچھا کرتے ہوئے اسکے بل میں جا گھسے تو تم بھی ایسا کروگے، اور یہ اپنی اصل سے خروج کی دلیل ہے۔ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ فَمَنْ ہم (صحابہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا وہ قومیں یہود اور نصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا ، اور کون۔ صحابہ نے یہود اور نصاریٰ کا ہی پوچھا کیونکہ یہی لوگ انکے قریب تھے چنانچہ صحابہ نے پرانی امتوں کو انہی دو میں محصور کرکے سوال کیا، جبکہ یہ معاملہ تمام سابقہ امتوں کو شامل ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ تم اپنے سے پہلے گذرنے والی قوموں کے طریقوں کی پیروی کروگے۔ چنانچہ آپ نے بات ایک عمومیت کے ساتھ بیان فرمائی اور اسکو کسی خاص امت کے ساتھ مخصوص نہ کیا، جبکہ صحابہ کرام نے اپنے ماحول کے مطابق ان دو قوموں کے بارے میں سوال کیا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اور کون؟ یعنی جن معنوں کی جانب صحابہ کا ذہن منتقل ہوا تھا، ان کا اقرار و اثبات کیا ، ورنہ معاملہ اس سے زیادہ وسعت کا حامل ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران میں فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (تم بہترین امّت ہو جو سب لوگوں کیلئے ظاہرکی گئی ہے، تم بھلائی کا امر کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو)۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ ہم بہترین امّت کیسے ہوگئے؟ ہم بہترین امّت ہوئے اس نسبت سے اور اس براہِ راست انتساب سے جو ہمیں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ حاصل ہے، کیونکہ پرانی امتوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتساب حاصل تھا لیکن براہِ راست طریق سے نہیں بلکہ گذشتہ انبیاء و رسل کی اتّباع کی وساطت سے تھا۔ کیونکہ یہ تمام انبیاء و رسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے فیض حاصل کرتے تھے اور انکی امتیں ان سے فیض کا اکتساب کرتی تھیں، جبکہ یہ امّت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ براہِ راست نسبت رکھتی ہے اور اکتسابِ فیض کرتی ہے۔ گویا اس معاملے میں یہ امت پرانی امتوں کے مقابل نہیں بلکہ انبیائے سابقین کے مقابل ہے، اور اسی اتباع کی وجہ سے یہ امت لوگوں کیلئے ظاہر کی جانے والی بہترین امت کہلائی۔تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ تم بھلائی کا امر کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اس امت کی صفات ہیں۔ شرطیں نہیں ہیں، جیسا کہ بعض لوگوں نے اس آیت میں کلام کرتے ہوئے ان امور کو شرائط جانا ہے اور اس معنی کی طرف گئے ہیں کہ یہ امت محض اسی لئے بہترین امت کہلائی ہے کہ یہ بھلائی کا حکم دیتی ہے برائی سے منع کرتی ہے اور اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔ جبکہ حق بات یہ ہے کہ یہ سب تو صفات ہیں، شروط نہیں ہیں۔ معنی یہ بنتے ہیں کہ یہ امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت کی برکت سے بحیثیت مجموعی بھلائی کا حکم دیتی ہے، برائی سے منع کرتی ہے اور اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔ اور نسبتِ محمدیہ کی وجہ سے اس امت کو اجمالی طور پر یہ صفات حاصل ہوئیں، یعنی اجمالاّ اور ضروری نہیں کہ ہر ہر تفصیل میں بھی لوگ ہمیشہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا التزام کرتے ہوں اور حق پر قائم رہتے ہوں اور ہمارے نزدیک کچھ امور کی تفاصیل میں لوگوں سے حق بات کی مخالفت بھی ظاہر ہوتی رہی ہے۔ اور امت کا یہ بہترین ہونا یعنی خیر الامم ہونا، اسکو گذشتہ تمام سابقہ امتوں کے مقابل میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اور ان امتوں کا اس امت کے ساتھ یہ تقابل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس امت میں وہ سب کچھ اکٹھا پایا جائے جو باقی تمام امتوں میں متفرق طور پر موجود تھا۔
صحیح ابن حبّان میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَى عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةًیہودی اکہتر فرقوں پر تقسیم ہوگئے اور نصاریٰ بہتر فرقوں پر بٹ گئے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ اور مستدرک الحاکم میں اس بات کا اضافہ ہے کہ كُلُّهُا فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً یعنی سب کے سب آگ میں ہیں سوائے ایک ملت کےقَیل: وَما واحِدَةً ؟پوچھا گیا وہ ایک کون؟ فقَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي آپ نے فرمایا وہی جو اس بات پررہیں گے جس پرآج میں اور میرے ساتھی ہیں۔
