ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی --- مرتضیٰ برلاس

سین خے

محفلین
ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی

ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی
تو پھر نبھے گی کہاں دوستی اگر ہے یہی​

تمہیں دعا بھی ہم آسودگی کی کیسے دیں
جو ہم نے دیکھی ہے آسودگی اگر ہے یہی​

ہمیں بکھرنا تو ہے کل نہیں تو آج سہی
ہمارا کیا ہے تمہاری خوشی اگر ہے یہی​

ابھی نہ جانے ہمیں کتنے دوست کھونے پڑیں
ہماری باتوں میں بے ساختگی اگر ہے یہی​

میں دل میں رکھتا نہیں منہ پہ صاف کہتا ہوں
کمی یہ مجھ میں ہے بے شک کمی اگر ہے یہی​

جو راہ بھٹکوں تو اس کی گلی میں آ نکلوں
خوشا نصیب مری گمرہی اگر ہے یہی​

مثال دینی تو اپنی ہی ذات کی دینی
تو پھر غرور ہے کیا عاجزی اگر ہے یہی

مرتضیٰ برلاس
 
Top