دین-9 (امّت کی فرقہ بندی اور اسکی حقیقت)

عارفِ ربانی شیخ عبدالغنی العمری الحسنی کے نویں لیکچر کے ابتدائی نصف حصے کا ترجمہ کیا ہے جو پیشِ خدمت ہے۔۔۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والحمد للہ ربّ العالمین والصلٰوۃ والسلام علیٰ خاتم النبیّین و اشرف المرسلین سیّدنا محمّد وعلیٰ آلہ واصحابہ والتّابعین۔ امّا بعد:
آج ہم اس فرقہ بندی پر گفتگو کریں گے جو امت میں ظہورپذیر ہوئی اور ایک فریق کے مقابلے میں کسی دوسرے فریق کی حمایت کی بجائے اس معاملے پر شریعت اور حقیقت کی جہت سے نظر ڈالیں گے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
ضروری ہے کہ ہم اس بات کا ذکر پہلے سے ہی کردیں کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے ، تاکہ دین اس امت کو آراء کے اختلاف کے باوجود مجتمع رکھ سکے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ۔ (بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو پارہ پار کردیا اور فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی معاملے میں ان میں سے نہیں، انکا معاملہ اللہ کے سپرد ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرمادے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔) اور ہم آگاہ کرتے چلیں کہ زیادہ تر مسلمان اس آیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو پارہ پارہ کردیا اور فرقوں میں بٹ گئے، وہ کسی معاملے میں آپ میں سے نہیں ہیں(لیسوا منک فی شئی)، جبکہ معنی بالکل مختلف ہیں۔ اور یہ اسلئے کہ معاملے کا تعلق امتِ واحدہ سے ہے۔ چاہے یہ خاص امتِ محمدیہ ہو یا عام۔ اور ہوسکتا ہے کہ ہم اس بات کی کچھ تفصیل یہاں پیش کریں۔
لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کسی معاملے میں بھی ان میں سے نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ اطلاق کے حامل ہیں، تقلید سے آزاد ہیں۔ چنانچہ جو بھی محمدی ہوتا ہے یعنی محمدی المقام ہوتا ہے، لازماّ وہ مطلق یعنی وسعت و اطلاق کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی مقام سے ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ عقیدۃ المحمدیہ یعنی عقیدہ اسلامیہ اپنی کامل صورت میں مجمل (Summed up ) ہوتا ہے۔ اور یہ اجمال (Summation) تدین کے مراحل عبور کرتے ہوئے بتدریج ( Gradually)حاصل ہوتا ہے،اور رفتہ رفتہ اطلاق (Limitless vastness ) کے درجے تک جاپہنچتا ہے۔ چنانچہ جوں جوں انسان سلوک الی اللہ میں آگے قدم بڑھاتا جاتا ہے، اسکا باطن وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے اور نظر کو وسعت حاصل ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ وصول کے بعد اسے یہ تحقق ( Realization) حاصل ہوتا ہے کہ وہ اطلاق کا حامل ہوجاتا ہے اور امت میں رونما ہونے والے تمام کے تمام اختلافات اسکی وسعت کے دامن میں سما جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اپنے فہم و ادراک سے وہ ان تمام اختلافات پر حاوی ہوتا ہے۔ اور ہم دیکھیں گے کہ ایسا کس طرح ہوتا ہے۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اس آیت میں مخاطلب کیا گیا ہے کہ لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ کہ آپ کسی معاملے میں بھی ان میں سے نہیں ہیں، کیونکہ یہ لوگ تو دین میں تفرقہ بازی کرنے کی وجہ سے اپنے اپنے عقیدے اور مذہب و مسلک میں مقیّد(Confined & defined) ہوگئے، اگر وہ اصحابِ عقائد ہیں تو اپنے مخصوص مسلکی عقیدے سے، اور اگر وہ اصحاب الفقہ ہیں تو اپنے مخصوص فقہی مذہب سے منسوب ہوکر وابستہ ہوگئے۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اپنے اپنے مسالک اور مذاہب سے وابستہ تقیدات کے اسیر لوگ، ہر معنی اور مفہوم میں منسوب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہونگے۔ کیونکہ بیشک اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اطلاق کی وجہ سے ان میں سے نہیں ہیں، لیکن یہ تو آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہی ہیں۔، کیونکہ یہ تقیدات دراصل تفاصیل ہیں آپکے اطلاق کی۔ اور ضروری ہے کہ اس فہم کو اور اس نکتے کو ہم سب لوگ سمجھیں تاکہ کوئی بھی گروہ اس زعم کا شکار نہ ہو کہ بس تنہا وہی حق پر ہے اور باقی سب لوگ گمراہی پر ہیں یا کفر پر ہیں۔ جیساکہ ہم اپنے زمانے میں ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ بات ہمارے نزدیک دین کی اصل کے خلاف ہے۔ چنانچہ جب تک کوئی بندہ یا کوئی جماعت (کوئی بھی ہو) اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، تو وہ اسلام کے اندر داخل ہے اور ہمیں چاہئیے کہ ہم اسکے اسلام کا اعتبار کریں۔ ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت بڑی نافرمانی اور گناہ کے مرتکب ہونگے۔
یہ افتراق جو امت میں رونما ہوا ہے، یہ قضا و قدر کی جانب سے ہے اور اسکا نافذ ہونا ایک لازمی امر تھا۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ اسکو روکا جاسکے۔ اور کوئی بھی شخص جو یہ گمان کرتا ہے کہ مختلف طریقوں میں سے کسی طریقے سے اس فرقہ بندی سے بچا جاسکتا تھا، وہ اصل معاملے سے لاعلم ہے اور جہلِ عظیم میں مبتلا ہے، اور اسے چاہئیے کہ ان مسائل میں گفتگو نہ کیا کرے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہر فرقہ اور ہر مذہب ومسلک یہ سمجھتا ہے کہ وہ شریعت پر قائم ہے اور اسکے مخالفین شریعت کے مخالف ہیں اور فاسق ہیں، تو اسکی یہ بات درست نہیں کیونکہ ہر مسلک اور ہر فرقہ شریعت سے ہی نکلا ہے لیکن مختلف فہوم (Understandings)اور زاویہ ہائے نگاہ سے۔ چنانچہ اگر کوئی فرقہ دوسرے فرقے کے نقطہ ہائے نظر کاانکار کرتا ہے تو اس سے یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہتی ہے کہ تمام فرقے ایک ہی شریعت سے نکلے ہیں، چاہے وہ کسی نہ کسی مسئلے میں درست رائے رکھتے ہوں یا غلط۔ چنانچہ اس بناء پر انکا معاملہ ان مجتھدین جیسا ہے جو غلطی پر ہوں۔ اور امت کے علماء میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ خطائے اجتہادی کے مرتکب کو فاسق کہا جائے۔ چنانچہ اس میدان میں اتنی وسعت ہے کہ ہم ایک دوسرے کو برداشت کر سکیں اور آگے بڑھ سکیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حدیث میں ذکر فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم نے ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ بخاری کے الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ فَمَنْ " تم اپنے سے پہلے گذرنے والی قوموں کے طریقوں کی پوری مطابقت کے ساتھ پیروی کروگے، اس حد تک کہ اگر وہ کسی ضب یعنیLizard کا پیچھا کرتے ہوئے اسکے بل میں جا داخل ہوئے تو تم بھی ایسا کروگے۔ ہم (صحابہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا وہ قومیں یہود اور نصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا ، اور کون؟"۔ یہ حدیث ہمیں ایک حقیقت کے سامنے لاکھڑا کرتی ہے جو لحظہ بہ لحظہ وقوع پذیر ہورہی ہے، اور ممکن نہیں کہ اس بات کو جھٹلایا جاسکے۔ اور وہ یہ کہ یہ امت بھی فرقہ بندی کی تفاصیل میں ان باتوں میں پڑے گی جن میں پرانی امتیں جا پڑی تھیں، چاہے یہ تفرقہ بازی مختلف قسم کی آراء کے تنوّع (Diversity of opinions ) کے نتیجے میں ہو یا گمرہی اور اپنی اصل سے خروج کی شکل میں ہو۔ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ اس حد تک کہ اگر وہ کسی ضب کا پیچھا کرتے ہوئے اسکے بل میں جا گھسے تو تم بھی ایسا کروگے، اور یہ اپنی اصل سے خروج کی دلیل ہے۔ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى قَالَ فَمَنْ ہم (صحابہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ کیا وہ قومیں یہود اور نصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا ، اور کون۔ صحابہ نے یہود اور نصاریٰ کا ہی پوچھا کیونکہ یہی لوگ انکے قریب تھے چنانچہ صحابہ نے پرانی امتوں کو انہی دو میں محصور کرکے سوال کیا، جبکہ یہ معاملہ تمام سابقہ امتوں کو شامل ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ تم اپنے سے پہلے گذرنے والی قوموں کے طریقوں کی پیروی کروگے۔ چنانچہ آپ نے بات ایک عمومیت کے ساتھ بیان فرمائی اور اسکو کسی خاص امت کے ساتھ مخصوص نہ کیا، جبکہ صحابہ کرام نے اپنے ماحول کے مطابق ان دو قوموں کے بارے میں سوال کیا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اور کون؟ یعنی جن معنوں کی جانب صحابہ کا ذہن منتقل ہوا تھا، ان کا اقرار و اثبات کیا ، ورنہ معاملہ اس سے زیادہ وسعت کا حامل ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران میں فرمایا كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (تم بہترین امّت ہو جو سب لوگوں کیلئے ظاہرکی گئی ہے، تم بھلائی کا امر کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو)۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ ہم بہترین امّت کیسے ہوگئے؟ ہم بہترین امّت ہوئے اس نسبت سے اور اس براہِ راست انتساب سے جو ہمیں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ حاصل ہے، کیونکہ پرانی امتوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتساب حاصل تھا لیکن براہِ راست طریق سے نہیں بلکہ گذشتہ انبیاء و رسل کی اتّباع کی وساطت سے تھا۔ کیونکہ یہ تمام انبیاء و رسل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے فیض حاصل کرتے تھے اور انکی امتیں ان سے فیض کا اکتساب کرتی تھیں، جبکہ یہ امّت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ براہِ راست نسبت رکھتی ہے اور اکتسابِ فیض کرتی ہے۔ گویا اس معاملے میں یہ امت پرانی امتوں کے مقابل نہیں بلکہ انبیائے سابقین کے مقابل ہے، اور اسی اتباع کی وجہ سے یہ امت لوگوں کیلئے ظاہر کی جانے والی بہترین امت کہلائی۔تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ تم بھلائی کا امر کرتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اس امت کی صفات ہیں۔ شرطیں نہیں ہیں، جیسا کہ بعض لوگوں نے اس آیت میں کلام کرتے ہوئے ان امور کو شرائط جانا ہے اور اس معنی کی طرف گئے ہیں کہ یہ امت محض اسی لئے بہترین امت کہلائی ہے کہ یہ بھلائی کا حکم دیتی ہے برائی سے منع کرتی ہے اور اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔ جبکہ حق بات یہ ہے کہ یہ سب تو صفات ہیں، شروط نہیں ہیں۔ معنی یہ بنتے ہیں کہ یہ امت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت کی برکت سے بحیثیت مجموعی بھلائی کا حکم دیتی ہے، برائی سے منع کرتی ہے اور اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔ اور نسبتِ محمدیہ کی وجہ سے اس امت کو اجمالی طور پر یہ صفات حاصل ہوئیں، یعنی اجمالاّ اور ضروری نہیں کہ ہر ہر تفصیل میں بھی لوگ ہمیشہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا التزام کرتے ہوں اور حق پر قائم رہتے ہوں اور ہمارے نزدیک کچھ امور کی تفاصیل میں لوگوں سے حق بات کی مخالفت بھی ظاہر ہوتی رہی ہے۔ اور امت کا یہ بہترین ہونا یعنی خیر الامم ہونا، اسکو گذشتہ تمام سابقہ امتوں کے مقابل میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اور ان امتوں کا اس امت کے ساتھ یہ تقابل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس امت میں وہ سب کچھ اکٹھا پایا جائے جو باقی تمام امتوں میں متفرق طور پر موجود تھا۔
صحیح ابن حبّان میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَى عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةًیہودی اکہتر فرقوں پر تقسیم ہوگئے اور نصاریٰ بہتر فرقوں پر بٹ گئے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ اور مستدرک الحاکم میں اس بات کا اضافہ ہے کہ كُلُّهُا فِي النَّارِ إِلاَّ مِلَّةً وَاحِدَةً یعنی سب کے سب آگ میں ہیں سوائے ایک ملت کےقَیل: وَما واحِدَةً ؟پوچھا گیا وہ ایک کون؟ فقَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي آپ نے فرمایا وہی جو اس بات پررہیں گے جس پرآج میں اور میرے ساتھی ہیں۔
اس حدیثِ مبارکہ پر ہم دو جہتوں ( Aspects)سے گفتگو کریں گے۔
پہلی جہت ہے امتِ محمدیہ العامّۃ۔ جس میں آدم علیہ السلام سے لیکر یومِ قیامت تک کے تمام لوگ شامل ہیں چنانچہ اس امتِ محمدیہ العامّۃ کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ وہ ہے جس میں آپکی تشریف آوری سے قبل کے تمام لوگ اور انبیاء و رسل شامل ہیں، اور اس حصے میں تمام انبیا و رسل آپکے نائب کی حیثیت سے رشد و ہدایت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اور دوسرے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس آکر ہدایت کی باگ ڈور اپنے مبارک ہاتھوں میں سنبھال لی۔ یہ سب ملا کر امتِ واحدہ ہے، امتِ محمدیہ العام ہے۔ اور ہم اس حدیث شریف کو پہلے اس جہت سے دیکھیں گے۔
اور بعد میں ہم اس حدیثِ مبارکہ کو دوسری جہت سے دیکھیں گے جو کہ امتِ محمدیہ الخاص ہے۔ یعنی آپکی بعثتِ مبارکہ سے لیکر قیام الساعۃ تک آپکے ماننے والے۔
چنانچہ پہلی جہت سے دیکھیں تو یہود اکہتر 71 فرقوں میں بٹ گئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہود سے پہلے کی تمام گذشتہ امتوں کی تعداد ستر 70 تھی۔ اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو امتوں کی تعداد اکہتر 71 ہوگئی۔ چنانچہ اس وقت ان اکہتر 71 میں سے ستر 70 فرقے سب کے سب نارِ جہنم کے مستحق ٹھہرے سوائے ایک کے اور یہ وہ لوگ تھے جو موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔، یعنی موسیٰ علیہ السلام کی امت جو اس وقت دینِ اسلام پر قائم تھی۔ اور اس بات کا ذکر ہم اپنے گذشتہ لیکچر میں دین کے تطّور (Evolution ) اور شریعتِ محمدیہ کے ذریعے اسکی تکمیل کے حوالے سے کرچکے ہیں ۔پھر اسکے بعد جب عیسیٰ علیہ السلام اپنی رسالت کے ساتھ تشریف لائے تو امتوں کی تعداد بہتر 72 ہوگئی اور ان میں سے سوائے ایک کے باقی سب جہنم کی مستحق ٹھہریں۔ اور نجات یافتہ امت اس زمانے میں عیسیٰ علیہ السلام کی امت تھی۔ اور باقی سب آگ کی مستحق ہوئیں کیونکہ انہوں نے حق کی مخالفت کی اور طریق سے پرے ہٹ گئے۔ کیونکہ طریق ہی متواصل( Connected) ہے۔ تمام کے تمام انبیاء نے اپنی اپنی شریعتوں کے ساتھ مخصوص حدود تک طریق کی تکمیل کی۔ چنانچہ بعد میں آنے والا رسول اس مخصوص حد سے امت کوآگے لیکر چلتا اور ایک مخصوص حد تک امت کو پہنچاتا۔ اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا حتیٰ کہ آ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی کہ جن کے بعد اور کوئی نبی نہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شریعت کے ساتھ مبعوث ہوگئے تو امتوں کی تعداد تہتر 73 ہوگئی جن میں سے سوائے ایک کے باقی تمام جہنم کی حقدرار ٹھہریں اور آپکی امت نجات یافتہ قرار پائی۔ یہ وہ معنی ہیں جو امتِ محمدیہ العامہ کی جہت سے ہیں جس میں تمام بشریت شامل ہے۔ چنانچہ انسانوں کیلئے اس میں بہت بڑی رحمت ہے اگر وہ اسکا ادراک کرپائیں جسکی طرف ہمارا اشارہ ہے۔
اب ہم امتِ محمدیہ الخاصۃ کی جہت سے اس حدیث مبارکہ کو دیکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ امت بھی تمام امم کی تعداد کے برابر یعنی تہتر 73 فرقوں میں منقسم ہے۔ اور ہر ہر فرقہ گذشتہ امم میں سے کسی نہ کسی امت کے بالمقابل ہے۔ چنانچہ اس امتِ خاصہ میں تمام گذشتہ امم منعکس ہوگئیں۔ چنانچہ جس طرح سابقہ امتیں تہتر 73امتوں میں بٹ گئیں، اور ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں، اسی طرح یہ امتِ محمدیہ الخاص بھی تہتر 73 فرقوں میں بٹ گئی اور ان میں اختلاف رونما ہوا۔ لیکن اس اختلاف اور اس افتراق کی وجہ سے یہ لوگ امتِ محمدیہ سے خارج نہیں ہوئے۔ چنانچہ جس طرح یہ 73 فرقے گویا پہلے معنی کی رو سے 73 امتیں ہیں جن میں سے سوائے ایک کے جو اس زمانے کے نبی کی امت تھی باقی سب آگ میں ہیں۔ معلوم ہوگیا کہ ان میں سے آگ کے مستحق کون لوگ تھے اور جنت کے مستحق کون۔ چنانچہ انہی معنوں کو جب امتِ محمدیہ الخاصۃ پر منطبق کریں تو حدیث نے واضح کیا کہ ان تہتر 73 فرقوں میں سے بھی 72 آگ میں ہیں سوائے ایک کے۔ لیکن آگ میں ہونے کا وہ مطلب نہیں جو پہلی امتوں کے ساتھ مخصوص تھا۔ کیونکہ پہلے معنوں میں آگ میں ہونے سے مراد ہے خلود فی النار۔ یعنی ہمیشگی۔چنانچہ جب عیسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئے تو وہ تمام یہود جو آپ پر ایمان نہ لائے، وہ ہمیشہ کے عذاب کے مستحق ٹحہرے۔ لیکن امتِ محمدیہ الخاصۃ میں بننے والے تہتر فرقے جن میں سے ایک نجات یافتہ ہے ، اور باقی سب آگ میں۔لیکن انکے لئے خلود فی النار نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو آگ چھوئے گی لیکن ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ اس آگ میں نہیں رہیں گے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتساب کی برکت نے ان سے ہمیشگی کا عذاب رفع کردیا۔ لازم ہے کہ ہم ان دونوں مفاہیم یعنی خلود اور عدم الخلود فی النار کو ذہن میں رکھیں۔
یہاں ایک حدیثِ مبارکہ ہے جو تمام اممِ سابقہ اور اس خاص امت ِ محمدیہ میں تقابل ( Reciprocity) کے مفہوم کو مزید اس قدر واضح کرتی ہے، کہ گویا امّت سابقہ امّتوں کیلئے ایک آئینے کی حیثیت رکھتی ہے چنانچہ یہ امّت ان امتوں کی پیروی ہر قسم کی طاعات اور معاصی کے ضمن میں بھی کرتی دکھائی دے گی، چنانچہ جو گمراہیاں اور نافرمانیاں اگلی امتّوں سے سرزد ہوئیں، یہ امّت بھی انکا ارتکاب کرے گی اور یہ اسی تقابل اور مطابقت کی وجہ سے ہے جو ان امّتوں میں اور اس امّت میں پائی جاتی ہے۔ بخاری و مسلم اور دیگر کتب میں حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بیشک زمان یعنی وقت کا پہیہ اب گھوم کر اسی ہئیت ( Position) پر آگیا ہے جس ہئیت پر اس دن تھا جب اللہ نے زمین اور آسمانوں کو تخلیق فرمایا تھا۔ مطلب یہ نکلا کہ زمان کیلئے ایک دورہ( Cycle) ہے۔ اور یہ دور یعنی سائیکل ابتدائے آفرینش یعنی زمین و آسمان کی تخلیق سے شروع ہوتا ہے اور قیامت کی ساعت پر جاکر ختم ہوتا ہے۔ جب زمان کے استدار (Cyclic movement ) کی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تو اس یہ مفہوم واضح ہوا کہ بعثتِ محمدیہ کامل طور پر اس نقطے کے بالمقابل (Diametric Opposite)ہے جس سے زمان کا یہ سفر شروع ہوا تھا۔ یعنی زمان اپنے ایک پورے دائرے کے سفر میں سے نصف دائرے کا سفر طے کرچکا تھا۔ چنانچہ دائرے کا یہ پہلا نصف سفر ا ن تمام سابقہ امتّوں کو محیط ہے جو ابتدائے آفرینش سے بعثتِ محمدیہ تک پردہ ِظہور پر نمودار ہوئیں، اور حدیث کے الفاط کے مطابق چونکہ زمان اس مقام پر گھوم کر پہنچ گیا تھا جو اسکے نصف دائروی سفر یعنی پہلی قوس کا آخری نقطہ تھا جو ابتدائی نقطے کے بالکل سامنے واقع ہوا ہے، اور جسکے بعد اس نے دوبارہ صعود کرکے دائرے کی تکمیل تک یعنی ساعتِ قیامت تک بقیہ نصف دائرے کو طے کرنا ہے، چنانچہ بعثتِ محمدیہ سے لیکر قیامِ ساعت تک کی یہ دوسری قوس خاص امّتِ محمدیہ کیلئے مخصوص ہے۔ اور اسی بات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث ِ مبارکہ میں بیان کیا ہے جو بخاری و مسلم اور دیگر کتب میں بھی منقول ہوئی ہے آپ نے فرمایا بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ كہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح مبعوث ہوئے ہیں اور آپ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھاتے ہوئے یہ بات بیان فرمائی۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قیامِ ساعت کے درمیان کوئی اور نبی نہیں۔ چنانچہ یہ دوسرا نصف دائرہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مخصوص ہے، جیسا کہ پہلا نصف دائرہ بھی آپ ہی سے مخصوص ہے لیکن انبیائے سابقین اور رسل کے طریق سے۔ چنانچہ پرانی امّتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف نہیں تھیں لیکن انکے انبیاء آپکو جانتے تھے اور پچھلے لیکچرز میں ہم نے حقیقتِ محمدیہ کے بیان میں یہ بات پہلے بھی ذکر کی ہے۔ چنانچہ وہ انبیاء و رسل علیھم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دلالت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد و بعثت کی بشارتیں دیا کرتے تھے۔
چنانچہ ان دونوں نصف دائروں(قوسین ) کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہونے کی بدولت جو کچھ پہلے نصف دائرے میں تھا وہ تمام کا تمام دوسرے نصف دائرے میں منعکس ہوگا۔ اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جسکی بدولت اس امّت پر بھی وہی کچھ واقع ہوگا جو پچھلی امّتوں پر گذرا۔ آخر یہ چیزکس بات پر دلالت کرتی ہے؟ ہمارے نزدیک یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس امّتِ شریفہ کے تمام فرقے پرانی امّتوں کی صفات کے مطابق ہیں، ان معنوں میں کہ ہماری اس امّت میں بھی یہود و نصاریٰ ہیں، بلکہ پچھلی تمام امتویں اس امّت میں موجود ہیں، لازم ہے کہ ہماری اس بات سے یہی مطلب نکالا جائے اور اچھی طرح سمھ لیا جائے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اس امت میں بھی یہود و نصاریٰ اور پرانی امتیں ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ہماری امت کے یہ یہود و نصاریٰ کافر نہیں بلکہ مسلمان ہی ہیں اور سچ مچ کے یہود و نصاریٰ (یعنی پرانی امتوں والے اور غیر مسلم) نہیں بلکہ صفات میں ان سے مماثل ہیں۔ اور مسلمان ہی ہیں۔ اور یہ امر اس بہترین امّت کے کمال کی دلیل ہے۔ اب یہ سننے والے پر ہے کہ وہ تفاصیل کو تلا ش کرے اور اُن میں اور اِن میں مطابقت کا مشاہدہ کرے۔

۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔
(اردو ترجمہ : محمود احمد غزنوی)
 
آخری تدوین:
آگہی کے نئے باب وا کرتی ایک زبردست، شاندار اور نہایت معلوماتی تحریر۔ شریک محفل کرنے بہت شکریہ
چنانچہ جب تک کوئی بندہ یا کوئی جماعت (کوئی بھی ہو) اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، تو وہ اسلام کے اندر داخل ہے اور ہمیں چاہئیے کہ ہم اسکے اسلام کا اعتبار کریں۔ ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت بڑی نافرمانی اور گناہ کے مرتکب ہونگے۔
ایک انتہائی قابل توجہ بات۔ کافر کافر اور مرتد کے نعرے لگانے والوں کو اس سے نصیحت لینی چاہیے۔
 
سوادِ اعظم، فرقہ ناجیہ اور " ما انا علیہ و اصحابی" کا مفہوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عارفِ ربّانی شیخ عبدالغنی العمری الحسنی کے لیکچر-9 ( امّت اور فرقہ بندی کی حقیقت) کے بقیّہ حصے کا اردو ترجمہ:
شروع میں بیان کی گئی تہتر فرقوں والی حدیث ہدایت یافتہ طبقے کی نشاندہی کرتی ہے جسے دیگر روایات میں الفرقة الناجیة یعنی نجات یافتہ فرقہ بھی کہا گیا ہے ۔ اور یہ وہ واحد فرقہ ہے جو اس ہدایت پر ظاہراً و باطناً بغیر کسی کمی کے علیٰ وجہ الکمال قائم ہے جو نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت ہے۔ جب صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا ما انا عليه اليوم و اصحابى ( وہ بات جس پر آج میں اور میرے اصحاب ہیں)۔ اور واجب ہے کہ ہم آپ کے اس ارشاد پر رک کر غور کریں۔ اور بعض دوسری روایات میں اس گروہ کیلئے السّواد الاعظم کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اور ان دونوں اوصاف میں کوئی تعارض ( Contradiction) نہیں ہے اگر ہم ان معانی کو دیکھیں جو آپ صلی اللہ علیہ السلام کے پیشِ نظر تھے۔ چنانچہ اس نجات یافتہ گروہ کیلئے سوادِ اعظم (سواد سیاہی کو کہتے ہیں) کا لفظ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے جو امرِ واقعہ ہے اور جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ فی الحقیقت ہر فرقہ اپنے علماء اور اپنے عوام پر مشتمل ہے۔ جہاں تک ہر فرقے کے عوام کا تعلق ہے، تو اگرچہ یہ لوگ رسمی طور پر اپنے اپنے فرقے کے پیرو کار (Followers )ہوتے ہیں، اور عبادات وغیرہ میں اپنے فرقے کی تقلید کرتے ہیں ، لیکن یہ عوام اپنی فطرت کی رُو سے اس اصل ( Root) پر ہوتے ہیں جو جامع ہے اور اوّل ہے۔ اور اگر ہم عقائد کی بات کریں تو وہ ( عوام) اس اجمالی توحید پر ہوتے ہیں جو عام ہے۔ یعنی تفاصیل میں منہمک ہوئے بغیر اور فطرتِ سلیمہ کے مطابق۔ اور جو بھی اس توحید پر ہے وہ فرقہ ناجیہ میں شامل ہے، جبکہ اسکے برعکس ان فرقوں کے ائمہ (Leaders) جو اپنی عقول کے ذریعے عقائد کی ان تفاصیل میں تکلفاً داخل ہوئے اور حق تعالیٰ کی طرف سے کسی اذن کے بغیر اپنی عقول کے ساتھ عقائد میں کلام کرنے لگے، انکا معاملہ عوام سے برعکس ہے۔ اور ان سے عنقریب ان تفاصیل کے متعلق پوچھا جائے گا کہ کیوں تم نے فلاں بات کی اور کیوں فلاں عقیدے کو اپنایا۔ چنانچہ یہ بات اس فضل سے تعلق رکھتی ہے جو عوام کو علماء پر حاصل ہے اور شاذ نادر ہی اسکا ذکر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کافی مواقع ( Situations) میں ایک انسان کیلئے اسکا عام بندوں میں شمار ہونا ، زیادہ بہتر ثابت ہوتا ہے اور وہ اللہ کے نزدیک نجات یافتہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس حقیقت کو الفرقة الناجیة یعنی نجات یافتہ گروہ کی صفت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول " السوادالاعظم" سے سمجھا جاسکتا ہے یعنی الفرقة الناجیة کی عوام۔(سوا د سیاہی کو کہتے ہیں)۔
جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا تعلق ہے جو انہوں نے الفرقة الناجیة کی صفت میں ما انا عليه اليوم و اصحابى کے الفاظ سے بیان فرمایا (یعنی وہ لوگ جو اس صفت پر ہیں جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں ) ، تو اس بات کا تعلق امّت کے خواص سے ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے اصحاب اس حدیث کے زمانے میں جس صفت پر تھے اسکو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں الربّانية ( ربّانیت)کے نام سے بیان فرمایا ہے۔
اور ربّانیت دو طرح کی ہوتی ہے۔ مواجہة کے معنی میں، اور توجّة کے معنی میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مواجہت کے معنی میں ربّانی تھے یعنی ربّانی مظہر ہونے کی جہت سے، جس میں آپ کے اصحاب، حق کو دیکھتے تھے ۔ اور یہ رباّنیت کے معانی میں سے ایک معنیٰ ہے یعنی مواجہت والے معنی۔ اور ربّانیت کے دوسرے معنی جن کا تعلق توّجّہ سے ہے ، یہ وہ صفت ہے جس پر آپکے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے سامنے مواجہتاً ایک مظہرِ ربّانی تھے جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپکی جانب توجّہ رکھنے والے متوجہین تھے۔ اور توجہ سے ہماری مراد قلبی توجہ ہے۔
ربّانیت کے دو معنوں یعنی معنی ءِ توجہ اورمعنی ءِ مواجہات سمجھنے کیلئے ہم استقبال Receivingاور ارسال Transmitting کی مثال کی صورت میں پیش کرتے ہیں تاکہ ان معانی کو سمجھنا آسان ہوجائے۔ چنانچہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) مواجہہ ہونے کی حیثیت سے گویا موجات و ذبذباتِ ربّانیہ ( Divine Waves & Vibrations) کے لئے ایک مرسل Transmitter ہیں اور آپ کے اصحاب آپ کی جانب متوجہ ہونے کی حیثیت میں گویا رباّنی لہروں اور موجوں کو وصول کرنے والے Receivers ہیں۔ اور ان ربّانی موجوں اور تموّجات ( Vibrations/Signals) کو اصطلاح میں مدد کہا جاتا ہے۔
اور مدد کی اصطلاح صوفیہ کی اختراع نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگ صوفیہ کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں، بلکہ یہ تو قرآن سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلًّا نُمِدُّ هَٰؤُلَاءِ وَهَٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ (ہم اِن کو بھی اور اُن کو بھی ، سب کو تیرے رب کی عطا سے مدد دیتے ہیں)۔ چنانچہ مدد اللہ کی جانب سے واسطہِ نبویّہ محمّدیّہ کے ذریعے ہوتی ہے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امداد کی کئی صنوف (اقسام) سے صحابہ کی مدد فرماتے۔ اور آپ اس وقت بھی ان امدادات سے ہماری مدد فرمارہے ہیں چنانچہ ہر ایک کو اسکی استعداد کے موافق مدد پہنچتی ہے۔
چنانچہ ربّانیت اپنی دونوں قسموں سے توجہ اور امداد پر مشتمل ہے۔ اور یہ ہر زمان میں الفرقة الناجیة کی (خواصِ امّت کے اعتبار سے) ایک بنیادی صفت ہے۔ اور یہ صفت ہر اس جماعت کو حاصل ہوتی ہے جوربّانی امام رکھتی ہو ۔ چنانچہ شرعی معانی کے اعتبار سے لفظ جماعت اسی گروہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کا کوئی امام ہو۔۔ اور امام اس وقت تک امام نہیں ہوسکتا، جب تک وہ ربّانی نہ ہو۔ ربّانی ہونے کے کیا معنی ہیں؟ یہی کہ رب کی طرف سے بندوں کی تربیت کیلئے ربّانی تربیت کا مظہر ہوجانا۔ اور یہ معنی مددِ ربّانی یعنی مددِ الٰہی کے بغیر درست نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ کوئی شخص خود ساختہ طور پر ، یا کچھ لوگوں کے منتخب کرلینے کی وجہ سے ، یا کچھ اور اسباب و وسائل اختیار کرلینے سے ربّانی نہیں ہوسکتا ، جب تک اللہ کی جانب سے اسکے لئے اذن نہ ہو ۔
اب ہم سوال پوچھتے ہیں کہ اس سارے معاملے میں فقہاء کا کیا مقام ہے؟
فقہاء دین کے پہلے مرتبے یعنی اسلام کے امام ہیں، اور ضروری نہیں کہ وہ دین کے بقیہ مراتب یعنی ایمان و احسان کے امام بھی ہوں،۔ الّا یہ کہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو ان تمام مراتب اور انکے متعلقہ علوم کے حامل ہوں۔ لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا جیسا کہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔
اور ضروری ہے کہ ہم ایک اور التباس کو بھی رفع کرتے چلیں۔ ہم نے پچھلے کسی لیکچر میں کہا تھا کہ فقہاء رسالت کے وارثین میں سے ہیں۔ اور کسی شخص نے کہا کہ " اگر فقہاء رسالت کے ورثے کے حاملین میں سے ہیں تو پھر اس سے اعلیٰ مرتبہ تو اور کوئی نہ ہوا۔ چنانچہ ضروری ہے کہ سب مراتب ان کو حاصل ہوں، کیونکہ رسول انسانوں میں سے سب سے بلندمرتبہ ہے، انبیاء سے بھی اور اولیاء سے بھی"۔ اس بات میں ایک التباس پایا جاتا ہے جس کا رفع کرنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ نہیں ہے کیونکہ بات کا تعلق اس شخص کے مقام سے ہے جس کے متعلق بات کی جارہی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر انبیاء و مرسلین کی بات کریں تو ایک شخص اپنے رسول ہونے کی حیثیت سے تین مراتب رکھتا ہے۔ وہ ولی بھی ہے، نبی بھی ہے اور رسول بھی ہے۔ چنانچہ اس کے رسول ہونے کی حیثیت ، اسکے نبی ہونے کی حیثیت سے اعلیٰ مرتبے پر ہے۔ اور اسکےنبی ہونے کی حیثیت ، اسکے ولی ہونے کی حیثیت سے ارفع ہے۔ یہ بات ایک شخصِ واحد کی ان تینوں شانوں کی نسبت سے ہے۔ چنانچہ جب ہم انبیاء و رسل پر نظر ڈالیں تو رسولوں کا مرتبہ انبیاء سے بلند تر ہے اور انبیاء کا مرتبہ اولیاء سے بلند تر ہے۔ لیکن اگر انبیاء و رسل کے علوم پر نظر ڈالی جائے تو علومِ رسالت، علومِ نبوت اور علومِ ولایت کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ چنانچہ فقہاء علومِ رسالت کے وارثین ہیں لیکن وہ علومِ نبوت کے وارثین اور علومِ ولایت کے وارثین سے کم درجے پر ہیں، اعلیٰ پر نہیں۔ کیونکہ ورثہِ علومِ رسالت یعنی نصوصِ شرعیہ اورشرعی احکام کا علم نبوت و ولایت کے علوم سے کم درجے پر ہے۔ چنانچہ اگر اس بات کو سمجھ لیں تو یہ لبس رفع ہوجاتا ہے کہ علومِ دینیہ میں فقہاء کا مرتبہ سب سے بلند ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم نے جتنی وضاحت کردی ہے اس سے یہ لبس اور وہم دور ہوجانا چاہئیے۔
اور جیسا کہ ہم نے ان لیکچرز میں پہلے بھی اس بات کی پہلے وضاحت کردی تھی کہ دین ایک طریق ہے ایک راستہ ہے۔
ایک مرتبہ پھر ہم تاکید سے کہتے ہیں کہ دین ایک راستہ ہے جسکی شروعات نفس سے ہوتی ہے اور انتہاء اللہ پر۔ اور یہ وہ راستہ ہے جو منزل تک پہنچاتا ہے اور اس پر سفر کیا جاتا ہے۔
اور دین کی تقلیدی فہم اور درست فہم کے حوالے سے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ کسی لیکچر میں دین کے پہلے تین مراتب یعنی اسلام، ایمان اور احسان کے حوالے سے بات ہوئی تھی۔ چنانچہ دین کے پہلے مرتبے یعنی مرتبہِ اسلام کو اگر ائرپورٹ لاؤنج، ریلوے سٹیشن یا بس ٹرمینل سے تشبیہہ دی جائے کہ جہاں لوگ سفر کرنے کیلئے جمع ہوتے ہیں تاکہ وہاں سے ٹرین، بس یا ٹیکسی پکڑ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا جائے۔ چنانچہ اگر مرتبہ اسلام کو اس ٹرمینل لاؤنج سے تشبیہہ دیں تو ہم یقیناً سمجھ جائیں گے کہ لوگوں کی کثیر تعداد جب ٹرمینل کے اندر داخل ہوئی، تو اپنے اصل مقصد یعنی منزل کی جانب سفر کو فراموش کربیٹھی اور ٹرمینل کے اندر ہی مختلف مشاغل میں مصروف ہوگئی۔ چنانچہ لوگ اسلام کے بارے میں اپنے اسلاف سے ملنے والی تقلیدی فہم اور اعمال میں ہی مشغول رہ کر اپنے سفر یعنی سلوک الی اللہ کو فراموش کربیٹھے اور گویا ٹرمینل لاؤنج کے اندر ہی محدود رہ کر زندگی گذارنے لگے۔ چنانچہ ایسا انسان بچپن سے بلوغت، جوانی اور کہولت کے مراحل سے گذرتے ہوئے ازدواجی زندگی، بچوں کی پیدائش اور موت تک کے مراحل اس اسٹیشن یا بس ٹرمینل کے اندر ہی گذارنے پر قانع رہتا ہے۔ اورمرتبہ اسلام پر ہی اکتفا کئے رہتا ہے۔ اور کبھی اپنے آپ سے نہیں پوچھتا کہ قرآنِ پاک کی قراءت کرتے وقت یا احادیثِ نبویہ سنتے وقت جو معانی دل پر گذرتے ہیں، میں ان معانی کے اعتبار سے کس جگہ کھڑا ہوں؟ کیا میں ان معانی سے متحقق ہوا؟ اور کیا اپنی دینداری کے ذریعے ان مقامات سے گذرا؟
فقہاء ( اللہ ہم سے اور ان سے درگزر کا معاملہ فرمائے) نے بھی لوگوں کو اسی وضع پر اکتفا کرنے اور اسی حال میں رہنے میں اور اسی غفلت کی نیند میں پڑے رہنے میں ایک گونہ کردار ادا کیا۔ کیونکہ انہوں نے دین کو اس انداز سے پیش کیا جیسے اس ٹرمینل سے باہر اس کا کوئی وجود نہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ یہی ہے جو ان کو اور دوسرے مسافروں کو نظر آرہا ہے۔ اور گویا کہ دین ایک راستہ نہیں بلکہ اسی ٹرمینل میں قیام کا نام ہے۔ حالانکہ وہ بھی اور باقی سب مسلمان بھی اپنی اپنی نمازوں میں یہ پڑھتے رہے کہ اھدنا الصراط المستقیم۔ چنانچہ وہ اپنی زبانوں سے تو اللہ کو پکارتے رہے کہ وہ انہیں سیدھے راستے پر چلائے، لیکن اپنے طرزِ عمل سے اس بات کی مخالفت کرتے رہے۔ اور سفر کے ابتدائی مقام پر ہی اکتفا کرنے پر مُصر رہے۔ چنانچہ انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو ٹٹولے اور اپنے بارےمیں اس کا جو بھی گمان ہے، اس کے محکم ہونے کے گمان سے نکلے۔
اب اس لیکچر کے آخر میں ضروری ہے کہ ہم لیکچر کے شروع میں بیان کی گئی ایک بات کی کچھ مزید تفصیل بیان کرتے چلیں اور وہ بات تھی شرع اور عقائد کے حوالے سے اطلاقِ محمّدیّہ۔ اطلاق سے ہماری مراد عمومِ شریعت ہے، تخصیصِ مذاہب نہیں۔ چنانچہ مذہب (مسلک) کی اتباع کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ شریعت کے اصلی راستے کو طے کریں۔ اور اس معنی کے اعتبار سے شریعت مطلق ہے یعنی مذاہب و مسالک میں سے کسی خاص مذہب و مسلک سے مقیّد نہیں ہے۔ مذاہب سے ہماری مراد عمل سے ہے اسم سے نہیں۔ یعنی فقہ کی جہت سے دیکھیں تو مذہب مالکی ہے، حنفی ہے، شافعی ہے، حنبلی ہے یا جعفری ہے۔ یہ تو فقہ کی جہت سے تھا، اگر عقائد کی جہت سے دیکھیں تو چونکہ عقیدہِ اسلامیہ مطلقہ ہے یعنی وسعت و اجمال کا حامل ہے یعنی عقائد کی تفاصیل کو محیط ہے علماّ بھی اور فہماّ بھی۔ اس بات کا تعلق اہلِ علم اور اسکے بعد عارفین سے ہے تمام کے تمام مسلمانوں سے نہیں ہے ، کیونکہ مسلمانوں کی کثیر تعداد وحی کے معانی کے ادراک سے قاصر ہے۔
اور لوگوں کو یہ بات بہت دشوار لگتی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف عقائد سب کے سب عقیدہ اسلامیہ کے اطلاق میں کیسے شامل ہوسکتے ہیں جبکہ بعض عقائد ایک دوسرے سے متناقض ( Contradictive) ہیں۔ کیونکہ عقل کیلئے کسی معاملے پر دو متناقض اور متضاد امور ( Opinions) کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں سے بالخصوص اہلِ عقائد کیلئے بیحد دشوار ہوتا ہے کہ وہ بالخصوص مسلمانوں ہی کے کسی دوسرے گروہ کے مقولات و عقائد کو قبول کرسکیں۔ جبکہ اہلِ تحقیق جو صحیح شرعی معنوں میں اہلِ علم ہیں، وہ ان عقائد سے وہ وہ مفہوم مراد لیتے ہیں جو ان عقائد کے حامل افراد کے ادراک سے نہیں گذرے ہوتے۔ چنانچہ اس فہمِ خاص سے یہ محققین وہ سب کچھ قبول کرتے ہیں جس میں باہم متناقض عقائد بھی شامل ہوتے ہیں۔ اور یہ بڑے عجیب امور میں سے ہے اور اس کو بالخصوص وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس علم کے اہل ہوتے ہیں، اور عوام کیلئے یہ ہے کہ وہ لوگوں کی اس صنف کے وجود کا انکار نہ کریں اور ایمان رکھتے ہوئے ایسے لوگوں اور ایسے علوم کے وجود کو تسلیم کرلیں، ورنہ انکار کرکے انسان اپنے ہی نفس پر محرومیت کا دروازہ کھولتا ہے۔
اور اہلِ تحقیق اہلِ اطلاق ہیں۔ اور یہ دین کے کمال( Excellence) میں سے ہے۔ اور یہ کمالِ دین شرعِ محمدیہ کے خصائص میں سے ہے۔ اور ہمارے علمائے ربّانیین اتنی وسعتِ باطنی رکھتے ہیں کہ وجود میں پائے جانے والے ہر مقولے کو اپنے اندر جذب کرسکتے ہیں اور اس میں پائے جانے والی وجوہِ حق کو پہچانتے ہیں خواہ وہ ایک واحد وجہ ہی کیوں نہ ہو۔( فاینما تولّوا فثمّ وجہ اللہ )
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی وسعتِ باطن کی وجہ سے کسی بھی شخص پر تنگی نہیں کرتے اور نہ ہی مخالفین کی وجہ سے تنگی اور گھٹن میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور انکے سوا جتنے بھی لوگ ہیں خصوصاّ اہلِ عقائد (عقائدِ کلامیہ والے)، تو وہ اس وسعت و اطلاق کی طاقت نہیں رکھتے۔ تمام اہلِ عقائد (جو کسی مخصوص عقیدے کے حامل گروہ سے تعلق رکھتے ہوں)، وہ اسی بات پر رہتے ہیں جس بات پر وہ ہوں اور اسکے سوا ہر بات کو ردّ کردیتے ہیں۔ اور اپنی بات پر باقی رہ جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ انکا مرتبہ یعنی دین میں انکا درجہ انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ عقائد میں ہر قسم کے مقولے کو قبول کرسکیں۔ کیونکہ عقیدہ لفظ عقد سے ہے یعنی باندھنا گرہ لگانا۔ اور باندھنا، گرہ لگانا تقیید ہے اطلاق نہیں۔
ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عقیدے پالنااپنی فطرت و نفسیات کے اعتبار سے دین کی اصل کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے لیکچر مرتبہِ اسلام میں کہا تھا کہ عقائد مرتب کرکے لوگوں پر انکو اسی فہم کے مطابق تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنا، اور ان پر مخصوص فہم کو واجب کرنا، یہ سب وہ بدعت ہے جو قرونِ اولیٰ کے بعد امّت میں ظاہر ہوئی۔ اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کے ردعمل میں اس دور میں تصوف ابھرا۔ ہم نے اپنے بچھلے لیکچرز میں تدیّنِ تاریخی کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ اسلام کی پہلی تین صدیوں کے بعد تدیّنِ تاریخی شروع ہوگیا تھا۔ اور تدیّنِ تاریخی کے لوازم اور خصائص میں سے ہے جمود۔ اور سفر کو ترک کرکے ایک جگہ پر رک جانا۔ شرعی معنوں کے لحاظ سے سفر ہجرت کو کہتے ہیں۔ سفر الی اللہ ہجرت ہے۔ معنوی ہجرت۔ جبکہ تدیّنِ تاریخی میں کوئی ہجرت نہیں ۔ چنانچہ تدیّنِ تاریخی والے تمام اصحاب ٹرمینل لاؤنج کے اندر ہی رکے ہوئے ہیں اور ان کو یہ خیال ہی نہیں گذرتا کہ وہ ترمینل سے باہر نکلیں اور گاڑی پر سوار ہوں تاکہ منزلِ مقصود کی جانب سفر شروع ہوسکے۔