اس حدیثِ مبارکہ پر ہم دو جہتوں ( Aspects)سے گفتگو کریں گے۔
پہلی جہت ہے امتِ محمدیہ العامّۃ۔ جس میں آدم علیہ السلام سے لیکر یومِ قیامت تک کے تمام لوگ شامل ہیں چنانچہ اس امتِ محمدیہ العامّۃ کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ وہ ہے جس میں آپکی تشریف آوری سے قبل کے تمام لوگ اور انبیاء و رسل شامل ہیں، اور اس حصے میں تمام انبیا و رسل آپکے نائب کی حیثیت سے رشد و ہدایت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اور دوسرے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس آکر ہدایت کی باگ ڈور اپنے مبارک ہاتھوں میں سنبھال لی۔ یہ سب ملا کر امتِ واحدہ ہے، امتِ محمدیہ العام ہے۔ اور ہم اس حدیث شریف کو پہلے اس جہت سے دیکھیں گے۔
اور بعد میں ہم اس حدیثِ مبارکہ کو دوسری جہت سے دیکھیں گے جو کہ امتِ محمدیہ الخاص ہے۔ یعنی آپکی بعثتِ مبارکہ سے لیکر قیام الساعۃ تک آپکے ماننے والے۔
چنانچہ پہلی جہت سے دیکھیں تو یہود اکہتر 71 فرقوں میں بٹ گئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہود سے پہلے کی تمام گذشتہ امتوں کی تعداد ستر 70 تھی۔ اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو امتوں کی تعداد اکہتر 71 ہوگئی۔ چنانچہ اس وقت ان اکہتر 71 میں سے ستر 70 فرقے سب کے سب نارِ جہنم کے مستحق ٹھہرے سوائے ایک کے اور یہ وہ لوگ تھے جو موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔، یعنی موسیٰ علیہ السلام کی امت جو اس وقت دینِ اسلام پر قائم تھی۔ اور اس بات کا ذکر ہم اپنے گذشتہ لیکچر میں دین کے تطّور (Evolution ) اور شریعتِ محمدیہ کے ذریعے اسکی تکمیل کے حوالے سے کرچکے ہیں ۔پھر اسکے بعد جب عیسیٰ علیہ السلام اپنی رسالت کے ساتھ تشریف لائے تو امتوں کی تعداد بہتر 72 ہوگئی اور ان میں سے سوائے ایک کے باقی سب جہنم کی مستحق ٹھہریں۔ اور نجات یافتہ امت اس زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام کی امت تھی۔ اور باقی سب آگ کی مستحق ہوئیں کیونکہ انہوں نے حق کی مخالفت کی اور طریق سے پرے ہٹ گئے۔ کیونکہ طریق ہی متواصل( Connected) ہے۔ تمام کے تمام انبیاء نے اپنی اپنی شریعتوں کے ساتھ مخصوص حدود تک طریق کی تکمیل کی۔ چنانچہ بعد میں آنے والا رسول اس مخصوص حد سے امت کوآگے لیکر چلتا اور ایک مخصوص حد تک امت کو پہنچاتا۔ اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا حتیٰ کہ آ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی کہ جن کے بعد اور کوئی نبی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شریعت کے ساتھ مبعوث ہوگئے تو امتوں کی تعداد تہتر 73 ہوگئی جن میں سے سوائے ایک کے باقی تمام جہنم کی حقدرار ٹھہریں اور آپکی امت نجات یافتہ قرار پائی۔ یہ وہ معنی ہیں جو امتِ محمدیہ العامہ کی جہت سے ہیں جس میں تمام بشریت شامل ہے۔ چنانچہ انسانوں کیلئے اس میں بہت بڑی رحمت ہے اگر وہ اسکا ادراک کرپائیں جسکی طرف ہمارا اشارہ ہے۔
اب ہم امتِ محمدیہ الخاصۃ کی جہت سے اس حدیث مبارکہ کو دیکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ امت بھی تمام امم کی تعداد کے برابر یعنی تہتر 73 فرقوں میں منقسم ہے۔ اور ہر ہر فرقہ گذشتہ امم میں سے کسی نہ کسی امت کے بالمقابل ہے۔ چنانچہ اس امتِ خاصہ میں تمام گذشتہ امم منعکس ہوگئیں۔ چنانچہ جس طرح سابقہ امتیں تہتر 73امتوں میں بٹ گئیں، اور ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں، اسی طرح یہ امتِ محمدیہ الخاص بھی تہتر 73 فرقوں میں بٹ گئی اور ان میں اختلاف رونما ہوا۔ لیکن اس اختلاف اور اس افتراق کی وجہ سے یہ لوگ امتِ محمدیہ سے خارج نہیں ہوئے۔ چنانچہ جس طرح یہ 73 فرقے گویا پہلے معنی کی رو سے 73 امتیں ہیں جن میں سے سوائے ایک کے جو اس زمانے کے نبی کی امت تھی باقی سب آگ میں ہیں۔ معلوم ہوگیا کہ ان میں سے آگ کے مستحق کون لوگ تھے اور جنت کے مستحق کون۔ چنانچہ انہی معنوں کو جب امتِ محمدیہ الخاصۃ پر منطبق کریں تو حدیث نے واضح کیا کہ ان تہتر 73 فرقوں میں سے بھی 72 آگ میں ہیں سوائے ایک کے۔ لیکن آگ میں ہونے کا وہ مطلب نہیں جو پہلی امتوں کے ساتھ مخصوص تھا۔ کیونکہ پہلے معنوں میں آگ میں ہونے سے مراد ہے خلود فی النار۔ یعنی ہمیشگی۔