کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات ،جو چپ ہوں
ورنہ ،کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں؟ کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز ،گر ،نہیں آتی
داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی، اے چارہ گر !نہیں آتی
ہم وہاں ہیں، جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے، پر ،نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے، غالبؔ ؟
شرم تم کو مگر نہیں آتی
دلِ ناداں ،تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہم ہیں مشتاق ،اور وہ بےزار
یا الٰہی! یہ ماجرا کیا ہے؟
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش! پوچھو کہ" مدّعا کیا ہے" ق
جب کہ تجھ بن نہیں، کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ، اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے؟
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے؟ ہوا کیا ہے؟
ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید
جو نہیں جانتے، وفا کیا ہے؟
ہاں، بھلا کر، ترا بھلا ہوگا
اَور درویش کی صدا کیا ہے؟
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا ،دعا کیا ہے؟
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے؟
حسنِ مہ، گرچہ بہ ہنگامِ کمال، اچّھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے
بوسہ دیتے نہیں، اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ" مفت آئے تو مال اچّھا ہے"
اور بازار سے لے آئے ،اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے ،مرا جامِ سفال، اچّھا ہے
بے طلب دیں، تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا ،جس کو نہ ہو خوئےسوال، اچّھا ہے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے
دیکھیے ،پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ" یہ سال اچّھا ہے"
ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے، کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو، کمال اچّھا ہے!
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ، جس کا کہ مآل اچّھا ہے
خضر سلطاں کو رکھے، خالقِ اکبر، سر سبز
شاہ کے باغ میں، یہ تازہ نہال اچّھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت، لیکن
دل کے خوش رکھنے کو ،غالبؔ ،یہ خیال اچّھا ہے
شکوے کے نام سے، بے مہر ،خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ، کہ جو کہیے، تو گِلا ہوتا ہے
پُر ہوں میں ، شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے، پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
گو سمجھتا نہیں پر حسنِ تلافی دیکھو
شکوۂ جور سے ،سر گرمِ جفا ہوتا ہے
عشق کی راہ میں ہے، چرخِ مکوکب کی وہ چال
سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے
کیوں نہ ٹھہریں ،ہدفِ ناوکِ بیداد؟ کہ ہم
آپ اٹھا لاتے ہیں ،گر تیر خطا ہوتا ہے
خوب تھا ،پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں ،اور برا ہوتا ہے
نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا، اور اب
لب تک آتا ہے، جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے ۔ق۔
خامہ میرا کہ وہ ہے باربدِ بزمِ سخن
شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے
اے شہنشاہِ کواکب سپہ و مہرِ علم!
تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے
سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے
تو وہ لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے
ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال
آستاں پر ترے، مہ ،ناصیہ سا ہوتا ہے
میں جو گستاخ ہوں، آئینِ غزل خوانی میں
یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے
رکھیو غالبؔ ،مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ" تو کیا ہے؟"
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
نہ شعلے میں یہ کرشمہ، نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے؟
یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے؟
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے، پیراہن
ہمارے جَیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے؟
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا، تو پھر لہو کیا ہے؟
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائےبادۂ گلفامِ مشک بو کیا ہے؟
پیوں شراب ،اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے؟
رہی نہ طاقتِ گفتار، اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے؟
ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے؟
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے ،جا کرے کوئی
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے، خدا کرے کوئی
نہ سنو اگر برا کہے کوئی
نہ کہو، گر برا کرے کوئی
روک لو ،گر غلط چلے کوئی
بخش دو ،گر خطا کرے کوئی
کون ہے جو نہیں ہے حاجتمند؟
کس کی حاجت روا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے!
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی ،غالبؔ
کیوں کسی کا گلاکرے کوئی
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا ،اگرچہ اشارے ہوا کیے
دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا
میں اور جاؤں در سے ترے بِن صدا کیے ؟
رکھتا پھروں ہوں، خرقہ و سجّادہ رہنِ مے
مدّت ہوئی ہے، دعوتِ آب و ہوا کیے
بے صرفہ ہی گزرتی ہے، ہو گرچہ عمرِ خضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ "ہم کیا کیا کیے"
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ" اے لئیم
تو نے وہ گنجہائےگرانمایہ کیا کیے؟"
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو ؟
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے ؟
صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو ،کہیں یہ، خو
دینے لگا ہے بوسہ ،بغیر التجا کیے
ضد کی ہے اور بات، مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے
غالبؔ ،تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے ،جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو، جو کچھ ہو
کاشکے! تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم ،گر، اتنا تھا
دل بھی یا رب ،کئی دیے ہوتے
آ ہی جاتا وہ راہ پر، غالبؔ!
کوئی دن اور بھی جیے ہوتے
21/22 فروری 1848 ء
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو راز داں اپنا
مے وہ کیوں بہت پیتے، بزمِ غیر میں، یا رب
آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا، کاشکے! مکاں اپنا
دے وہ جس قد ر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے ،آشنا نکلا، ان کا پاسباں، اپنا
دردِ دل لکھوں کب تک؟جاؤں ان کو دکھلا دوں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا
گھستے گھستے مٹ جاتا، آپ نے عبث بدلا
ننگِ سجدہ سے میرے، سنگِ آستاں اپنا
تا کرے نہ غمازی، کر لیا ہے دشمن کو
دوست کی شکایت میں ،ہم نے ،ہم زباں اپنا
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا ،غالبؔ !دشمن آسماں اپنا
قطعہ
مژدہ! اے رہروانِ راہِ سخن
پایہ سنجانِ دست گاہِ سخن
طے کرو راہِ شوق، زودا زود
آن پہنچی ہے منزلِ مقصود
پاس ہے اب، سوادِ اعظم ِ نثر
دیکھیے، چل کے ، نظمِ عالمِ نثر
سب کو اس کا سوادِ ارزانی!
چشمِ بینش ہو جس سے نورانی
یہ تو دیکھو کہ کیا نظر آیا
جلوہ مدعا نظر آیا
ہاں، یہی شاہراہِ دہلی ہے
مطبعِ بادشاہِ دہلی ہے
منطبع ہو رہی ہے پنج آہنگ
گل و ریحان و لالہ رنگا رنگ
ہے یہ وہ گلشنِ ہمیشہ بہار
بارور جس کا سرو، بے خار
نہیں اس کا جواب ، عالم میں
نہیں ایسی کتاب، عالم میں
اس سے اندازِ شوکتِ تحریر
اخذ کرتا ہے آسماں کا دبیر
مرحبا! طرزِ نغز گفتاری
حبذا! رسم و راہِ نثاری
نثر مدحت سرائے ابراہیم
ہے مقرر جو، اب، پئے تعلیم
اس کے فقروں میں کون آتا ہے
کیا کہیں، کیا وہ راگ گاتا ہے
تین نثروں سے کام کیا نکلے؟
ان کے پڑھنے سے نام کیا نکلے؟
ورزشِ قصہ کہن کب تک؟
داستانِ شہِ دکن کب تک؟
تا کجا درسِ نثر ہائے کہن؟
تازہ کرتا ہے دل کو، تازہ سخن
تھے ظہوریؔ و عرفیؔ و طالبؔ
اپنے اپنے زمانے میں غالب
نہ ظہوری ہے اور نہ طالبؔ ہے
اسد اللہ خان غالبؔ ہے
قول حافظؔ کا ہے بجا، اے دوست
"ہر کرا پنج روز، نوبت اوست"
کل وہ سرگرمِ خود نمائی تھے
شمع ِ بزمِ سخن سرائی تھے
آج یہ قدر دانِ معنی ہے
بادشاہِ جہانِ معنی ہے
نثر اس کی، ہے کارنامہ راز
نظم اس کی، نگار نامہ راز
دیکھو اس دفترِ معانی کو
سیکھو آئینِ نکتہ دانی کو
اس سے جو کوئی بہرہ ور ہوگا
سینہ گنجینہ گہر ہوگا
ہو سخن کی جسے طلب گاری
کرے اس نسخے کی خریداری
آج جو دیدہ ور کرے درخواست
تین بھیجے رُپے، وہ بے کم و کاست
منطبع جب کے ہو چکے گی کتاب
زرِ قیمت کا اور ہوگا حساب
چار سے ،پھر نہ ہوگی کم قیمت
اس سے لیویں گے،کم، نہ ہم ، قیمت
جس کو منظور ہو کہ زر بھیجے
احسن اللہ خاں کے گھر بھیجے
وہ بہارِ ریاض و مہر و وفا
جس کو کہتے ہیں عمدۃ الحکما
میں جو ہوں درپے حصولِ شرف
نام عاصی کا ہے غلام نجف
ہے یہ، القصہ، حاصلِ تحریر
کہ نہ ارسالِ زر میں ہو تاخیر
چشمہ انطباع جاری ہے
ابتدائے ورق شماری ہے (منظوم اشتہار(اسعد الاخبار آگرہ۔12مارچ 1849 ء)یہ اشتہار غالبؔ کے شاگرد غلام نجف خاں کے نام سے چھپا تھا)
غزلیات
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ، ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں
چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر یک سے پُوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھر کو مَیں
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ ترےرہ گزر کو مَیں
ہے کیاجو کس کے باندھیے؟ میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہُوں تمھاری کمر کو مَیں؟
لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ "یہ بے ننگ و نام ہے"
یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پُوجتا ہوں اس بُتِ بیداد گر کو مَیں
پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار
جاتا، وگرنہ، ایک دن اپنی خبر کو مَیں
اپنے پہ کر رہا ہُوں قیاس اہلِ دہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاع ِ ہنر کو میں
غالبؔ، خدا کرے کہ سوارِ سمندِ ناز
دیکھوں علی بہادرعالی گہر کو میں
1850 ء
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گھبرانہ جائے دل؟
انسان ہوں، پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
یارب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں
حد چاہیے سز امیں عقوبت کے واسطے
آخر کناہ گار ہوں، کافر نہیں ہوں میں
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟
لعل و زمرد و زر و گوہر نہیں ہوں میں
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہوں میں
کرتے ہو مجھ کو منع قدم بوس کس لیے؟
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہوں میں؟
غالبؔ، وظیفہ خوار ہو، دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے"نوکر نہیں ہوں میں" *(غالب 4 جولائی 1850 ء کو بادشاہ کےبا قاعدہ ملازم ہوئےتھے)
رباعیات
جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری
کہتے ہیں وہ مجھ کو رافضی او ردہری
دہری کیونکر ہو، جو کہ ہو صوفی؟
شیعی کیونکر ہو،ماورا النہری؟
اصحاب کو جو ناسزا کہتے ہیں
سمجھیں تو ذرا د ل میں کہ کیا کہتے ہیں
سمجھا تھا نبیﷺ نے ان کو اپنا ہمدم
ہے، ہے! نہ کہو، کسے برا کہتے ہیں
یارانِ رسولﷺ، یعنی اصحابِ کبار
ہیں گرچہ بہت، خلیفہ ان میں ہیں چار
ان چار میں ایک سےہو جس کو انکار
غالبؔ، وہ مسلماں نہیں ہے زنہار
یارانِ نبیﷺ میں تھی لڑائی کس میں؟
الفت کی نہ تھی جلوہ نمائی کس میں؟
وہ صدق، وہ عدل، وہ حیا(اور) وہ علم
بتلاؤ کوئی کہ تھی برائی کس میں؟
یارانِ نبی ﷺ سے رکھ تولا، باللہ!
ہر یک ہے کمالِ دیں میں یکتا، باللہ!
وہ دوست نبی ﷺکے، اور تم ان کے دشمن
لا حول ولا قوۃ الا باللہ!
(یہ پانچوں رباعیاں سید الاخبار دہلی ، جلد 8 ، شمارہ28، 16 نومبر1850ء میں شائع ہوئی تھیں)
منظور تھی یہ شکل، تجلّی کو، نور کی
قسمت کھلی، ترے قد و رخ سے، ظہور کی
اِک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ، تیرے شہیدوں پہ ،حور کی
واعظ! نہ تم پیو ،نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی
لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل، کہ کیوں اٹھا؟
گویا ،ابھی سنی نہیں آواز صور کی
آمد بہار کی ہے، جو بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے، زبانی طیور کی
گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے اِن بتوں کو بھی، نسبت ہے د ور کی
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب؟
آؤ نہ ،ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات، اُس نے شکایت ضرور کی
غالبؔ، گر اِس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ" وو آئے"
ہوں کشمکشِ نزع میں، ہاں جذبِ محبّت
کچھ کہہ نہ سکوں، پر وہ مرے پوچھنے کو آئے
ہے زلزلہ و صرصر و سیلاب کا عالم٭
آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں، گو آئے
ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین
ہاں، منہ سے مگر بادۂ دو شینہ کی بو آئے
جلاّد سے ڈرتے ہیں، نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے ،جس بھیس میں جو آئے
ہاں اہلِ طلب، کون سنے طعنۂ نا یافت؟
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں ،اپنے ہی کو کھو آئے
اپنا نہیں وہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں
اس در پہ نہیں بار، تو کعبے ہی کو ہو آئے
کی ہم نفسوں نے اثرِ گریہ میں، تقریر
اچّھے رہے آپ اس سے، مگر مجھ کو ڈبو آئے
اس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے، غالبؔ!
ہم بھی گئے واں ،اور تری تقدیر کو رو آئے
٭یہ مصرعہ ؎ "صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم" تھا مگرانتخابِ غالبؔ مکتوبہ1866ءمیں غالبؔ نے یہ مصرعہ بدل دیا تھا
1852 ء
قصیدہ
ہاں ، مہِ نو ،سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو، جھک کے ،کر رہا ہے سلام
دو دن آیا ہے تو نظر دمِ صبح
یہی انداز اور یہی اندام
بارے دو دن کہاں رہا غائب؟
بندہ عاجز ہے، گردشِ ایّام
اڑ کے جاتا کہاں ؟کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام
مرحبا !اے سرورِ خاصِ خواص
حبّذا! اے نشاطِ عامِ عوام
عذر میں، تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام
اس کو بھولا نہ چاہیئے کہنا
صبح جو جائےاور آئےشام
ایک میں کیا؟ سب نے جان لیا
تیرا آغاز اور ترا انجام
رازِ دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے؟
مجھ کو سمجھا ہے کیا کہیں نمّام؟
جانتا ہوں کہ آج دنیا میں
ایک ہی ہے امید گاہِ انام
میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش
غالبؔ اس کا، مگر نہیں ہے، غلام؟
جانتا ہوں کہ جانتا ہے تُو
تب کہا ہے بہ طرزِ استفہام
مہرِ تاباں کو ہو تو ہو، اے ماہ!
قربِ ہر روزہ بر سبیلِ دوام ق
تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا؟
جز بہ تقریبِ عیدِ ماہِ صیام
جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماہِ تمام
ماہ بن، ماہتاب بن، میں کون؟
مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام
میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام
ہے مجھے آرزوئے بخششِ خاص
گر تجھے ہے امیدِ رحمتِ عام
جو کہ بخشے گا تجھ کو فرِّ فروغ
کیا نہ دے گا مجھے مئے گلفام؟
جبکہ چودہ منازلِ فلکی
کر چکےقطع ،تیری ،تیزئ گام
تیرے پرتو سے ہوں فروغ پذیر
کوئےو مشکوئےو صحن و منظر و بام
دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز
اپنی صورت کا، اک بلوریں جام
پھر غزل کی روِش پہ چل نکلا
توسنِ طبع چاہتا تھا لگام
زہرِ غم کر چکا تھا میرا کام
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام
مے ہی پھر کیوں نہ میں پیےجاؤں؟
غم سے جب ہو گئی ہو، زیست ،حرام
بوسہ کیسا؟ یہی غنیمت ہے
کہ نہ سمجھیں وہ لذّتِ دشنام
کعبے میں جا ،بجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دَیر میں احرام
اس قدح کا، ہے، دَور مجھ کو نقد
چرخ نے لی ہے ،جس سے گردشِ ایّام
بوسہ دینے میں ان کو ہے انکار
دل کے لینے میں جن کو تھا ابرام
چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے
کیوں رکھوں ،ورنہ، غالبؔ اپنا نام؟
کہ چکا میں تو سب کچھ، اب تُو کہہ
اے پری چہرہ پیکِ تیز خرام!
کون ہے جس کے در پہ ناصیہ سا
ہیں مہ و مہر و زہرہ و بہرام
تُو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نامِ شاہنشہِ بلند مقام
قبلۂ چشم و دل، بہادر شاہ
مظہرِ ذوالجلال والاکرام
شہسوارِ طریقۂ انصاف
نوبہارِ حدیقۂ اسلام
جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز
جس کا ہر قول ،معنیِ الہام
بزم میں، میزبان ِقیصر و جم
رزم میں، اوستادِ رستم و سام
اے ترا لطف، زندگی افزا!
اے ترا عہد، فرخی فرجام
چشمِ بد دور! خسروانہ شکُوہ
لوحش اللہ! عارفانہ کلام
جاں نثاروں میں تیرے، قیصرِ روم
جُرعہ خواروں میں تیرے ،مرشدِ جام
وارثِ ملک جانتے ہیں تجھے
ایرج و تور و خسرو و بہرام
زورِ بازو میں مانتے ہیں تجھے
گیو و گودرز و بیزن و رَہّام
مرحبا مو شگافئ ناوک!
آفریں آب دارئ صمصام !
تیر کو تیرے، تیرِ غیر ہدف
تیغ کو تیری، تیغِ خصم نیام ۔ق۔
رعد کا ،کر رہی ہے کیا ،دم بند!
برق کو دے رہا ہے کیا الزام
تیرے فیلِ گراں جسد کی صدا
تیرے رخشِ سبک عناں کا خرام ۔ق۔
فنِ صورت گری میں ، تیرا گُرز
گر نہ رکھتا ہو دست گاہِ تمام
اس کے مضروب کے سر و تن سے
کیوں نمایاں ہو صورتِ ادغام؟
جب ازل میں رقم پذیر ہوئے
صفحہ ہائےلیالی و ایّام
اور ان اوراق میں بہ کلکِ قضا
مجملاّ مندرج ہوئے احکام
لکھ دیا شاہدوں کو "عاشق کُش"
لکھ دیا عاشقوں کو" دشمن کام"
آسماں کو کہا گیا کہ کہیں
"گنبدِ تیز گردِ نیلی فام"
حکمِ ناطق لکھا گیا کہ لکھیں
خال کو" دانہ" اور زلف کو" دام"
آتش و آب و باد و خاک نے لی
وضعِ سوز و نم و رم و آرام
مہرِ رخشاں کا نام "خسروِ روز"
ماہِ تاباں کا اسم "شحنۂ شام"
تیری توقیعِ سلطنت کو بھی
دی بدستور، صورتِ ارقام
کاتبِ حکم نے ،بموجبِ حکم
اس رقم کو دیا طرازِ دوام
ہے ازل سے روائی آغاز
ہو ابد تک رسائِی انجام
صبح دم ،دروازۂ خاور کھلا
مہرِ عالمتاب کا منظر کھلا
خسروِ انجم کے، آیا ،صرف میں
شب کو تھا گنجینۂ گوہر، کھلا
وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود
صبح کو ،رازِ مہ و اختر کھلا
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا ،یہ بازی گر ،کھلا
سطحِ گردوں پر پڑا تھا، رات کو
موتیوں کا، ہر طرف، زیور کھلا
صبح آیا ،جانبِ مشرق ،نظر
اک نگارِ آتشیں رُخ، سر کھلا
تھی نظر بندی، کِیا جب ردِّ سِحر
بادۂ گل رنگ کا ساغر کھلا
لا کے ،ساقی نے صبوحی کے لیے
رکھ دیا ہے ایک جامِ زر کھلا
بزمِ سلطانی ہوئی آراستہ
کعبۂ امن و اماں کا در کھلا
تاجِ زرّیں ،مہرِ تاباں سے سوا
خسروِ آفاق کے منہ پر کھلا
شاہِ روشن دل، بہادر شہ، کو ہے
رازِ ہستی اُس پہ سر تا سر کھلا
وہ کہ جس کی صورتِ تکوین میں
مقصدِ نُہ چرخ و ہفت اختر کھلا
وہ کہ جس کے ناخنِ تاویل سے
عقدۂ احکامِ پیغمبر کھلا
پہلے دارا کا ،نکل آیا ہے، نام
اُن کے سَرہنگوں کا جب دفتر کھلا
روُ شناسوں کی جہاں فہرست ہے
واں لکھا ہے ،چہرۂ قیصر کھلا ۔ق۔
توُسنِ شہ میں ہے وہ خوبی کہ جب
تھان سے وہ غیرتِ صرصر کھلا
نقشِ پا کی صورتیں وہ دل فریب
توُ کہے ،بت خانۂ آزر کھلا
مجھ پہ، فیضِ تربیت سے شاہ کے
منصبِ مہر و مہ و محور کھلا
لاکھ عُقدے دل میں تھے ، لیکن ہر ایک
میری حدِّ وُسع سے باہر کھلا
تھا، دلِ وابستہ، قُفلِ بے کلید
کس نے کھولا؟کب کھلا؟ کیوں کر کھلا؟
باغِ معنی کی، دکھاؤں گا بہار
مجھ سے ،گر، شاہِ سخن گستر کھلا
ہو جہاں گرمِ غزل خوانی نَ،فَس
لوگ جانیں طبلۂ عنبر کھلا
غزل
کُنج میں بیٹھا رہوں، یوں پَر کھلا
کاش کے! ہوتا قفس کا در کھلا
ہم پکاریں، اور کھلے، یوں کون جائے
یار کا دروازہ پاویں ،گر، کھلا
ہم کو ہے اس راز داری پر گھمنڈ
دوست کا ،ہے راز ،دشمن پر، کھلا
واقعی، دل پر بھلا لگتا تھا داغ
زخم ،لیکن، داغ سے بہتر کھلا
ہاتھ سے رکھ دی، کب ابرو نے، کماں!
کب کمر سے ،غمزے کی ،خنجر کھلا
مُفت کا ،کس کو بُرا ہے، بدرقَہ
رہروی میں، پردۂ رہبر کھلا
سوزِ دل کا کیا کرے بارانِ اشک؟
آگ بھڑکی، مینہ اگر دم بھر کھلا
نامے کے ساتھ آ گیا پیغامِ مرگ
رہ گیا، خط میری چھاتی پر، کھلا
دیکھیو، غالبؔ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
پھر، ہوا مدحت طرازی کا خیال
پھر، مہ و خورشید کا دفتر کھلا
خامے سے پائی، طبیعت نے، مدد
بادباں بھی، اٹھتے ہی لنگر، کھلا
مدح سے، ممدوح کی دیکھی شکُوہ
یاں، عَرَض سے رُتبۂ جوہر کھلا
مہر کانپا، چرخ چکّر کھا گیا
بادشہ کا رائتِ لشکر کھلا
بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب
اب، عُلوِّ پایۂ مِنبر کھلا
سِکۂ شہ کا، ہوا ہے رو شناس
اب ،عِیارِ آبروئےزر کھلا
شاہ کے آگے دھرا ہے آئنہ
اب ،مآلِ سعیِ اِسکَندر کھلا
ملک کے وارث کو دیکھا ،خَلق نے
اب ،فریبِ طغرل و سنجر کھلا
ہو سکے کیا مدح؟ ہاں، اک نام ہے
دفترِ مدحِ جہاں داور کھلا
فکر اچھّی ،پر ستائش نا تمام
عجزِ اعجازِ ستائش گر کھلا
جانتا ہوں، ہے خطِ لوحِ ازل
تم پہ ،اے خاقانِ نام آور، کھلا
تم کرو صاحب قِرانی، جب تلک
ہے طلسمِ روز و شب کا در کھلا
سہرا
خوش ہو، اَے بخت ،کہ ہے آج تِرے سر سہرا
باندھ، شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی اِس چاند سے مُکھڑے پہ بھلا لگتا ہے
ہے تِرے حُسنِ دل افروز کا زیور سہرا
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے ،پر اے طرفِ کُلاہ!
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر، سہرا
ناؤ بھر کر ہی، پروئے گئے ہوں گے موتی
ورنہ ،کیوں لائےہیں کشتی میں لگا کر سہرا
سات دریا کے فراہم کیے ہوں گے موتی
تب بنا ہوگا اِس انداز کا گز بھر سِہرا
رُخ پہ دُولھا کے جو ،گرمی سے، پسینا ٹپکا
ہے رگِ ابرِ گُہر بار سَراسَر ،سِہرا
یہ بھی اِک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے
رہ گیا ،آن کے دامن کے برابر ،سِہرا
جی میں اِترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اِک چیز
چاہیے ،پھُولوں کا بھی ایک، مقرّر ،سہرا
جب کہ اپنے میں سماویں نہ ، خوشی کے مارے
گوندھے پھُولوں کا بھلا پھر کوئی کیونکر، سِہرا؟
رُخ روشن کی دَمک ، گوہرِ غلطاں کی چمک
کیوں نہ دکھلائے وےفرُوغِ مہ و اختر سہرا ؟
تار ریشم کا نہیں ، ہے یہ رَگِ ابرِ بہار
لائےگا تابِ گراں بارئ گوہر، سِہرا ؟
ہم سُخن فہم ہیں ، غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں ، اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا (مرزا جواں بخت کی شادی کی تاریخیں یکم و دوم ماہِ اپریل1852 بتائی جاتی ہیں)
قطعہ
منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے
سَو پُشت سے ، ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری، ذریعۂ عزت نہیں مجھے
آزادہ رَو ہوں، اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں؟
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
اُستادِ شہ سے ہو ،مجھے پَرخاش کا خیال؟
یہ تاب ، یہ مجال ، یہ طاقت نہیں مجھے
جامِ جہاں نُما ہے شہنشاہ کا ضمیر
سَوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے
میں کون ، اور ریختہ ؟ ہاں اِس سے مدعا
جُز انبساطِ خاطرِ حضرت نہیں مجھے
سِہرا لکھا گیا ز رہِ امتثالِ اَمر
دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے
مقطع میں آ پڑی ہےسُخن گُسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے
رُوئے سُخن کسی کی طرف ہو، تو رُو سیاہ
سودا نہیں ، جُنوں نہیں ، وحشت نہیں مجھے
قسمت بُری سہی ، پَہ طبیعت بُری نہیں
ہے شُکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے
صادق ہوں اپنے قول میں، غالبؔ ، خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھُوٹ کی عادت نہیں مجھے (یہ قطعہ دہلی اردو اخبارجلد 14 نمبر 13مورخہ 28 مارچ1852 ء میں شائع ہوا تھا)
سہرا
چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا!
چاند کا دائرہ لے، زہرہ نے گایا سہرا
جسے کہتے ہیں خوشی،ا س نے بلائیں لے کر
کبھی چوما، کبھی آنکھوں سے لگایا سہرا
رشک سے لڑتی ہیں آپس میں اُلجھ کر لڑیاں
باندھنے کوجو ترے سر پہ ،اُٹھایا سہرا
صاف آتی ہیں نظرآبِ گہر کی لہریں
جنبشِ بادِ سحر نےجو ہلایا سہرا
بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو، یا رب، یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا
شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
اِس تکلّف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا
گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب؟
آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا
گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے ،میری گور کے اندر کھلا
منہ نہ کھلنے پر ،ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا
در پہ رہنے کو کہا، اور کہہ کے کیسا پھر گیا!
جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کیوں اندھیری ہے شبِ غم؟ ہے بلاؤں کا نزول
آج اُدھر ہی کو رہے گا ،دیدۂ اختر کھلا
کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا
اس کی امّت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند؟
واسطے جس شہ کے، غالبؔ! گنبدِ بے در کھلا
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں مَحبّت، تو گزرتا ہے گماں اور
یا رب، وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ابرو سے ہے کیا، اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرّر، مگر اس کی ہے کماں اور
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم؟ جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے ،جا کر، دل و جاں اور
ہر چند سُبُک دست ہوئےبت شکنی میں
ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
ہے خوںِ جگر جوش میں، دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خونبانہ فشاں اور
مرتا ہوں اس آواز پہ ،ہر چند سر اڑ جائے
جلاّد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ "ہاں اور"
لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور
لیتا، نہ اگر دل تمھیں دیتا، کوئی دم چین
کرتا،جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور
پاتے نہیں جب راہ، تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مری طبع، تو ہوتی ہے رواں اور
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھّے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائے گا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ "جاؤں؟"
مانا کہ ہمیشہ نہیں، اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو "قیامت کو ملیں گے"
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں، اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے، مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے؟
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ، گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ "کیوں جیتے ہیں غالبؔ"
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور (مرزا زین العابدین خان عارف اپریل 1852 میں فوت ہوئے تھے، یہ غزل انہی کامرثیہ ہے)
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں
کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ، اہلِ بزم؟
ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں؟
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں
تھیں بنات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں؟
قید میں یعقوب نے لی گو، نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش، پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں
جُوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں
نیند اُس کی ہے، دماغ اُس کا ہے، راتیں اُس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھُل گیا
بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں
وہ نگاہیں کیوں ہُوئی جاتی ہیں یا رب دل کے پار؟
جو مری کوتاہئ قسمت سے مژگاں ہو گئیں
بس کہ روکا میں نے اور سینے میں اُبھریں پَے بہ پَے
میری آہیں بخیۂ چاکِ گریباں ہو گئیں
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب؟
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا، رگِ جاں ہو گئیں
ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسُوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
رنج سے خُوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ ،تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں (یہ غزل دہلی اردو اخبارجلد 14 نمبر 32مورخہ 28 اگست1852 میں چھپی تھی)
حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے
قد و گیسو میں ، قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں ، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
کریں گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں، آخر
ہنوز اُس خستہ کے نیروئےتن کی آزمائش ہے
نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی!
اُسے یوسف کی بُوئے پیرہن کی آزمائش ہے
وہ آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ ”غافل تھے“
شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمائش ہے
رہے دل ہی میں تیر ، اچھا ، جگر کے پار ہو ، بہتر
غرض شِستِ بُتِ ناوک فگن کی آزمائش ہے
نہیں کچھ سُجّہ و زُنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
پڑا رہ ، اے دلِ وابستہ ! بیتابی سے کیا حاصل؟
مگر پھر تابِ زُلفِ پُر شکن کی آزمائش ہے
رگ و پَے میں جب اُترے زہرِ غم ، تب دیکھیے کیا ہو
ابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمائش ہے
وہ آویں گے مِرے گھر ، وعدہ کیسا ، دیکھنا ، غالبؔ!
نئے فتنوں میں اب چرخِ کُہن کی آزمائش* ہے
غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام، بہت ہے
کہتے ہوئے ساقی سے، حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے دُردِ تہِ جام بہت ہے
نَے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی
پاداشِ عمل کی طَمعِ خام بہت ہے
ہیں اہلِ خرد کس روشِ خاص پہ نازاں؟
پابستگئِ رسم و رہِ عام بہت ہے
زمزم ہی پہ چھوڑو، مجھے کیا طوفِ حرم سے؟
آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے
ہے قہر، گر اب بھی نہ بنے بات ،کہ ان کو
انکار نہیں، اور مجھے اِبرام بہت ہے
خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں، کہ ابھی کام بہت ہے
ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے؟
شاعر تو وہ اچھا ہے، پہ بدنام بہت ہے
نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بُلاتا تو ہوں اُس کو ، مگر اے جذبۂ دل
اُس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بھول نہ جائے
کاش ! یُوں بھی ہو کہ بِن میرے ستائے نہ بنے
غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ ، اگر
کوئی پُوچھے کہ "یہ کیا ہے" تو چھُپائے نہ بنے
اِس نزاکت کا بُرا ہو ، وہ بھلے ہیں ، تو کیا؟
ہاتھ آویں ، تو اُنھیں ہاتھ لگائے نہ بنے
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے؟
پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے
موت کی راہ نہ دیکھوں ؟ کہ بِن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں ؟ کہ نہ آؤ ، تو بُلائے نہ بنے
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالبؔ!
کہ لگائے نہ لگے ، اور بُجھائے نہ بنے
رباعیات
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
تا شاہ شیوعِ دانش و داد کرے
یہ جو دی گئی ہے رشتۂ عمر میں، گانٹھ
ہے صِفر کہ افزائشِ اعداد کرے
اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں ، بلکہ سِوا !
اِتنے ہی برس شُمار ہوں ، بلکہ سِوا !
ہر سیکڑے کو ایک گرہ فرض کریں
ایسی گرہیں ہزار ہوں ، بلکہ سِوا!
اے شاہِ جہانگیر جہاں بخشِ جہاں دار
ہے غیب سے ہر دم تجھے صد گُونہ بشارت
جو عُقدۂ دُشوار کہ کوشش سے نہ وا ہوا
تو وَا کرے اُس عُقدے کو ، سو بھی بہ اشارت
ممکن ہے ، کرے خضر سکندر سے ترا ذ کر؟
گر لب کو نہ دے ، چشمۂ حیواں سے طہارت
آصف کو سُلیماں کی وزارت سے شرف تھا
ہے فخرِ سُلیماں ، جو کرے تیری وزارت
ہے نقشِ مُریدی ترا ، فرمانِ الٰہی
ہے داغِ غُلامی تِرا ، توقیعِ امارت
تُو آب سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں
تو آگ سے گر دفع کرے تابِ شرارت
ڈھُونڈے نہ مِلے، موجۂ دریا میں، روانی
باقی نہ رہے آتشِ سوزاں میں، حرارت
ہے گر چہ مجھے نُکتہ سرائی میں توغُل
ہے ،گر چہ، مجھے سحر طرازی میں مہارت
کیوں کر نہ کروں مدح کو میں ختم دُعا پر؟
قاصر ہے، ستائش میں تِری ، میری عبارت
نَو روز ہے آج، اور وہ دن ہے کہ ہوئے ہیں
نظارگئ صنعتِ حق، اہلِ بصارت
تجھ کو شرفِ مہرِ جہاں تاب مُبارک
غالبؔ کو، ترے عتبۂ عالی کی زیارت "یہ قطعہ نوروز کی مبارک باد پر مشتمل ہے،ا ور نو روز ، آفتاب کے برجِ حمل میں داخلےپر منایا جاتا ہے۔ مرزا صاحب ، سرور کو لکھتے ہیں:"تحویل ِ آفتاب بہ حمل کے باب میں موٹی بات یہ ہے کہ22 مارچ کو واقع ہوتی ہے۔ کبھی 21 اور کبھی 23 بھی آ پڑتی ہے۔اس سے تجاوز نہیں"( عود: 32 ) دہلی اردو اخبارجلد 15 نمبر13مورخہ جمادی الآخرہ1269 ھ مطابق 27 مارچ 1863 ء میں حضور والا کی نیاز معمولی دسترخوان کا ذکر ہے، جو یکشنبہ9 جمادی الآخرہ کو نوروز کے دن منائی گئی تھی۔ یہ واقعہ میرزاسلیمان شکوہ بہادر کے پوتےمیرزا نور الدین شاہیؔ تخلص کی آمدِ دہلی کے بعد کا ہے۔ جن کی صحبت نےبہادر شاہ کو متہم بہ تشیع کیا تھا۔اس لیے میری دانست میں یہ قطعہ مارچ 1853 ء کا لکھا ہوا ہے "(مولانا عرشی، نسخہ عرشی، اشاعت دوم، صفحہ 140 )
مخمس
گھستے گھستے ،پاؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی
مر گئے پر ،قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی
سب ہی پڑھتا، کاش! کیوں تکبیر آدھی رہ گئی
کھنچ کے، قاتل، جب تری شمشیر آدھی رہ گئی
غم سے، جانِ عاشقِ دل گیر، آدھی رہ گئی
بیٹھ رہتا ،لے کے چشمِ پُر نم ، اس کے روبروُ
کیوں کہا تو نے کہ" کہہ دل کا غم اس کے روبرو"
بات کرنے میں نکلتا ہے دم ،اس کے روبرو
کہہ سکے ساری حقیقت ہم نہ اس کے روبرو٭
ہم نشیں، آدھی ہوئی تقریر، آدھی رہ گئی
تو نے دیکھا؟ مجھ پہ کیسی بن گئی، اے راز دار
خواب و بیداری پہ ،کب ہے ،آدمی کو اختیار
مثلِ زخم آنکھوں کو سی دیتا، جو ہوتا ہوشیار
کھینچتا تھا ،رات کو میں خواب میں ،تصویرِ یار
جاگ اٹھا میں ،کھینچنی تصویر آدھی رہ گئی
غم نے جب گھیرا، تو چاہا ہم نے یوں، اے دل نواز
مستیِ چشمِ سیہ سے ،چل کے، ہوویں چارہ ساز
توُ صدائے پاسے جاگا، تھاجو محوِ خوابِ ناز
دیکھتے ہی، اے ستم گر، تیری چشمِ نیم باز
کی تھی پوری ہم نے جو تدبیر، آدھی رہ گئی
اس بتِ مغرور کو کیا ہو کسی پر التفات؟
جس کے حسنِ روز افزوں کی یہ اک ادنیٰ ہے بات
ماہِ نو نکلے پہ، گزری ہوں گی راتیں پان سات
اس رُخِ روشن کے آگے ماہِ یک ہفتہ کی رات
تابشِ خورشیدِ پُر تنویر آدھی رہ گئی
تا مجھے پہنچائےکاہش، بختِ بد ہے گھات میں
ہاں ، فراوانی اگر کچھ ہے، تو ہے آفات میں
جُز غمِ داغ و الم، گھاٹا ہے ہر اک بات میں
کم نصیبی اس کو کہتے ہیں کہ میرے ہات میں
آتے ہی، خاصیّتِ اکسیر آدھی رہ گئی
سب سے، یہ گوشہ کنارے ہے، گلے لگ جا مرے
آدمی کو کیا پکارے ہے؟ گلے لگ جا مرے
سر سے گر چادر اتارے ہے، گلے لگ جا مرے
مانگ کیا بیٹھا سنوارے ہے؟گلے لگ جا مرے
وصل کی شب، اے بتِ بے پیر ، آدھی رہ گئی
میں یہ کیا جانوں کہ وہ کس واسطے ہوں پھِر گئے
پھر نصیب اپنا، انھیں جاتے سناجوں ،پھر گئے
دیکھنا قسمت، وہ آئے ، اور پھر یوں پھِر گئے
آ کے آدھی دور، میرے گھر سے وہ کیوں پھِر گئے
کیا کشش میں دل کی اب تاثیر آدھی رہ گئی؟
ناگہاں یاد آ گئی ہے مجھ کو، یا رب! کب کی بات؟
کچھ نہیں کہتا کسی سے، سن رہا ہوں سب کی بات
کس لیےتجھ سے چھپاؤں، ہاں! وہ پرسوں شب کی بات
نامہ بر جلدی میں تیری وہ جو تھی مطلب کی بات
خط میں آدھی ہو سکی، تحریر آدھی رہ گئی
ہو تجلّی برق کی صورت میں، ہے یہ بھی غضب
پانچ چھہ گھنٹے تو ہوتی ،فرصتِ عیش و طرب
شام سے آتے ، تو کیا اچھی گزرتی رات سب
پاس میرے وہ جو آئےبھی، تو بعد از نصف شب
نکلی آدھی حسرت تِقریر، آدھی رہ گئی
تم جو فرماتے ہو، دیکھ اے غالبؔ آشفتہ سر
ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے؟ گیا کیوں اُس کے گھر؟
جان کی پاؤں اماں!باتیں یہ سب سچ ہیں ، مگر
دل نے کی ساری خرابی، لے گیا مجھ کو، ظفرؔ
واں کے جانے میں، مری توقیر آدھی رہ گئی (تتمہ دہلی اردو اخبار۔ 17 اپریل1853 ء۔ یہ شاہ ظفر کی غزل پر غالبؔ کی تضمین ہے) ٭عرشی صاحب نے جب دیکھاکہ دیوانِ ظفر اور دہلیی اردو اخبار میں "ہم نہ"لکھا ہے اور قوافی نم، غم، دم وغیرہ ہیں تو انہوں نے اسے "نہ ہم "کر دیا۔عرشی صاحب کی یہ ترمیم درست نہیں۔ ترمیم سے "نہ" فع کے وزن پر آ گیا ہےجو جائز نہیں۔ معلوم ہوتا ہے یہاں ظفرؔ نے "کب" کہا ہوگا۔ یعنی "کب ہم اس کے روبرو"
غزلیات
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار ،کوئی ہمیں ستائے کیوں؟
دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں؟
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز ، پردے میں منہ چھپائے کیوں؟
دشنۂ غمزہ جاں ستاں، ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں؟
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
حسن اور اس پہ حسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے ، غیر کو آزمائے کیوں؟
واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں؟ بزم میں وہ بلائے کیوں؟
ہاں ،وہ نہیں خدا پرست، جاؤ، وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں؟
غالبؔ خستہ کے بغیر ،کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟ ٭ دہلی اردو اخبار، جلد 15نمبر 7مورخہ 13 فروری1853 ء
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو ،تو کیوں کر ہو؟
کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو؟
ہمارے ذہن میں، اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو؟
ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے؟
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو؟
تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا!
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو؟
الجھتے ہو تم ،اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو، تو کیوں کر ہو؟
جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو، تو کیوں کر ہو؟
ہمیں پھر ان سے امید، اور انہیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو ،تو کیوں کر ہو؟
غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلّی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو، تو کیوں کر ہو؟
بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر ،کہ مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فِرو، تو کیوں کر ہو؟
مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بہ قولِ حضور:
"فراقِ یار میں تسکین ہو، تو کیوں کر ہو" ٭دہلی اردو اخبار،مطابق 6 مارچ1853 ء
قفس میں ہوں ،گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
مرا ہونا برا کیا ہے، نوا سنجانِ گلشن کو؟
نہیں گر ہمدمی آساں، نہ ہو، یہ رشک کیا کم ہے
نہ دی ہوتی خدا یا آرزوئےدوست، دشمن کو
نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر
کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگانِ سوزن کو
خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں
کبھی میرے گریباں کو ،کبھی جاناں کے دامن کو
ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
نہیں دیکھا شناور، جوئےخوں میں ،تیرے توسن کو
ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر بننے کا
کیا بیتاب کاں میں جنبشِ جوہر نے آہن کو
خوشی کیا، کھیت پر میرے، اگر سو بار ابر آوے !
سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو
وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مَرے بت خانے میں، تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
شہادت تھی مری قسمت میں، جو دی تھی یہ خو مجھ کو
جہاں تلوار کو دیکھا، جھکا دیتا تھا گردن کو
نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا ؟
رہا کھٹکا نہ چوری کا ،دعا دیتا ہوں رہزن کو
سخن کیا کہہ نہیں سکتے ،کہ جویا ہوں جواہر کے؟
جگر کیا ہم نہیں رکھتے، کہ کھودیں جا کے معدن کو
مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالبؔ
فریدون و جم و کیخسرو ،و داراب و بہمن کو ٭ دہلی اردو اخبار، 8 مئی 1853 ء
دیا ہے دل اگر اُس کو ، بشر ہے ، کیا کہیے؟
ہوا رقیب ، تو ہو ، نامہ بر ہے ، کیا کہیے؟
یہ ضد کہ آج نہ آوے ، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کِس قدر ہے ، کیا کہیے؟
رہے ہے یوں گِہ و بے گہِ ، کہ کُوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے ، کیا کہیے؟
زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے؟
سمجھ کے کرتے ہیں ، بازار میں وہ پُرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ " سرِ رہگزر ہے ، کیا کہیے؟"
تمہیں نہیں ہے سرِ رشتۂ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے ، مگر ہے کیا؟ کہیے؟
اُنہیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے ، کیوں لڑیئے؟
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے ، کیا کہیے؟
حَسد ، سزائے کمالِ سخن ہے ، کیا کیجے؟
سِتم ، بہائے متاعِ ہُنر ہے ، کیا کہیے؟
کہا ہے کِس نے کہ غالبؔ بُرا نہیں ؟لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ، کیا کہیے؟ ٭ یہ غزل قلعے کے مشاعرےمنعقدہ 3 جمادی الثانی1269 ھ، مطابق10 اپریل 1853 ءکیلئے کہی گئی تھی(خط بنام حقیرؔ بحوالہ غالب کے خطوط صفحہ 1145) ۔ اور دہلی اردو اخبار(تتمہ)جلد 15نمبر 17میں 24 اپریل1853 ء کو شائع ہوئی تھی
کہوں جو حال تو کہتے ہو :"مدعا کہیے "
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو ،تو کیا کہیے؟
نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ "ہم ستمگر ہیں "
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو "بجا" کہیے
وہ نیشتر سہی، پر دل میں جب اتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے؟
نہیں ذریعۂ راحت، جراحتِ پیکاں
وہ زخمِ تیغ ہے، جس کو کہ دلکشا کہیے
جو مدعی بنے، اس کے نہ مدعی بنیے
جو نا سزا کہے، اس کو نہ نا سزا کہیے
کہیں حقیقتِ جانکاہیِ مرض لکھیے
کہیں مصیبتِ نا سازئِ دوا کہیے
کبھی شکایتِ رنجِ گراں نشیں کیجے
کبھی حکایتِ صبرِ گریز پا کہیے
رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجے
کٹے زبان، تو خنجر کو مرحبا کہیے
نہیں نگار کو الفت، نہ ہو، نگار تو ہے
روانئِ روش و مستیِ ادا کہیے
نہیں بہار کو فرصت، نہ ہو بہار تو ہے
طرواتِ چمن و خوبئِ ہوا کہیے
سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا، غالبؔ
خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہیے ٭ خط بنام حقیر ، اپریل 1853، نادراتِ غالبؔ صفحہ 35
بازیچۂ اطفال ہے دنیا ،مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز، تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے، اورنگِ سلیماں ،مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا ،مرے آگے
جز نام ،نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں، ہستئِ اشیا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا ،مرے ہوتے
گھِستا ہے جبیں خاک پہ، دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میر ا تیرے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں، نہ کیو ں ہوں؟
بیٹھا ہے بتِ آئنہ سیما مرے آگے
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانئِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرا
کیونکر کہوں:" لو نام نہ ان کا مرے آگے"
ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلامرے آگے
خوش ہوتے ہیں ،پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزمِ خوں، کاش! یہی ہو
آتا ہے ابھی، دیکھیے کیا کیا مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں ،کہو اچھا ،مرے آگے
٭ یہ غزل بھی "بشر ہے، کیا کہیے"والی غزل کے ساتھ کہی گئی تھی، 10 اپریل 1853 ء کو یا اس سے ایک دو روز پہلے۔ مگر دہلی اردو اخبار (تتمہ) میں22 مئی 1853 ء کو شائع ہوئی تھی
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گر د ن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دمبدم نکلے؟
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں، لیکن
بہت بے آبرو ہو کر، ترے کوچے سے ہم نکلے
بھر م کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
*مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اِس دور میں منسوب مجھ سے، بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ ،جو جہاں میں جامِ جم نکلے
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
٭ تتمہ دہلی اردو اخبار ۔ 19 جون 1853 ء
خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم ٭٭ کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے (یہ شعر نسخہ رضا میں موجود نہیں ، لیکن چونکہ متداول دیوان میں شامل ہے اس لیے یہاں ذکر کر دیا ) چھوٹا غالبؔ
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے
خستگی کا تم سے کیا شکوہ ؟کہ یہ
ہتھکنڈے ہیں، چرخِ نیلی فام کے
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم
دھوئے دھبّے جامۂ احرام کے
دل کو آنکھوں نے پھنسایا ،کیا مگر
یہ بھی، حلقے ہیں تمہارے دام کے
شاہ کی ہے غسلِ صحّت کی خبر
دیکھیے، کب دن پھریں حمّام کے ٭
عشق نے، غالبؔ، نکمّا کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے ٭ دہلی اردو اخبار ، 4 دسمبر 1853 ءمیں درج ہے کہ بادشاہ نے"21 صفر1270 ھ کو غسلِ صحت فرمایا"۔ یہ مطابق ہے23 نومبر 1853 ء کے
سلام
سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو
نہ بادشاہ ،نہ سلطاں ،یہ کیا ستائش ہے؟
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو
خدا کی راہ میں ہے شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو
خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟
فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی
کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو
کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو
مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو
وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل، سبیل
شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو
عدو کی سمعِ رضا میں جگہ نہ پائےوہ بات
کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو
بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند
بقدرِ فہم ہے گر کیمیا کہیں اُس کو
نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک
کہ لوگ جوہرِ تیغِ قضا کہیں اُس کو
ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو
ہمارا منہ ہے کہ دَیں اس کے حسنِ صبر کی داد؟
مگر نبیﷺ و علی مرحبا کہیں اُس کو
زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں
پس از حسینِ علی پیشوا کہیں اُس کو
وہ ریگِ تفتہ وادی پہ گام فرسا ہے
کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو
امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد
پیادہ لے چلیں اور نا سزا کہیں اُس کو
یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں
علی سے آگے لڑے اور خطا کہیں اُس کو
یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
بُرا نہ مانئے ،گر ہم بُرا کہیں اُس کو
علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟
نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟
بھرا ہے غالبؔ دِل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو
1853/54
درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو؟
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں؟
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب ،کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما
کام گر رک گیا، روا نہ ہوا
رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، دلستاں روانہ ہوا
کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں:
"آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا"
1854 ء
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا
کم نہیں نازشِ ہم نامئ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے، وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
نام کا میرے ہے، جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے، جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا
ہر بُنِ مو سے ،دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا ٭ خط بنام نبی بخش حقیرؔ (بعد از 18 جون 1854 ء) نادراتِ غالبؔ ، صفحہ 56
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا؟
کہتے ہیں:" ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا؟"
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا؟
لاگ ، ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
جب نہ ہو کچھ بھی، تو دھوکا کھائیں کیا؟
ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ؟
یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا؟
موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟
عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مر گئے پر، دیکھیے، دکھلائیں کیا
پوچھتے ہیں وہ کہ" غالبؔ کون ہے؟"
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ ٭ مکتوبِ غالبؔ بنام منشی نبی بخش حقیرؔمورخہ 3 اکتوبر1854 میں اس غزل کا دوسرا شعردرج ہوا ہے
کسی کو دے کے دل ،کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو؟
نہ ہو جب دل ہی سینے میں، تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ،ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں؟
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ" ہم سے سر گراں کیوں ہو؟"
کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو !
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو؟
وفا کیسی؟ کہاں کا عشق؟ جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر، اے سنگ دل! تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو؟
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر، ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی ،وہ میرا آشیاں کیوں ہو؟
یہ کہہ سکتے ہو: "ہم دل میں نہیں ہیں" پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو، تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو ؟
غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ ،دیکھو ، جرم کس کا ہے؟
نہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو؟
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے؟
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
یہی ہے آزمانا، تو ستانا کس کو کہتے ہیں؟
عدو کے ہو لیے جب تم ،تو میرا امتحاں کیوں ہو؟
کہا تم نے کہ "کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی؟"
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ" ہاں کیوں ہو؟"
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو، غالبؔ ؟
ترے بے مہر کہنے سے ،وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو؟ ٭ خط بنام نبی بخش حقیرؔمورخہ بعد از 18 جون 1854 ء
قطعہ
خُجستہ انجمن طُوئےمیرزا جعفر
کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ
ہوئی ہے ایسے ہی فرخندہ سال میں غالبؔ
نہ کیوں ہو مادۂ سالِ عیسوی " محظوظ"٭ ٭1854 ء
قطعہ
ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
ہوا بزمِ طرب میں رقصِ ناہید
کہا غالبؔ سے: " تاریخ اس کی کیا ہے؟ "
تو بولا : " اِنشراحِ جشنِ جمشید"٭ ٭1270 ہجری
قطعہ
افطارِ صوم کی کچھ، اگر، دستگاہ ہو
اُس شخص کو ضرور ہے ، روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے ، تو ناچار کیا کرے
رباعی
سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں ؟
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں ؟
روزہ مِرا اِیمان ہے غالبؔ ! لیکن
خَسخانہ و برفاب کہاں سے لاؤں ؟
٭ خط بنام منشی نبی بخش حقیرؔمورخہ 4 جون 1854 ء۔ خط سے ظاہر ہے کہ یہ قطعہ اور رباعی 3 جون یا اس سے ایک دو روز پہلےکہے ہونگے
مطلع
ملے ، دو مرشدوں کو قدرتِ حق سے، ہیں دو طالب
نظام الدین کو خسرو، سراج الدین کو غالبؔ
٭ قیاس ہےکہ یہ شعر وفاتِ ذوق کے بعداور مئی 1857 ء کے ہنگامےسے پہلے کسی وقت کہا گیا ہوگا۔ ذوق 15 نومبر1854 ء کو فوت ہوئے
1855 ء
قطعہ
اَے شَہنشاہِ آسماں اَورنگ
اَے جہاندارِ آفتاب آثار
تھا میں اِک بے نَوَائےگوشہ نشیں
تھا میں اِک درد مندِ سینہ فگار
تُم نے مجھ کو جو آبرُو بخشی
ہوئی میری وہ گرمئ بازار
کہ ہوا مجھ سا ذرۂ ناچیز
رُوشناسِ ثوابت و سیّار
گر چہ ،از رُوئے ننگ و بے ہُنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار
کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آئےخاک کو عار
شاد ہوں لیکن اپنے جی میں، کہ ہوں
بادشہ کا غلامِ کار گزار
خانہ زاد اور مُرید اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ گزار
بارے نوکر بھی ہو گیا ، صد شُکر!
نسبتیں ،ہو گئیں مُشخّص چار
نہ کہُوں آپ سے، تو کس سے کہوں؟
مُدعائے ضروری الاظہار
پِیر و مُرشد ! اگرچہ مجھ کو نہیں
ذوقِ آرائشِ سر و دستار
کچھ تو جاڑے میں چاہیے، آخر
تا نہ دے، بادِ زَمہریر، آزار
کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش ؟
جسم رکھتا ہوں ، ہے اگرچہ نَزار
کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے، اب کی بار
رات کو آگ اور دن کو دھُوپ!
بھاڑ میں جائیں ایسے لَیل و نہار !
آگ تاپے کہاں تلک اِنسان !
دھُوپ کھاوے کہاں تلک جاندار
دھُوپ کی تابِش ، آگ کی گرمی !
وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّار !
میری تنخواہ جو مقرر ہے
اُس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار
رسم ہے مُردے کی چھ ماہی ایک
خلق کا ہے اِسی چلن پہ مدار
مجھ کو دیکھو تو ، ہُوں بہ قیدِ حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار !
بس کہ لیتا ہوں، ہر مہینے قرض
اور رہتی ہے سُود کی تکرار
میری تنخواہ میں تہائی کا
ہو گیا ہے شریک ساہُو کار
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعرِ نغز گوئےخوش گُفتار
رزم کی داستان گر سنیے
ہے زباں میری تیغِ جوہر دار
بزم کا التزام گر کیجے
ہے قلم میری ابرِ گوہر بار
ظُلم ہے گر نہ دو سُخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار
آپ کا بندہ ، اور پھِروں ننگا ؟
آپ کا نوکر ، اور کھاؤں اُدھار ؟
میری تنخواہ کیجے ماہ بہ ماہ
تا ، نہ ہو مجھ کو زندگی دُشوار
ختم کرتا ہُوں اب دُعا پہ کلام
شاعری سے نہیں مجھے سروکار
تُم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
قطعہ
نُصرت الملک بہادُر مجھے بتلا کہ مجھے
تجھ سے جو اتنی اِرادت ہے، تو کس بات سے ہے؟
گرچہ تُو وہ ہے کہ ہنگامہ اگر گرم کرے
رونقِ بزم مہ و مہر تری ذات سے ہے
اور میں وہ ہوں کہ ، گر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا ، خود مجھے نفرت میری اوقات سے ہے
خستگی کا ہو بھلا ، جس کے سبب سے سرِ دست
نسبت اِک گونہ مرے دل کو ترے ہات سے ہے
ہاتھ میں تیرے رہے توسنِ دَولت کی عِناں
یہ دُعا شام و سحر قاضئ حاجات سے ہے
تُو سکندر ہے، مِرا فخر ہے ملنا تیرا
گو شرف خضر کی بھی مجھ کو ملاقات سے ہے
اِس پہ گُزرے نہ گماں رِیو و رِیا کا زِنہار
غالبؔ خاک نشیں اہلِ خرابات سے ہے
قطعہ
ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صَفَر چلو
رکھ دیں چمن میں ،بھر کے مئے مُشک بُو کی ناند
جو آئے ، جام بھر کے پیے ، اور ہو کے مست
سبزے کو رَوندتا پھرے ، پھُولوں کو جائے پھاند
غالبؔ ،یہ کیا بیاں ہے ، بجُز مدحِ بادشاہ
بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشتِ خواند
بَٹتے ہیں سونے رُوپے کے چھلے حُضُور میں
ہے، جن کے آگے سیم و زر و مہر و ماہ ،ماند
یوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کیے ہوئے
لاکھوں ہی آفتاب ہیں، اور بے شمار چاند
قطعہ
سہل تھا مُسہل ولے یہ سخت مُشکل آپڑی
مجھ پہ کیا گُزرے گی ، اتنے روز حاضر بِن ہوئے
تین دن مسہل سے پہلے ، تین دن مسہل کے بعد
تین مُسہل ، تین تَبریدیں ، یہ سب کَے دِن ہوئے؟
قطعہ
سیہ گلیم ہوں، لازم ہے، میرا نام نہ لے
جہاں میں، جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے
ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے
کہ جو شریک ہو میرا ، شریکِ غالبؔ ہے
قطعہ
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
درباردار لوگ بہم آشنا نہیں
کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں، کرتے ہوئے سلام
اس سےہےیہ مُراد کہ ہم آشنا نہیں
مثنوی
در صفتِ انبہ
ہاں، دلِ درد مندِ زمزمہ ساز
کیوں نہ کھولے درِ خزینۂ راز؟
خامے کا صفحے پر رواں ہونا
شاخِ گل کا ہے گلفشاں ہونا
مجھ سے کیا پوچھتا ہے، کیا لکھیے؟
نکتہ ہائے خرد فزا لکھیے
بارے، آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
خامہ ،نخلِ رطب فشاں ہو جائے
آم کا کون مردِ میدان ہے ؟
ثمر و شاخ ،گوئے و چوگاں ہے
تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں؟
آئے، یہ گوئے اور یہ میداں
آم کے آگے پیش جاوے خاک
پھوڑتا ہے ،جلے پھپھولے تاک
نہ چلا جب کسی طرح مقدور
بادۂ ناب بن گیا، انگور
یہ بھی، ناچار ،جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے
مجھ سے پوچھو، تمہیں خبر کیا ہے؟
آم کے آگے نیشکر کیا ہے؟
نہ گل اس میں، نہ شاخ و برگ، نہ بار
جب خزاں آئے، تب ہو اس کی بہار
اور دوڑائیے قیاس کہاں؟
جانِ شیریں میں یہ مٹھاس کہاں؟
جان میں ہوتی ،گر یہ شیرینی
کوہکن، باوجودِ غمگینی
جان دینے میں اس کو یکتا جان
پَر وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان
نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دوا خانۂ ازل میں، مگر
آتشِ گل پہ قند کا ہے قوام
شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام
یا یہ ہوگا، کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغِ جنت سے
انگبیں کے، بہ حکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں، سر بمہر گلاس
یا لگا کر خضر نے شاخِ نبات
مدتوں تک دیا ہے آبِ حیات
تب ہوا ہے ثمر فشاں، یہ نخل
ہم کہاں، ورنہ، اور کہاں یہ نخل
تھا ترنجِ زر ایک خسرو پاس
رنگ کا زرد ،پر کہاں بو باس
آم کو دیکھتا اگر اک بار
پھینک دیتا طلائے دست افشار
رونقِ کارگاہِ برگ و نوا
نازشِ دودمانِ آب و ہوا
رہروِ راہِ خلد کا توشہ
طوبیٰ و سِدرہ کا جگر گوشہ
صاحبِ شاخ و برگ و بار ہے آم
ناز پروردۂ بہار ہے آم
خاص وہ آم ،جو نہ ارزاں ہو
نو برِ نخلِ باغِ سلطاں ہو
وہ کہ ہے والئِ ولایتِ عہد
عدل سے اس کے، ہے حمایتِ عہد
فخرِ دیں ،عزِ شان ،و جاہِ جلال
زینتِ طینت و جمالِ کمال
کار فرمائے دین و دولت و بخت
چہرہ آرائے تاج و مسند و تخت
سایہ اُس کا ہما کا سایہ ہے
خلق پر، وہ خدا کا سایہ ہے
اے مفیضِ وجودِ سایہ و نور
جب تلک ہے نمودِ سایہ و نور
اِس خداوندِ بندہ پرور کو
وارثِ گنج و تخت و افسر کو
شاد و دلشاد و شادماں رکھیو
اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شبِ فراق سے، روزِ جزا زیاد نہیں
کوئی کہے کہ شبِ مَہ میں کیا بُرائی ہے؟
بلا سے، آج اگر دن کو ابر و باد نہیں
جو آؤں سامنے اُن کے تو "مرحبا" نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو" خیر باد" نہیں
کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں، تو کہتے ہیں
کہ "آج بزم میں کچھ فتنۂ و فساد نہیں"
علاوہ عید کے ،ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کُوچۂ مے خانہ نامراد نہیں
جہاں میں ہو غم و شادی بہم، ہمیں کیا کام ؟
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں
تم اُن کے وعدے کا ذکر اُن سے کیوں کرو، غالبؔ
یہ کیا،کہ تم کہو، اور وہ کہیں کہ "یاد نہیں"
آئی اگر بلا،تو جگہ سے ٹلے نہیں
ایراہی دے کےہم نے بچایا ہے کشت کو٭
کعبے میں جا رہا، تو نہ دو طعنہ، کیا کہیں
بھولا ہوں حقِّ صحبتِ اہلِ کُنِشت کو
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو ،کوئی لے کر بہشت کو
ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسمِ ثواب سے؟
ٹیڑھا لگا ہے قط ،قلمِ سرنوشت کو
غالبؔ ،کچھ اپنی سعی سے لہنانہیں مجھے
خرمن جلے، اگر نہ مَلخ کھائے کشت کو ٭ یہ شعر یادگارِ غالبؔ میں درج ہے
پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے، مہر و مہ ،تماشائی
دیکھو، اے ساکنانِ خطّۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی
کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا، روئےآب پر کائی
سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے
چشمِ نرگس کو دی ہے بینائی
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے ،باد پیمائی
کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی، غالبؔ
شاہِ دیندارنے شفا پائی
روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی
اترائے کیوں نہ ،خاک سرِ رہگزار کی
جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ
لوگوں میں کیوںنمود نہ ہو لالہ زار کی
بھُوکے نہیں ہیں، سیرِ گلستاں کے ہم، ولے
کیوں کر نہ کھائیے ؟کہ ہوا ہے بہار کی
رباعیات
اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
بھیجے ہیں جو اَرمُغاں شہِ والا نے
گِن کر دیویں گے ہم دُعائیں سَو بار
فیروزے کی تسبیح کے ، ہیں یہ دانے
٭کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
عُشّاق کی پُرسش سے اُسے عار نہیں
جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہوگا
کیونکر مانوں کہ اُس میں تلوار نہیں
٭ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے
کرتے ہیں دِرنگ ، کام کرنے والے
کہتے ہیں :"کہیں خدا سے" اللہ اللہ
وُہ آپ ہیں صُبح و شام کرنے والے
"قادر" اور" اللہ "اور "یزداں"، خدا
ہے "نبی، مُرسل، پیمبر"، رہنما
پیشوائے دیں کو کہتے ہیں" امام"
وہ رسول اللہﷺ کا قائم مقام
ہے "صحابی" دوست، خالص" ناب" ہے
جمع اس کی یاد رکھ "اصحاب" ہے
بندگی کا ہاں" عبادت "نام ہے
نیک بختی کا" سعادت" نام ہے
کھولنا "افطار "ہے اور روزہ" صوم"
"لیل "یعنی رات، دن اور روز،" یوم"
ہے "صلوٰۃ" اے مہرباں اسمِ نماز
جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز
جا نماز اور پھر "مصلّا "ہے وہی
اور "سجّادہ" بھی گویا ہے وہی
"اسم" وہ ہے جس کو تم کہتے ہو نام
"کعبہ، مکّہ" وہ جو ہے" بیت الحرام"
گرد پھرنے کو کہیں گے ہم" طواف"
بیٹھ رہنا گوشے میں ہے" اعتکاف"
پھر "فلک، چرخ "اور" گردوں" اور" سہپر"
آسماں کے نام ہیں اے رشکِ مہر
مہر "سورج، چاند کو کہتے ہیں" ماہ""
ہے محبت" مہر"، لازم ہے نباہ
"غرب "پچھّم اور پورب "شرق "ہے
ابر" بدلی اور بجلی" برق" ہے"
آگ کا "آتش" اور "آذر" نام ہے
اور انگارے کا" اخگر" نام ہے٭
تیغ "کی ہندی اگر تلوار ہے"
فارسی پگڑی کی بھی" دستار" ہے
نیولا "راسُو" ہے اور" طاؤس" مور
"کبک" کو ہندی میں کہتے ہیں چکور
"خُم" ہے مٹکا اور ٹھلیا ہے "سبو"
"آب" پانی، "بحر" دریا، نہر" جُو"
"چاہ "کو ہندی میں کہتے ہیں کنواں
"دُود" کو ہندی میں کہتے ہیں دھواں
دودھ جو پینے کا ہے وہ" شیر" ہے
"طفل" لڑکا اور بوڑھا "پیر "ہے
"سینہ" چھاتی، "دست" ہاتھ اور "پائے" پاؤں
شاخ" ٹہنی، "برگ" پتا،" سایہ" چھاؤں"
"ماہ" چاند، "اختر"ہیں تارے، رات" شب"
دانت" دنداں"، ہونٹ کو کہتے ہیں" لب"
"استخواں" ہڈّی ہے اور ہے" پوست" کھال
سگ" ہے کتّا اور گیدڑ ہے "شغال""
تِل کو" کنجد" اور" رُخ "کو گال کہہ
گال پر جو تل ہو اس کو" خال" کہہ
کیکڑا "سرطان ہے"، کچھوا "سنگ پشت"
"ساق "پنڈلی، فارسی مٹھی کی" مشت"
ہے "شکم "پیٹ، اور بغل "آغوش "ہے
کہنی "آرنج "اور کندھا "دوش" ہے
ہندی میں "عقرب" کا بچھّو نام ہے
فارسی میں بھوں کا "ابرو" نام ہے
ہے وہی "کژدُم "جسے "عقرب "کہیں
"نیش" ہے وہ ڈنگ جس کو سب کہیں
ہے لڑائی،" حرب "اور" جنگ" ایک چیز
کعب"، ٹخنہ اور "شتالنگ" ایک چیز"
ناک" بینی"، "پرّہ "نتھنا، "گوش" کان
کان کی لو" نرمہ" ہے، اے مہربان
"چشم "ہے آنکھ اور "مژگاں" ہے پَلک
آنکھ کی پتلی کو کہیے "مردمک"
منہ پر گر جُھری پڑے "آژنگ" جان
فارسی چھینکے کی تو "آونگ" جان
مسا، "آژخ "اور چھالہ، "آبلہ"
اور ہے دائی،جنائی،" قابلہ"
اونٹ "اُشتر" اور" اُشغر "سیّہ ہے
گوشت ہے" لحم "اورچربی "پیّہ "ہے
ہے "زنخ "ٹھوڑی، گلا ہے "خنجرہ"
سانپ ہے" مار" اور جھینگر" زنجرہ"
ہے" زنخ" ٹھوڑی، "ذقن" بھی ہے وہی
"خاد" ہے چیل اور "زغن" بھی ہے وہی
پھر "غلیواز" اس کو کہیے جو ہے چیل
چیونٹی ہے "مور" اور ہاتھی ہے "پیل"
لومڑی" روباہ" اور" آہو" ہرن
"شمس "سورج اور" شعاع" اسکی کرن
"اسپ "جب ہندی میں گھوڑا نام پائے
"تازیانہ "کیوں نہ کوڑا نام پائے
گربہ" بلّی،" موش" چوہا، "دام" جال"
"رشتہ" تاگا،" جامہ" کپڑا، قحط "کال"
"خر" گدھا اور اس کو کہتے ہیں "اُلاغ"
"دیگداں" چولہا جسے کہیے" اُجاغ"
ہندی چڑیا، فارسی "کنجشک" ہے
مینگنی جس کو کہیں وہ "پشک" ہے
"تابہ" ہے بھائی توے کی فارسی
اور " تیہو "ہے لوے کی فارسی
نام مکڑی کا" کلاش" اور "عنکبوت"
کہتے ہیں مچھلی کو" ماہی" اور "حوت"
"پشّہ" مچھّر، اور مکھّی ہے "مگس"
"آشیانہ "گھونسلا، پنجرہ "قفس"
بھیڑیا "گرگ" اور بکری "گوسپند"
"میش" کا ہے نام بھیڑ اے خود پسند
نام "گُل" کا پھول، "شبنم" اوس ہے
جس کو نقّارہ کہیں وہ "کُوس" ہے
خار کانٹا، داغ دھبّا، نغمہ راگ
سیم چاندی، مس ہے تانبا، بخت بھاگ
"سقف" چھت ہے،" سنگ" پتھّر، اینٹ "خشت"
جو بُرا ہے اس کو ہم کہتے ہیں "زشت"
"زر" ہے سونا اور "زرگر" ہے سنار
موز "کیلا اور ککڑی ہے" خیار""
"ریش" داڑھی، مونچھ "سلبت" اور" بُروت"
احمق اور نادان کو کہتے ہیں" اُوت"
زندگانی ہے "حیات" اور" مرگ "موت
شوے" خاوند اور ہے "انباغ" سَوت"
جملہ سب، اور نصف آدھا، ربع پاؤ
"صرصر" آندھی، "سیل "نالا، "باد" باؤ
ہے "جراحت" اور "زخم" اور گھاؤ" ریش"
بھینس کو کہتے ہیں بھائی "گاؤمیش"
"ہفت" سات اور "ہشت" آٹھ اور" بست" بیس
"سی" اگر کہیے تو ہندی اس کی تیس
ہے" چہل" چالیس اور "پنجہ" پچاس
"ناامیدی" یاس، اور "اُمّید" آس
"دوش" کل کی رات اور "امروز" آج
"آرد" آٹا اور "غلّہ" ہے اناج
چاہیے ہے ماں کو "مادر "جاننا
اور بھائی کو "برادر "جاننا
پھاوڑا "بیل" اور درانتی" واس" ہے
فارسی "کاہ" اور ہندی گھاس ہے
سبز ہو جب تک اسے کہیے" گیاہ"
خشک ہو جاتی ہے جب، کہتے ہیں" کاہ"
"چکسہ" پڑیا، "کیسہ" کا تھیلی ہے نام
فارسی میں دھپّے کا "سیلی "ہے نام
"اخلگندو "جھجھنا، "نیرو "ہے زور
"بادفر"، پِھرکی اور ہے "دُزد" چور
"انگبیں" شہد اور "عسل"، یہ اے عزیز
نام کو ہیں تین، پر ہے ایک چیز
"آجُل" اور "آروغ" کی ہندی ڈکار
"مے" شراب اور پینے والا "میگسار"
روئی کو کہتے ہیں "پنبہ" سن رکھو
آم کو کہتے ہیں "انبہ" سن رکھو
"خانہ" گھر ہے اور کوٹھا" بام" ہے
قلعہ" دژ"، کھائی کا "خندق" نام ہے
گر "دریچہ" فارسی کھڑکی کی ہے
"سرزنش" بھی فارسی جھڑکی کی ہے
ہے بنولا،"پنبہ دانہ" لاکلام
اور تربُز، "ہندوانہ"، لاکلام
ہے کہانی کی" فسانہ" فارسی
اور شعلہ کی "زبانہ" فارسی
"نعل در آتش" اسی کا نام ہے
جو کہ بے چین اور بے آرام ہے
"پست" اور ستّو کو کہتے ہیں "سویق"
"ژرف" اور گہرے کو کہتے ہیں" عمیق"
"تار"، تانا، "پود" بانا، یاد رکھ
"آزمودن"، آزمانا یاد رکھ
"یوسہ"، مچھّی، چاہنا ہے "خواستن"
کم ہے" اندک" اور گھٹنا "کاستن"
خوش رہو، ہنسنے کو" خندیدن" کہو
گر ڈرو، ڈرنے کو "ترسیدن" کہو
ہے "ہراسیدن" بھی ڈرنا، کیوں ڈرو؟
اور "جنگیدن" ہے لڑنا، کیوں لڑو؟
ہے گزرنے کی "گزشتن" فارسی
اور پھرنے کی ہے "گشتن "فارسی
وہ "سرودن "ہے جسے گانا کہیں
ہے وہ "آوردن" جسے لانا کہیں
"زیستن" کو جانِ من جینا کہو
اور "نوشیدن" کو تم پینا کہو
دوڑنے کی فارسی ہے" تاختن"
کھیلنے کی فارسی ہے" باختن"
"دوختن "سینا،" دریدن "پھاڑنا
"کاشتن "بونا ہے، "رُفتن" جھاڑنا
"کاشتن" بونا ہے اور "کشتن "بھی ہے
کاتنے کی فارسی "رِشتن" بھی ہے
ہے ٹپکنے کی" چکیدن" فارسی
اور سننے کی "شنیدن" فارسی
کودنا "جستن"، "بریدن" کاٹنا
اور "لیسیدن" کی ہندی چاٹنا
"سوختن" جلنا، چمکنا "تافتن"
ڈھونڈنا "جستن" ہے، پانا "یافتن"
دیکھنا "دیدن"، "رمیدن" بھاگنا
جان لو، "بیدار بودن"، جاگنا
"آمدن" آنا، بنانا "ساختن"
ڈالنے کی فارسی" انداختن"
باندھنا "بستن"، "کشادن" کھولنا
"داشتن" رکھنا ہے، "سُختن" تولنا
تولنے کو اور جو "سنجیدن" کہو
پھر خفا ہونے کو "رنجیدن" کہو
فارسی سونے کی "خفتن" جانیے
منہ سے کچھ کہنے کو "گفتن" جانیے
کھینچنے کی ہے "کشیدن" فارسی
اور اُگنے کی" دمیدن" فارسی
اونگھنا پوچھو، "غنودن" جان لو
مانجھنا چاہو، "زدودن" جان لو
ہے قلم کا فارسی میں" خامہ" نام
ہے غزل کا فارسی میں" چامہ" نام
کس کو کہتے ہیں غزل؟ ارشاد ہو
ہاں غزل پڑھیے، سبق گر یاد ہو غزل
صبح سے دیکھیں گے رستہ یار کا
جمعہ کے دن وعدہ ہے دیدار کا
وہ چُراوے باغ میں میوہ، جسے
پھاند جانا یاد ہو دیوار کا
پُل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ
ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا
شہر میں چھڑیوں کے میلے کی ہےبھیڑ
آج عالم اور ہے بازار کا
لال ڈِگی پر کرے گا جا کے کیا؟
پُل پہ چل، ہے آج دن اتوار کا
گر نہ ڈر جاؤ تو دکھلائیں تمھیں
کاٹ اپنی کاٹھ کی تلوار کا
واہ بے !لڑکے ، پڑھی اچھّی غزل
شوق، ابھی سے ہے تجھے، اشعار کا
لو سنو کل کا سبق، آ جاؤ تم
"پوزی" افسار اور دمچی "پاردم"
چھلنی کو "غربال، پرویزن" کہو
چھید کو تم "رخنہ" اور" روزن" کہو
"چہ "کے معنی کیا، "چگویم" کیا کہوں
"من شَوَم خاموش"، میں چُپ ہو رہوں
"بازخواہم رفت"، میں پھر جاؤں گا
"نان خواہم خورد"، روٹی کھاؤں گا
فارسی کیوں کی" چرا "ہے یاد رکھ
اور گھنٹالا "درا "ہے یاد رکھ
"دشت ، صحرا "اور جنگل ایک ہے
پھر "سہ شنبہ" اور منگل ایک ہے
جس کو "ناداں "کہیے وہ انجان ہے
فارسی بینگن کی" بادنجان "ہے
جس کو کہتے ہیں جمائی" فازہ "ہے
جو ہے انگڑائی، وہی "خمیازہ "ہے
"بارہ "کہتے ہیں کڑے کو، ہم سے پوچھ
پاڑ ہے "تالار"، اک عالم سے پوچھ
جس طرح گہنے کی" زیور "فارسی
اسی طرح ہنسلی کی" پرگر" فارسی
بھِڑ کی بھائی، فارسی "زنبور" ہے
دسپنا" اُنبر" ہے اور "انبور "ہے
فارسی "آئینہ"، ہندی آرسی
اور ہے کنگھے کی" شانہ" فارسی
ہینگ" انگوزہ" ہے اور "ارزیر" رانگ
"ساز" باجا اور ہے آواز" بانگ"
"زوجہ" جورو،" یزنہ "بہنوئی کو جان
"خشم" غصےاور بدخوئی کو جان
لوہے کو کہتے ہیں "آہن" اور "حدید"
جو نئی ہے چیز اسے کہیے "جدید"
ہے "نوا "آواز، ساماں اور اُول
"نرخ"، قیمت اور" بہا"،یہ سب ہیں مول
"سیر" لہسن، "تُرب" مولی، "ترہ" ساگ
کھا "بخور"، "برخیز" اُٹھ، "بگریز "بھاگ
روئی کی پونی کا ہے" پاغُند" نام
"دُوک" تکلے کو کہیں گے، لاکلام
"گیتی" اور "گیہاں" ہے دنیا یاد رکھ
اور ہے "ندّاف"، دُھنیا یاد رکھ
"کوہ "کو ہندی میں کہتے ہیں پہاڑ
فارسی "گلخن" ہے اور ہندی ہے بھاڑ
تکیہ" بالش" اور بچھونا بسترا
اصل "بستر" ہے سمجھ لو تم ذرا
بسترا بولیں سپاہی اور فقیر
ورنہ "بستر "کہتے ہیں برنا و پیر
"پیر "بوڑھا اور" برنا "ہے جواں
جان کو البتہ کہتے ہیں" رواں"
اینٹ کے گارے کا نام "آژند" ہے
ہے نصیحت بھی وہی جو "پند" ہے
پند کو" اندرز" بھی کہتے ہیں ،ہاں
"ارض" ہے، پر،"مرز" بھی کہتے ہیں ہاں
کیا ہے" ارض" اور" مرز" تم سمجھے؟ زمیں
"عنق" گردن اور پیشانی "جبیں"
"آس" چکّی، "آسیا "مشہور ہے
اور "فَوفل "چھالیا مشہور ہے
بانسلی "نے "اور" جلاجل" جانجھ ہے
پھر "ستَروَن" اور "عقیمہ" بانجھ ہے
"کُحل" سرمہ اور سلائی" مِیل" ہے
جس کو جھولی کہیے ، وہ " زنبیل" ہے
پایا قادر نامے نے آج اختتام
اک غزل اور پڑھ لو، والسّلام! غزل
شعر کے پڑھنے میں کچھ حاصل نہیں
مانتا لیکن ہمارا دل، نہیں
علم ہی سے قدر ہے انسان کی
ہے وہی انسان جو جاہل نہیں
کیا کہِیں کھائی ہے حافظ جی کی مار؟
آج ہنستے آپ جو کِھل کِھل نہیں
کس طرح پڑھتے ہو رک رک کر سبق؟
ایسے پڑھنے کا تو میں قائل نہیں
جس نے قادر نامہ سارا پڑھ لیا
اس کو آمد نامہ کچھ مشکل نہیں
٭مثنوی قدر نامہ ، غالبؔ کی زندگی میں پہلی بار1272 ھ (1856 ء) میں مطبع سلطانی دہلی سے۔ اوردوسری بار22 محرم 1280 ھ مطابق 9 جولائی 1863 ءکو محبس پریس دہلی سے چھپی
قطعہ
بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ،ہوتا ہے آب انساں کا
چوک جس کو کہیں، وہ مقتل ہے
گھر ،بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہرِ دہلی کا ذرّہ ذرّہ خاک
تشنۂ خوں ہے، ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی ،واں نہ جا سکے، یاں کا
میں نے مانا کہ مل گئے،پھر کیا؟
وہی رونا تن و دل و جاں کا
گاہ جل کر کیا کیےشکوہ
سوزشِ داغ ہائےپنہاں کا
گاہ رو کر کہا کیےباہم
ماجرا دیدہ ہائےگریاں کا
اس طرح کے وصال سے، یا رب!
کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا؟
بعد از 1857 ء
قطعہ
مسلمانوں کے میلوں کا ہوا قل
پجے ہے جوگ مایا اور دیبی
نشاں باقی نہیں ہےسلطنت کا
مگر، ہاں، نام کو اورنگ زیبی
غزل
آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ، کہا ہے تو سہی
یہ بھی، یا حضرتِ ایّوبؑ! گِلا ہے تو سہی
رنج، طاقت سے سوا ہو، تو نہ پیٹوں کیونکر
ذہن میں، خوبئِ تسلیم و رضا ،ہے تو سہی
ہے غنیمت کہ باُمّید گزر جائےگی عُمر
نہ ملے داد، مگر روزِ جزا ہے تو سہی
دوست گرکوئی نہیں ہے، جو کرے چارہ گری
نہ سہی، لیک تمنّائےدوا ہے تو سہی
غیر سے، دیکھیے، کیا خوب نباہی اُس نے
نہ سہی ہم سے، پر اُس بُت میں وفا ہے تو سہی
نقل کرتا ہوں اسے نامۂ اعمال میں ،مَیں
کچھ نہ کچھ روزِ ازل تم نے لکھا ہے تو سہی
کبھی آ جائےگی !کیوں کرتے ہو جلدی، غالبؔ؟
شہرۂ تیزئِ شمشیرِ قضا ہے تو سہی
قبل از 8 فروری1858 ء
سہرا
ہم نشیں تارے ہیں، اور چاند شہاب الدیں خاں
بزمِ شادی ہے فلک، کاہ کشاں ہے سہرا
ان کو لڑیاں نہ کہو، بحر کی موجیں سمجھو
ہے تو کشتی میں، ولے بحرِ رواں ہے سہرا
1858 ء
قصیدہ
ملاذِ کشور و لشکر، پناہِ شہر و سپاہ
جنابِ عالی ایلن برون والا جاہ
بلند رتبہ وہ حاکم وہ سرفراز امیر
کہ ،باج تاج سے لیتا ہے ،جس کا طرفِ کلاہ
وہ محض رحمت و رافت، کہ بہرِ اہلِ جہاں
نیابتِ دمِ عیسیٰ کرے ہے، جس کی نگاہ
وہ عین عدل کہ دہشت سے جس کی پرسش کی
بنے ہے، شعلۂ آتش، انیسِ پَرّۂ کاہ
زمیں سے سودۂ گوہر اٹھے، بجائےغبار
جہاں ہو توسنِ حشمت کا اس کے جولاں گاہ
وہ مہرباں ہو تو انجم کہیں " الٰہی شکر"
وہ خشمگیں ہو تو گردوں کہے " خدا کی پناہ" ۔ق۔
یہ اس کے عدل سے اضداد کو ہے آمیزش
کہ دشت و کوہ کے اطراف میں، بہر سرِ راہ
ہزبر، پنجے سے لیتا ہے کام شانے کا
کبھی جو ، ہوتی ہے الجھی ہوئی، دُمِ رو باہ
نہ آفتاب، ولے آفتاب کا ہم چشم
نہ بادشاہ، ولے مرتبے ہیں ہمسرِ شاہ
خدا نے اس کو دیا ایک خوبرو فرزند
ستارہ جیسے چمکتا ہوا بہ پہلوئےماہ
زہے ستارۂ روشن کہ جو اسے دیکھے
شعاعِ مہرِ درخشاں ہو، اس کا تارِ نگاہ
خدا سے ہے یہ توقع کہ عہدِ طفلی میں
بنے گا شرق سے تا غرب اس کا بازی گاہ
جوان ہوکے کرے گا یہ وہ جہانبانی
کہ تابع اس کے ہوں روز و شب سپید و سیاہ
کہے گی خلق اسے" داورِ سپہر شکُوہ"
لکھیں گے لوگ اسے "خسرو ستارہ سپاہ"
عطا کرے گا خداوندِ کارساز اسے
روانِ روشن و خوئےخوش و دلِ آگاہ
ملے گی اس کو وہ عقلِ نہفتہ داں کہ اسے
پڑے نہ ،قطعِ خصومت میں، احتیاجِ گواہ
یہ ترکتاز سے، برہم کرے گا کشورِ روس
یہ لے گا ،بادشہِ چیں سے چھین، تخت و کلاہ
سنینِ عیسوی اٹھارہ سو اور اٹھاون
یہ چاہتے ہیں جہاں آفریں سے، شام و پگاہ
یہ جتنے سیکڑے ہیں ،سب ہزار ہو جاویں
دراز اس کی ہو عمر اس قدر، سخن کوتاہ
امید وارِ عنایات "شیو نرائن"
کہ آپ کا ہے نمک خوار اور دولت خواہ
یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عزّ و جاہ کے ساتھ
تمہیں اور اس کو سلامت رکھے سدا، اللہ! ٭یہ قصیدہ مرزا صاحب نےمنشی شیو نرائن کی طرف سے مسٹر ایلن برون کے یہاں بیٹا پیدا ہونے کی مبارک بادپر لکھا تھا
1858 ء تا دسمبر 1865 ء
غزل
بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غُلامِ ساقئ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے؟
تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف ،تو ستم کیا ہے؟
نہ حشرونشر کا قائل نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے! ایسے کی پھر قسم کیا ہے؟
وہ داد و دید گرا نمایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے؟
کٹے تو شب کہیں، کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زُلفِ خم بخم کیا ہے؟
لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود
کسے خبر ہے کہ واں جنبشِ قلم کیا ہے؟
سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش افشانی
یقین ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے؟
قبل از 1860 ء
مرثیہ
ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک سے رواں ہو
اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰ پہ فغاں ہو
اے ماتمیانِ شہِ مظلوم کہاں ہو؟
بگڑی ہے بہت بات، بنائےنہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ لگائےنہیں بنتی
تابِ سخن و طاقتِ غوغا نہیں ہم کو
ماتم میں شہِ دیں کے ہیں، سودا نہیں ہم کو
گھر پھونکنے میں اپنے، مُحابا نہیں ہم کو
گر چرخ بھی جل جائےتو پروا نہیں ہم کو
یہ خرگہ نُہ پایہ جو مدّت سے بَپاہے
کیا خیمۂ شبّیر سے رتبے میں سِوا ہے؟
کچھ اور ہی عالم ہے دل و چشم و زباں کا
کچھ اور ہی نقشا، نظر آتا ہے، جہاں کا
کیسا فلک؟اور مہرِ جہاں تاب کہاں کا
ہوگا دلِ بےتاب کسی سوختہ جاں کا
اب صاعقہ و مہر میں کچھ فرق نہیں ہے
گِرتا نہیں اس روُ سے کہو برق نہیں ہے
قطعہ
جب کہ سید غلام بابا نے
مسندِ عیش پر جگہ پائی
ایسی رونق ہوئی برات کی رات
کہ کواکب ہوئے تماشائی
قطعہ
ہزار شکر کہ سید غلام بابا نے
فرازِ مسندِ عیش و طرب جگہ پائی
زمیں پہ ایسا تماشا ہوا برات کی رات
کہ آسماں پہ کواکب بنے تماشائی
٭ خط بنام سیاحؔ31 جولائی 1860 ء
1860/61 ء
قطعہ
اِس کتابِ طرب نصاب نے جب
آب و تاب انطباع کی پائی
فکرِ تاریخِ سال میں ، مجھ کو
ایک صورت نئی نظر آئی
ہندسے پہلے سات سات کے دو
دیے ناگاہ مجھ کو دکھلائی
اور پھر ہندسہ تھا بارہ کا
با ہزاراں ہزار زیبائی
سالِ ہجری تو ہو گیا معلوم
بے شمولِ عبارت آرائی
مگر اب ذوقِ بذلہ سنجی کو
ہے جداگانہ کار فرمائی
سات اور سات ہوتے ہیں چودہ
بہ اُمیدِ سعادت افزائی
غرض اِس سے ہیں چاردہ معصُوم
جس سے ہے چشمِ جاں کو زیبائی
اور بارہ امام ہیں بارہ
جس سے ایماں کو ہے توانائی
اُن کو غالبؔ یہ سال اچھا ہے
جو ائِمّہ کے ہیں تولاّئی
1862 ء
سلیم خاں کہ وہ ہےنور چشمِ واصل خاں
حکیم حاذق و دانا ہے،وہ لطیف کلام
تمام دہر میں اس کے مطب کا چرچا ہے
کسی کو یاد بھی لقمان کا نہیں ہے نام
اسے فضائلِ علم و ہنر کی افزائش
ہوئی ہے مبدعِ عالم سے، اس قدر انعام
کہ بحثِ علم میں،اطفال ابجدی اس کے
ہزار بار فلاطوں دے چکے الزام
عجیب نسخہ نادر، لکھا ہے ، ایک اس نے
کہ جس میں حکمت و طب ہی کے مسئلے ہیں تمام
نہیں کتاب، ہے اک منبعِ نکاتِ بدیع
نہیں کتاب،ہے اک معدنِ جواہر کام
کل ا س کتاب کے سالِ تمام میں، جو مجھے
کمالِ فکر میں دیکھا، خرد نے ، بے آرام
کہا یہ جلدکہ تو اس میں سوچتا کیا ہے؟
"لکھا ہے نسخہ تحفہ" یہی ہے سالِ تمام٭ ٭ 1279 ھ (1862 ء)
غزل
کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز؟
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز
دل سے نکلا، پہ نہ نکلا دل سے
ہے ترے تیر کا پیکان عزیز
تاب لائےہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
رباعیات
رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے؟
ثاقب! حرکت یہ کی ہے بے جا تم نے
حاجی کلّو کو دے کے بے وجہ جواب
غالبؔ کا پکا دیا ہے کلیجا تم نے
اے روشنئ دیدہ شہاب الدیں خاں
کٹتا ہے،بتاؤ ،س طرح سے رَمَضاں؟
ہوتی ہے تراویح سے فرصت کب تک؟
سُنتے ہو تراویح میں کتنا قرآں
قصیدہ
گئی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
ابھی حساب میں باقی ہیں سو ہزار گرہ
گرہ کی ہے یہی گنتی کہ تا بہ روزِ شمار
ہوا کرے گی ہر اک سال، آشکارگرہ
یقین جان! برس گانٹھ کا جو تاگاہے
یہ کہکشاں ہے کہ ہیں اس میں بے شمار گرہ
گرہ سے اَور گرہ کی امید کیوں نہ بڑھے؟
کہ ہر گرہ کی گرہ میں ہیں تین چار گرہ
دکھا کے رشتہ کسی جوتشی سے پوچھا تھا
کہ" دیکھو کتنی اٹھا لائےگا یہ تار گرہ؟"
کہا کہ" چرخ پہ ہم نے گنی ہیں نو گرہیں
جو یاں گنیں گے تو پاویں گے نو ہزار گرہ"
خود آسماں ہے مہا راجا راؤ پر صدقے
کرے گا سیکڑوں، اس تار پر نثار گرہ
وہ راؤ راجا بہادر کہ حکم سے جن کے
رواں ہو تار پہ فی الفور دانہ وار گرہ
انہیں کی سالگرہ کے لئے ہے سال بہ سال
کہ لائےغیب سے غنچوں کی نو بہار گرہ
انہیں کی سالگرہ کے لئے بناتا ہے
ہوا میں بوند کو ابرِ تگرگ بار گرہ
انہیں کی سالگرہ کی یہ شادمانی ہے
کہ ہو گئے ہیں گہر ہائےشاہوار گرہ
انہیں کی سالگرہ کے لئے ہے یہ توقیر
کہ بن گئے ہیں ثمر ہائےشاخسار گرہ
سن، اے ندیم، برس گانٹھ کے یہ تاگے نے
تجھے بتاؤں کہ کیوں کی ہے یہ اختیار گرہ؟
پئے دعائےبقائےجنابِ فیض مآب
لگے گی اس میں ثوابت کی استوار گرہ
ہزار دانہ کی تسبیح چاہتا ہے بنے
بلا مبالغہ درکار ہے ہزار گرہ
عطا کیا ہے خدا نے یہ جاذبہ اس کو
کہ چھوڑتا ہی نہیں رشتہ زینہار گرہ
کشادہ رخ نہ پھرے کیوں جب اس زمانے میں
بچے نہ از پے بندِ نقابِ یار گرہ
متاعِ عیش کا ہے قافلہ چلا آتا
کہ جادہ رشتہ ہے اور ہے شتر قطار گرہ
خدا نے دی ہے وہ غالبؔ کو، دستگاہِ سخن
کروڑں ڈھونڈ کے لاتا یہ خاکسار گرہ
کہاں مجالِ سخن؟ سانس لے نہیں سکتا
پڑی ہے دل میں مرے، غم کی پیچ دار گرہ
گرہ کا نام لیا پر نہ کر سکا کچھ بات
زباں تک آ کے، ہوئی اُور استوار گرہ
کھلے یہ گانٹھ، تو البتّہ دم نکل جاوے
بری طرح سے ہوئی ہے گلے کا ہار گرہ
اِدھر نہ ہوگی ،توجہ حضور کی جب تک
کبھی کسے سے کھلے گی نہ ،زینہار گرہ
دعا ہے یہ کہ مخالف کے دل میں، از رہِ بغض
پڑی ہے یہ جو بہت سخت نابکار گرہ
دل اس کا پھوڑ کے نکلے، بہ شکل پھوڑے کی
خدا کرے کہ کرے اس طرح اُبھار گرہ
1864 ء
مثنوی
اے جہاں آفریں خدائے کریم
صانع ہفت چرخ، ہفت اقلیم
نام میکلوڈ جن کا ہے مشہور
یہ ہمیشہ بصد نشاط و سرور
عمرو دولت سے شادمان رہیں
اور غالبؔ پہ مہربان رہیں ٭ یہ مثنوی مرزا غالبؔ کے مرتبہ اس بے نام اردو کتابچےکے دیباچے کے آخر میں ملتی ہے، جو شاید انہوں نےہندوستان میں مقیم انگریزوں کواردو سکھانے کیلئےاپنے منتخب رقعات اور اشعار پر مشتمل ترتیب دیا تھا
شعر
ان دلفریبیوں سےنہ کیوں اس پہ پیار آئے؟
روٹھا جو بے گناہ، تو بے عذر من گیا ٭ خط بنام بے خبرؔ مورخہ 7 مارچ 1864 ء
رباعی
اے منشئ خیرہ سر ،سخن ساز نہ ہو
عصفور ہے تو، مقابلِ باز نہ ہو
آواز تیری نکلے اور آواز کے ساتھ
لاٹھی وہ لگے کہ جس میں آواز نہ ہو ٭ لطائفِ غیبی مطبوعہ 1864، صفحہ 15
قصیدہ
مرحبا !سالِ فرّخی آئیں
عیدِ شوّال و ماہِ فروردیں
شب و روز افتخارِ لیل و نہار
مہ و سال اشرفِ شہور و سِنیں
گرچہ ہے بعد عید کے نوروز
لیک، بیش از سہ ہفتہ بعد نہیں
سُو اس اکّیس دن میں ہولی کی
مجلسیں، جا بجا ہوئیں رنگیں
شہر میں، کو بہ کو ،عبیر و گلال
باغ میں، سو بہ سو ،گل و نسریں
شہر ،گویا، نمونۂ گلزار
باغ، گویا، نگارخانۂ چیں
تین تیوہار اور ایسے خوب
جمع ہرگز ہوئے نہ ہوں گے کہیں
پھر ہوئی ہے اسی مہینے میں
منعقد ،محفلِ نشاط قریں
محفلِ غسلِ صحّتِ نوّاب
رونق افزائےمسندِ تمکیں
بزم گہ میں، امیرِ شاہ نشاں
رزم گہ میں، حریفِ شیرِ کمیں
پیش گاہِ حضور، شوکت و جاہ
خیر خواہِ جناب، دولت و دیں
جن کی مسند کا ،آسماں، گوشہ
جن کی خاتم کا ،آفتاب نگیں
جن کے دیوارِ قصر کے نیچے
آسماں ،ہے گدائے سایہ نشیں
دہر میں اس طرح کی بزمِ سرور
نہ ہوئی ہو ،کبھی بروئےزمیں
انجمِ چرخ، گوہر آگیں فرش
نور، مے، ماہ، ساغرِ سیمیں
راجا اِندَر کا جو اکھاڑا ہے
ہے وہ بالائے سطحِ چرخِ بریں
وہ نظرگاہِ اہلِ وہم و خیال
یہ ضیاء بخشِ چشمِ اہلِ یقیں
واں کہاں یہ عطاء و بذل و کرم؟
کہ جہاں گدیہ گر کا نام نہیں
ہاں زمیں پر نظر جہاں تک جائے
ژالہ آسا، بچھے ہیں درِّ ثمیں
نغمۂ مطربانِ زہرہ نوا
جلوۂ لولیانِ ماہ جبیں
اس اکھاڑے میں جو کہ ہے مظنون
یاں، وہ دیکھا بچشمِ صورت بیں -ق-
سرورِ مہر فر ہوا جو سوار
بہ کمالِ تجمل و تزئیں
سب نے جانا کہ ہے پری توسن
اور بالِ پری ہے دامنِ زیں
نقشِ سمِّ سمند سے، یکسر
بن گیا، دشت، دامنِ گلچیں
فوج کی گردِ راہ مشک فشاں
رہروؤں کے مشام، عطر آگیں
بس کہ بخشی ہے فوج کو عزّت
فوج کا ہر پیادہ ،ہے فرزیں
موکبِ خاص، یوں زمیں پر تھا
جس طرح ہے سپہر پر، پرویں -ق-
چھوڑدیتا تھا گور کو، بہرام
ران پر داغ تازہ دے کے، وہیں
اور داغ آپ کی غلامی کا
خاص بہرام کا ہے زیب سُریں
بندہ پرور ثنا طرازی سے
مدّعا ،عرضِ فنِّ شعر نہیں
آپ کی مدح اور میرا منہ
گر کہوں بھی ،توکس کو آئے یقیں
اور پھر اب، کہ ضعفِ پیری سے
ہو گیا ہوں نزار و زار و حزیں
پیری و نیستی، خدا کی پناہ!
دستِ خالی و خاطرِ غمگیں
صرف، اظہار ہے، ارادت کا
ہے قلم کی، جو سجدہ ریز ،جبیں
مدح گستر نہیں، دعاگو ہے
غالبِؔ عاجز نیاز آگیں
ہے دعا بھی یہی کہ دنیا میں
تم رہو زندہ جاوداں، آمیں
قبل از 1865 ء
شعر
خوشی جینے کی کیا،مرنے کا غم کیا
ہماری زندگی کیا، اور ہم کیا
1865 ء
قطعہ
مقامِ شکر ہے،اے ساکنانِ خطہ خاک
رہا ہے زور سے، ابر ستارہ بار، برس
کہاں ہے ساقی مہوش، کہاں ہے ابرِ مُطیر
"بیار" لا مئے گلنار گوں ،"ببار" برس
خدا نے تجھ کو عطا کی ہےگوہر افشانی
درِ حضور پر، اے ابر، بار بار برس
ہر ایک قطرے کے ساتھ آئےجو ملک، وہ کہے
"امیر کلب علی خاں جئیں ہزار برس"
فقط ہزار برس پر کچھ انحصار نہیں
کئی ہزار برس، بلکہ بے شمار برس
جنابِ قبلہ حاجات، اس بلا کش نے
بڑے عذاب سے کاٹے ہیں ، پانچ چار برس
شفا ہو آپ کو، غالبؔ کو بندِ غم سے نجات
خدا کرے کہ یہ ایسا ہو سازگار برس ٭یہ قطعہ ، خط بنام نواب کلب علی خاں ، مورخہ 11 اگست1865 ء کے ساتھ بھیجا گیا تھا
لطفِ نظّارۂ قاتِل، دمِ بسمل آئے
جان جائے،تو بلا سے، پہ کہیں دِل آئے
ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مری کیا گزری؟
دوست جو ساتھ مرے تا لبِ ساحل آئے
وہ نہیں ہم، کہ چلے جائیں حرم کو، اے شیخ
ساتھ حُجّاج کے اکثر کئی منزِل آئے
آئیں جس بزم میں وہ، لوگ پکار اٹھتے ہیں
لو، وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے
دیدہ خوں بار ہے مدّت سے، ولے آج، ندیم
دل کے ٹکڑے بھی کئی ،خون کے شامل آئے
سامنا حور و پری نے نہ کیا ہے، نہ کریں
عکس تیرا ہی، مگر، تیرے مقابِل آئے
موت بس ان کی ہے،جو مر کے وہیں دفن ہوئے
زیست ان کی ہے،جو اس کے کوچے سے گھائل آئے
بن گیا سبحہ وہ زنار، خدا خیر کرے!
وہ جو نازک ہے کمر،اس پہ بہت دل آئے
اب ہے دِلّی کی طرف کوچ ہمارا غالبؔ
آج ہم حضرتِ نوّاب سے بھی مِل آئے ٭"یہ غزل مرزا صاحب نےاپنے دوسرےسفرِ رام پورمیں 28 دسمبر 1865 ء کو یہاں سے رخصت ہونے سے پہلے کہی تھی۔اس زمانے میں کلب علی خاں بہادر رام پور کے نواب تھے۔" نسخہ عرشی طبع دوم، صفحہ433
میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی
غیر کی مرگ کا غم کس لیے، اے غیرتِ ماہ؟
ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہُوا، اور سہی
تم ہو بت، پھر تمھیں پندارِ خُدائی کیوں ہے؟
تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی
حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھی
آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی
تیرے کوچے کا ہے مائل، دلِ مضطر میرا
کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے، واعظ؟
خلد بھی باغ ہے، خیر آب و ہوا اور سہی
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں، یا رب؟
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
مجھ کو وہ دوکہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی
مجھ سے، غالبؔ، یہ علائی نے غزل لکھوائی
ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی ٭خط بنام نواب امین الدین احمد خاں، مورخہ26 جولائی1865 ء
1865 ء تا 1867 ء
قطعہ
خوشی ہےیہ آنے کی برسات کے
پئیں بادۂ ناب اور آم کھائیں
سر آغازِ موسم میں، اندھے ہیں ہم
کہ دِلّی کو چھوڑیں، لوہارو کو جائیں
سِوا ناج کے، جو ہے مقلوبِ جاں
نہ واں آم پائیں، نہ انگور پائیں
ہوا حکم باورچیوں کو کہ ہاں
ابھی جا کے پوچھو کہ" کل کیا پکائیں؟"
وہ کھٹّے، کہاں پائیں، اِملی کے پھول
وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں؟
فقط گوشت، سو بھیڑ کا ریشہ دار
کہو اس کو، کیا ، کھا کے ہم حِظ اُٹھائیں؟ ٭ یہ قطعہ نواب علائی کی بیاض سے لیا گیا ہے۔ بیاض کے اندراجات میں ترتیبِ تاریخی کا لحاظ نہیں ہے، چنانچہ ان سے پہلے27 جنوری 1867 ءکا اور ان کے بعد 5 اپریل 1865 ء کا اندراج ملتاہے۔ اس لیےانہیں تقریبااسی زمانے کا مان لیا ہے
غزلیات
در پر امیر کلب علی خاں کےہوں مقیم
شائستہ گدائی ہر در نہیں ہوں میں
بوڑھا ہوا ہوں ،قابلِ خدمت نہیں، اسدؔ
خیرات خوارِ محض ہوں ،نوکر ہوں میں
٭ مرزا صاحب نےاس زمین میں اپنی برسوں پرانی غزل کا مقطع حذف کر کےاور آخر میں یہ دو شعر بڑھا کر ، نواب کلب علی خاں بہادر والیِ رامپورکی خدمت میں9 جون 1866 ء کو بھیجی تھی
مسجد کے زیرِ سایہ ، اک گھر، بنا لیا ہے یہ بندہ کمینہ ، ہمسایہ خدا ہے
1867 ء
گوڑگانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم
عاشق ہے اپنے حاکمِ عادل کے نام کی
سو یہ نظر فروز قلمدان نذر ہے
مسٹر کووان صاحبِ عالی مقام کی
ہندوستان کی بھی عجب سر زمین ہے
جس میں وفا و مہر و محبت کا ہے وفور
جیسا کہ آفتاب نکلتا ہے شرق سے
اخلاص کا ہوا ہےاسی ملک سے ظہور
ہے اصل تخمِ ہند سے، اور اس زمیں سے
پھیلا ہے سب جہاں میں ، یہ میوہ دور دور
شبِ وصال میں، مونس گیا ہے، بَن تکیہ
ہوا ہے موجبِ آرامِ جان و تن، تکیہ
خراج بادشہِ چیں سے کیوں نہ مانگوں آج؟
کہ بن گیا ہے، خمِ جعدِ پُر شکن تکیہ
بنا ہے تختۂ گل ہائے یاسمیں ،بستر
ہوا ہے دستۂ نسرین و نسترن، تکیہ
فروغِ حسن سے روشن ہے، خوابگاہ تمام
جو رختِ خواب ہے پرویں، تو ہے پرن تکیہ
مزا ملے کہو، کیا خاک ساتھ سونے کا؟
رکھے جو بیچ میں وہ شوخِ سیم تن تکیہ
اگرچہ تھا یہ ارادہ ،مگر خدا کا شکر!
اٹھا سکا نہ نزاکت سے، گلبدن تکیہ
ہوا ہے کاٹ کے چادر کو، ناگہاں غائب
اگر چہ زانوئےنل پر رکھے، دمن، تکیہ
بضربِ تیشہ وہ !اس واسطے ہلاک ہوا
کہ ضربِ تیشہ پہ رکھتا تھا ،کوہکن تکیہ
یہ رات بھر کا ہے ہنگامہ ،صبح ہونے تک
رکھو نہ شمع پر ،اے اہلِ انجمن ،تکیہ
اگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے، لیکن
اٹھائےکیونکےیہ رنجورِ خستہ تن تکیہ
غش آ گیا جو پس از قتل، میرے قاتل کو
ہوئی ہے اس کو مری لاشِ بے کفن تکیہ
جو بعدِ قتل، مرا دشت میں مزار بنا
لگا کے بیٹھتے ہیں ، اس سے راہ زن ، تکیہ
شبِ فراق میں یہ حال ہے اذیّت کا
کہ سانپ فرش ہے، اور سانپ کا ہے من تکیہ
روا رکھو نہ رکھو، تھا جو لفظ "تکیہ کلام"
اب اس کو کہتے ہیں اہلِ سخن "سخن تکیہ"
ہم اور تم، فلکِ پیر جس کو کہتے ہیں
فقیر غالبؔ مسکیں کا ہے کہن تکیہ
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشتِ غم میں آہوئے صیاد دیدہ ہوں
ہوں درد مند ، جبر ہو یا اختیار ہو
گہ نالہ کشیدہ، گہ اشک چکیدہ ہوں
جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن
از بسکہ تلخی غم ِ ہجراں چشیدہ ہوں نے سبحہ سے علاقہ، نہ ساغر سے واسطہ میں معرض مثال میں دست بریدہ ہوں ہوں خاکسار، پر نہ کسی سے ہے مجھ کو لاگ نے دانہ فتادہ ہوں ، نے دام چیدہ ہوں جو چاہیے ، نہیں وہ مری قدر و منزلت میں یوسف بہ قیمت اول خریدہ ہوں
ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ ہوں میں کلام ِ نغز، ولے ناشنیدہ ہوں اہل ورع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل پر عاصیوں کے زمرے میں ، میں برگزیدہ ہوں پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام
فرماں روائے کشورِ پنجاب کو سلام
حق گو و حق پرست و حق اندیش و حق شناس
نوّاب مستطاب، امیرِ شہ احتشام
جم رتبہ میکلوڈ بہادر کہ وقتِ رزم
تُرکِ فلک کے ہاتھ سے وہ چھین لیں حُسام
جس بزم میں کہ ہو انہیں آہنگِ میکشی
واں آسمان شیشہ بنے، آفتاب جام
چاہا تھا میں نے تم کو مہِ چار دہ کہوں
دل نے کہا کہ" یہ بھی ہے تیرا خیالِ خام"
دو رات میں تمام ہے ،ہنگامہ ماہ کا
حضرت کا عزّ و جاہ رہے گا علی الدّوام
سچ ہے تم آفتاب ہو، جس کے فروغ سے
دریائےنور ہے، فلکِ آبگینہ فام
میری سنو، کہ آج تم اس سر زمیں پر
حق کے تفضّلات سے، ہو مرجعِ انام
اخبارِ لودھیانہ میں، میری نظر پڑی
تحریر ایک، جس سے ہوا بندہ تلخ کام
ٹکڑے ہوا ہے، دیکھ کے تحریر کو، جگر
کاتب کی آستیں ہے، مگر، تیغِ بے نیام
وہ فرد جس میں نام ہے میرا غلط لکھا
جب یاد آگئی ہے، کلیجا لیا ہے تھام
سب صورتیں بدل گئیں، ناگاہ، یک قلم
لمبر رہا، نہ نذر، نہ خلعت کا انتظام
ستّر برس کی عمر میں یہ داغِ جاں گداز
جس نے ،جلا کے، راکھ مجھے کر دیا تمام
تھی جنوری مہینے کی تاریخ ،تیرھویں
استادہ ہو گئے لبِ دریا پہ جب خیام
اس بزمِ پُر فروغ میں، اس تیرہ بخت کو
لمبر ملا نشیب میں، از روئےاہتمام
سمجھا اسے گراب، ہوا پاش پاش، دل
دربار میں ،جو مجھ پہ چلی، چشمکِ عوام
عزت پہ ،اہلِ نام کی ہستی کی، ہے، بناء
عزت جہاں گئی، تو نہ ہستی رہی ،نہ نام
تھا ایک گونہ ناز، جو اپنے کمال پر
اس ناز کا، فلک نے لیا مجھ سے ،انتقام
آیا تھا ،وقت ریل کے کھلنے کا بھی ،قریب
تھا بارگاہِ خاص میں خلقت کا ازدحام
اس کشمکش میں آپ کا مدّاحِ دردمند
آقائےئےنامور سے نہ کچھ کر سکا کلام
جو واں نہ کہہ سکا ، وہ لکھا ہے حضور کو
دیں آپ میری داد ،کہ ہوں فائز المرام
ملک و سپہ نہ ہو تو نہ ہو، کچھ ضرر نہیں
سلطانِ بّر و بحر کے در کا ہوں میں، غلام
وکٹوریہ کا ،دہر میں جو، مداح خوان ہو
شاہانِ عصر، چاہیئے لیں عزت اس سے وام
خود ،ہے تدارک اس کا ،گورنمنٹ کو ضرور
بے وجہ کیوں ذلیل ہو، غالبؔ ہے جس کا نام
امرِ جدید کا ،تو نہیں ہے مجھے، سوال
بارے قدیم قاعدے کا، چاہیئے، قیام
ہے بندےکو اعادۂ عزت کی آرزو
چاہیں اگر حضور، تو مشکل نہیں یہ کام
دستورِ فنِّ شعر یہی ہے، قدیم سے
یعنی ،دعا پہ مدح کا ،کرتے ہیں اختتام
ہے یہ دعا کہ زیرِ نگیں آپ کے رہے
اقلیمِ ہند و سند سے تا ملکِ روم و شام
٭ اس شعر سے ظاہر ہےکہ مرزا نے جب یہ شعر کہاتو وہ ستر برس کے ہو چکے تھے۔ لہذا اس کلام کو 1867 کا کہا ہوا تسلیم کرنا چاہیے
اکتوبر / نومبر 1867 ء
قطعہ
ہند میں اہل تسنن کی ہیں دو سلطنتیں
حیدرآباد دکن، رشکِ گلستانِ ارم
رامپور، اہلِ نظر کی ہے نظر میں وہ شہر
کہ جہاں ہشت بہشت آ کے ہوئے ہیں باہم
حیدرآباد بہت دور ہے ، اس ملک کے لوگ
اُس طرف کو نہیں جاتےہیں، جو جاتے ہیں تو کم
رام پور آج ہے وہ بقعہ معمورکہ ہے
مرجع و مجمع، اشرافِ نژادِ آدم
رام پور اک بڑا باغ ہے، از روئے مثال
دلکش و تازہ،و شاداب و وسیع و خرم
جس طرح باغ میں ساون کی گھٹائیں برسیں
ہے اسی طور پہ یاں ، دجلہ فشاں دستِ کرم
ابرِ دست کرم کلب علی خاں سےمدام
درِ شہوارہیں ، جو گرتے ہیں قطرے پیہم
صبحدم باغ میں آجائے، جسے نہ ہو یقیں
سبزہ و برگِ گل و لالہ پہ دیکھے شبنم
حبذا! باغِ ہمایوں تقدس آثار
کہ جہاں چرنے کو آتے ہیں غزالانِ حرم
مسلکِ شرع کے ہیں، راہرو و راہ شناس
خضر بھی یاں اگر آ جائے، تو لے ان کے قدم
مدح کے بعد دعا چاہیے اور اہل سخن
اس کو کرتے ہیں بہت بڑھ کےبہ اغراق، رقم
حق سے کیا مانگیے؟ ان کے لیے جب ہو موجود
ملک و گنجینہ و خیل و سپہ و کُوس و علم
ہم نہ تبلیغ کے مائل، نہ غلو کے قائل
دو دعائیں ہیں کہ وہ دیتے ہیں نواب کو ہم
یا خدا!غالبِؔ عاصی کے خداوند کودے
وہ وہ چیزیں کہ طلبگار ہے جن کا ،عالم
اولاً، عمرِ طبیعی بہ دوامِ اقبال
ثانیاً، دولتِ دیدارِ شہنشاہِ امم
٭یہ قطعہ ، مکتوبِ غالبؔ بنام نواب کلب علی خاں بہادر مورخہ 5 رجب1284 ھ(3 نومبر 1867 ء)کے ساتھ بھیجا گیاتھا، اور یہ مرزا غالبؔ کا آخری کلام ہےجو تاحال دریافت ہوا ہے
بعد از 13 جولائی1867 ء
شعر
دمِ واپسیں بر سرِ راہ ہے
عزیزو ، اب اللہ ہی اللہ ہے ٭ خط بنام مولانا احمد حسین میناؔ مرزا پوری، مورخہ 13 جولائی 1867 ء
1:۔
گاتی تھیں شمرو کی بیگم، تن نا ہا یا ہو
دودھ میں پکے تھے شلغم، تن نا ہا یا ہو
مولووی احتشام الدین مرحوم نے اپنے مضمون "غالبؔ کے بعض غیر مطبوعہ اشعار اور لطیفے" (ماہِ نو، فروری1950 ء)میں لکھا ہےکہ" یہ مطلع مرزا کی ایک مہمل غزل کا ہےجو بچوں کے جھولے میں گانے کیلئے موزوں فرمائی تھی"اندازہ ہے کہ شعر1865 ء کے ابتدائی مہینوں میں کہا گیا ہوگا(خط نمبر 112 بنام منشی ہر گوپال تفتہ، آخر مئی1865 ء) ٭ زیب النسا عرف بیگم شمرو
2:۔
تم سلامت رہو قیامت تک
دولت و عزو جاہ،روز افزوں
اس شعر کا پہلا مصرع مرزا نے نواب یوسف علی خاں ناظمؔ کے نام خط مورخہ 15 فروری1857 ء میں
اور پورا شعر انہیں کے نام کے خط مورخہ14 اگست 1863 ء میں لکھا ہے
3:۔
درم و دام اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
آبِ حیات میں درج ہےکہ حسین علی خاں (عارف کا چھوٹا لڑکا)ایک دن کھیلتا کھیلتا آیا کہ دادا جان (غالبؔ) مٹھائی منگا دو۔ آپ نے فرمایا کہ پیسے نہیں ۔ وہ صندوقچہ کھول کر ادھر ادھر ٹٹولنے لگا اور آپ نے یہ شعر فرمایا
حسین علی خاں شاداںؔ کا سالِ ولادت 1850ء ہے۔ اندازہ ہے کہ اس واقعے کے وقت(آغازِ 1857 ء) وہ سات آٹھ برس کا ہوگا
4:۔
سات جلدوں کا پارسل پہنچا
واہ کیا خوب ، بر محل پہنچا
یہ شعر میرزا حاتم علی مہرؔ کے نام خط مورخہ20 نومبر 1858 ء میں درج ہے
5:۔
یہ خبط نہیں تو اور کیا ہے
برہانِ قاطع کا وہ نسخہ جس کے حاشیوں پرابتداً مرزا صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ لکھےاور جو بعد کو قاطع برہان کے نام سے مرتب ہو کر چھپے
لفظ "خسک"پر حاشیہ لکھتے ہوئے یہ مصرع بھی مرزا صاحب کے قلم سے نکل گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ1858 ء میں ہی لکھا گیا ہوگا
6:۔
روز اس شہر میں حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوتا ہے
غالبؔ نے یہ شعر اپنے خط بنام میر مہدی مجروحؔ مورخہ 2 فروری 1859 ء میں لکھا ہے
7:۔
دیکھئے کیا جواب آتا ہے
مندرجہ خط بنام مجروحؔ، 13 دسمبر 1859 ء، یہ پورے جملے کا ایک ٹکڑا ہےجو از خود موزوں ہو گیا ہے
"میں نےاس کا اپیل لیفٹیننٹ گورنر کےیہاں کیا ہے، دیکھئے کیا جواب آتا ہے"۔
8:۔
خدا سے بھی میں چاہوں از رہِ مہر
"فروغِ میرزا حاتم علی مہرؔ"
مندرجہ خط بنام مہرؔ،اپریل 1859 ء ۔ اس شعر کا دوسرا مصرع کود مہرؔ کا ہے جو ان کی مثنوی "شعاعِ مہر" میں درج ہے
9:۔
پیر و مرشد معاف کیجئے گا
میں نے جمنا کا کچھ نہ لکھا حال
مندرجہ خط بنام نواب انور الدولہ بہادر شفقؔ، 19 جولائی 1860 ء ۔ عودِ ہندی میں یہ اسی طرح درج ہے مگراردوئے معلیٰ میں اسے نثر کی شکل دے دی گئی ہےاگرچہ اسے منظوم بھی پڑھا جاسکتا ہے
10:۔
خدا کے بعد نبی، اور نبی کے بعد امام
یہی ہے مذہبِ حق، والسلام والاکرام
مندرجہ خط بنام مجروحؔ، مئی 1861 ء
11:۔
تھا تو خط پر جواب طلب نہ تھا
کوئی ا س کا جواب کیا لکھتا
یہ شعر چودھری عبدالغفور سرورؔ کے نام خط میں لکھا ہے۔ خط پر تاریخ درج نہیں، مگرقرائن سے پتا چلتا ہے کہ 1862 ء کا لکھا ہوا ہے
12:۔
میں بھولا نہیں تجھ کو، اے میری جاں
کروں کیا، کہ یاں گر رہے ہیں مکاں
مندرجہ خط بنام مجروحؔ، مورخہ 26 ستمبر 1862 ء
13:۔
جویائے حالِ دہلی و الور سلام لو
یہ مصرع خط مورخہ 16 دسمبر 1862ء ، بنام مجروحؔ، کا سر نامہ ہے
14:۔
ولی عہدی میں شاہی ہو مبارک
عنایاتِ الہی ہو مبارک
مندرجہ خط بنام علائی، اپریل مئی 1863 ء
15:۔
معلوم ہوا خبر کا ٹھینگا باجا
مندرجہ خط بنام علائی ، 18 مئی 1864 ء
16:۔
کوئی اس کو جواب دو صاحب
سائلوں کا ثواب لو صاحب
مندرجہ لطائفِ غیبی، مطبوعہ 1864 ء، صفحہ 22
اب یہ عام طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ لطائفِ غیبی، سیاحؔ کی نہیں بلکہ خود مرزا کی تصنیف ہے
17:۔
خوشنودی احباب کا طالب، غالبؔ
ظاہر ہے کہ یہ مصرع خط کے خاتمے کے الفاظ پر مبنی ہے، صحیح سالِ تحریر کا علم نہیں مگریہ ایک خط بنام قدرؔ بلگرامی کے آخر میں (تاریخ درج نہیں صرف دن اور وقت لکھا ہے، چہار شنبہ، 12 پر 3 بجے)
اور مثنوی "شعاعِ مہرؔ" کی تقریظ تمام کوکرتے ہوئے لکھا ہے
18:۔
کھانا نہ انہیں ، کہ یہ پرائے ہیں آم
یہ غالبؔ کی ایک رباعی کا چوتھا مصرعہ ہے، جو جلوہ خضر میں درج ہے۔ اس کے 3 مصرعے صفیرؔبلگرامی کو یاد نہیں رہے۔ صفیرؔ 1865 ء میں غالبؔ سے ملنے دلی آئے تھے
19:۔
میں قائلِ خدا و نبی و امام ہوں
بندہ خدا کاا ور علی کا غلام ہوں
مندرجہ خط بنام صفیر ؔبلگرامی، مورخہ 3 مئی 1865 ء
20:۔
ہاتفِ غیب سن کے یہ چیخا
ان کی تاریخ میرا تاریخا
جناب احسن مارہروی مرحوم نے اپنی کتاب "مکاتیب الغالبؔ" صفحہ 35 پر لکھا ہے
"راقم ا لحروف کے پردادا شاہ سید عالم صاحب (صاحب عالم مارہروی ، ولادت 6 ربیع الثانی، 1211 ھ بمطابق 8 اکتوبر 1796 ء)سےمرزا کی اکثر خط و کتابت ہوتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت صاحب نے مرزا صاحب سے پوچھاکہ آپ کی ولادت کس سن میں ہوئی اور ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دیکہ میری ولاد ت لفظ "تاریخ" سے نکلتی ہےجس کے عدد 1211 ہوتے ہیں ۔ مرزا نے جواب میں یہ شعر لکھ بھیجا"
جناب صاحب عالم مارہروی جن کی مرزا بہت عزت کرتے تھے،مرزا سے ایک سال پہلے پیدا ہوئے اور تین سال بعد فوت ہوئےیعنی ان کی وفات 2 محرم 1288 ھ (24 مارچ 1871 ء) کو ہوئی۔ صاحبِ عالم ، ان کے صاحبزادے شاہ عالم، اور عبدالغفور سرورؔ(جن کے خطوں میں صاحب ِ عالم کے کئی خط شامل ہیں)کے نام کے خطوط جو آج تک دستیاب ہوئے ہیں ، وہ 1858 ء سے1866ء تک کے عرصے میں لکھے گئے ہیں۔ یہ شعر ان خطوں میں درج نہیں ۔ ہو سکتا ہے انہی دنوں میں کبھی لکھا گیا ہو مگر خط محفوظ نہ رہا ہو۔ اس لیے اس شعر کو1858 ءکے بعد اور 1866 ء سے پہلے کا کہا ہوا ہی کہا جاسکتا ہے
21:۔
تحریر ہے یہ غالبِؔ یزداں پرست کی
تاریخ اس کی آج نویں ہے اگست کی
مندرجہ خمخانہ جاوید جلد اول صفحہ 82 ۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہےکہ شعر کا زمانہ فکر1866 ء کے لگ بھگ ہوگا
22:۔
سنین عمر کے ستر ہوئے شمار برس
بہت جیوں تو جیوں اور تین چار برس
غالبؔ کا سالِ ولادت 1797 ءہے۔ اس طرح یہ شعر 1867 ء میں کہا گیا ہوگا
ہجری حساب سے ستر برس 1282 ھ (66، 1865 ء) میں پڑیں گے
23:۔
آج یک شنبے کا دن ہے آؤ گے؟
یا فقط رستا ہمیں بتلاؤ گے
خمخانہ جاوید ، جلد اول صفحہ81 میں لالہ سری رام نے لکھا ہے کہ ہیارے لال آشوب دہلی میں ہوتے تھے، تو کوئی ہفتہ مرزا صاحب کی ملاقات سےخالی نہ جاتا تھا۔ دیر ہو جاتی تو مرزا ایک نہ ایک شعر لکھ کر آشوب کے پاس بھیج دیتے ، جس کا مضمون حسنِ طلب ہوتا۔ ان میں سےا یک یہ شعر ہے۔ غالبؔ نے دسمبر 1867 ء کو ازالہ حیثیتِ عرفی کا مقدمہ دائر کیا تھا، اس مقدمے میں پیارے لال آشوبؔ(جو ابھی 36 سال کے بھی نہ تھے) گواہوں میں سے ایک تھے۔ شاید یہ شعر انہی دنوں کا ہو
مندرجہ بالا اشعار کی کوئی ادبی حیثیت نہیں ، یہ غالبؔ کی شوخی طبع اور حاضر دماغی کے آئینہ دار ہیں۔ ان کی قدروقیمت اس پر منحصر ہے کہ یہ غالبؔ کے کہے ہوئے ہیں اور یہ کسی نہ کسی واقعے کی نشاندہی میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں
"دیوانِ غالبؔ کامل، تاریخی ترتیب سے" کے پہلے ایڈیشنوں میں بعض اشعار ایسے ہیں جنہیں حتمی طور پر غالبؔ کے فکر کردہ تسلیم کرنے میں مجھے جھجک محسوس ہو تی رہی ہے ۔ اب میں نے ان اشعار کو متن سے الگ کر لیا ہے۔ تاہم مقدمے میں محفوظ رکھا ہےتاکہ اگر قاری ان پر مزید غور کرنا چاہےتو اشعار اس کی نظروں سےاوجھل نہ رہیں۔ روایتیں بیشتر وہی ہیں جو نسخہ عرشیؔ میں بیان ہوئی ہیں۔
1:۔
دو رنگیاں یہ زمانے کی ، جیتے جی ہیں سب
کہ مردوں کو نہ بدلتے ہوئے کفن دیکھا
2:۔
پیری میں بھی کمی نہ ہوئی تاک جھانک کی
روزن کی طرح دید کا آزار رہ گیا
3:۔
وہ مرغ ہےخزاں کی صعوبت سے بے خبر
آئندہ٭ سال تک جو گرفتار رہ گیا
--------------------------- کتاب میں لفظ آیندہ درج ہے مگریہاں مروج املا کے مطابق آئندہ لکھا :۔ چھوٹا غالبؔ
پہلے شعر میں جیتے اور مردوں کے آخری حروف بری طرح دیتے ہیں۔ ایسے ناپختہ کلام کو غالبؔ سے منسوب کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ دوسرے دونوں شعر صاف ہیں۔دیوانِ غالبؔ(صدی ایڈیشن)مرتبہ مالک رام میں یہ اشعار بیاضِ علائی کے حوالے سے نقل کیے گئے ہیں۔ مگر جناب عرشی ؔمرحوم فرماتے ہیں کہ "اس بیاض سے متعلق میری یاداشتوں میں ان شعروں کا حوالہ نہیں"
4:۔
اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ، مَیں جوشِ وحشت میں
پھرا آسیمہ سر، گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے
نظر آیا، مجھے اک طائرِمجروحِ پر بستہ
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے
کہا میں نے کہ 'او گمنام' آخر ماجرا کیا ہے؟
پڑا ہے کام تجھ کو کس ستمگر آفت جاں سے
ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا
تو یہ رویا کہ جوئے خون بہی، پلکوں کے داماں سے
کہا:"میں صید ہوں اس کا کہ جس دامِ گیسو میں
پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغِ رضواں سے
اسی کے زلف و رخ کا دھیان ہےشام و سحر مجھ کو
نہ مطلب کفر سے ہے، نہ ہےکچھ کام ایماں سے"
بچشمِ غور جو دیکھا، تو مرا ہی طائرِ دل تھا
کہ جل کر، ہو گیایوں خاک میری آہِ سوزاں سے
یہ قطعہ رسالہ مخزن اپریل 1907 ء میں اس تمہید کے ساتھ شائع ہوا تھا:۔ "تھوڑے دن ہوئے میجر سید حسن صاحب بلگرامی سے تذکرہ شعرا ہورہا تھاجس میں انہوں نے غالبؔ کا ایک قطعہ سنایا ۔ قطعے کے عمدہ ہونے میں کیا شک ہے۔مگر اس کے ساتھ ہی ان کے اس بیان نے کہ یہ قطعہ ان کے والد مرحوم سے ان کو پہنچااور اب تک غالبؔ کے کسی کلام میں شائع نہیں ہوا، اس کی خوبی زیادہ کر دی۔ میں نے اسے لکھ لیا اور ان کی اجازت سے مخزن کو بھیجتا ہوں۔ شیداؔ از کیمبرج۔"
5:۔
ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس
یوں کہا"آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب"
بال و پر دو چار دکھلا کر، کہا صیاد نے
"یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب"
مولانا نظامیؔ بدایونی مرحوم نے اپنی شرح دیوانِ غالبؔ صفحہ نمبر 248 میں قطعہ #4 اور قطعہ #5 کے متعلق لکھا ہے، کہ سب سے پہلے ان قطعات کا اضافہ طبعِ سوم میں اس ریمارک کے ساتھ ہوا تھا کہ بعض نقادانِ سخن ان قطعات کے طرزِ بیان کوحضرتِ غالبؔ کے رنگ سے جداگانہ سمجھتے ہیں۔ اس پر طبعِ سوم کے ناظرین میں سےبعض اہل الرائے حضرات نے شکایت کی کہ ان قطعات کو دیوانِ غالبؔ میں جگہ دیناغالبؔ کے کلام کی توہین کرنا ہے۔ ہم نے نواب عماد الملک (میجر سید حسن بلگرامی کے بھائی)سے ان کے متعلق دریافت کیا۔ وہ فرمانے لگے کہ وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ غالبؔ کے مصنفہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بزرگ سے سنے تھے جو ان کو غالبؔ سے منسوب کرتے تھے، ممکن ہے کہ یہ غالبؔ کا ابتدائی کلام ہو۔
یعنی (1)شیداؔ نےان اشعار کو میجر سید حسن بلگرامی سے لیااور سید حسن صاحب کو یہ ان کے والد گرامی سے پہنچےاور (2)نظامی بدایونی کے دریافت کرنے پرسید حسن صاحب کے بھائی نے تصدیق کی کہ انہوں نےاپنے ایک بزرگ سے(اپنے والد مرحوم سے نہیں)سنا تھا اور اس لیے وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ غالبؔ کے مصنفہ ہیں۔ یہ روایت خاصی ضعیف ہے
جناب قاضی عبدالودودنے اپنے مضمون "کتب خانہ خدا بخش اور غالبؔ" مشمولہ اردوئے معلیٰ دہلی، غالبؔ نمبر، حصہ دوم، صفحہ 78میں لکھا ہے کہ"دیوانِ غالبؔ اردو کے ان نسخوں میں سے جو غالبؔ کے دورانِ حیات میں طبع ہو چکے تھے، یہاں موجود ہیں: نسخہ مطبع احمدی، مطبع نظامی۔۔ مقدم الذکر کے یہاں دو نسخے تھے، جن میں سے ایک کا باوجودِ تلاش اس وقت کچھ پتا نہ ملا۔ اس کے آخر میں جناب قاسم حسن خان و برزدر زادہ خدا بخش خان منتظمِ کتب خانہ کےقول کے مطابق غالبؔ کا ایک قطعہ ہےجو محمد بخش خاں پدرِ خدا بخش خاں کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ یہ قطعہ وہی ہےجو عماد الملک کی روایت پر غالبؔ سے منسوب کیا گیا ہے۔ نیز مخزن میں اس قطعے کو شائع کرنے والےصاحب کا نام شیدا لکھا گیا ہے۔ یہ عبدالحمید خواجہ ہیں جو ان دنوں کیمبرج میں مقیم تھے۔۔۔۔"
]اب میں نے معلوم کر لیا ہے کہ قطعہ نمبر 5 "صدائے عندلیب"غالبؔ کے شاگرد مرزاعبدالصمد بیگ ذاکرؔکا ہے (دیکھودیوانِ ذاکرؔ صفحہ 21)[
6:۔
جو حدِ تقویٰ ادا نہ ہووےتو اپنا مذہب یہی ہے غالبؔ
ہوس نہ رہ جائے کوئی باقی، گناہ کیجئے تو خوب کیجئے
رضا لائبریری، رام پور کے نسخہ تذکرہ گلزارِ سخن مولفہ جگن ناتھ فیض کے، جو 1908ء میں نول کشور پریس میں طبع ہواہے ، صفحہ 297 پر غالبؔ کا تذکرہ ہے۔ اس صفحے کے زیریں حاشیے میں چنی لال عاصیؔ نے مطالعہ کرتے وقت غالبؔ کے تحت یہ شعر لکھا ہے۔
7:۔
اگر ہوتا تو کیا ہوتا، یہ کہیے
نہ ہونے پر ہیں یہ باتیں دہن کی
یہ شعر ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی صاحب نے رسالہ اردوئے معلیٰ ، دہلی کے غالبؔ نمبر حصہ دوم 1960 ء میں چھاپا ہے، ان کا بیان ہے کہ میرے ایک بزرگ تھے سید عنایت حسین صاحب جو بھوپال میں ملازم تھے۔ نواب صدیق حسن خاں سے ان کے خصوصی تعلقات تھے۔ نواب صاحب کے بھائی سید احمد حسن(متوفی 1277 ھ بمطابق 1860 ء)غالبؔ کے شاگرد تھے اور عرشیؔ تخلص کرتے تھے۔ سید عنایت حسین صاحب نے اپنے منتخب اشعار کی ایک بیاض چھوڑی ہے۔ اس میں پہلے عرشیؔ کا یہ شعر لکھا ہے:۔
کہیں کچھ ہے ، دعا دو گالیوں کو
بنا لی بات باتوں میں دہن کی
اس کے بعد غالبؔ کا یہ شعر درج کیا ہے، اگر ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
8:۔
نسخہ سوزشِ دل درخور عناب نہیں
سرِ سودا زدہ، آتش کدہ تاب نہیں
ہمت و حوصلہ شورشِ شبنم معلوم
قلزمِ اشک، نمِ دیدہ خوناب نہیں
پرسشِ عشق سے ہےان کو فراغت مقصود
ہدیہ پارہ دل، نازشِ جلباب نہیں
ہمت و شوقِ طلبگاری ِ مقصود کہاں
برقِ خرمن،زنِ بے تابیِ سیماب نہیں
گلشنِ ہستی عالم ہے دبستانِ نشاط
نقشِ گل، رونقِ بے مشقیِ طلاب نہیں
اس غزل کا پہلا اور تیسرا شعرسب سے پہلے رسالہ الناظر لکھنؤ بابت مارچ1929 ء میں اس تمہید کے ساتھ شائع ہوا تھا:۔ "مولوی عبدالرزاق صاحب ایڈیٹر رسالہ تحفہ حیدرآباد دکن، مؤلفِ کلیاتِ اقبالنے عرصہ ہوا از راہِ کرم الناظر میں شائع ہونے کیلئےاشعارِ بالا ارسال فرمائے تھے، اور ان کے متعلق اپنے گرامی نامے میں تحریر فرمایا تھاکہ یہ شعر بھوپال کے مطبوعہ نسخے میں نہیں ہیں اور نہ کہیں چھپے ہیں ۔میرے کتب خانے میں دیوانِ غالبؔ کے مختلف نسخے ہیں، ایک نسخہ نول کشور کا مطبوعہ ہے ۔ اس کے حاشیے پر اشعارِ بالا اس تقریب کے ساتھ کسی صاحب نے لکھے ہیں کہ مرزا غالبؔ کے قلمی دیوان سے یہ غزل نقل کی گئی، دو شعروں کے علاوہ غزل کے اور شعر بھی ہیں، لیکن بے درد جلد ساز نے حاشیہ کاٹ دیا ہے۔جس کے سبب سے بعض مصرعے بالکل کٹ گئے ہیں ، اور بعض پڑھے نہیں جاتےکہیں اور پتا چلے ، تو بقیہ اشعار بھی ارسال کر دوں گا"
بعد ازاں یہ شعر "ماہِ نو"فرواری 1953 ءمع چند اضافوں کے اس تمہید کے ساتھ چھپے:۔ "پچھلے صفحہ پر غالبؔ کی جو مبینہ غزل درج ہےہمیں جناب ناظر عالم نے حیدرآباد دکن سے ارسال کی ہے۔ موصوف نے اس سلسلے میں ایک خط بھی لکھا ہےجس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس حد تک مستند ہے۔ خط میں ناظر عالم صاحب نےاس غزل کی دریافت اور ضائع شدہ حصوں کے بارے میں عبد الرزاق راشدؔ صاحب کا یہ بیان نقل کیا ہے۔ موسوف نے کہا کہ میاں داد سیاح ؔشاگردِ مرزا غالبؔ کے ایک رشتے دارظفر یاب خاں ریاست حیدرآباد کے صیغہ تعمیرات میں ملازم تھے۔ آج سے 40، 42 سال پہلےرسالہ ادیب نکالتے تھے۔ خان موسوف کے کتب خانے میں ایک مجلد کتاب ملی جس کے اند دیوانِ غالبؔ اور دیوانِ ذوق کے علاوہ ناسخؔ، آتشؔ، آباؔد کا کلام تھا۔ دیوانِ غالبؔ کے ایک حاشیے پر "غزلِ غیر مطبوعہ غالبؔ دہلوی"عنوان سے 9 شعر لکھے تھے، مگر کسی بے درد جلد ساز نے جلد بناتے وقتحاشیے کا یک حصہ اس بری طرح کتر دیا تھاکہ 4 مصرعے کٹ گئے جو اشعار اور مصرعے باقی تھے، ان کی نقل کر لی گئی ، اس تحقیق کیلئے کہ یہ کلام مرزا غالبؔ ہی کا ہے ، ظفریاب خان ایڈیٹر ادیب سے رجوع کیا گیا، خان ساحب موصوف نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ غالبؔ کے سوا اور کون ایسے اشعار تصنیف کر سکتا ہے۔۔۔۔
تحقیق کا دوسرا ذریعہ یہ تھا کہ حضرت استاذی علامہ نظم طباطبائی شارحِ غالبؔ سے رجوع کیا جائے، موصوف نے غزل دیکھ کر فرمایاکہ یہ یقینی مرزا غالبؔ کا کلام معلوم ہوتا ہے"
جو چار اشعار جلد ساز کی غلطی سے کٹ گئے تھے، ان کئ مصرع ہائے ثانی یہ ہیں
؎ شبِ تاریک، خیالِ دلِ مہتاب نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ شمع یہ، زیب دہِ مجلسِ احباب نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ تارِ تمکیں، حریفِ سرِ مضراب نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ غم ہی ایک چیز ہے دنیا میں جو کمیاب نہیں
جب تک پہلے مصرعے نہ مل جائیں ، ان مصرعوں کو متن سے خرج کر دینا ہی مناسب ہوگا۔ لیکن اس کلام کو معتبر سمجھنے سے پہلے، جناب عرشیؔ مرحوم کا یہ بیان مطالعہ کر لینا ضروری ہے، جو انہوں نے دیوانِ غالبؔ، نسخہ عرشیؔ، ااعت دوم کے صفحہ نمبر 522 پر درج کیا ہے۔ لکھتے ہیں :۔ "تمکین کاظمی مرحوم نے مجھے لکھا تھاکہ ناظر عالم نام کی کسی ہستی کا خارج میں وجود نہیں اور اس پردے میں خود عبدالرزاق حیدرآبادی جلوہ فرما ہیں۔ اس اطلاع نے غزل اور اس سے متعلق روایت کو ناقابلِ اعتبار بنا دیا۔۔۔۔۔۔"
9:۔
اس قدر ضبط کہاں ہے ، کہ کبھی آبھی نہ سکوں
ستم اتنا تو نہ کیجئے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
لگ گئی آگ اگر گھر کوتو اندیشہ کیا
شعلہ دل تو نہیں ہے کہ بجھا بھی نہ سکوں
تم نہ آؤگے تو مرنے کی ہیں سو تدبیریں
موت کچھ تم تو نہیں ہو، کہ بُلا بھی نہ سکوں
ہنس کے بلوائیے مٹ جائے گا سب دل کا گلہ
کیا تصور ہے تمہارا کہ مٹا بھی نہ سکوں
اس غزل کے سلسلے میں مولانا حامد حسن قادری مرحوم نے بہت دلچسپ اطلاع بہم پہنچائی ہے۔ اپنے مکتوب بنام حیرتؔ شملوی مرحوم میں رقم طراز ہیں:۔ " میرے پاس بزرگوں کے وقت کا دیوانِ غالبؔ ہے، مطبوعہ 1823 ء جو مطبع مفید خلائق آگرہ میں منشی شیو نرائن کے اہتمام سے چھپا تھا۔ اس میں میرے والد مرحوم کے قلم سے (نیرنگ میں لکھا ہے کہ ان اشعار کے کاتب و ناقل دونوں صادق علی صاحب ہیں ۔ عرشیؔ) دو شعر یہ لکھے ہوئے ہیں ، جو کسی مطبوعہ دیوان میں نہیں ملتے : لگ گئی آگ۔۔۔۔۔۔ الخ ، تم نہ آؤ گےتو۔۔۔۔۔الخ۔ غزل کے تین مطبوعہ شعر ہر دیوان میں موجود ہیں ۔ میں نے غالبا ً 1930 ء (صحیح خاص نمبر جنوری 1928 ء ہے ۔ عرشیؔ )میں عزیزاللہ خاں رام پوری مرحوم کے رسالہ نیرنگ میں ان اشعار کے متعلق ایک مختصر مضمون چھپوایا تھا۔ اس میں لکھا تھا :۔
"ان اشعار کے ناقل مولو ی صادق علی تاباں ؔ ، ساکن گڑھ مکتیشر، ضلع میرٹھ ، انسپکٹر محکمہ نمک ہیں ۔ مولوی صاحب غالبؔ کے زمانے کے بزرگ تھے۔ غالبؔ سے چند بار ملے تھے۔ خود اچھے شاعر اور عمدہ سخن سنج تھے۔ گورنمنٹ سے سالہا سال پنشن پا کر 1909 ء یا 1910 ء میں انتقال کیا۔ میری تحقیق کے مطابق اس بات کا قوی قرینہ ہےکہ مولوی صاحب نے خود غالبؔ سےیا اسی زمانے کے کسی شخص نے یہ اشعار نقل کیے ہیں ۔ ممکن ہے کہ غالبؔ نے دیوان کی طباعتِ آخری کے بعد یہ شعر کہے ہوں۔ دونوں شعر بالکل اسی رتبے کے ہیں جیسے پہلے تین شعر ہیں اور ایسے نہیں ہیں کہ پانچوں شعر ایک ساتھ کہنے کے بعد غالبؔ کاٹ دیتے اور پہلے تین شعر باقی رکھتے ۔ اب نقادانِ غالبؔ فیصلہ کریں اور اس اضافے سے لطف اندوز ہوں "
اور اس کے ایک عرصے بعد میں یہی مضمون دوسری طرح لکھ کر "رسالہ سب رس" حیدرآباد دکن بابت مارچ 1942 ء میں چھپوایا تھا ۔ سب رس والا مضمون مولوی عبدالماجد صاحب دریابادی کی نظر سے گزرا ، تو انہوں نے مجھے لکھا:۔
"ان میں سے ایک شعر کوئی تیس سال قبل سنا ہوا میرے حافظے میں ان الفاظ میں ہے
تم نہ آؤ گے تو مر رہنے کی سو راہیں ہیں
موت کچھ تم تو نہیں ہو کہ بلا بھی نہ سکوں
ایک یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت یہ شعر میں نے جالبؔ کی جانب منسوب سنا تھا۔ سید جالبؔ دہلوی سے تو آپ وقف ہونگے ۔ "ہمدم" لکھنؤکے ایڈیٹر ، حالیؔ کے شاگرد اور اس طرح غالبؔ کے شاگرد در شاگرد۔ آپ کی اطلاع اور تحقیق مزید کیلئے لکھ رہا ہوں "
اس کے بعد مجھے مزید تحقیق کا موقع نہیں ملا کہ سید جالبؔ کے کلام میں تلاش کرتا ، یا ان کے دوستوں سے پوچھتا ۔ اب یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرا شعر بھی جالبؔ ہی کا ہو ۔ عبدالماجد صاحب نے ایک سنا ، ایک نہ سنا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شعر میں غالبؔ و جالبؔ کو توارد ہو گیا ہو ۔ اس لیے یہ قافیہ سوچتے وقت جب "بلا بھی نہ سکوں" ذہن میں آئے گا تو ایسی ہی دو چیزیں ہیں موت اور دوست ، اس لیے یہ مصرع تو بنا رکھا ہے : "موت کچھ تم تو نہیں ہو کہ بلا بھی نہ سکوں "اب پہلے مصرعہ میں وہی بات کہنے کی تھی جو دونوں نے کہی۔ لیکن اپنے اپنے الفاظ میں کہی ۔ میرے خیال میں غالبؔ کی یہ زبان نہیں ہے، "مر رہنے کی سو راہیں ہیں" بہر حال اب آپ جانیں اور عرشیؔ صاحب جانیں ۔ میرا سلام کہیے گا"
مولانا حامد حسن قادری کے اس بیان کے علاوہ ایک اور شہادت بھی ہمارے سامنے ہے ۔ اس سے جہاں اس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ زیرِ بحث اشعار غالبؔ ہی کے ہیں ، وہاں مطلع اور شعر "ہنس کے بلوائیے۔۔۔۔۔۔الخ "مزید دریافت ہوئے ہیں
کلیاتِ اقبال کے مرتب عبدالرزاق راشد ؔحیدرآبادی مرحوم نے رسالہ تحفہ حیدرآباد کی جلد 6 شمارہ 8،9 بابت شعبان ، رمضان 1344 ھ میں ایک نوٹ کے ساتھ یہ مکمل غزل شائع فرمائی تھی۔ انہوں نے اس کے متعلق جو معلومات "کلامِ غالبؔ غیر مطبوعہ"کے زیرِ عنوان درج کی تھیں ، انہیں یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
"میرزا غالبؔ کا یہ کلام جسے ہم ذیل میں تبرکاًدرج کرتے ہیں ہمیں ان کے ایک شاگرد قاضی عنایت حسین مرحوم کی بیاض سےدستیاب ہوا ہے۔ مولانا حسرتؔ موہانی اپنے مرتبہ دیوان میں غالبؔ کے شاگردوں کا ذکر کرتے ہیں ، لیکن قاضی مرحوم کا نام نہیں لیتے۔ شعرا کے تذکروں میں بھی جو ہماری نظر سے گزرے ہیں ان کے حالات کا پتہ نہیں چلتا ۔ ہم اپنی معلومات کی بنیاد پر چند باتیں یہاں بیان کرتے ہیں :۔ خاندانِ بنی حُمید کےایک بزرگ علی نقی الدین کے بیٹے قاضی عنایت حسین مرحوم بدایوں کے رہنے والے تھے ۔رشکیؔ تخلص کرتے تھے ۔ اچھے خاصے شعر کہتے تھے۔ ملازمت کے تعلق سے ہندوستان کے مختلف شہروں میں قیام کیا، کچھ عرصے تک ریاست ٹونک میں ملازم رہے۔ اسی مقام پر مرزا غالبؔ سے تلمذ اختیار کیا(مرزا صاحب کا سفرِ ٹونک محل نظر ہے۔ عرشیؔ)جبکہ والی ٹونک کی خواہش پر ان سےایک دو دفعہ ملنےگئےتھے۔ 1883 ء میں حیدرآباد آئے اور 1908 ء تک یہیں مقیم رہ کر رود موسی کی مشہور طغیانی کے زمانے میں وطن مالوف چلے گئے ، مگر وہاں ان کا جی نہ لگا 1912ء میں پھر عازمِ دکن ہوئے، دکن پہنچ کر جام باغ کے محلے میں سکونت اختیار کی ۔ 1918 ء میں قضا ان کو ہندوستان کھینچ لے گئی ۔ وہیں پیوندِ خاک ہوئے اور ایک اگلے وقتوں کی صورت مٹ گئی
اس امر کی نسبت کہ ذیل کے شعر غالبؔ کے ہیں ہم نے علامہ سید علی حیدرنظم طباطبائی نواب حیدر نواز جنگ سے (جن کی غالبؔ شناسی بہت مشہور ہے اور جن کے دیوانِ غالبؔ کی شرح لکھنے کے بعد غالبؔ پر سے مہمل گوئی کا الزام اٹھا)تحقیق چاہی ، اور دیگر صاحبانِ ذوق سے بھی استفسار کیا ۔ یہ سب اصحاب علامہ طباطبائی کے اس جواب سے اتفاق کرتے ہیں کہ "بیاضِ رشکی میں سے تین شعر (صحیح چار شعر :عرشیؔ)جو مرزا غالبؔ کے نام سے لکھے ہوئے ہیں، یہ مجھے بھی بلاشبہ غالبؔ کا کلام معلوم ہوتا ہے" خود ہماری نظر جہاں تک کام دیتی ہے، ہم اس کو غالبؔ ہی کا کلام سمجھتے ہیں ، اگر کسی صاحب کو اس میں شک وشبہ ہو تو وہ معقول وجوہ و دلائل کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار فرمائیں گے۔رشکیؔ کی بیاض میں یہ غیر مطبوعہ کلام جس طرح لکھا ہوا ہے ہم اس کو بجنسہ یہاں نقل کرتے ہیں "
اس نوٹ کے بعد یہ ایک سطر بھی رسالہ "تحفہ " میں غزل سے پہلے درج ہےجو بیاضِ مذکورہ ہی سے نقل ہوئی ہے کہ "یہ غزلِ مرزا صاحب، پوری، دیوان میں طبع نہیں ہوئی ہے۔"
اس کا مطلب یہ ہے کہ " بیاض میں اندراج کرنے والے کو اس بات کا علم تھا کہ اس غزل کے تین شعر پہلے سے دیوانِ غالبؔ میں موجود ہیں اور یہ کہ ابھی تک یہ مکمل شکل میں کہیں شائع نہیں ہوئی ہے۔ ان سارے بیانات کے پیشِ نظر یہ بات قابلِ تحقیق ہوجاتی ہے کہ نو دریافت شعر بھی غالبؔ ہی کے ہیں اور ان کاا نتساب جالبؔ یا کسی دوسرے شخص کی طرف صحیح ہےیا غلط"
10:۔
وصل میں ہجر کا ڈر یا د آیا
عین جنت میں سقر یاد آیا
11:۔
مزہ تو جب ہے کہاے آہِ نارسا ،ہم سے
وہ خود کہے کہ "بتا تیری آرزو کیا ہے؟"
12:۔
حالت ترے عاشق کی یہ اب آن بنی ہے
اعضا شکنی ہو چکی، اب جان شکنی ہے
13:۔
گھر سے نکالنا ہے اگر، ہاں نکالیے
ناحق کی حجتیں نہ مری جاں، نکالیے
14:۔
لیں بوسہ ، یا مصیبتِ ہجراں بیاں کریں
اک منہ ہے ،کون کون سے ارماں نکالیے
15:۔
جو معشوق زلفِ دوتا باندھتے ہیں
مرے سر سے کالی بلا باندھتے ہیں
قاضی معراج دھولپوری مرحوم کے پاس "باغِ مہر" نام کی ایک کتاب محفوظ تھی ۔ جسے میر مہر علی اکبر آبادی نے7 صفر 1275 ھ مطابق 15 اگست 1861 ء روزِ پنجشنبہ کو تمام کیا تھا۔ اس میں اشعارِ متفرق کے تحت "مرزا نوشہ" کے نام سے بھی شعر درج تھے۔ یہ شعر (15 تا 10 ) انہیں میں سے ہیں ۔ یہ اشعار قاضی صاحب نے تبرکاتِ غالبؔ کے عنوان سے "ہماری زبان " کے شمارہ 8 اگست 1961 ء میں شائع کرائے تھے۔
16:۔
نتیجہ اپنی آہوں کا ہے شکلِ مستوی پورا
ہیولیٰ صورتِ کابوس پھر خوابِ گراں کیوں ہو
یہ شعر فاضل زیدی صاحب نے رسالہ طوفان ، نواب شاہ کے شمارہ جولائی 1951 ء میں اس تمہید کے ساتھ شائع کیا تھا:۔
"سید احمد حسین میکشؔ ، شاگردِ غالبؔ جو بعدِ غدر بے جرم و خطاانگریز کے عتاب کا نشانہ بنے، غدر سے قبل کچھ دنوں پاٹودی میں مقیم رہے۔ میر امید علی ، رئیسِ شاہ پور (پاٹودی )اور ان کے درمیان رشتہ اخلاص و محبت تھا اور انہی کی کشش ان کو پاٹودی کھینچ لائی تھی ۔ میکشؔ نے اپنے استاد کی مشہور غزل "سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں " ۔ اور "کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو" میر صاحب کو بطورِ تحفہ نقل کر کے دی تھیں جو ان کے صاحبزادے حکیم حبیب حسین کی ملکیت رہیں ۔ اور اب حکیم مرحوم کے لواحقین کے پاس ہیں۔ آخر الذکر غزل میں مروجہ غزل سے ایک شعر زائد ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہےکہ غالبؔ نے بعد میں یہ شعر غزل سے خارج کر دیا۔ میکشؔ کویہ اتفاقاً زبانی یاد تھا۔ اس لیے انہوں نے لکھ دیا اور محفوظ رہ گیا ۔"