سحر کائنات
محفلین
تحریر : سحرشعیل
ایک عرصہ کے بعد ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا ۔وہاں جا کر احساس ہوا کہ گاؤں کی زندگی کتنی پر سکون ہے۔ایک تسکین،ایک اطمینان اور ایک اپنائیت جو گاؤں کی فضا میں گھلی ہوئی ملی شہر والے اس سےیکسرمحروم ہیں۔سر سبز کھیت،ہریالی،ہوا میں شامل ایک عجیب فرحت بخش مہک سب چیزیں روح میں سرائیت کر رہی تھیں۔بے ساختہ زبان سے سبحان اللہ تعالیٰ نکلا کہ اس ذات نے اس کائنات کو کتنا حسین بنایا ہے اور ہر شے سے اس کی قدرت اور خوب صورتی جھلکتی ہے۔
مجھے احسان دانش کا یہ شعر بار بار یاد آ رہا تھا کہ
دل یہ کہتا ہے فراق انجمن سہنے لگوں
شہر کی شورش کو چھوڑوں اوریہیں رہنے لگوں
یقیناً حضرت احسان دانش بھی ایسی ہی کیفیت سے دو چار ہوئے ہوں گے جبھی تو شہر کے ہنگاموں سے تنگ آ کر گاؤں کی فضاؤں میں بسنے کی آرزو کی۔
گاؤں کی طرف جاتی ہوئی چھوٹی سی سڑک،ہر راہ گیر کے چہرے پر اپنائیت کا احساس،تا حدِّ نگاہ پھیلے ہوئے سبزہ زار،کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان،کہیں کسی جگہ بیلوں کی جوڑی کو ہانکتا ہوا محنت کش،پکے اور کچے پھلوں کی مہک میں لپٹی ہوئی بادِ نسیم ،کھیتوں کے بیچوں بیچ بنی پگڈنڈیاں اور ان سب مناظر کے بیچ مغرب کی طرف رواں شاہ خاور ۔ بلا شبہ یہ سب اسی مصوّر کا شاہکار ہیں جو ربِّ ذوالجلال ہے۔گاوں کے چمن میں کھلتے گلاب،بہتی ہوئی ندیاں،زندگی کی رونقوں کا پتہ دیتے ہوئے علاقائی کھیل اور محبت بھرا لہجہ ہر دیہاتی کا کا خاصہ ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ قدرتی حسن دیہات میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ نما ہے تو غلط نہ ہو گا۔بقول اقبال بخاری
ہر ذرہ عالم میں ترے حسن کا پرتو
ہر پھول کی پتی پہ ترا نام لکھا ہے
گاؤں کی خوب صورتی کو دیکھ کر انسان بے شک یہ سوچتا ہے کہ اس کا ربّ کتنا حسین ہے۔
انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ
"دیہات خدا نے بنائے اور شہر انسان نے"
یہ مقولہ سو فیصد درست ہے ۔خدا کی قدرت حسین ہے اور یہ جھلک دیہات میں نظر آتی ہے۔انسان مزاجاً جلد باز اور مادیت پرستی رکھتا ہے وہ سب شہر کی زندگی میں جھلکتا ہے ۔
یہاں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جہاں گاؤں کے مناظر حسین ہیں وہیں ان میں بسنے والوں کے دل بھی اتنے ہی حسین ہیں۔احساسِ مروت میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ آج بھی قدیم روایات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔دیہات کے باسی اپنے پرائے کا دکھ بانٹتے ہیں اور ہر کسی کی غم گساری کرنا اپنا فرضِ عین جانتے ہیں۔آپ گاؤں چلے جائیں پورا گاؤں آپ کو اپنا مہمان سمجھ کر مہمان نوازی کرے گا۔ہر کوئی سر آنکھوں پر بٹھائے گا۔ ایک گھر کا مہمان گویا پورے گاؤں کا مہمان ہو گا اور جس قدر اپنے پن اور معصومیت سے وہ مہمان سے ملتے ہیں وہ شہری زندگی میں نا پید ہے۔شاید نہیں یقیناً اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ خالص فضا میں سانس لیتے ہیں ،فطرت کے قریب رہتے ہیں تو ان کی عادات و اطوار سے بھی خالص پن جھلکتا ہے۔ بناوٹ اور ریاکاری سے پاک میل جول اور رشتے دکھائی دیتے ہیں۔اس کے برعکس شہر کی زندگی کو لیں تو بے کلی اور افراتفری میں گزارے ہوئے دن رات کے باعث شاید عادتاً بھی ہم ٹھہراؤ اور مزاج میں نا خالص پن نظر آتا ہے۔
اگر ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ دیہات اور ان کی زندگی اس تیز رفتار زندگی میں ایک نعمت سے کم نہیں۔شہر کی زندگی سے اکتا جائیں تو گاؤں کا رخ کریں اور وہاں کی دل کش رنگینیوں میں کھو کر اطمینان اور سکون پائیں۔ایک عام مشاہدہ ہے کہ جس قدر ہم فطرت یعنی نیچر سے قریب ہوتے جائیں گے اتنا ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے دور ہوتے جائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج مصنوعی زندگی گزارتے ہوئے انسان بھی لہجوں،رشتوں اور تعلقات میں مصنوعی ہو گیا ہے۔یہاں ایک اور پہلو بھی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دیہات کی سادہ زندگی اور اس کی خوبصورتی سے لطف بھی اب وہ نسل اٹھاتی ہے جو اس وقت ادھیڑ عمری میں ہے ۔ہمارے نوجوان یا ہمارے بچے اس حسن کی اصل دل فریبی سے لطف اندوز ہونے سے قاصر ہیں کیوں کہ شاید ان کے نزدیک گاؤں اور اس کا حسن محض تصویریں بنانے کے کام آ سکتا ہے۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
قارئین کرام!
اس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ بہت سے دردناک واقعات و حقائق سے بھرپور ہے۔یہ المیوں سے بھرا ہوا عہد ہے۔ہماری تہذیب اور ثقافت کے محل اب کھنڈرات بنتے جا رہے ہیں۔نئے زمانے کی تیز رفتاری اور تند و تیز روشنیوں نے احساسات کے اجالوں کو نگل لیا ہے۔ایسے میں ہر طرف جب منفی تبصروں اور تجزیوں کی بھرمار ہو،مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہماری اقدار اور روایات میں جو کچھ زندہ ہے اس کی قدر کریں اور جس قدر ممکن ہو سکے اس کی اشاعت کریں۔
اس پر آشوب زمانے میں دیہات اور ان کے باسی پرانی روایات کے امین ہیں۔یہ معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو بزرگوں کی وراثت کو ابھی تک سینے سے لگائے ہوئے ہے۔یہ وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہوں نے ورثے کی حفاظت کی ہے ۔ہماری طرح شہروں کی تند و تیز روشنیوں میں گم ہو کر ورثے کو اندھیروں کے حوالے نہیں کیا۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ لوگ تہذیب کے پروردگار ہیں۔انھی کے دم قدم سے معاشرے کی رونقیں آباد ہیں۔ ہمیں اپنے دیہات کی قدر کرنی چاہئیےاور اس انمول خزانے کو سنبھال کر رکھنا چاہیئے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب دیہات اور ان کے باسیوں کے قصے صرف کتابوں تک رہ جائیں گے اور ہم سوائے افسوس کے کچھ نہیں کر سکیں گے۔
ایک عرصہ کے بعد ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا ۔وہاں جا کر احساس ہوا کہ گاؤں کی زندگی کتنی پر سکون ہے۔ایک تسکین،ایک اطمینان اور ایک اپنائیت جو گاؤں کی فضا میں گھلی ہوئی ملی شہر والے اس سےیکسرمحروم ہیں۔سر سبز کھیت،ہریالی،ہوا میں شامل ایک عجیب فرحت بخش مہک سب چیزیں روح میں سرائیت کر رہی تھیں۔بے ساختہ زبان سے سبحان اللہ تعالیٰ نکلا کہ اس ذات نے اس کائنات کو کتنا حسین بنایا ہے اور ہر شے سے اس کی قدرت اور خوب صورتی جھلکتی ہے۔
مجھے احسان دانش کا یہ شعر بار بار یاد آ رہا تھا کہ
دل یہ کہتا ہے فراق انجمن سہنے لگوں
شہر کی شورش کو چھوڑوں اوریہیں رہنے لگوں
یقیناً حضرت احسان دانش بھی ایسی ہی کیفیت سے دو چار ہوئے ہوں گے جبھی تو شہر کے ہنگاموں سے تنگ آ کر گاؤں کی فضاؤں میں بسنے کی آرزو کی۔
گاؤں کی طرف جاتی ہوئی چھوٹی سی سڑک،ہر راہ گیر کے چہرے پر اپنائیت کا احساس،تا حدِّ نگاہ پھیلے ہوئے سبزہ زار،کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان،کہیں کسی جگہ بیلوں کی جوڑی کو ہانکتا ہوا محنت کش،پکے اور کچے پھلوں کی مہک میں لپٹی ہوئی بادِ نسیم ،کھیتوں کے بیچوں بیچ بنی پگڈنڈیاں اور ان سب مناظر کے بیچ مغرب کی طرف رواں شاہ خاور ۔ بلا شبہ یہ سب اسی مصوّر کا شاہکار ہیں جو ربِّ ذوالجلال ہے۔گاوں کے چمن میں کھلتے گلاب،بہتی ہوئی ندیاں،زندگی کی رونقوں کا پتہ دیتے ہوئے علاقائی کھیل اور محبت بھرا لہجہ ہر دیہاتی کا کا خاصہ ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ قدرتی حسن دیہات میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ نما ہے تو غلط نہ ہو گا۔بقول اقبال بخاری
ہر ذرہ عالم میں ترے حسن کا پرتو
ہر پھول کی پتی پہ ترا نام لکھا ہے
گاؤں کی خوب صورتی کو دیکھ کر انسان بے شک یہ سوچتا ہے کہ اس کا ربّ کتنا حسین ہے۔
انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ
"دیہات خدا نے بنائے اور شہر انسان نے"
یہ مقولہ سو فیصد درست ہے ۔خدا کی قدرت حسین ہے اور یہ جھلک دیہات میں نظر آتی ہے۔انسان مزاجاً جلد باز اور مادیت پرستی رکھتا ہے وہ سب شہر کی زندگی میں جھلکتا ہے ۔