چنانچہ جب عیسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئے تو وہ تمام یہود جو آپ پر ایمان نہ لائے، وہ ہمیشہ کے عذاب کے مستحق ٹحہرے۔ لیکن امتِ محمدیہ الخاصۃ میں بننے والے تہتر فرقے جن میں سے ایک نجات یافتہ ہے ، اور باقی سب آگ میں۔لیکن انکے لئے خلود فی النار نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو آگ چھوئے گی لیکن ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ اس آگ میں نہیں رہیں گے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتساب کی برکت نے ان سے ہمیشگی کا عذاب رفع کردیا۔ لازم ہے کہ ہم ان دونوں مفاہیم یعنی خلود اور عدم الخلود فی النار کو ذہن میں رکھیں۔
یہاں ایک حدیثِ مبارکہ ہے جو تمام اممِ سابقہ اور اس خاص امت ِ محمدیہ میں تقابل ( Reciprocity) کے مفہوم کو مزید اس قدر واضح کرتی ہے، کہ گویا امّت سابقہ امّتوں کیلئے ایک آئینے کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ یہ امّت ان امتوں کی پیروی ہر قسم کی طاعات اور معاصی کے ضمن میں بھی کرتی دکھائی دے گی، چنانچہ جو گمراہیاں اور نافرمانیاں اگلی امتّوں سے سرزد ہوئیں، یہ امّت بھی انکا ارتکاب کرے گی اور یہ اسی تقابل اور مطابقت کی وجہ سے ہے جو ان امّتوں میں اور اس امّت میں پائی جاتی ہے۔ بخاری و مسلم اور دیگر کتب میں حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بیشک زمان یعنی وقت کا پہیہ اب گھوم کر اسی ہئیت ( Position) پر آگیا ہے جس ہئیت پر اس دن تھا جب اللہ نے زمین اور آسمانوں کو تخلیق فرمایا تھا۔ مطلب یہ نکلا کہ زمان کیلئے ایک دورہ( Cycle) ہے۔ اور یہ دور یعنی سائیکل ابتدائے آفرینش یعنی زمین و آسمان کی تخلیق سے شروع ہوتا ہے اور قیامت کی ساعت پر جاکر ختم ہوتا ہے۔ جب زمان کے استدار (Cyclic movement ) کی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تو اس یہ مفہوم واضح ہوا کہ بعثتِ محمدیہ کامل طور پر اس نقطے کے بالمقابل (Diametric Opposite)ہے جس سے زمان کا یہ سفر شروع ہوا تھا۔ یعنی زمان اپنے ایک پورے دائرے کے سفر میں سے نصف دائرے کا سفر طے کرچکا تھا۔ چنانچہ دائرے کا یہ پہلا نصف سفر ا ن تمام سابقہ امتّوں کو محیط ہے جو ابتدائے آفرینش سے بعثتِ محمدیہ تک پردہ ِظہور پر نمودار ہوئیں، اور حدیث کے الفاط کے مطابق چونکہ زمان اس مقام پر گھوم کر پہنچ گیا تھا جو اسکے نصف دائروی سفر یعنی پہلی قوس کا آخری نقطہ تھا جو ابتدائی نقطے کے بالکل سامنے واقع ہوا ہے، اور جسکے بعد اس نے دوبارہ صعود کرکے دائرے کی تکمیل تک یعنی ساعتِ قیامت تک بقیہ نصف دائرے کو طے کرنا ہے، چنانچہ بعثتِ محمدیہ سے لیکر قیامِ ساعت تک کی یہ دوسری قوس خاص امّتِ محمدیہ کیلئے مخصوص ہے۔ اور اسی بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث ِ مبارکہ میں بیان کیا ہے جو بخاری و مسلم اور دیگر کتب میں بھی منقول ہوئی ہے آپ نے فرمایا بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ كہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح مبعوث ہوئے ہیں اور آپ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھاتے ہوئے یہ بات بیان فرمائی۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قیامِ ساعت کے درمیان کوئی اور نبی نہیں۔ چنانچہ یہ دوسرا نصف دائرہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مخصوص ہے، جیسا کہ پہلا نصف دائرہ بھی آپ ہی سے مخصوص ہے لیکن انبیائے سابقین اور رسل کے طریق سے۔ چنانچہ پرانی امّتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف نہیں تھیں لیکن انکے انبیاء آپکو جانتے تھے اور پچھلے لیکچرز میں ہم نے حقیقتِ محمدیہ کے بیان میں یہ بات پہلے بھی ذکر کی ہے۔ چنانچہ وہ انبیاء و رسل علیھم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دلالت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد و بعثت کی بشارتیں دیا کرتے تھے۔
