فرخ منظور
لائبریرین
دیکھ مت دل کی طرف اتنی فراوانی سے
یہ کبھی دام میں آتا نہیں آسانی سے
آج کل اوج پہ ہے حالتِ وحشت اپنی
اور کیا پوچھتے ہو درد کے زندانی سے
بابِ حیرت کبھی کھلتا نہیں آئینے پر
تنگِ دامان و تہی دست ہے عریانی سے
میں تری چشمِ فسوں ساز میں الجھا ایسا
آج تک لوٹ کر آیا نہیں حیرانی سے
اپنے ہمراہ کہاں زادِ سفر رکھتے ہیں
جو محبت کی طرف آئے ہوں نادانی سے
محفلِ عیش و طرب میں بھی گیا ہوں لیکن
دل کو تسکین ملی دشت کی ویرانی سے
جو گزر جائے اسے قصہء ماضی سمجھو
ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا ہے پشیمانی سے
بشکریہ ون اردو (ون اردو پر لکھا ہے یہ غزل کسی آصف شفیع کی ہے لیکن مجھے شک ہے - )
یہ کبھی دام میں آتا نہیں آسانی سے
آج کل اوج پہ ہے حالتِ وحشت اپنی
اور کیا پوچھتے ہو درد کے زندانی سے
بابِ حیرت کبھی کھلتا نہیں آئینے پر
تنگِ دامان و تہی دست ہے عریانی سے
میں تری چشمِ فسوں ساز میں الجھا ایسا
آج تک لوٹ کر آیا نہیں حیرانی سے
اپنے ہمراہ کہاں زادِ سفر رکھتے ہیں
جو محبت کی طرف آئے ہوں نادانی سے
محفلِ عیش و طرب میں بھی گیا ہوں لیکن
دل کو تسکین ملی دشت کی ویرانی سے
جو گزر جائے اسے قصہء ماضی سمجھو
ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا ہے پشیمانی سے
بشکریہ ون اردو (ون اردو پر لکھا ہے یہ غزل کسی آصف شفیع کی ہے لیکن مجھے شک ہے - )