یہاں ایک اور بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جہاں گاؤں کے مناظر حسین ہیں وہیں ان میں بسنے والوں کے دل بھی اتنے ہی حسین ہیں۔احساسِ مروت میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ آج بھی قدیم روایات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔دیہات کے باسی اپنے پرائے کا دکھ بانٹتے ہیں اور ہر کسی کی غم گساری کرنا اپنا فرضِ عین جانتے ہیں۔آپ گاؤں چلے جائیں پورا گاؤں آپ کو اپنا مہمان سمجھ کر مہمان نوازی کرے گا۔ہر کوئی سر آنکھوں پر بٹھائے گا۔ ایک گھر کا مہمان گویا پورے گاؤں کا مہمان ہو گا اور جس قدر اپنے پن اور معصومیت سے وہ مہمان سے ملتے ہیں وہ شہری زندگی میں نا پید ہے۔شاید نہیں یقیناً اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ خالص فضا میں سانس لیتے ہیں ،فطرت کے قریب رہتے ہیں تو ان کی عادات و اطوار سے بھی خالص پن جھلکتا ہے۔ بناوٹ اور ریاکاری سے پاک میل جول اور رشتے دکھائی دیتے ہیں۔اس کے برعکس شہر کی زندگی کو لیں تو بے کلی اور افراتفری میں گزارے ہوئے دن رات کے باعث شاید عادتاً بھی ہم ٹھہراؤ اور مزاج میں نا خالص پن نظر آتا ہے۔
اگر ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ دیہات اور ان کی زندگی اس تیز رفتار زندگی میں ایک نعمت سے کم نہیں۔شہر کی زندگی سے اکتا جائیں تو گاؤں کا رخ کریں اور وہاں کی دل کش رنگینیوں میں کھو کر اطمینان اور سکون پائیں۔ایک عام مشاہدہ ہے کہ جس قدر ہم فطرت یعنی نیچر سے قریب ہوتے جائیں گے اتنا ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے دور ہوتے جائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ آج مصنوعی زندگی گزارتے ہوئے انسان بھی لہجوں،رشتوں اور تعلقات میں مصنوعی ہو گیا ہے۔یہاں ایک اور پہلو بھی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دیہات کی سادہ زندگی اور اس کی خوبصورتی سے لطف بھی اب وہ نسل اٹھاتی ہے جو اس وقت ادھیڑ عمری میں ہے ۔ہمارے نوجوان یا ہمارے بچے اس حسن کی اصل دل فریبی سے لطف اندوز ہونے سے قاصر ہیں کیوں کہ شاید ان کے نزدیک گاؤں اور اس کا حسن محض تصویریں بنانے کے کام آ سکتا ہے۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
قارئین کرام!
اس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ بہت سے دردناک واقعات و حقائق سے بھرپور ہے۔یہ المیوں سے بھرا ہوا عہد ہے۔ہماری تہذیب اور ثقافت کے محل اب کھنڈرات بنتے جا رہے ہیں۔نئے زمانے کی تیز رفتاری اور تند و تیز روشنیوں نے احساسات کے اجالوں کو نگل لیا ہے۔ایسے میں ہر طرف جب منفی تبصروں اور تجزیوں کی بھرمار ہو،مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہماری اقدار اور روایات میں جو کچھ زندہ ہے اس کی قدر کریں اور جس قدر ممکن ہو سکے اس کی اشاعت کریں۔
اس پر آشوب زمانے میں دیہات اور ان کے باسی پرانی روایات کے امین ہیں۔یہ معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو بزرگوں کی وراثت کو ابھی تک سینے سے لگائے ہوئے ہے۔یہ وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنہوں نے ورثے کی حفاظت کی ہے ۔ہماری طرح شہروں کی تند و تیز روشنیوں میں گم ہو کر ورثے کو اندھیروں کے حوالے نہیں کیا۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ لوگ تہذیب کے پروردگار ہیں۔انھی کے دم قدم سے معاشرے کی رونقیں آباد ہیں۔ ہمیں اپنے دیہات کی قدر کرنی چاہئیےاور اس انمول خزانے کو سنبھال کر رکھنا چاہیئے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب دیہات اور ان کے باسیوں کے قصے صرف کتابوں تک رہ جائیں گے اور ہم سوائے افسوس کے کچھ نہیں کر سکیں گے۔