چنانچہ ان دونوں نصف دائروں(قوسین ) کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونے کی بدولت جو کچھ پہلے نصف دائرے میں تھا وہ تمام کا تمام دوسرے نصف دائرے میں منعکس ہوگا۔ اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جسکی بدولت اس امّت پر بھی وہی کچھ واقع ہوگا جو پچھلی امّتوں پر گذرا۔ آخر یہ چیزکس بات پر دلالت کرتی ہے؟ ہمارے نزدیک یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس امّتِ شریفہ کے تمام فرقے پرانی امّتوں کی صفات کے مطابق ہیں، ان معنوں میں کہ ہماری اس امّت میں بھی یہود و نصاریٰ ہیں، بلکہ پچھلی تمام امتویں اس امّت میں موجود ہیں، لازم ہے کہ ہماری اس بات سے یہی مطلب نکالا جائے اور اچھی طرح سمھ لیا جائے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اس امت میں بھی یہود و نصاریٰ اور پرانی امتیں ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ہماری امت کے یہ یہود و نصاریٰ کافر نہیں بلکہ مسلمان ہی ہیں اور سچ مچ کے یہود و نصاریٰ (یعنی پرانی امتوں والے اور غیر مسلم) نہیں بلکہ صفات میں ان سے مماثل ہیں۔ اور مسلمان ہی ہیں۔ اور یہ امر اس بہترین امّت کے کمال کی دلیل ہے۔ اب یہ سننے والے پر ہے کہ وہ تفاصیل کو تلا ش کرے اور اُن میں اور اِن میں مطابقت کا مشاہدہ کرے۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد للہ ربّ العالمین والصلٰوۃ والسلام علیٰ خاتم النبیّین و اشرف المرسلین سیّدنا محمّد وعلیٰ آلہ واصحابہ والتّابعین۔ امّا بعد:
آج ہم اس فرقہ بندی پر گفتگو کریں گے جو امت میں ظہورپذیر ہوئی اور ایک فریق کے مقابلے میں کسی دوسرے فریق کی حمایت کی بجائے اس معاملے پر شریعت اور حقیقت کی جہت سے نظر ڈالیں گے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
ضروری ہے کہ ہم اس بات کا ذکر پہلے سے ہی کردیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے ، تاکہ دین اس امت کو آراء کے اختلاف کے باوجود مجتمع رکھ سکے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ۔ (بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو پارہ پار کردیا اور فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی معاملے میں ان میں سے نہیں، انکا معاملہ اللہ کے سپرد ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرمادے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔) اور ہم آگاہ کرتے چلیں کہ زیادہ تر مسلمان اس آیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو پارہ پارہ کردیا اور فرقوں میں بٹ گئے، وہ کسی معاملے میں آپ میں سے نہیں ہیں(لیسوا منک فی شئی)، جبکہ معنی بالکل مختلف ہیں۔ اور یہ اسلئے کہ معاملے کا تعلق امتِ واحدہ سے ہے۔ چاہے یہ خاص امتِ محمدیہ ہو یا عام۔ اور ہوسکتا ہے کہ ہم اس بات کی کچھ تفصیل یہاں پیش کریں۔
لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کسی معاملے میں بھی ان میں سے نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ اطلاق کے حامل ہیں، تقلید سے آزاد ہیں۔ چنانچہ جو بھی محمدی ہوتا ہے یعنی محمدی المقام ہوتا ہے، لازماّ وہ مطلق یعنی وسعت و اطلاق کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی مقام سے ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ عقیدۃ المحمدیہ یعنی عقیدہ اسلامیہ اپنی کامل صورت میں مجمل (Summed up ) ہوتا ہے۔ اور یہ اجمال (Summation) تدین کے مراحل عبور کرتے ہوئے بتدریج ( Gradually)حاصل ہوتا ہے،اور رفتہ رفتہ اطلاق (Limitless vastness ) کے درجے تک جاپہنچتا ہے۔ چنانچہ جوں جوں انسان سلوک الی اللہ میں آگے قدم بڑھاتا جاتا ہے، اسکا باطن وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور نظر کو وسعت حاصل ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ وصول کے بعد اسے یہ تحقق ( Realization) حاصل ہوتا ہے کہ وہ اطلاق کا حامل ہوجاتا ہے اور امت میں رونما ہونے والے تمام کے تمام اختلافات اسکی وسعت کے دامن میں سما جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اپنے فہم و ادراک سے وہ ان تمام اختلافات پر حاوی ہوتا ہے۔ اور ہم دیکھیں گے کہ ایسا کس طرح ہوتا ہے۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اس آیت میں مخاطلب کیا گیا ہے کہ لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ کہ آپ کسی معاملے میں بھی ان میں سے نہیں ہیں، کیونکہ یہ لوگ تو دین میں تفرقہ بازی کرنے کی وجہ سے اپنے اپنے عقیدے اور مذہب و مسلک میں مقیّد(Confined & defined) ہوگئے، اگر وہ اصحابِ عقائد ہیں تو اپنے مخصوص مسلکی عقیدے سے، اور اگر وہ اصحاب الفقہ ہیں تو اپنے مخصوص فقہی مذہب سے منسوب ہوکر وابستہ ہوگئے۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اپنے اپنے مسالک اور مذاہب سے وابستہ تقیدات کے اسیر لوگ، ہر معنی اور مفہوم میں منسوب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہونگے۔ کیونکہ بیشک اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اطلاق کی وجہ سے ان میں سے نہیں ہیں، لیکن یہ تو آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہی ہیں۔، کیونکہ یہ تقیدات دراصل تفاصیل ہیں آپکے اطلاق کی۔ اور ضروری ہے کہ اس فہم کو اور اس نکتے کو ہم سب لوگ سمجھیں تاکہ کوئی بھی گروہ اس زعم کا شکار نہ ہو کہ بس تنہا وہی حق پر ہے اور باقی سب لوگ گمراہی پر ہیں یا کفر پر ہیں۔ جیساکہ ہم اپنے زمانے میں ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ بات ہمارے نزدیک دین کی اصل کے خلاف ہے۔ چنانچہ جب تک کوئی بندہ یا کوئی جماعت (کوئی بھی ہو) اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، تو وہ اسلام کے اندر داخل ہے اور ہمیں چاہئیے کہ ہم اسکے اسلام کا اعتبار کریں۔ ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت بڑی نافرمانی اور گناہ کے مرتکب ہونگے۔
یہ افتراق جو امت میں رونما ہوا ہے، یہ قضا و قدر کی جانب سے ہے اور اسکا نافذ ہونا ایک لازمی امر تھا۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ اسکو روکا جاسکے۔ اور کوئی بھی شخص جو یہ گمان کرتا ہے کہ مختلف طریقوں میں سے کسی طریقے سے اس فرقہ بندی سے بچا جاسکتا تھا، وہ اصل معاملے سے لاعلم ہے اور جہلِ عظیم میں مبتلا ہے، اور اسے چاہئیے کہ ان مسائل میں گفتگو نہ کیا کرے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہر فرقہ اور ہر مذہب ومسلک یہ سمجھتا ہے کہ وہ شریعت پر قائم ہے اور اسکے مخالفین شریعت کے مخالف ہیں اور فاسق ہیں، تو اسکی یہ بات درست نہیں کیونکہ ہر مسلک اور ہر فرقہ شریعت سے ہی نکلا ہے لیکن مختلف فہوم (Understandings)اور زاویہ ہائے نگاہ سے۔ چنانچہ اگر کوئی فرقہ دوسرے فرقے کے نقطہ ہائے نظر کاانکار کرتا ہے تو اس سے یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہتی ہے کہ تمام فرقے ایک ہی شریعت سے نکلے ہیں، چاہے وہ کسی نہ کسی مسئلے میں درست رائے رکھتے ہوں یا غلط۔ چنانچہ اس بناء پر انکا معاملہ ان مجتھدین جیسا ہے جو غلطی پر ہوں۔ اور امت کے علماء میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ خطائے اجتہادی کے مرتکب کو فاسق کہا جائے۔ چنانچہ اس میدان میں اتنی وسعت ہے کہ ہم ایک دوسرے کو برداشت کر سکیں اور آگے بڑھ سکیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حدیث میں ذکر فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم نے ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ بخاری کے الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ فَمَنْ " تم اپنے سے پہلے گذرنے والی قوموں کے طریقوں کی پوری مطابقت کے ساتھ پیروی کروگے، اس حد تک کہ اگر وہ کسی ضب یعنیLizard کا پیچھا کرتے ہوئے اسکے بل میں جا داخل ہوئے تو تم بھی ایسا کروگے۔ ہم (صحابہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا وہ قومیں یہود اور نصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا ، اور کون؟"۔ یہ حدیث ہمیں ایک حقیقت کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے جو لحظہ بہ لحظہ وقوع پذیر ہورہی ہے، اور ممکن نہیں کہ اس بات کو جھٹلایا جاسکے۔ اور وہ یہ کہ یہ امت بھی فرقہ بندی کی تفاصیل میں ان باتوں میں پڑے گی جن میں پرانی امتیں جا پڑی تھیں، چاہے یہ تفرقہ بازی مختلف قسم کی آراء کے تنوّع (Diversity of opinions ) کے نتیجے میں ہو یا گمرہی اور اپنی اصل سے خروج کی شکل میں ہو۔ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ اس حد تک کہ اگر وہ کسی ضب کا پیچھا کرتے ہوئے اسکے بل میں جا گھسے تو تم بھی ایسا کروگے، اور یہ اپنی اصل سے خروج کی دلیل ہے۔ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ فَمَنْ ہم (صحابہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا وہ قومیں یہود اور نصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا ، اور کون۔ صحابہ نے یہود اور نصاریٰ کا ہی پوچھا کیونکہ یہی لوگ انکے قریب تھے چنانچہ صحابہ نے پرانی امتوں کو انہی دو میں محصور کرکے سوال کیا، جبکہ یہ معاملہ تمام سابقہ امتوں کو شامل ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ تم اپنے سے پہلے گذرنے والی قوموں کے طریقوں کی پیروی کروگے۔ چنانچہ آپ نے بات ایک عمومیت کے ساتھ بیان فرمائی اور اسکو کسی خاص امت کے ساتھ مخصوص نہ کیا، جبکہ صحابہ کرام نے اپنے ماحول کے مطابق ان دو قوموں کے بارے میں سوال کیا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اور کون؟ یعنی جن معنوں کی جانب صحابہ کا ذہن منتقل ہوا تھا، ان کا اقرار و اثبات کیا ، ورنہ معاملہ اس سے زیادہ وسعت کا حامل ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران میں فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (تم بہترین امّت ہو جو سب لوگوں کیلئے ظاہرکی گئی ہے، تم بھلائی کا امر کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو)۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ ہم بہترین امّت کیسے ہوگئے؟ ہم بہترین امّت ہوئے اس نسبت سے اور اس براہِ راست انتساب سے جو ہمیں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ حاصل ہے، کیونکہ پرانی امتوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتساب حاصل تھا لیکن براہِ راست طریق سے نہیں بلکہ گذشتہ انبیاء و رسل کی اتّباع کی وساطت سے تھا۔ کیونکہ یہ تمام انبیاء و رسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے فیض حاصل کرتے تھے اور انکی امتیں ان سے فیض کا اکتساب کرتی تھیں، جبکہ یہ امّت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ براہِ راست نسبت رکھتی ہے اور اکتسابِ فیض کرتی ہے۔ گویا اس معاملے میں یہ امت پرانی امتوں کے مقابل نہیں بلکہ انبیائے سابقین کے مقابل ہے، اور اسی اتباع کی وجہ سے یہ امت لوگوں کیلئے ظاہر کی جانے والی بہترین امت کہلائی۔تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ تم بھلائی کا امر کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اس امت کی صفات ہیں۔ شرطیں نہیں ہیں، جیسا کہ بعض لوگوں نے اس آیت میں کلام کرتے ہوئے ان امور کو شرائط جانا ہے اور اس معنی کی طرف گئے ہیں کہ یہ امت محض اسی لئے بہترین امت کہلائی ہے کہ یہ بھلائی کا حکم دیتی ہے برائی سے منع کرتی ہے اور اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔ جبکہ حق بات یہ ہے کہ یہ سب تو صفات ہیں، شروط نہیں ہیں۔ معنی یہ بنتے ہیں کہ یہ امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت کی برکت سے بحیثیت مجموعی بھلائی کا حکم دیتی ہے، برائی سے منع کرتی ہے اور اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔ اور نسبتِ محمدیہ کی وجہ سے اس امت کو اجمالی طور پر یہ صفات حاصل ہوئیں، یعنی اجمالاّ اور ضروری نہیں کہ ہر ہر تفصیل میں بھی لوگ ہمیشہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا التزام کرتے ہوں اور حق پر قائم رہتے ہوں اور ہمارے نزدیک کچھ امور کی تفاصیل میں لوگوں سے حق بات کی مخالفت بھی ظاہر ہوتی رہی ہے۔ اور امت کا یہ بہترین ہونا یعنی خیر الامم ہونا، اسکو گذشتہ تمام سابقہ امتوں کے مقابل میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اور ان امتوں کا اس امت کے ساتھ یہ تقابل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس امت میں وہ سب کچھ اکٹھا پایا جائے جو باقی تمام امتوں میں متفرق طور پر موجود تھا۔
صحیح ابن حبّان میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَى عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةًیہودی اکہتر فرقوں پر تقسیم ہوگئے اور نصاریٰ بہتر فرقوں پر بٹ گئے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ اور مستدرک الحاکم میں اس بات کا اضافہ ہے کہ كُلُّهُا فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً یعنی سب کے سب آگ میں ہیں سوائے ایک ملت کےقَیل: وَما واحِدَةً ؟پوچھا گیا وہ ایک کون؟ فقَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي آپ نے فرمایا وہی جو اس بات پررہیں گے جس پرآج میں اور میرے ساتھی ہیں۔
اس حدیثِ مبارکہ پر ہم دو جہتوں ( Aspects)سے گفتگو کریں گے۔
پہلی جہت ہے امتِ محمدیہ العامّۃ۔ جس میں آدم علیہ السلام سے لیکر یومِ قیامت تک کے تمام لوگ شامل ہیں چنانچہ اس امتِ محمدیہ العامّۃ کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ وہ ہے جس میں آپکی تشریف آوری سے قبل کے تمام لوگ اور انبیاء و رسل شامل ہیں، اور اس حصے میں تمام انبیا و رسل آپکے نائب کی حیثیت سے رشد و ہدایت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اور دوسرے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس آکر ہدایت کی باگ ڈور اپنے مبارک ہاتھوں میں سنبھال لی۔ یہ سب ملا کر امتِ واحدہ ہے، امتِ محمدیہ العام ہے۔ اور ہم اس حدیث شریف کو پہلے اس جہت سے دیکھیں گے۔
اور بعد میں ہم اس حدیثِ مبارکہ کو دوسری جہت سے دیکھیں گے جو کہ امتِ محمدیہ الخاص ہے۔ یعنی آپکی بعثتِ مبارکہ سے لیکر قیام الساعۃ تک آپکے ماننے والے۔
چنانچہ پہلی جہت سے دیکھیں تو یہود اکہتر 71 فرقوں میں بٹ گئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہود سے پہلے کی تمام گذشتہ امتوں کی تعداد ستر 70 تھی۔ اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو امتوں کی تعداد اکہتر 71 ہوگئی۔ چنانچہ اس وقت ان اکہتر 71 میں سے ستر 70 فرقے سب کے سب نارِ جہنم کے مستحق ٹھہرے سوائے ایک کے اور یہ وہ لوگ تھے جو موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔، یعنی موسیٰ علیہ السلام کی امت جو اس وقت دینِ اسلام پر قائم تھی۔ اور اس بات کا ذکر ہم اپنے گذشتہ لیکچر میں دین کے تطّور (Evolution ) اور شریعتِ محمدیہ کے ذریعے اسکی تکمیل کے حوالے سے کرچکے ہیں ۔پھر اسکے بعد جب عیسیٰ علیہ السلام اپنی رسالت کے ساتھ تشریف لائے تو امتوں کی تعداد بہتر 72 ہوگئی اور ان میں سے سوائے ایک کے باقی سب جہنم کی مستحق ٹھہریں۔ اور نجات یافتہ امت اس زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام کی امت تھی۔ اور باقی سب آگ کی مستحق ہوئیں کیونکہ انہوں نے حق کی مخالفت کی اور طریق سے پرے ہٹ گئے۔ کیونکہ طریق ہی متواصل( Connected) ہے۔ تمام کے تمام انبیاء نے اپنی اپنی شریعتوں کے ساتھ مخصوص حدود تک طریق کی تکمیل کی۔ چنانچہ بعد میں آنے والا رسول اس مخصوص حد سے امت کوآگے لیکر چلتا اور ایک مخصوص حد تک امت کو پہنچاتا۔ اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا حتیٰ کہ آ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی کہ جن کے بعد اور کوئی نبی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شریعت کے ساتھ مبعوث ہوگئے تو امتوں کی تعداد تہتر 73 ہوگئی جن میں سے سوائے ایک کے باقی تمام جہنم کی حقدرار ٹھہریں اور آپکی امت نجات یافتہ قرار پائی۔ یہ وہ معنی ہیں جو امتِ محمدیہ العامہ کی جہت سے ہیں جس میں تمام بشریت شامل ہے۔ چنانچہ انسانوں کیلئے اس میں بہت بڑی رحمت ہے اگر وہ اسکا ادراک کرپائیں جسکی طرف ہمارا اشارہ ہے۔
اب ہم امتِ محمدیہ الخاصۃ کی جہت سے اس حدیث مبارکہ کو دیکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ امت بھی تمام امم کی تعداد کے برابر یعنی تہتر 73 فرقوں میں منقسم ہے۔ اور ہر ہر فرقہ گذشتہ امم میں سے کسی نہ کسی امت کے بالمقابل ہے۔ چنانچہ اس امتِ خاصہ میں تمام گذشتہ امم منعکس ہوگئیں۔ چنانچہ جس طرح سابقہ امتیں تہتر 73امتوں میں بٹ گئیں، اور ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں، اسی طرح یہ امتِ محمدیہ الخاص بھی تہتر 73 فرقوں میں بٹ گئی اور ان میں اختلاف رونما ہوا۔ لیکن اس اختلاف اور اس افتراق کی وجہ سے یہ لوگ امتِ محمدیہ سے خارج نہیں ہوئے۔ چنانچہ جس طرح یہ 73 فرقے گویا پہلے معنی کی رو سے 73 امتیں ہیں جن میں سے سوائے ایک کے جو اس زمانے کے نبی کی امت تھی باقی سب آگ میں ہیں۔ معلوم ہوگیا کہ ان میں سے آگ کے مستحق کون لوگ تھے اور جنت کے مستحق کون۔ چنانچہ انہی معنوں کو جب امتِ محمدیہ الخاصۃ پر منطبق کریں تو حدیث نے واضح کیا کہ ان تہتر 73 فرقوں میں سے بھی 72 آگ میں ہیں سوائے ایک کے۔ لیکن آگ میں ہونے کا وہ مطلب نہیں جو پہلی امتوں کے ساتھ مخصوص تھا۔ کیونکہ پہلے معنوں میں آگ میں ہونے سے مراد ہے خلود فی النار۔ یعنی ہمیشگی۔چنانچہ جب عیسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئے تو وہ تمام یہود جو آپ پر ایمان نہ لائے، وہ ہمیشہ کے عذاب کے مستحق ٹحہرے۔ لیکن امتِ محمدیہ الخاصۃ میں بننے والے تہتر فرقے جن میں سے ایک نجات یافتہ ہے ، اور باقی سب آگ میں۔لیکن انکے لئے خلود فی النار نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو آگ چھوئے گی لیکن ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ اس آگ میں نہیں رہیں گے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتساب کی برکت نے ان سے ہمیشگی کا عذاب رفع کردیا۔ لازم ہے کہ ہم ان دونوں مفاہیم یعنی خلود اور عدم الخلود فی النار کو ذہن میں رکھیں۔
یہاں ایک حدیثِ مبارکہ ہے جو تمام اممِ سابقہ اور اس خاص امت ِ محمدیہ میں تقابل ( Reciprocity) کے مفہوم کو مزید اس قدر واضح کرتی ہے، کہ گویا امّت سابقہ امّتوں کیلئے ایک آئینے کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ یہ امّت ان امتوں کی پیروی ہر قسم کی طاعات اور معاصی کے ضمن میں بھی کرتی دکھائی دے گی، چنانچہ جو گمراہیاں اور نافرمانیاں اگلی امتّوں سے سرزد ہوئیں، یہ امّت بھی انکا ارتکاب کرے گی اور یہ اسی تقابل اور مطابقت کی وجہ سے ہے جو ان امّتوں میں اور اس امّت میں پائی جاتی ہے۔ بخاری و مسلم اور دیگر کتب میں حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بیشک زمان یعنی وقت کا پہیہ اب گھوم کر اسی ہئیت ( Position) پر آگیا ہے جس ہئیت پر اس دن تھا جب اللہ نے زمین اور آسمانوں کو تخلیق فرمایا تھا۔ مطلب یہ نکلا کہ زمان کیلئے ایک دورہ( Cycle) ہے۔ اور یہ دور یعنی سائیکل ابتدائے آفرینش یعنی زمین و آسمان کی تخلیق سے شروع ہوتا ہے اور قیامت کی ساعت پر جاکر ختم ہوتا ہے۔ جب زمان کے استدار (Cyclic movement ) کی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تو اس یہ مفہوم واضح ہوا کہ بعثتِ محمدیہ کامل طور پر اس نقطے کے بالمقابل (Diametric Opposite)ہے جس سے زمان کا یہ سفر شروع ہوا تھا۔ یعنی زمان اپنے ایک پورے دائرے کے سفر میں سے نصف دائرے کا سفر طے کرچکا تھا۔ چنانچہ دائرے کا یہ پہلا نصف سفر ا ن تمام سابقہ امتّوں کو محیط ہے جو ابتدائے آفرینش سے بعثتِ محمدیہ تک پردہ ِظہور پر نمودار ہوئیں، اور حدیث کے الفاط کے مطابق چونکہ زمان اس مقام پر گھوم کر پہنچ گیا تھا جو اسکے نصف دائروی سفر یعنی پہلی قوس کا آخری نقطہ تھا جو ابتدائی نقطے کے بالکل سامنے واقع ہوا ہے، اور جسکے بعد اس نے دوبارہ صعود کرکے دائرے کی تکمیل تک یعنی ساعتِ قیامت تک بقیہ نصف دائرے کو طے کرنا ہے، چنانچہ بعثتِ محمدیہ سے لیکر قیامِ ساعت تک کی یہ دوسری قوس خاص امّتِ محمدیہ کیلئے مخصوص ہے۔ اور اسی بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث ِ مبارکہ میں بیان کیا ہے جو بخاری و مسلم اور دیگر کتب میں بھی منقول ہوئی ہے آپ نے فرمایا بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ كہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح مبعوث ہوئے ہیں اور آپ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھاتے ہوئے یہ بات بیان فرمائی۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قیامِ ساعت کے درمیان کوئی اور نبی نہیں۔ چنانچہ یہ دوسرا نصف دائرہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مخصوص ہے، جیسا کہ پہلا نصف دائرہ بھی آپ ہی سے مخصوص ہے لیکن انبیائے سابقین اور رسل کے طریق سے۔ چنانچہ پرانی امّتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف نہیں تھیں لیکن انکے انبیاء آپکو جانتے تھے اور پچھلے لیکچرز میں ہم نے حقیقتِ محمدیہ کے بیان میں یہ بات پہلے بھی ذکر کی ہے۔ چنانچہ وہ انبیاء و رسل علیھم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دلالت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد و بعثت کی بشارتیں دیا کرتے تھے۔
چنانچہ ان دونوں نصف دائروں(قوسین ) کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونے کی بدولت جو کچھ پہلے نصف دائرے میں تھا وہ تمام کا تمام دوسرے نصف دائرے میں منعکس ہوگا۔ اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جسکی بدولت اس امّت پر بھی وہی کچھ واقع ہوگا جو پچھلی امّتوں پر گذرا۔ آخر یہ چیزکس بات پر دلالت کرتی ہے؟ ہمارے نزدیک یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس امّتِ شریفہ کے تمام فرقے پرانی امّتوں کی صفات کے مطابق ہیں، ان معنوں میں کہ ہماری اس امّت میں بھی یہود و نصاریٰ ہیں، بلکہ پچھلی تمام امتویں اس امّت میں موجود ہیں، لازم ہے کہ ہماری اس بات سے یہی مطلب نکالا جائے اور اچھی طرح سمھ لیا جائے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اس امت میں بھی یہود و نصاریٰ اور پرانی امتیں ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ہماری امت کے یہ یہود و نصاریٰ کافر نہیں بلکہ مسلمان ہی ہیں اور سچ مچ کے یہود و نصاریٰ (یعنی پرانی امتوں والے اور غیر مسلم) نہیں بلکہ صفات میں ان سے مماثل ہیں۔ اور مسلمان ہی ہیں۔ اور یہ امر اس بہترین امّت کے کمال کی دلیل ہے۔ اب یہ سننے والے پر ہے کہ وہ تفاصیل کو تلا ش کرے اور اُن میں اور اِن میں مطابقت کا مشاہدہ کرے۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
آخری تدوین: