دیوان غالب

فریب

محفلین
یہ ہم ہیں جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
ترے جواہرِ طرفِ کلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں
 

فریب

محفلین
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں
کوئی کہے کہ “شبِ ماہ میں کیا بُرائی ہے“
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں
جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں
کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں
کہ “ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں“
علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کُوچہء مے خانہ نامراد نہیں
جہاں میں ہو غم و شادی بہم ہمیں کیا کام
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں
تم اُن کے وعدے کا ذکر اُن سے کیوں کرو غالب
یہ کیا؟ کہ تم کہو، اور وہ کہیں کہ“یاد نہیں“
 

فریب

محفلین
ترے توسن کو صبا باندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں
آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں
تری فرصت کے مقابل اے عُمر!
برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں
قیدِ ہستی سے رہائی معلوم!
اشک کو بے سروپا باندھتے ہیں
نشہء رنگ سے ہے واشدِ کل
مست کب بندِ قبا باندھتے ہیں
غلطی ہائے مضامیں مت پُوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
اہلِ تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
سادہ پُرکار ہیں خوباں غالب
ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں
 

فریب

محفلین
غنچہء ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سے بتا کہ یُوں
پُرسشِ طرزِ دلبری کیجئے کیا کہ بن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے نکے ہے یہ ادا کہ یُوں
رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یُوں
“غیر سے رات کیا بنی“ یہ جو کہا تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا، اور یہ دیکھنا کہ یُوں
بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے
اُس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ یُوں
میں نے کہا کہ “ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی“
سُن کر ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں
مجھ سے کہا جو یار نے “جاتے ہیں ہوش کس طرح“
دیکھ کے میری بیخودی چلنے لگی ہوا کہ یُوں
کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یُوں
گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال
موجِ محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یُوں
جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر ہو رشکِ فارسی
گفتہء غالب ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یُوں
 

فریب

محفلین
دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہُوں کافر نہیں ہُوں میں
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟
لعل و زمرّد و زر و گوھر نہیں ہُوں میں
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہُوں میں؟
کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں
 

رضوان

محفلین
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرمِ تماشا ہو
کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو


بہ قدرِ حسرتِ دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی
بھروں یک گوشہ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو


اگر وہ سرو قد گرمِ خرامِ ناز آ جاوے
کفِ ہر خاکِ گلشن شکلِ قمری نالہ فرسا ہو​
 

رضوان

محفلین
کعبے میں جا رہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں
بھولا ہوں حقِّ صحبتِ اہلِ کنشت کو


طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسمِ ثواب سے
ٹیڑھا لگا ہے قط قلمِ سرنوشت کو

غالب کچھ اپنی سعی سے لینا نہیں مجھے
خرمن جلے اگر نہ ملخ کھائے کشت کو​
 

رضوان

محفلین
وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو

چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو


ہے مجھ کو تجھ سے تذکرہ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو


پیدا ہوئی ہے کہتے ہیں ہر درد کی دوا
یوں ہو تو چارہ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو


ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو


ہے آدمی بجاے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو


ہنگامہ زبونیِ ہمّت ہے انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو


وارستگی بہانہ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر نہ غیر سے وحشت ہی کیوں نہ ہو


مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی
عمرِ عزیز صرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو


اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسد
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو​
 

رضوان

محفلین
قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجانِ گلشن کو


نہیں گر ہمدمی آساں نہ ہو یہ رشک کیا کم ہے
نہ دی ہوتی خدا یا آرزوئے دوست دشمن کو


نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر
کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگانِ سوزن کو


خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں
کبھی میرے گریباں کو کبھی جاناں کے دامن کو


ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
نہیں دیکھا شناور جوئے خوں میں تیرے توسن کو


ہوا چرچا جو میرے پانو کی زنجیر بنّے کا
کیا بیتاب کاں میں جنبشِ جوہر نے آہن کو


خوشی کیا کھیت پر میرے اگر سو بار ابر آوے
سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈھے ہے ابھی سے برق خرمن کو


وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑھو برہمن کو


شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خو مجھ کو
جہاں تلوار کو دیکھا جھکا دیتا تھا گردن کو


نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بیخبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو


سخن کیا کہ نہیں سکتے کہ جویا ہوں جواہر کے
جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جا کے معدن کو


مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالب
فریدون و جم و کیخسرو و داراب و بہمن کو​
 

رضوان

محفلین
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پانو
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پانو


دی سادگی سے جان پڑوں کوہکن کے پانو
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گیے پیر زن کے پانو


بھاگے تھے ہم بہت سو اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پانو


مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور
تن سے سوا فگار ہیں اس خستہ تن کے پانو


اللہ رے ذوقِ دشت نوردی کہ بعدِ مرگ
ہلتے ہیں خود بہ خود مرے اندر کفن کے پانو


ہے جوشِ گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف
اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغِ چمن کے پانو


شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دکھتے ہیں آج اس بتِ نازک بدن کے پانو


غالب مرے کلام میں کیونکر مزہ نہ ہو
پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پانو​
 

رضوان

محفلین
واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو


اپنے کو دیکھتا نہیں ذوقِ ستم کو دیکھ
آئینہ تاکہ دیدہ نخچیر سے نہ ہو​
 

رضوان

محفلین
واں پہنچ کر جو غش آتا پائے ہم ہے ہم کو
صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو


دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوقِ گرفتاریِ ہم ہے ہم کو


ضعف سے نقشِ پاے مور ہے طوقِ گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو


جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امّید بھی ہو
یہ نگاہ غلط انداز تو سم ہے ہم کو


رشکِ ہم طرحی و دردِ اثرِ بانگِ حزیں
نالہ مرغِ سحر تیغِ دو دم ہے ہم کو


سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرّر چاہا
ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو


دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ ولیکن ناچار
پاسِ بے رونقیِ دیدہ اہم ہے ہم کو


تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو


لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوسِ سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو

مقطعِ سلسلہ شوق نہیں ہے یہ شہر
عزمِ سیرِ نجف و طوافِ حرم ہے ہم کو


لیے جاتی ہے کہیں ایک توقّع غالب
جادہ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
 

رضوان

محفلین
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو


بچتے نہیں مواخذہ روزِ حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو


کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا شناس ہیں
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو


ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو

جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو

سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے وہ ترا جلوہ گاہ ہو


غالب بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں
دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو
 

رضوان

محفلین
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیونکر ہو

ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں ہو تو کیونکر ہو


ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیونکر ہو


تمہیں کہو کہ گزارا سنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیونکر ہو


الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو


جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو


ہمیں پھر ان سے امید اور انہیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیونکر ہو


غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلّی کا
نہ مانے دیدہ دیدار جو تو کیونکر ہو


بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فرو تو کیونکر ہو


مجھے جنوں نہیں غالب ولے بہ قولِ حضور
فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیونکر ہو
 

رضوان

محفلین
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو


وہ اپنی خو نہ چھوڑینگے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو


کیا غم خواری نے رسوا لگے آگ اس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا راز داں کیوں ہو


وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو


قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو


یہ کہ سکتے ہو ہم دل میں نہیں ہیں پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو


غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے
نہ کھینچو گر تم اپنے کو کشاکش درمیاں کیوں ہو


یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو


یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو


کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو


نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
 

رضوان

محفلین
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو


پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو بیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
 

رضوان

محفلین
از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئنہ
طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئنہ


×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××
ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ


ناچار بیکسی کی بھی حسرت اٹھائیے
دشواریِ رہ و ستمِ ہم رہاں نہ پوچھ
 

فریب

محفلین
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گیئں
خال میں کیا کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گیئں!
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گیئں
تھیں بنات النّوشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گیئں
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گیئں
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش، پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماِ کنعاں ہو گیئں
جُوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گیئں
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گیئں
نیند اُس کی ہے، دماغ اُس کا ہے، راتیں اُس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گیئں
میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کُھل گیا
بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہو گیئں
وہ نگاہیں کیوں ہُوئی جاتی ہیں یارب دل کے پار؟
جو مری کاتاہئ قسمت سے مژگاں ہو گیئں
بس کہ روکا میں نے اور سینے میں اُبھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیئہ چاکِ گریباں ہو گیئں
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا ضواب؟
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گیئں
جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہو گیئں
ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسُوم
ملّتیں جب مٹ گیئں اجزائے ایماں ہو گیئں
رنج سے خُوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گیئں
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہماری جیب میں اک تار بھی نہیں
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
بے عشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں
طاقت بہ قدرِلذّتِ آزار بھی نہیں
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہپیں
گنجائشِ عداوتِ اگیار اک طرف
یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یار بھی نہیں
ڈر نالہ ہائے زار سے میرے، خُدا کو مان
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں
دل میں ہے یار کی صفِ مثگاں سے روکشی
حالانکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں
اس سادگی پہ کوں نہ مر جائے اے خُدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
دیکھا اسد کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ہو رخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں
ہُوا ہے تارِ اشک یاس رشتہ چشمِ سوزن میں
ہُوئی ہے مانعِ ذوقِ تماشا خانہ ویرانی
کفِسیلاب باقی ہے برنگِ پنبہ روزن میں
ودیعت خانہء بے دادِ کاوش ہائے مژگاں ہوں
نگیں نامِ شاہد ہے مرے ہر قطرہ خوں تن میں
بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شبِ مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں
نکو ہش مانعِ بے ربطئ شورِ جنوں آئی
ہُوا ہے خندہ احباب بخیہ جیب و دامن میں
ہوئے اُس مہروش کے جلوہ تمثال کے آگے
پرافشاں جو ہرآئینہ میں مثلِ ذرّہ روزن میں
نہ جانوں نیک ہُوں یا بد ہُوں، پر صحبت مخالف ہے
جو گُل ہُوں تو ہُوں گلخن میں جو خس ہُوں تو ہُوں گلشن میں
ہزاروں دل دیئے جوشِ جنونِ عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرہ خوں تن میں
اسد زندانئی تاثیرِ الفت ہائے خوباں ہُوں
خمِ دستِ نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں
مگر غبار ہُوے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیر جلوہء گُل رہ گزر میں خاک نہیں
بھلا اُسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں
خیالِ جلوہ گُل سے خراب ہیں میکش
شراب خانہ کے دیوار و در میں خاک نہیں
ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر گھر میں خاک نہیں
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسد
کُھلا، کہ فائدہ عرغِ ہُنر میں خاک نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں؟
دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیتھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں؟
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائیں کیوں؟
دشنہء غمزہ جاں ستاں، ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رُخ سہی، سامنے تیرے آئے ہی کیوں؟
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
حسن اور اس پہ حسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں؟
واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں؟
ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟
غالب خشتہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

رضوان

محفلین
صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے


ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ہنوز منّتِ طفلاں اٹھائیے


دیوار بارِ منّتِ مزدور سے ہے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے


یا میرے زخمِ رشک کو رسوا نہ کیجیے
یا پردہ تبسّمِ پنہاں اٹھائیے
 

رضوان

محفلین
مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
بھوں پاس آنکھ قبلہ حاجات چاہیے


عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے


دے داد اے فلک دلِ حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے


سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوّری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے


مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے




نشو و نما ہے اصل سے غالب فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے


ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے


سر پاے خم پہ چاہیے ہنگامِ بے خودی
رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے


یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانہ صفات
عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے
 
Top