ذلت و رسوائی ہمارا ہی مقدر کیوں

راشد احمد

محفلین
قیام پاکستان سے اب تک نہ تو ہم نے کچھ سیکھا اور نہ ہی ہماری قیادت نے۔ وہی ماضی کی غلطیاں، ماضی کے شورشرابے، تصادم، وہی قیادت جو کبھی ماضی میں ایک دوسرے کے دست وگریبان ہوا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ہم نے ماضی میں جو غلطیاں کی تھیں۔ اب بھی وہی کررہے ہیں بہتر ہوگا کہ اگر کہا جائے کہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک غلطیاں۔۔۔ کوئی ہماری رائے کے خلاف جائے تو ہم اسے اپنا دشمن گردانتے ہیں۔

ہم ماضی میں زندہ رہنے والی قوم ہیں۔ اپنے اسلاف کے کارنامے بڑے فخرسے سناتے ہیں لیکن ان سے سیکھتے کچھ نہیں۔ ہماری حالت اسی کنگال شخص کی سی ہے جو ماضی میں کافی مالدار ہوا کرتا تھا، جو اپنے ماضی کے بنک بیلنس، جائیداد اور عیاشیوں کے بارے میں دوسروں کو بتاتاپھرتا ہے۔ لیکن خود اپنا ماضی واپس لانے کی کوشش نہیں کرتا۔

ایک خاموشی ہے جو ٹوٹتی نہیں، زبان ہے کہ کچھ بولنے سے گھبراتی ہے، دماغ ہے کہ سوائے دوجمع دو چارروٹیاں کے علاوہ کچھ نہیں سوچتا، دل ہے کہ بس حالات پر کڑھتا ہی رہتا ہے، آنکھیں ہیں کہ بند ہیں کہ ہم سچ نہیں دیکھنا چاہتے۔ جسم ہے لیکن بے سدھ۔ قدم ہیں کہ کچھ کرنے سے پہلے ہی ڈگمگاجاتے ہیں۔ پریشانی، ملامت، غصہ، عدم برداشت، بے حسی اور نہ جانے کیا کیا ہم میں ہے۔

ذات پات، مسلک، صوبائی عصبیت، بے حسی سے نکلنے کو تیار نہیں، ہر شخص کا اپنا نعرہ ہے، ایک شخص دوسرے شخص سے خفا ہے، کسی پہ اعتبار نہیں، انتظار کررہے ہیں کہ کوئی اچھا رہنما ملے اور ہمیں اس حصار سے نکالے، لیکن اپنی رہنمائی نہیں کرتے، سچ سننے، بولنے کی سکت ہم میں نہیں رہی اور نہ ہی سچ سننا چاہتے ہیں۔ کوئی سچ بولےتو برداشت کرنے کوتیار نہیں، چوروں کو ہم اپنا رہبر بنائے بیٹھے ہیں۔ دشمنوں کو دوست بنائے بیٹھے ہیں۔ حالات پردل ہی دل میں کڑھ رہے ہیں، حکومت پر تنقید کررہے ہیں لیکن کوئی عملی قدم نہیں، بس وہی نان ونفقہ، بنیادی ضروریات. آٹا، گھی، پٹرول، چینی، سبزیاں روپے مہنگا ہوجائے تو بس میں سفر کرتے ہوئے حکومت کو کوس رہے ہوتے ہیں. لیکن کوئی احتجاج نہیں بس لوگوں کو سنایا اور چپ اور دوسرے بھی آپ کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں اور آپ مطمئن. ہماری سوچ آٹا، گھی، دالیں، چینی اور دیگر بنیادی ضروریات سے آگے نہیں بڑھتی.

حکومت کو فری ہینڈ دے دیتے ہیں کہ جو مرضی آئے، بجلی بندکرنی ہے تو کرے، پٹرول، سی این جی، آٹا، گھی جو بھی آپ نے مہنگا کرنا ہے کرلیں ہم صرف کڑھیں گے اور کچھ نہیں کریں گے. کوئی غریب ہمارے محلہ میں چوری کرے تو مارمار کر آدھ موہ کردیتے ہیں اور تھانے کی سیر کروانے بھیج دیتے ہیں لیکن حکمران ہمیشہ چوروں کو منتخب کرتے ہیں. ایک ہی شخص کو بار بار آزماتے ہیں کہ شاید اب یہ سیدھا ہوجائے لیکن چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے کے مصداق چوروں کے کام پہلے سے بھی نرالے.

ایک ماں اپنے بچوں کے بارے میں لوگوں کو ہمیشہ کہتی تھی کہ اس کے بچے بڑے نالائق ہیں، نافرمان ہیں، بدتمیز ہیں، آوارہ گرد ہیں. حالانکہ وہ ایسے نہیں تھے لیکن لوگ انہیں چوروں کی نظر سے دیکھنے لگے، رشتہ دار اس پورے گھرسے متنفرہوگئے اور ان کا داخلہ بندکردیا، محلہ میں کوئی چوری ہوتی تو پہلا الزام ان پر لگتا کیا ہمارا یہ حال نہیں. ہمارا وقار، ہماری شان وشوکت سب مٹی مین ملادیا ہمارے منتخب کردہ نمائندوں نے لیکن ہم نے اف تک نہیں کی. جیسے وہ بالکل درست فرمارہے ہوں.

