غزل
دیکھ تُو گھر سے نکل کر گلی میں کیا ہے
تجھ میں کچھ نہ سہی اور کسی میں کیا ہے
کون ہے جو تکتا نہیں ترے چہرے کی جانب
سب میں ہوتی ہے ہوس ، اک مُجھی میں کیا ہے
جو اُفتاد پڑے ، سر سے گذر جاتی ہے
فائدہ اس کے سوا بادہ کشی میں کیا ہے
میں نے یہ سوچ کر روکا نہیں اسے جانے سے
بعد میں بھی یہی ہوگا ، ابھی میں کیا ہے
ثانیوں میں گذر جاتی ہیں صدیاں اکثر
فرق پھر ثانیے اور صدی میں کیا ہے
آدمی کے لیئے رونا بڑی بات ہے نامعلوم
ہنس تو سب سکتے ہیں ، ہنسی میں کیا ہے
شاعر : نامعلوم ( معذرت کیساتھ ) ۔
دیکھ تُو گھر سے نکل کر گلی میں کیا ہے
تجھ میں کچھ نہ سہی اور کسی میں کیا ہے
کون ہے جو تکتا نہیں ترے چہرے کی جانب
سب میں ہوتی ہے ہوس ، اک مُجھی میں کیا ہے
جو اُفتاد پڑے ، سر سے گذر جاتی ہے
فائدہ اس کے سوا بادہ کشی میں کیا ہے
میں نے یہ سوچ کر روکا نہیں اسے جانے سے
بعد میں بھی یہی ہوگا ، ابھی میں کیا ہے
ثانیوں میں گذر جاتی ہیں صدیاں اکثر
فرق پھر ثانیے اور صدی میں کیا ہے
آدمی کے لیئے رونا بڑی بات ہے نامعلوم
ہنس تو سب سکتے ہیں ، ہنسی میں کیا ہے
شاعر : نامعلوم ( معذرت کیساتھ ) ۔