(١)
دیوان مجروح
یعنی
گوہر دریائے سخن ۔ ماہر رموز فن
جناب میر مہدی صاحب مجروح دہلوی مرحوم
شاگرد رشید
حضرت نجم الدولہ دبیر الملک اسد اللہ خان غالب
حسب فرمایش
عبدالعزیز تاجر کتب لاہور
قیمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٢)
(ا)
ہوالجمیل
میر مہدی مجروح دہلوی
میر مہدی حسین نام ، حسن و عشق کے زخم خوردہ مجروح تخلص کرتے
تھے ۔ شاعری والد کی طرف سے ورثہ میں ملی تھی ۔ ان کا خاندان مغلوں کی
آخری ؟؟؟؟ میں ایران سے آیا تھا ۔ سادات نجیب الطرفین صاحب اخلاق
حسنہ علم و فضل میں یگانہ ہونے کی وجہ سے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ نسلابعد نسلا چلی آتی تھی ۔ سن پیدائیش ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہے کہ غدر میں پچیس سالہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بچپن میں نہایت شوخ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اور نیلی آنکھوں کے مالک تھے ۔
جوانی میں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ لباس ٹھیٹھ دلی والوں کا پہنتے تھے ۔ ؟؟؟؟
ٹوپی ۔ ڈھاکے کے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ نیچی چولی کا انگرکھا ۔اس کے نیچے گلشن کا کرتہ ۔
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔ اور یہی وضع مرتے دم تک ؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔
ابتدائی تعلیم گھر میں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ دولت علم ؟؟؟؟؟ سے مالا مال ہو رہا
(؟؟؟؟؟؟؟؟) یہ تحریر پڑھی نہیں جاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٣)
(ب)
تھا ۔ ان کے والد بہت بڑے عالم اور نزاکت آفریں شاعر تھے ۔ چچا میر حسن
فارسی نثر میں ید طولی رکھتے تھے ۔ برادر شفیع میر سرفراز حسین جن کے نام حضرت غالب
کے مکتوبات بھرے پڑے ہیں ۔ عربی فارسی کے شہر بھر میں ایک مستند عالم
مانے جاتے تھے ۔ ایسے گلدستہ کے ایک پھول میر مہدی حسن مجروح بھی تھے ۔
لڑکپن سے ہی شاہد سخن کی پرستاری شروع کر دی تھی ۔ ذرا ہوش سنبھالا تو بزرگوں
کے ساتھ ذوق و غالب و مومن و صہبائی کے جلسے اور بزم آرائیاں دیکھیں اور
اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے شعر و سخن کے ہاتھ بیچ ڈالا ۔
چنانچہ اسی جذبہ شوق اور بیتابی طبیعت کی مناسبت نے حضرت غالب
تک پہنچایا ۔ بھلا خیال کرنا چاہئے کہ جس نخل بار آور کی ترقی میں حضرت غالب
جیسے استاد کا ہاتھ کارفرمائی کرے ۔ اس کی بلندی اور حسن کہانتک پہنچا ہو گا ۔ مگر دنیا میں
بہت پھول ایسے ہیں جو کسی کی گردن کا ہار ہونیسے اپنی جڑ میں مرجھا کر فنا ہو جانا بہتر
سمجھتے ہیں ۔ چند ساعت کے لئے اپنے حسن کو کسی طرہ کے لئے ضایع نہیں کرتے
بلکہ دنوں نسیم سحری کے ساتھ ساتھ کھلتے پھرتے ہیں ۔
میر صاحب کی شاعری پیشہ نہ تھی ۔ خداداد لطف تھا ۔ طبیعت کا ذوق تھا
جو شعروں میں اپنے معنے اور نزاکت بیان کرتا تھا ۔ اس کا اندازہ کرنا بہت دشوار
ہے ۔ کچھ تھوڑا سا پتہ اردو معلے اور عود ہندی سے لگتا ہے ۔ جہاں جگہ جگہ حضرت غالب
جیسا نقاد پھر میر صاحب کا استاد میر صاحب کے ساتھ اس انداز سے باتیں
کرتا ہے ۔ جیسے عاشق اپنے معشوق سے ۔ برابر کا سخن فہم اپنے رازدار سخن سے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٍ