رضوان
محفلین
وہاب اعجاز خان کی تیزگامی کی نظیر کم از کم محفل میں تو نہیں ملتی۔ دو ہی دنوں بلکہ راتوں میں انہوں نے کام تقریباً نبیڑ ڈالا۔
ناصر کاظمی کے دیوان پر کام کرنے کے لیے وہاب رات کا دوسرا پہر چنتے ہیں اور بقول ناصر:
اس نغمگی اور با معنی سریلے پن کے چند نمونے حاضر ہیں جن کی وجہ سے کتنی ہی محافل موسیقی کامرانیوں سے ہمکنار ہوئیں۔
ناصر کاظمی کے دیوان پر کام کرنے کے لیے وہاب رات کا دوسرا پہر چنتے ہیں اور بقول ناصر:
رات اندھیری ہے تو اپنے دھیان کی مشعل جلا
قافلے والوں میں کس کو کس کی پروا ہے نہ پوچھ
اتنے عمدہ کلام کو محفل پر شیئر کرنے کے لیے وہاب اعجاز کا شکریہ۔ اب پروف ریڈنگ کے لیے کون ساتھی آگے آتے ہیں تاکہ یہ دیوان ایک ریکارڈ وقت میں پایا تکمیل کو پہنچے۔ قافلے والوں میں کس کو کس کی پروا ہے نہ پوچھ
اس نغمگی اور با معنی سریلے پن کے چند نمونے حاضر ہیں جن کی وجہ سے کتنی ہی محافل موسیقی کامرانیوں سے ہمکنار ہوئیں۔
دل میں اک لہر سے اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانہء دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر کی رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
اور پھر یہ اشعار بھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانہء دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر کی رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
اُسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے
دم گُھٹا جاتا ہے ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے
میں بھی بیکار ہوں اور تم بھی ہو ویران بہت
دوستو آج نہ گھر جاؤ کہ کچھ رات کٹے
چھوڑ آئے ہو سرشام اُسے کیوں ناصر
اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ کہ کچھ رات کٹے
اُسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے
دم گُھٹا جاتا ہے ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے
میں بھی بیکار ہوں اور تم بھی ہو ویران بہت
دوستو آج نہ گھر جاؤ کہ کچھ رات کٹے
چھوڑ آئے ہو سرشام اُسے کیوں ناصر
اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ کہ کچھ رات کٹے