جاسم محمد
محفلین
ذرا چہرہ تو دکھاؤ... پیمنٹ ہوگئی، گھر جاؤ!
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
چینی صارفین کو پوائنٹ آف سیل پر پہنچ کر اپنا چہرہ صرف چند سیکنڈ کےلیے ایک مشین کے سامنے کرنا ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
بیجنگ: اگر یہ عنوان آپ کو عجیب و غریب اور ’’دیوانے کی بڑ‘‘ جیسا لگ رہا ہے تو واضح کردیں کہ اب چہرہ شناسی کے ذریعے رقم کی خودکار ادائیگی کسی خواب و خیال کی بات نہیں رہی بلکہ چین میں یہ سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع کیا جاچکا ہے؛ اور اس کی مقبولیت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
جی ہاں! اب چینی باشندوں کےلیے نقد رقم، کریڈٹ کارڈ، بٹوے اور اسمارٹ فون وغیرہ کی ضرورت ختم ہوتی جارہی ہے کیونکہ بہت سی دکانوں پر اور شاپنگ مالز میں خریداری کرنے کے بعد، رقوم ادا کرنے کےلیے صارفین کو ادائیگی کے مقام (پوائنٹ آف سیل) پر پہنچ کر اپنا چہرہ صرف چند سیکنڈ کےلیے ایک مشین کے سامنے کرنا ہوتا ہے۔
مشین کا خودکار ’’قیافہ شناس‘‘ نظام سب سے پہلے صارف کا چہرہ شناخت کرکے، سرکاری ڈیٹابیس میں موجود اس کی تمام معلومات تک رسائی حاصل کرتا ہے؛ جن میں اس کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات بھی شامل ہوتی ہیں۔ تصدیق مکمل ہوجانے کے بعد، یہی نظام اس خریدار کے بینک اکاؤنٹ سے مطلوبہ رقم، متعلقہ دکان کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کردیتا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس پورے عمل میں صرف چند سیکنڈ لگتے ہیں جبکہ غلطی کا امکان بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
دراصل یہ وہی ٹیکنالوجی ہے جسے چین میں کچھ سال قبل جرائم پیشہ افراد اور ریاست مخالفین کی فوری اور درست شناخت کےلیے وضع کیا گیا تھا۔ پھر یہی ٹیکنالوجی شہریوں کو شناخت کرکے ان کی درجہ بندی (ریٹنگ) میں (یعنی اچھے اور برے شہریوں کا تعین کرنے) میں بھی استعمال کی جانے لگی۔
اب اسے مزید پختگی اور معمولی رد و بدل کے ساتھ، انفرادی لین دین اور ادائیگیوں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کو اس پر شدید اعتراض بھی ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ ٹیکنالوجی حکومت کی جانب سے منفی عزائم کی تکمیل میں بھی استعمال کی جاسکتی ہے؛ لیکن چینی عوام کی اکثریت اس سے مطمئن ہے کیونکہ اب ان کےلیے رقم کی ادائیگی غیرمعمولی طور پر آسان ہوگئی ہے۔
دنیا میں ای کامرس کی بڑی کمپنی ’’علی بابا‘‘ پہلے ہی اپنے ذیلی ادارے ’’علی پے‘‘ کے توسط سے چین کے 100 شہروں میں قیافہ شناس ادائیگی کا نظام نصب کروا چکی ہے۔ اس نظام پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری بھی اسی ادارے نے کی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں ’’وی چیٹ‘‘ کے 60 کروڑ صارفین کی حامل کمپنی ٹین سینٹ بھی اپنے قیافہ شناس نظامِ ادائیگی ’’فراگ پرو‘‘ کے ساتھ اس میدان میں اتر چکی ہے۔ تیانجن کی سپر مارکیٹ ’’آئی فیوری‘‘ اور ہزاروں چھوٹی بڑی دکانیں ان سب کے علاوہ ہیں جو اپنے خریداروں کو صرف ’’چہرہ تو دکھاؤ… پیمنٹ ہوگئی، گھر جاؤ!‘‘ کی عملی تعبیر فراہم کررہی ہے۔
قیافہ شناسی میں مصنوعی ذہانت سے استفادہ کرنے میں چین نے مغربی ممالک کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے ناقدین نے اس ٹیکنالوجی پر یکے بعد دیگر اعتراضات کی بارش کر رکھی ہے۔ البتہ، یہ یقینی ہے کہ قیافہ شناسی میں ترقی ایک ایسا انقلاب ہے کہ جسے روکنا اب کسی کے بس میں نہیں رہا ہے۔
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
چینی صارفین کو پوائنٹ آف سیل پر پہنچ کر اپنا چہرہ صرف چند سیکنڈ کےلیے ایک مشین کے سامنے کرنا ہوتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
بیجنگ: اگر یہ عنوان آپ کو عجیب و غریب اور ’’دیوانے کی بڑ‘‘ جیسا لگ رہا ہے تو واضح کردیں کہ اب چہرہ شناسی کے ذریعے رقم کی خودکار ادائیگی کسی خواب و خیال کی بات نہیں رہی بلکہ چین میں یہ سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع کیا جاچکا ہے؛ اور اس کی مقبولیت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
جی ہاں! اب چینی باشندوں کےلیے نقد رقم، کریڈٹ کارڈ، بٹوے اور اسمارٹ فون وغیرہ کی ضرورت ختم ہوتی جارہی ہے کیونکہ بہت سی دکانوں پر اور شاپنگ مالز میں خریداری کرنے کے بعد، رقوم ادا کرنے کےلیے صارفین کو ادائیگی کے مقام (پوائنٹ آف سیل) پر پہنچ کر اپنا چہرہ صرف چند سیکنڈ کےلیے ایک مشین کے سامنے کرنا ہوتا ہے۔
مشین کا خودکار ’’قیافہ شناس‘‘ نظام سب سے پہلے صارف کا چہرہ شناخت کرکے، سرکاری ڈیٹابیس میں موجود اس کی تمام معلومات تک رسائی حاصل کرتا ہے؛ جن میں اس کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات بھی شامل ہوتی ہیں۔ تصدیق مکمل ہوجانے کے بعد، یہی نظام اس خریدار کے بینک اکاؤنٹ سے مطلوبہ رقم، متعلقہ دکان کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کردیتا ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس پورے عمل میں صرف چند سیکنڈ لگتے ہیں جبکہ غلطی کا امکان بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
دراصل یہ وہی ٹیکنالوجی ہے جسے چین میں کچھ سال قبل جرائم پیشہ افراد اور ریاست مخالفین کی فوری اور درست شناخت کےلیے وضع کیا گیا تھا۔ پھر یہی ٹیکنالوجی شہریوں کو شناخت کرکے ان کی درجہ بندی (ریٹنگ) میں (یعنی اچھے اور برے شہریوں کا تعین کرنے) میں بھی استعمال کی جانے لگی۔
اب اسے مزید پختگی اور معمولی رد و بدل کے ساتھ، انفرادی لین دین اور ادائیگیوں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کو اس پر شدید اعتراض بھی ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ ٹیکنالوجی حکومت کی جانب سے منفی عزائم کی تکمیل میں بھی استعمال کی جاسکتی ہے؛ لیکن چینی عوام کی اکثریت اس سے مطمئن ہے کیونکہ اب ان کےلیے رقم کی ادائیگی غیرمعمولی طور پر آسان ہوگئی ہے۔
دنیا میں ای کامرس کی بڑی کمپنی ’’علی بابا‘‘ پہلے ہی اپنے ذیلی ادارے ’’علی پے‘‘ کے توسط سے چین کے 100 شہروں میں قیافہ شناس ادائیگی کا نظام نصب کروا چکی ہے۔ اس نظام پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری بھی اسی ادارے نے کی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں ’’وی چیٹ‘‘ کے 60 کروڑ صارفین کی حامل کمپنی ٹین سینٹ بھی اپنے قیافہ شناس نظامِ ادائیگی ’’فراگ پرو‘‘ کے ساتھ اس میدان میں اتر چکی ہے۔ تیانجن کی سپر مارکیٹ ’’آئی فیوری‘‘ اور ہزاروں چھوٹی بڑی دکانیں ان سب کے علاوہ ہیں جو اپنے خریداروں کو صرف ’’چہرہ تو دکھاؤ… پیمنٹ ہوگئی، گھر جاؤ!‘‘ کی عملی تعبیر فراہم کررہی ہے۔
قیافہ شناسی میں مصنوعی ذہانت سے استفادہ کرنے میں چین نے مغربی ممالک کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے ناقدین نے اس ٹیکنالوجی پر یکے بعد دیگر اعتراضات کی بارش کر رکھی ہے۔ البتہ، یہ یقینی ہے کہ قیافہ شناسی میں ترقی ایک ایسا انقلاب ہے کہ جسے روکنا اب کسی کے بس میں نہیں رہا ہے۔