کاشفی
محفلین
اضطرابِ دل
(بہزاد لکھنوی)
دیکھ سکنے کی ہم کو تاب نہیں
آپ کے حُسن کا جواب نہیں
دل کو میرے ہے اضطراب مگر
میری نظروں کو اضطراب نہیں
جس جگہ بھی ہیں آپ کے جلوے
کس کا عالم وہاں خراب نہیں
میری جانب تو یہ نہیں نظریں؟
میری جانب تو یہ خطاب نہیں
کیا نہیں مبتلائے اُلفت میں
کیا مری زندگی عذاب نہیں
کیسا تاریک ہے یہ دل کا جہاں
ان کے جلوے جو بےنقاب نہیں
سامنے اُن کے آج اے بہزاد
ہے، مگر اُتنا اضطراب نہیں
(بہزاد لکھنوی)
دیکھ سکنے کی ہم کو تاب نہیں
آپ کے حُسن کا جواب نہیں
دل کو میرے ہے اضطراب مگر
میری نظروں کو اضطراب نہیں
جس جگہ بھی ہیں آپ کے جلوے
کس کا عالم وہاں خراب نہیں
میری جانب تو یہ نہیں نظریں؟
میری جانب تو یہ خطاب نہیں
کیا نہیں مبتلائے اُلفت میں
کیا مری زندگی عذاب نہیں
کیسا تاریک ہے یہ دل کا جہاں
ان کے جلوے جو بےنقاب نہیں
سامنے اُن کے آج اے بہزاد
ہے، مگر اُتنا اضطراب نہیں