دیوان غالب

فریب

محفلین
کر ے ہے بادہٴ ترے لب سے کسبِ رنگ فرو غ
خطِ پیالہ سراسر نگاہِ گلچیں ہے
کبھی تو اس دلِ شوریدہ کی بھی داد ملے
کہ ایک عمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے
بجا ہے، گر نہ سنے نالہ ہائے بلبلِ زار
کہ گوشِ گل نم شبنم سے پنبہ آگیں ہے
اسد ہے نزع میںِ، چل بے وفا براے خدا
مقامِ ترکِ حجاب و وداعِ تمکیں ہے
 

فریب

محفلین
کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو
یعنی اِس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
مرتے مرتے، دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
عارضِ گل دیکھ روے یار ياد آیا اسد
جوششِ فصلِ بہاری اشتیاق انگیز ہے
 

فریب

محفلین
دیا ہے دل اگر اُس کو، بشر ہے، کیا کہیے
ہوا رقیب تو ہو، نامہ بر ہے، کیا کہیے
یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے، کیا کہیے
رہے ہے یوں گہ و بے گہ کہ کوئے دو ست کو ا ب
اگر نہ کہیے کہ د شمن کا گھر ہے، کیا کہیے؟
زہے کر شمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بِن کہے ہی انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے
سمجھ کے کرتے ہیں باز ار میں وہ پر سشِ حال
کہ یہ کہے کہ سرِ رہگزر ہے، کیا کہیے
تمہیں نہیں ہے سرِ رشتہٴ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے، مگر ہے کیا؟ کہیے!
انُہیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے کیوں لڑیے؟
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے، کیا کہیے!
حسد سزائے کمالِ سخن ہے کیا کیجے!
ستم بہائے متاعِ ہنر ہے، کیا کہیے!
کہا ہے کس نے کہ غالب برا نہیں، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے، کیا کہیے
 

فریب

محفلین
دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وابستہٴ تن میری عریانی مجھے
بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فساں
مرحبا مَیں! کیا مبارک ہے گرانجانی مجھے
کیوں نہ ہو بے التفاتی، اُس کی خاطر جمع ہے
جانتا ہے محوِ پرسش ہائے پنہانی مجھے
میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی
لکھ دیا منجملہٴ اسبابِ ویرانی مجھے
بدگماں ہوتا ہے وہ کافر، نہ ہوتا کاشکے
اس قدر ذوقِ نواے مرغِ بستانی مجھے
واے واں بھی شورِ محشر نے نہ دم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے
وعدہ آنے کا وفا کیجے یہ کیا انداز ہے!
تم نے کیوں سونپی ہے میر ے گھر کی دربانی مجھے
ہاں نشاطِ آمدِ فصلِ بہاری، واہ واہ!
پھر ہوا ہے تازہ سوداےٴ غزل خوانی مجھے
دی میرے بھائی کو حق نے از سرِ نو زندگی
میرزا یوسف ہے غالب، یوسفِ ثانی مجھے
 

فریب

محفلین
یاد ہے شادی میں بھی ہنگامہٴ ’’یا رب‘‘ مجھے
سبحہٴ زاہد ہوا ہے خندہ زیرِ لب مجھے

ہے کشادِ خاطرِ وابستہ در رہنِ سخن
تھا طلسمِ قفلِ ابجد خانہٴ مکتب مجھے

یا رب اُس آشفتگی کی داد کسے چاہیے
رشک آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے

طبع ہے مشتاقِ لذت ہا ئے حسرت، کیا کروں
آرزو سے ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے

دل لگا کر آپ بھی غالب مجھی سے ہوگئے؟
عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے !
 

فریب

محفلین
حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوشنوایانِ چمن کی آزمائش ہے
قد و گیسو میں قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے
کریں گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز اُس خستہ کے نیروے تن کی آزمائش ہے
نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی
اسے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے
رہے دل ہی میں تیر اچھا، جگر کے پار ہو بہتر
غرض شستِ بتِ ناوک فگن کی آزمائش ہے
وہ آیا بزم میں دیکھو نہ کہیو پھر کہ غافل تھے
شکیب و صبر اہل انجمن کی آزمائش ہے
نہیں کچھ سُبحہٴ و ز نّار کے پھندے میں گیر ائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
پڑا رہ اے دلِ وابستہ، بیتابی سے کیا حاصل
مگر پھر تاب زلفِ پرشکن کی آزمائش ہے؟
رگ و پے میں جب اترے زہرِ غم، تب دیکھیے کیا ہو
ابھی تو تلخیٴ کام و دہن کی آزمائش ہے
وہ آو یں گے مرے گھر، وعدہ کیسا، دیکھنا غالب
نئے فتنوں میں اب چرخ ِ کہن کی آزمائش ہے
 

فریب

محفلین
کبھی نیکی بھی ا س کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
جفائیں کرکے اپنی یاد شرما جائے ہے مجھ سے
خدایا جذبہٴ دل کی مگر تاثیر الٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھچتا جائے ہے مجھے سے
وہ بدخو، اور میری داستانِ عشق طولانی
عبارت مختصر، قاصد بھی گھبرا جائے ہے مجھ سے
اُدھر وہ بدگمانی ہے اِدھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اُس سے، نہ بولا جائے ہے مجھ سے
سنبھلنے دے مجھے ا ے ناامیدی، کیا قیا مت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
تکلف برطرف، نظارگی میں بھی سہی لیکن
وہ دیکھا جائے، کب یہ ظلم دیکھا جائے ہے مجھ سے
ہوئے ہیں پانؤ ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالب
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
 

فریب

محفلین
زبس کہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے
کشاد و بستِ مژہ سیلئ ندامت ہے

نہ جانوں کیونکہ مِٹے داغِ طعنِ بدعہدی
تجھے کہ آئينہ بھی ورطہٴ ملامت ہے

بہ پیچ و تابِ ہوَس سِلکِ عافیت مت توڑ
نگاہِ عجز سرِ رشتہٴ سلامت ہے

وفا مقابل و دعواے عشق بے بنیاد
جنونِ ساختہ و فصلِ گل، قیامت ہے
 

فریب

محفلین
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمہ، دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے

کیا تعجب ہے کہ اُس کو دیکھ کر آجائے رحم
وا ں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے

منہ نہ دکھلاوے نہ دکھلا پر بہ اندازِ عتاب
کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلا دے مجھے

یاں تلک میری گرفتاری سے وہ خو ش ہے کہ مَیں
زلف گر بن جاؤں تو شانے میں اُلجھا دے مجھے
 

فریب

محفلین
بازیچہٴ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیٴ اشیا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میر ا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں، نہ کیو ں ہوں
بیٹھا ہے بت آئينہ سیما مرے آگے
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیٴ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانہٴ صہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرا
کیونکر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلےٰ مرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے!
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
 

فریب

محفلین
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے؟
نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ ہم ستمگر ہیں
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو بجا کہیے
وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے
نہیں ذریعہٴ راحت جراحتِ پیکاں
وہ زخمِ تیغ ہے جس کو کہ دلکشا کہیے
جو مدعی بنے اس کے نہ مدعی بنیے
جو نا سزا کہے اس کو نہ نا سزا کہیے
کہیں حقیقتِ جانکاہیٴ مرض لکھیے
کہیں مصیبتِ نا سازیٴ دوا کہیے
کبھی شکایتِ رنجِ گراں نشیں کیجے
کبھی حکایتِ صبرِ گریز پا کہیے
رہے نہ جان تو قاتل کو خونبہا دیجے
کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے
نہیں نگار کو الفت، نہ ہو، نگار تو ہے!
روانیٴ روش و مستیٴ ادا کہیے
نہیں بہار کو فرصت، نہ ہو بہار تو ہے!
طرواتِ چمن و خوبیٴ ہوا کہیے
سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالب
خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہیے!
 

فریب

محفلین
رونے سے اور عشق میں بیباک ہوگئے
دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہوگئے
صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی
تھے یہ ہی دو حساب سویو ں پاک ہوگئے
رسواے دہر گو ہوئے آوار گی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہوگئے
کہتا ہے کون نالہٴ بلبل کو بے اثر
پردے میں گل کے لاکھ جگر چاک ہوگئے
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہوگئے
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہوگئے
اِس رنگ سے اُٹھائی کل اسُ نے اسد کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہوگئے
 

فریب

محفلین
نشہ ہا شادابِ رنگ و سازہا مستِ طرب
شیشہٴ مے سروِ سبزِ جوئبارِ نغمہ ہے
ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کر نہ بزمِ عیشِ دو
ست واں تو میر ے نا لے کو بھی اعتبارِ نغمہ ہے
 

فریب

محفلین
عرضِ نازِ شوخیٴ دنداں برائے خندہ ہے
دعویٴ جمعیتِ احباب جائے خندہ ہے
ہے عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گل
یک جہاں زانو، تامّل در فقائے خندہ ہے
کلفتِ افسردگی کو عیشِ بیتابی حرام
ورنہ دنداں در دل افشردن بنائے خندہ ہے
سوزش ِ باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیطِ گریہٴ و لب آشنائے خندہ ہے
 

فریب

محفلین
حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے
آئينہ زانوئے فکرِ اختراعِ جلوہ ہے
تا کجا اے آگہی رنگِ تماشا باختن ؟
شمِ وا گردیدہ آغوشِ وداعِ جلوہ ہے
 

فریب

محفلین
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی
عالَم غبارِ وحشتِ مجنوں ہے سربسر
کب تک خیال طّرہٴ لیلیٰ کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی
رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عقدہٴ دل وا کرے کوئی
چاکِ جگر سے جب رہِ پرسش نہ وا ہو ئی
کیا فائدہ کہ جیب کو رسوا کرے کوئی
لختِ جگر سے ہے رگِ ہر خار شاخِ گل
تا چند باغبانیٴ صحرا کرے کوئی
ناکامیٴ نگاہ ہے برقِ نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
ہر سنگ و خشت ہے صدفِ گوہرِ شکست
نقصاں نہیں، جنوں سے جو سودا کرے کوئی
سر بر ہوئی نہ وعدہٴ صبر آزما سے عمر
فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی
ہے وحشتِ طبیعتِ ایجاد یاس خیز
یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
بیکاریٴ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
حسنِ فروغِ شمعِ سخن دور ہے اسد
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی
 

الف عین

لائبریرین
مثنوی

ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
لے کے دل سر رشتۂ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے کَنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا
میں کہا، اے دل، ہوائے دلبراں!
بس کہ تیرے حق میں رکھتی ہے زباں
بیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
یہ نہیں ہوں گے کِسو کے یارِ غار
گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے دال کر
اب تو مِل جائے گی ان سے تیری گانٹھ
لیکن آخر کو پڑے گی ایسی سانٹھ
سخت مشکل ہوگا سمجھانا تجھے
قہر ہے، دل ان میں الجھانا تجھے
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت، اس پر اُڑاتے ہیں تجھے
ایک دن تکھ کو لرا دیں گے کہیں
مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں
ون نے سن کر کانپ کر کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر، دیا کٹ کر جواب
رشتۂ در گردنم افگندہ دوست
می بُرد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست
 

الف عین

لائبریرین
خمسہ

تضمین بر غزل بہادر شاہ ظفر

گھستے گھستے پاؤں کی زنجیر آدھی رہ گئی
مر گئے پر قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی
سب ہی پڑھتا کاش، کیوں تکبیر آدھی رہ گئی
"کھنچ کے، قاتل! جب تری شمشیر آدھی رہ گئی
غم سے جانِ عاشقِ دل گیر آدھی رہ گئی"

بیٹھ رہتا لے کے چشمِ پُر نم اس کے روبروُ
کیوں کہا تو نے کہ کہہ دک غم اس کے روبرو
بات کرنے میں نکلتا ہے دم اس کے روبرو
"کہہ سکے ساری حقیقت نے ہم اس کے روبرو
ہم نشیں! آدھی ہوئی تقریر آدھی رہ گئی"

تو نے دیکھا! مجھ پہ کیسی بن گئی، اے رازدار!
خواب و بیداری پہ کب ہے آدمی کو اختیار
مثلِ زخم آنکھوں کو سی دیتا، جو ہوتا ہوشیار
"کھینچتا تھا رات کو میں خواب میں تصویرِ یار
جاگ اٹھا جو، کھینچنی تصویر آدھی رہ گئی"

غم نے جب گھیرا، تو چاہا ہم نے یوں، اے دل نواز!
مستئِ چشمِ سیہ سے چل کے ہوویں چارہ ساز
توُ صدائے پا سے جاگا تھا، جو محوِ خوابِ ناز
"دیکھتے ہی اے ستم گر! تیری چشمِ نیم باز
کی تھی پوری ہم نے جو تدبیر، آدھی رہ گئی"

اس بتِ مغرور کو کیا ہو کسی پر التفات
جس کے حسنِ روز افزوں کی یہ اک ادنیٰ ہے بات
ماہِ نو نکلے پہ گزری ہوں گی راتیں پان سات
"اس رُخِ روشن کے آگے ماہِ یک ہفتہ کی رات
تابشِ خورشیدِ پُر تنویر آدھی رہ گئی"

تا مجھے پہنچائے کاہش، سخت بد ہے گھات میں
ہاں فراوانی! اگر کچھ ہے، تو ہے آفات میں
جُز غم و رنج و الم، گھاٹا ہے ہر اک بات میں
"کم نصیبی اس کو کہتے ہیں کہ میرے ہات میں
آتے ہی خاصیّتِ اکسیر آدھی رہ گئی"

سب سے یہ گوشہ کنارے ہے، گلے لگ جا مرے
آدمی کو کیا پکارے ہے، گلے لگ جا مرے
سر سے گر چادر اتارے ہے، گلے لگ جا مرے
"مانگ کیا بیٹھا سنوارے ہے، گلے لگ جا مرے
وصل کی شب، اے بتِ بے پیر آدھی رہ گئی"

میں یہ کیا جانوں کہ وہ کس واسطے ہوں پھِر گئے
پھر نصیب اپنا، انھیں جاتا سنا، جوں پھر گئے
دیکھنا قسمت وہ آئے، اور پھر یوں پھِر گئے
"آ کے آدھی دور، میرے گھر سے وہ کیوں پھِر گئے
کیا کشش میں دل کی ان تاثیر آدھی رہ گئی"

ناگہاں یاد آگئی ہے مجھ کو، یا رب! کس کی بات
کچھ نہیں کہتا کسی سے سن رہا ہوں تیری بات
کس لئے تجھ سے چھپاؤں، ہاں! وہ پرسوں شب کی رات
"نامہ بر جلدی میں تیری وہ جو تھی مطلب کی بات
خط میں آدھی ہو سکی، تحریر آدھی رہ گئی"

ہو تجلّی برق کی صورت میں ہے یہ بھی غضب
ہاں چھہ گھنٹے کی تو ہوتی فرصتِ عیش و طرب
شام سے آتے تو کیا اچھی گزرتی رات سب
"پاس میرے وہ جو آئے بھی، تو بعد از نصف شب
نکلی آدھی حسرت، اے تقدیر! آدھی رہ گئی"

تم جو فرماتے ہو، دیکھ اے غالبِ آشفتہ سر
ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے، گیا کیوں اُس کے گھر؟
جان کی پاؤں اماں، باتیں یہ سب سچ ہیں مگر
""دل نے کی ساری خرابی، لے گیا مجھ کو ظفر
واں کے جانے میں مری توقیر آدھی رہ گئی"
 

الف عین

لائبریرین
مرثیہ:

ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک سے رواں ہو
اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰ پہ فغاں ہو
اے ماتمیانِ شہِ مظلوم! کہاں ہو

بگڑی ہے بہت بات، بنائے نہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں ابنتی

تابِ سخن و طاقتِ غوغا نہیں ہم کو
ماتم میں شہِ دیں کے ہیں، سودا نہیں ہم کو
گھر پھونکنے میں اپنے، مُحابا نہیں ہم کو
گر چرخ بھی جل جائے تو پروا نہیں ہم کو

یہ خرگۂ نُہ پایا جو مدّت سے بَپا ہے
کیا خیمۂ شبّیر سے رتبے میں سِوا ہے؟

کچھ اور ہی عالم نظر آیا ہے جہاں کا
کچھ اور ہی نقشہ ہے دل و چشم و زباں کا
کیسا فلک! اور مہرِ جہاں تاب کہاں کا!
ہوگا دلِ بےتاب کسی سوختہ جاں کا

اب صاعقہ و مہر میں کچھ فرق نہیں ہے
گِرتا نہیں اس روُ سے کہو برق نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
سلام

سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو
خدا کی راہ میں ہے شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ رااہِ خدا کہیں اُس کو
خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو
فروغِ جوہرِ ایماں حسین ابنِ علی
کہ شمعِ انجمنِ کبریا ا کہیں اُس کو
کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو
مسیح جس سے کرے اضذِ فیضِ جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو
وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل
شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو
عدو کی سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات
کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو
بہت ہے پارۂ گردِ رہِ حسین بلند
بقدرِ فہم ہے گر کیمیا کہیں اُس کو
نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک
کہ لوگ جوہرِ تیغِ قضا کہیں اُس کو
ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو
ہمارا منہ ہے کہ دیں اس کے حسنِ صبر کی داد
مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو
زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں
پس از حسین علی پیشوا کہیں اُس کو
وہ ریگِ لقمۂ وادی میں خامہ فرسا ہے
کہ طاالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو
امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد
پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اُس کو
یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں
علی سے آگے لڑے اور خطا کہیں اُس کو
یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
بُرا نہ ماننئے گر ہم بُرا کہیں اُس کو
علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟
نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے
رکھے اسمام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟
بھرا ہے غالبِ دِل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو
 
Top