شکریہ پسندیدگی کا مجھے اس غزل کے متعلق یہ جاننا تھا کیا یہ غزل مکمل ہے اس کے کوئی اشعار بھی ہیں؟ محترم
شمشاد قیصرانی فاتح
نہیں! نہ تو یہ غزل مکمل ہے اور نہ ہی اشعار درست۔۔۔ درست اشعار کے ساتھ مکمل غزل یوں ہے:
دیکھتا جا ادھر او قہر سے ڈرنے والے
نیچے نظریں کیے محشر میں گذرنے والے
راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گذرنے والے
ہم تو جاتے ہیں، ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے
قلزمِ عشق سے اے خضر! ہمیں خوف نہیں
بیٹھ کر تہ میں ابھرتے ہیں ابھرنے والے
اس گذرگاہ سے پہنچیں تو کہیں منزل تک
جیسے گذرے گی گذرایں گے گذرنے والے
منہ نہ پھیرا جگر و دل نے صفِ مژگاں سے
سچ تو یہ، وہ بھی برے ہوتے ہیں مرنے والے
ہو کے لبریز نہ چھلکے گا مرا ساغرِ دل
میکدے سو ہوں اگر لاکھ ہوں بھرنے والے
ایک تو حسن بلا، اس پہ بناوٹ آفت
گھر بگاڑیں گے ہزاروں کے سنورنے والے
کیا جہانِ گذَراں میں بھی لگے ہے گذری
مول لے جاتے ہیں غم یاں سے گذرنے والے
قتل ہوں گے ترے ہاتھوں سے خوشی اس کی ہے
آج اترائے ہوئے پھرتے ہیں مرنے والے
تیرے گیسوئے پریشان نہ کریں سودائی
سر نہ ہو جائیں کسی کے یہ بکھرنے والے
آہ کے ساتھ فلک سے یہ ندائیں آئیں
جل گئے سایۂ طوبیٰ میں ٹھہرنے والے
حشر میں لطف ہوجب ان سے ہوں دو دو باتیں
وہ کہیں، کون ہو تم؟ ہم کہیں، مرنے والے
کشتیِ نوح سے بھی کود پڑوں طوفاں میں
دیں سہارا جو مجھے پار اترنے والے
خوش نوائی نے رکھا ہم کو اسیر اے صیّاد!
ہم سے اچھے رہے صدقے میں اترنے والے
کیا تری کاکلِ شب گُوں کی بلائیں لیں گے
بوالہوس تیرگیِ بخت سے ڈرنے والے
ہے وہی قہر، وہی جبر، وہی کبر و غرور
بت خدا ہیں مگر انصاف نہ کرنے والے
غسل میت کی شہیدوں کو ترے کیا حاجت
بے نہائے بھی نکھرتے ہیں نکھرنے والے
حضرتِ داغؔ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے