دیکھو پیاری لڑکی پچھتاؤگی۔ ایک پشتو آزاد نظم کا نثری ترجمہ

جیہ

لائبریرین
اس قدر خوبصورت نظم
اتنا دلکش ترجمہ
اتنا گہرا اور دیر پا تاثر چھوڑنے والے خیالات
کہ ہم سے رہا نہ گیا
اور ہم نے اس نظم کے اس خوبصورت نثری ترجمے کو فورآ کاپی کرلیا اور آدھی نظم کو فی الفور منظوم قالب میں ڈھال گئے
پھر آلکس نے آلیا
اب ہم ایک سطر روزآنہ کے حساب سے باقی کام کررہے ہیں
اسی باعث آپ کے ٹیگ کو عارضی طور پر نظر انداز کیا کہ آج ہی اس نظم کو مکمل کرکے جواب دے دیں گے
ایسی جلدی بھی کیا ہے


بہت شکریہ بٹیا اس نظم کا ترجمہ پیش کرنے پر
شکریہ آپ کو ترجمہ پسند آیا۔ آپ کے الفاظ میرے سند افتخار ہیں۔

منظوم ترجمے کا شدت سے انتظار ہے
 

جیہ

لائبریرین
بہت خوبصورت اور متاثر کن نظم ہے ۔۔۔ ترجمہ بھی خوب کیا ہے آپ دونوں نے
آن مرغِ طرب کہ نام او بود شباب
افسوس ندانیم کہ کے آمد و کے شد
خیام

شادمانی کا پرندہ نام تھا جسکا شباب
کب خدا معلوم آیا اور کس دم اڑ گیا
صد تشکر
کیا برجستہ شعر پیش کیا ہے آپ نے خیام کا بہت خوب
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
جیہ جی آپ کا ترجمہ اور مغل بھائی کا ترجمہ دونوں ہی خوب ہیں۔
بس یہ کہ مغل بھائی نے اس کی آنچ کو دو آتشہ کردیا۔
اور اس کی حرارت کو بھڑکا دیا۔
آپ کا تو نام ہے جیہ ہے۔
جیو، اور پشتو زبان کے ایسے شیریں میووں سے ہماری طبع آزمائی کرتی رہو۔
اور مغل بھائی آپ کو بھی اللہ سلامت رکھے۔
 

جیہ

لائبریرین
خیام کے شعر پر تو آپ نے بہت خوب کہہ دیا
نیچے میرا منظورم ترجمہ بھی تھا
اس پر چھوٹی سی خوبی ہی کہہ دیتیں تو آپ کیا کیا جاتا :)
اب تو نہیں کہہ سکتی نا ۔ خوشامد کے زمرے میں آئے گا :)







ویسے یہ حقیقت ہے کہ آپ کا ترجمہ روان ہے۔ پتا ہی نہ چلا کہ یہ ترجمہ ہے
 
آخری تدوین:

جیہ

لائبریرین
جیہ جی آپ کا ترجمہ اور مغل بھائی کا ترجمہ دونوں ہی خوب ہیں۔
بس یہ کہ مغل بھائی نے اس کی آنچ کو دو آتشہ کردیا۔
اور اس کی حرارت کو بھڑکا دیا۔
آپ کا تو نام ہے جیہ ہے۔
جیو، اور پشتو زبان کے ایسے شیریں میووں سے ہماری طبع آزمائی کرتی رہو۔
اور مغل بھائی آپ کو بھی اللہ سلامت رکھے۔
شکریہ جناب ان خوب صورت کلمات کے لئے۔ جزاک اللہ
 
بہت خوبصورت اور متاثر کن نظم ہے ۔۔۔ ترجمہ بھی خوب کیا ہے آپ دونوں نے
آن مرغِ طرب کہ نام او بود شباب
افسوس ندانیم کہ کے آمد و کے شد
خیام

شادمانی کا پرندہ نام تھا جسکا شباب
کب خدا معلوم آیا اور کس دم اڑ گیا
شاکر جی کمال کردیا ہے مزاآگیا ہے
زیست رواں کی بادبانی نیا اس دسمبر میں واذا اربعین سنۃ تک جاپہنچی ہے اور اس کا مثل ذوالقرنین مستول زمانے کے سرد و گرم کو سہہ سہہ کر از طرف زوال ہے شائد اسی لیئے شیخ اقبال لاہوری نے ساقی کو کہا تھا کہ کہیں سے ایسی مشروب لا جو کہ مثل آب حیات کا درجہ رکھتا ہوں لیکن ساقی نے مثل خضر عین وقت پر چکمہ دیتے ہوئے کہا جب عروج تھا اس وقت مستی میں کھویا رہا اب تجھے یاد آیا چل اٹھ اللہ کا نام لے کیونکہ فضا میں
ہے فضا میں منتشر اللہ ہو اکبر کی صدا
کونج رہی ہے شائد اسی لیئے کسی صاحب دل نے کہا کہ
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
اور ادھر تو قلت اعمال کا یہ حال ہے کہ
لڑکپن کھیل میں کھویا، جوانی نیند بھر سویا
بڑھاپا دیکھ کر رویا کہ اب چلنے کی باری ہے
 
Top