تو یہ سب تدیّنِ تاریخی کی صفات ہیں۔ اور جب امّت میں تدیّنِ تاریخی ظاہر ہوا اور اسکی وجہ سے دین کے کچھ اجزاء معطل ہوکر رہ گئے اور کچھ میں انحراف پیدا ہوا، تواس صورتِ حال میں لازم تھا کہ امّت میں ایسا طائفہ بھی ظاہر ہو جو تدیّنِ اصلی پر باقی رہے جیسا کہ زمانہ نبوت میں تھا ، خواہ بہت قلیل تعداد سہی۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیہ کا ظہور ہوا۔ امت میں جو کچھ ظاہر ہوچکا تھا، اسکی تصحیح کیلئے صوفیہ کا ظہور ہوا۔ چنانچہ امت میں تدینِ تاریخی کی بدولت سب سے پہلے دنیا سے محبت و رغبت ظاہر ہوئی اور دنیا ایک مقصد قرار پایا۔ اسکے بعد دین میں امامت، ربانیین کی بجائے حکّام کے سپرد ہوئی۔ اور ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم اموی حکومتوں میں باستثنائے خلیفہ ِ ربّانی عمر بن عبدالزیز، جو کچھ ہوتا رہا اسکا ذکر کریں ۔ چنانچہ دین سے انحراف کرنے والے لوگوں کے بالمقابل جو لوگ ظاہر ہوئے وہ صوفیہ تھے۔ اور انہوں نے چاہا کہ وہ دین میں ربّانیّت پر قائم رہیں، مواجہت اور توجہ کے طریق سے۔ اور انہوں نے چاہا کہ دین اپنے اصل اطلاق اور وسعت پر باقی رہے۔ اس معنی میں کہ انسان عقیدہ اجمالیہ سے اپنا سفر شروع کرے اور اسکے آگے راستہ مفتوح ہو مسدود نہ ہو۔، چنانچہ وہ اس باطنی وسعت تک پہنچ پائے جو اسکے لئے اللہ کی طرف سے مقرر ہو۔
اور اس زمانے کیلئے بھی وہی تدیّنِ حق ہے، ہماری مراد یہ ہے کہ فقہ کے اعتبار سے یا عقائد کے اعتبار سے، تدیّنِ مقیّد، شریعتِ محمدیہ کے کما ل کے خلاف ہے۔ چنانچہ یہ کمال اگرچہ قاصرین کے عقائد کو بھی قبول کرتا ہے اور عاجزین سے تجاوز کرتا ہے، لیکن یہ عجز اور قصر ، دین کیلئے ایک ثابت شدہ وصف نہیں قرار دیا جاسکتا۔ کیونکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصوص کمال یعنی اطلاق و وسعت سے دور جا پڑے ہیں ۔ اور چونکہ ہم نے اس حلقے میں تصوف کا ذکر کیا، چنانچہ اگلے حلقات میں ان شاء اللہ تصوف اور دوسرے مذاہب کے بارے میں گفتگو ہوتی رہے گی، ان شاء اللہ۔
و صل اللہ سیدنا محمّد و علیٰ آلہ و صحبہ والحمد للہ ربّ العالمین۔

(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
ماشااللہ۔ اللہ رب العزت آپ کو اس محنت کی جزا عطا فرمائیں۔ آمین
جبکہ اسکے برعکس ان فرقوں کے ائمہ (Leaders) جو اپنی عقول کے ذریعے عقائد کی ان تفاصیل میں تکلفاً داخل ہوئے اور حق تعالیٰ کی طرف سے کسی اذن کے بغیر اپنی عقول کے ساتھ عقائد میں کلام کرنے لگے، انکا معاملہ عوام سے برعکس ہے۔ اور ان سے عنقریب ان تفاصیل کے متعلق پوچھا جائے گا کہ کیوں تم نے فلاں بات کی اور کیوں فلاں عقیدے کو اپنایا۔ چنانچہ یہ بات اس فضل سے تعلق رکھتی ہے جو عوام کو علماء پر حاصل ہے اور شاذ نادر ہی اسکا ذکر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کافی مواقع ( Situations) میں ایک انسان کیلئے اسکا عام بندوں میں شمار ہونا ، زیادہ بہتر ثابت ہوتا ہے اور وہ اللہ کے نزدیک نجات یافتہ ہوجاتا ہے۔
عوام تو صاف صاف بچ نکلے۔ :)
كُلًّا نُمِدُّ هَٰؤُلَاءِ وَهَٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ (ہم اِن کو بھی اور اُن کو بھی ، سب کو تیرے رب کی عطا سے مدد دیتے ہیں)
الاسراء - 20
اور دین کی تقلیدی فہم اور درست فہم کے حوالے سے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ کسی لیکچر میں دین کے پہلے تین مراتب یعنی اسلام، ایمان اور احسان کے حوالے سے بات ہوئی تھی
براہ کرم اس کا ربط دیجیے۔
عوام کیلئے یہ ہے کہ وہ لوگوں کی اس صنف کے وجود کا انکار نہ کریں اور ایمان رکھتے ہوئے ایسے لوگوں اور ایسے علوم کے وجود کو تسلیم کرلیں، ورنہ انکار کرکے انسان اپنے ہی نفس پر محرومیت کا دروازہ کھولتا ہے۔
اس کی کچھ مزید وضاحت ہو جائے۔
فاینما تولّوا فثمّ وجہ اللہ
البقرہ -115
مطلب یہ کہ انکا مرتبہ یعنی دین میں انکا درجہ انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ عقائد میں ہر قسم کے مقولے کو قبول کرسکیں۔
عقیدہ یا مذہب، مسلک ِ۔۔۔!!!
اسلام کی پہلی تین صدیوں کے بعد تدیّنِ تاریخی شروع ہوگیا تھا
تدیّنِ تاریخی ۔۔؟
اور جب امّت میں تدیّنِ تاریخی ظاہر ہوا اور اسکی وجہ سے دین کے کچھ اجزاء معطل ہوکر رہ گئے اور کچھ میں انحراف پیدا ہوا، تواس صورتِ حال میں لازم تھا کہ امّت میں ایسا طائفہ بھی ظاہر ہو جو تدیّنِ اصلی پر باقی رہے جیسا کہ زمانہ نبوت میں تھا ، خواہ بہت قلیل تعداد سہی
ان اجزاء کے بارے میں کچھ معلومات۔۔اگر مل سکیں تو۔
 
ماشااللہ۔ اللہ رب العزت آپ کو اس محنت کی جزا عطا فرمائیں۔
آمین۔۔۔شکریہ :)
عوام تو صاف صاف بچ نکلے۔ :)
اللہ کی رحمت وسیع تر ہے۔۔۔
براہ کرم اس کا ربط دیجیے۔
ابھی اسکا ترجمہ نہیں کیا، جلد ہی ترجمہ مکمل کرکے پوسٹ کروں گا ان شاء اللہ۔
اس کی کچھ مزید وضاحت ہو جائے۔
جب ہم کسی بات کے امکان Possibility کو رد کردیتے ہیں، تو یہ گویا اس بات کے مترادف ہے کہ خود ہی دروازہ بند کرکے اندر سے کنڈی لگا دی۔۔۔اب جب تک وہ کنڈی ہم خود نہ کھولیں، کوئی باہر سے کیسے آسکتا ہے (بغیر زور زبردستی کئے)۔۔۔۔:)
عقیدہ یا مذہب، مسلک ِ۔۔۔!!!
نہیں یہ اشارہ ہے دین کے تین مراتب کی طرف۔ پہلا مرتبہ اسلام، دوسرا ایمان اور تیسرا احسان۔
اس کے لئے پہلا لیکچر پڑھئیے۔۔۔ دین-1۔ اسی زمرے میں پوسٹ کیا تھا کچھ دن پیشتر۔
ان اجزاء کے بارے میں کچھ معلومات۔۔اگر مل سکیں تو۔
ایک دو کا ذکر تو اسی لیکچر میں موجود ہے یعنی توجہ، مدد وغیرہ۔ کچھ کا ذکر پچھلے لیکچرز میں ہے اور کچھ کا ذکر اگلے لیکچرز میں آئے گا۔
 
Top