چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
دیوانِ غالبؔ کامل
(نسخہ رضاؔ)
تاریخی ترتیب سے
کالی داس گپتا رضا
از ۔۔۔۔۔۔ تا 1812 ء
مثنوی
ایک دن مثل پتنگ کاغذی
لے کے دل سر رشتہ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر کھانے گا
میں نے کہا اے دل، ہوائے دلبراں
بس کہ تیرے حق میں کہتی ہے زباں
پیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
یہ نہیں ہیں گے کسو کے یار غار
گورے پنڈے پر،نہ کر، ان کےنظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر
اب تو مل جائے گی تیری ان سے سانٹھ
لیکن آخر کو پڑے گی ایسی گانٹھ
سخت مشکل ہوگا سلجھانا تجھے
قہر ہے دل ان سے الجھانا تجھے
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اڑاتے ہیں تجھے
ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں
مفت میں نا حق کٹا دیں گے کہیں
دل نے سن کر ،کانپ کر، کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر دیا ، کٹ کر جواب
"رشتہ در گردنم افگندہ دوست ٭٭ می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست"
غزلیات
نیاز عشق ، خرمن سوز ِ اسبابِ ہوس بہتر
جو ہو جاوے نثار برق مشت خار وخس بہتر
یاد آیا جو وہ کہنا ،کہ نہیں، واہ غلط
کی تصور نے بہ صحرائے ہوس راہ غلط
آئے ہیں پارہ ہائے جگر درمیان اشک
لایا ہے لعل بیش بہا، کاروان اشک
ظاہر کرے ہے جنبش مژگاں سےمدعا
طفلانہ ہاتھ کا ہے اشارہ، زبانِ اشک
میں وادی طلب میں ہوا جملہ تن غرق
از بس کہ قطرہ زنی تھابسان ِاشک
رونے نے طاقت اتنی نہ چھوڑی کہ ایک بار
مژگاں کو دوں فشار، پئے امتحان ِ اشک
دل خستگاں کو ہے طربِ صد چمن بہار
باغ ِ بخون تپیدن، و آبِ روانِ اشک
سیل بنائے ہستیِ شبنم ہے آفتاب
چھوڑے نہ چشم میں، تپش ِ دل نشانِ اشک
ہنگامِ انتظارِ قدوم ِبتاں، اسدؔ
ہے بر سر مژہ نگراں، دید بان اشک
آنسو کہوں کہ ، آہ ، سوار ِ ہوا کہوں
ایسا عناں گسیختہ آیا کہ کیا کہوں
اقبال ِ کلفتِ دلِ بے مدعا رسا
اختر کو داغِ سایہ ِ بال ہما کہوں
مضمون وصل ہاتھ نہ آیا مگر اسے
اب طائر پریدہ رنگ حنا کہوں
عہدے سے مدح ِ ناز کے باہر نہ آ سکا
گر ایک ادا ہو، تو اسے اپنی قضا کہوں
حلقے ہیں، چشم ہائے کشادہ بسوئے دل
ہر تار زلف کو نگہ سرمہ سا کہوں
ظالم میرے گمان سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہے ہے خدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں
دزدیدنِ دلِِ ستم آمادہ ہے محال
مژگاں کہوں کہ جوہر تیغِ قضا کہوں
طرزآفرینِ نکتہ سرائی طبع ہے
آئینہ خیال کو طوطی نما کہوں
میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو اور وہ ایک نشنیدن کہ کیا کہوں
غالبؔ ہے رتبہ فہم تصورسے کچھ پرے
ہے عجز بندگی کہ علی کو خدا کہوں
مجلس شعلہ عذاراں میں جو آجاتا ہوں
شمع ساں میں تہہ دامان صبا جاتا ہوں
ہووے ہے، جادہ راہ ، رشتہ گوہر ہر گام
جس گزرگاہ سے میں آبلہ پا جاتا ہوں
سر گراں مجھ سے سُبک رو کے، نہ، رہنے سے رہو
کہ بیک جنبش لب، مثل صدا جاتا ہوں
دیکھتا ہوں اسے، تھی جس کی تمنا مجھ کو
آج بیداری میں ہے خوابِ زلیخا مجھ کو
شمشیر صافِ یار، جو زہراب دادہ ہو
وہ خط سبز ہے کہ بہ رخسارِ سادہ ہو
ہنستے ہیں، دیکھ دیکھ کے، سب، ناتواں مجھے
یہ رنگ ِ زرد، ہے چمن ِ زعفراں مجھے
دیکھ وہ برقِ تبسم، بس کہ، دل بیتاب ہے
دیدہ گریاں میرا، فوارہ سیماب ہے
کھول کر دروازہِ میخانہ، بولا مے فروش
اب شکست توبہ میخواروں کو فتح الباب ہے
اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے
پروانے کا نہ غم ہوتو پھر کس لیے اسدؔ
ہر رات، شمع، شام سے لے تا سحر جلے
زخم دل تم دکھایا ہے کہ جی جانے ہے
ایسے ہنستے کو رلایا ہے کہ جی جانے ہے
صبا لگا وہ طمانچے طرف سے بلبل کی
کہ روئے غنچہ گل، سوئے آشیاں پھر جائے
بتو! توبہ کرو، تم کیا ہو؟ جب وہ ادبار آتا ہے
تو یوسف سا حسیں، بکنے سرِ بازار آتا ہے
طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسدااللہ خان قیامت ہے
1813 تا 1816
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر ِتصویر کا
کاو کا وِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبہ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
شوخی ِ نیرنگ، صید وحشتِ طاؤس ہے
دام، سبزے میں ہے، پروازِ چمن تسخیر کا
لذت ایجاد ناز،افسون ِعرضِ ذوقِِ قتل
نعل، آتش میں ہےتیغِ یار سے، نخچیر کا
خشت پشتِ دستِ عجز و قالب آغوشِ وداع
پر ہوا ہے سیل سے، پیمانہ کس تعمیر کا
وحشتِ خوابِ عدم، شور تماشا ہے،اسدؔ
جز مژہ جوہر نہیں آئینہ ِ تعبیر کا
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے،حلقہ میری زنجیر کا
(نسخہ رضاؔ)
تاریخی ترتیب سے
کالی داس گپتا رضا
از ۔۔۔۔۔۔ تا 1812 ء
مثنوی
ایک دن مثل پتنگ کاغذی
لے کے دل سر رشتہ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر کھانے گا
میں نے کہا اے دل، ہوائے دلبراں
بس کہ تیرے حق میں کہتی ہے زباں
پیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
یہ نہیں ہیں گے کسو کے یار غار
گورے پنڈے پر،نہ کر، ان کےنظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر
اب تو مل جائے گی تیری ان سے سانٹھ
لیکن آخر کو پڑے گی ایسی گانٹھ
سخت مشکل ہوگا سلجھانا تجھے
قہر ہے دل ان سے الجھانا تجھے
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اڑاتے ہیں تجھے
ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں
مفت میں نا حق کٹا دیں گے کہیں
دل نے سن کر ،کانپ کر، کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر دیا ، کٹ کر جواب
"رشتہ در گردنم افگندہ دوست ٭٭ می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست"
غزلیات
نیاز عشق ، خرمن سوز ِ اسبابِ ہوس بہتر
جو ہو جاوے نثار برق مشت خار وخس بہتر
یاد آیا جو وہ کہنا ،کہ نہیں، واہ غلط
کی تصور نے بہ صحرائے ہوس راہ غلط
آئے ہیں پارہ ہائے جگر درمیان اشک
لایا ہے لعل بیش بہا، کاروان اشک
ظاہر کرے ہے جنبش مژگاں سےمدعا
طفلانہ ہاتھ کا ہے اشارہ، زبانِ اشک
میں وادی طلب میں ہوا جملہ تن غرق
از بس کہ قطرہ زنی تھابسان ِاشک
رونے نے طاقت اتنی نہ چھوڑی کہ ایک بار
مژگاں کو دوں فشار، پئے امتحان ِ اشک
دل خستگاں کو ہے طربِ صد چمن بہار
باغ ِ بخون تپیدن، و آبِ روانِ اشک
سیل بنائے ہستیِ شبنم ہے آفتاب
چھوڑے نہ چشم میں، تپش ِ دل نشانِ اشک
ہنگامِ انتظارِ قدوم ِبتاں، اسدؔ
ہے بر سر مژہ نگراں، دید بان اشک
آنسو کہوں کہ ، آہ ، سوار ِ ہوا کہوں
ایسا عناں گسیختہ آیا کہ کیا کہوں
اقبال ِ کلفتِ دلِ بے مدعا رسا
اختر کو داغِ سایہ ِ بال ہما کہوں
مضمون وصل ہاتھ نہ آیا مگر اسے
اب طائر پریدہ رنگ حنا کہوں
عہدے سے مدح ِ ناز کے باہر نہ آ سکا
گر ایک ادا ہو، تو اسے اپنی قضا کہوں
حلقے ہیں، چشم ہائے کشادہ بسوئے دل
ہر تار زلف کو نگہ سرمہ سا کہوں
ظالم میرے گمان سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہے ہے خدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں
دزدیدنِ دلِِ ستم آمادہ ہے محال
مژگاں کہوں کہ جوہر تیغِ قضا کہوں
طرزآفرینِ نکتہ سرائی طبع ہے
آئینہ خیال کو طوطی نما کہوں
میں اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو اور وہ ایک نشنیدن کہ کیا کہوں
غالبؔ ہے رتبہ فہم تصورسے کچھ پرے
ہے عجز بندگی کہ علی کو خدا کہوں
مجلس شعلہ عذاراں میں جو آجاتا ہوں
شمع ساں میں تہہ دامان صبا جاتا ہوں
ہووے ہے، جادہ راہ ، رشتہ گوہر ہر گام
جس گزرگاہ سے میں آبلہ پا جاتا ہوں
سر گراں مجھ سے سُبک رو کے، نہ، رہنے سے رہو
کہ بیک جنبش لب، مثل صدا جاتا ہوں
دیکھتا ہوں اسے، تھی جس کی تمنا مجھ کو
آج بیداری میں ہے خوابِ زلیخا مجھ کو
شمشیر صافِ یار، جو زہراب دادہ ہو
وہ خط سبز ہے کہ بہ رخسارِ سادہ ہو
ہنستے ہیں، دیکھ دیکھ کے، سب، ناتواں مجھے
یہ رنگ ِ زرد، ہے چمن ِ زعفراں مجھے
دیکھ وہ برقِ تبسم، بس کہ، دل بیتاب ہے
دیدہ گریاں میرا، فوارہ سیماب ہے
کھول کر دروازہِ میخانہ، بولا مے فروش
اب شکست توبہ میخواروں کو فتح الباب ہے
اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے
پروانے کا نہ غم ہوتو پھر کس لیے اسدؔ
ہر رات، شمع، شام سے لے تا سحر جلے
زخم دل تم دکھایا ہے کہ جی جانے ہے
ایسے ہنستے کو رلایا ہے کہ جی جانے ہے
صبا لگا وہ طمانچے طرف سے بلبل کی
کہ روئے غنچہ گل، سوئے آشیاں پھر جائے
بتو! توبہ کرو، تم کیا ہو؟ جب وہ ادبار آتا ہے
تو یوسف سا حسیں، بکنے سرِ بازار آتا ہے
طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسدااللہ خان قیامت ہے
1813 تا 1816
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکر ِتصویر کا
کاو کا وِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبہ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
شوخی ِ نیرنگ، صید وحشتِ طاؤس ہے
دام، سبزے میں ہے، پروازِ چمن تسخیر کا
لذت ایجاد ناز،افسون ِعرضِ ذوقِِ قتل
نعل، آتش میں ہےتیغِ یار سے، نخچیر کا
خشت پشتِ دستِ عجز و قالب آغوشِ وداع
پر ہوا ہے سیل سے، پیمانہ کس تعمیر کا
وحشتِ خوابِ عدم، شور تماشا ہے،اسدؔ
جز مژہ جوہر نہیں آئینہ ِ تعبیر کا
بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیرِ پا
موئے آتش دیدہ ہے،حلقہ میری زنجیر کا