محمد شان محسن
محفلین
ذرہ ذرہ شد منور چون کشید از رخ نقاب
آن جمال بے حجاب آمد برون چون آفتاب
جب اس محبوب نے چہرے سے نقاب ہٹایا تو ایک ایک ذرہ منور ہو گیا، وہ بے پردہ جمال آفتاب کی طرح طلوع ہوا۔
بر درد صد پردہ را اگر بر رخ او افگند
حسن بے پروائے او ہرگز نماند در حجاب
اگر کوئی سو پردے بھی اُس کے چہرے پر ڈال دے وہ ان کو پھاڑ دےگا۔ اُس کا حسنِ بے پرواہ ہرگز پردے میں نہیں آتا۔
نازم این شرم و حیا را کان جمال دلفریب
عاشقان را در شب او ہرگز نمے آید بخواب
مجھے اس شرم و حیا پر فخر ہے کہ وہ جمال دلفریب رات کے وقت کبھی عاشقوں کے خواب میں بھی نہیں آتا۔
در جنان بینی رخ جانان بدین چشم حریص
این خیال خام اے زاہد بود نقشے بر آب
اے زاہد! تو محبوب کے چہرے کو جنت میں ان حریص آنکھوں سے دیکھے گا؟ یہ خیال خام ہے اور نقش بر آب ہے (ناممکن) ہے۔
از خمار زہد و تقویٰ سر مرا باشد تہی
من کہ از خُمخانہ وحدت ہمی نوشم شراب
میرا سر زہد و تقویٰ کے خمار سے خالی ہے۔ میں تو وحدت کے خُم خانے سے شراب پیتا ہوں۔
غرق بحر عشق اویم گر کنم قصد نماز
گسترم سجادہ بر آب رواں ہمچوں حباب
میں تو اس کے عشق کے سمندر میں غرق ہوں اگر میں نماز کا قصد کرتا ہوں تو بہتے پانی پر بلبلے کی طرح مصلیٰ بچھاتا ہے۔
جز خلوص و عجز آنجامے نپر سند اے شرفؔ
زاہد از زہد ریائی مے نگردد کامیاب
اے شرفؔ وہاں خلوص و عجز کے بغیر نہیں پوچھتے، زاہد جو ہے وہ اپنے ریاکارانہ زہد سے کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﺷﺮﻑ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ
آن جمال بے حجاب آمد برون چون آفتاب
جب اس محبوب نے چہرے سے نقاب ہٹایا تو ایک ایک ذرہ منور ہو گیا، وہ بے پردہ جمال آفتاب کی طرح طلوع ہوا۔
بر درد صد پردہ را اگر بر رخ او افگند
حسن بے پروائے او ہرگز نماند در حجاب
اگر کوئی سو پردے بھی اُس کے چہرے پر ڈال دے وہ ان کو پھاڑ دےگا۔ اُس کا حسنِ بے پرواہ ہرگز پردے میں نہیں آتا۔
نازم این شرم و حیا را کان جمال دلفریب
عاشقان را در شب او ہرگز نمے آید بخواب
مجھے اس شرم و حیا پر فخر ہے کہ وہ جمال دلفریب رات کے وقت کبھی عاشقوں کے خواب میں بھی نہیں آتا۔
در جنان بینی رخ جانان بدین چشم حریص
این خیال خام اے زاہد بود نقشے بر آب
اے زاہد! تو محبوب کے چہرے کو جنت میں ان حریص آنکھوں سے دیکھے گا؟ یہ خیال خام ہے اور نقش بر آب ہے (ناممکن) ہے۔
از خمار زہد و تقویٰ سر مرا باشد تہی
من کہ از خُمخانہ وحدت ہمی نوشم شراب
میرا سر زہد و تقویٰ کے خمار سے خالی ہے۔ میں تو وحدت کے خُم خانے سے شراب پیتا ہوں۔
غرق بحر عشق اویم گر کنم قصد نماز
گسترم سجادہ بر آب رواں ہمچوں حباب
میں تو اس کے عشق کے سمندر میں غرق ہوں اگر میں نماز کا قصد کرتا ہوں تو بہتے پانی پر بلبلے کی طرح مصلیٰ بچھاتا ہے۔
جز خلوص و عجز آنجامے نپر سند اے شرفؔ
زاہد از زہد ریائی مے نگردد کامیاب
اے شرفؔ وہاں خلوص و عجز کے بغیر نہیں پوچھتے، زاہد جو ہے وہ اپنے ریاکارانہ زہد سے کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﺷﺮﻑ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭؒ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ
آخری تدوین: