محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
"پاؤں" چینی خاتون کا نام ہو گا 🙂شوز کی شاپ پر ایک بزرگ چینی جوڑا دکانداری کے فرائض سنبھالے ہوا تھا۔ چینی مرد تو اچھے خاصے لحیم شحیم تھے جب کہ چینی خاتون سمارٹ اور بظاہر سلیقہ مند اور خوش اخلاق لگتی تھیں۔ چینی مرد تو مردم بے زار لگتا تھا۔ خیر شوز لیے، گھر آیا مگر پھر اس لیے تبدیلی کا ارادہ کیا کہ کچھ فٹ نہیں بیٹھے تھے۔ اگلے دن جب شاپ پر گیا تو صاحب بہادر اپنی نشست پر براجمان تھے۔ چینی خاتون موجود نہ تھیں۔ انہیں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی، مگر اُن کی سمجھ شریف میں یا تو کچھ نہ آیا، یا بھولے بنے بیٹھے رہے۔ میں نے بہ اصرار تین چار بار اپنا مدعا پیش کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے بے دلی سے ایک جواب دیا کہ پاؤں نہیں ہے۔ مجھے اُن کی یہ بات سمجھ نہ آئی۔ جب ایک دو بار وضاحت طلب کی تو وہ یہی جواب دیتے رہے کہ پاؤں نہیں ہے۔ اور اب وہ قدرے غصے میں آتے دکھائی دیے اور قدرے درشت لہجے میں بولے، پاؤں نہیں ہیں۔ ہم نے خوش اخلاق میڈم کو تلاش کیا مگر اُن کا کچھ سراغ نہ ملا۔ اب ہمارا عالم وہی تھا کہ جو دو بہروں کا ہوا جب ایک نے دوسرے سے پوچھا، بھائی تم بازار سے آئے ہو۔ دوسرا بہرا بولا، نہیں، میں بازار سے آیا ہوں۔ پہلا بہرا بولا، اچھا اچھا، میں سمجھا بازار سے آئے ہو۔ یعنی کہ حاصل وصول کچھ نہ ہوا، نہ مجھے ان کی بات سمجھ آئے، نہ انہیں میری بات پلے پڑ رہی تھی، اس مسلسل پاؤں نہیں ہے، پاؤں نہیں ہے کا نتیجہ یہ نکلا کہ الٹے پاؤں پلٹنا پڑا اور وہی نا مراد جوتا ساتھ لیے ہوئے۔ دوبارہ جانے کا ارادہ نہ کر پایا۔