آج جو بھی ہورہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے، ڈاکٹر قدیر پر ہم فخر کرتے رہے جب انہیں نظربند کیا لیکن اف تک نہیں کی، ڈاکٹر عبدالسلام جیسے اعلٰی تعلیم یافتہ اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان کو قادیانی قراردے دیا اور ان کی خدمات کو شان کے خلاف سمجھ بیٹھے. نتیجہ کیا ہوا کہ وہ شخص پاکستان کو خیر باد کہہ کر امریکہ چلا گیا اور امریکہ کے لئے خدمات انجام دینا شروع کردیں. کیا حب الوطنی کا معیار صرف مسلمان ہونا ہے. ہم یہ کیوں بھول بیٹھے کہ جسٹس رانا بھگوان داس بھی غیرمسلم تھے جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں نعتیں لکھتے تھے اور عدلیہ کا وقار اونچا کیا. ہم کیوں ایک عیسائی جسٹس کارنیلس کو بھول بیٹھے جس نے عدلیہ کا وقار ٹوٹنے سے بچالیا.

ہر شخص کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے، ہر شخص صوبائی عصبیت کا نعرہ لگارہا ہے، ہماری حب الوطنی چیچہ وطنی تک محدود ہوگئی ہے. ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے لیکن اپنا حق ادا نہیں کرنا چاہتا. صوبائی عصبیت کے نعرے جاگیردار، بدعنوان سیاستدان اور سردار بلند کرتے ہیں اور ہم سوچے سمجھے ان نعروں کا جواب دینا شروع کردیتے ہں. انسان گروہوں کی شکل میں بٹ گئے ہیں کوئی سنی ہے تو کوئی شیعہ کسی کو پنجابی ہونے پر فخر ہے تو کسی کو سندھی ہونے پر، کوئی بلوچیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے تو سندھیوں کے لیکن پاکستان کے حقوق کی بات کرنے کو اور پاکستانی بننے کو کوئی تیار نہیں. ایک غریب عورت کے ساتھ زیادتی ہو تو ہمارے حکمران وہاں پہنچ جاتے ہیں لیکن باقی کو نظرانداز کردیتے ہیں جیسے ہم نے باقیوں کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا.

اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ہم دیواریں اونچی کردیتے ہیں. دیواروں پر شیشہ لگادیتے ہیں تاکہ چوروں اور ڈاکووں سے محفوظ رہیں لیکن ہمارے جذبات، ہمارے ارمان، ہماری خودمختاری، ہمارے وقار پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو اپنے اوپر مسلط کردیتے ہیں. وہ جب ائیرکنڈیشنڈ بنگلوں اور گاڑیوں میں گھوم رہے ہوں تو آپ اس وقت گرمی کا مزہ لے رہے ہوتے ہیں. وہ جب مرغن غذائیں کھارہے ہوں تو ہم بھوکے پیاسے سورہے ہوتے ہیں. وہ ایک این آر او سے دوبارہ نیک بن جاتے ہیں تو آپ ایک ناکردہ جرم کی سزا پارہے ہوتے ہیں. ہمارا احتساب وہ کررہے ہوتے ہیں لیکن انہیں احتساب سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں. ہمدردی ہمارا وطیرہ ہے وہ بھی صرف سیاہ ستدانوں کے لئے.
 
شہری علاقوں کا مجھے نہیں پتا لیکن میں چونکہ ایک گاؤں میں رہتا ہوں اسلئے جانتا ہوں کہ دیہاتوں سے یہ بدکار اور بدکردار لوگ کیسے بار بار ووٹ لے کر منتخب ہو جاتے ہیں۔
ان ایم این اے اور ایم پی اے حضرات کا طریقہ کار وہی ہے جو انگریز نے اپنے دورِ حکومت میں اپنایا تھا۔ اس نے ہر گاؤں میں ایک نمبردار یا چوہدری بنایا اور خود بے فکر ہو گیا۔ بالکل ایسے ہی اب بھی نمبردار ایم این اے کا چیلہ ہوتا ہے جو ہر الیکشن پر گاؤں کے لوگوں سے ووٹ طلب کرتا ہے، غریبوں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اور دیگر کو اپنے تعلقات کا واسطہ دے کر۔
ایم این اے صاحب الیکشن جیت کر عوام کی نظروں سے پردہ فرما جاتے ہیں اور اگلے الیکشن پر دوبارہ ظاہر ہوتے ہیں۔
جہالت اور غربت اتنی ہے کہ یہاں لوگوں کو ملکی حالات کی نہیں بلکہ دو وقت کی روٹی کی فکر ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی غریب ایم این اے یا ایم پی اے کے امیدوار کے طور پر نامزد ہونے کی جرات کرے تو اس کی زندگی اجیرن کر دی جائے۔ اور اس کو اپنے گھر والوں کے ووٹ بھی شاید نہ ملیں۔

میرا سوال شہری لوگوں سے ہے کہ وہ تو پڑھے لکھے اور باشعور ہوتے ہیں، پھر آزمائے ہوئے لوگوں کو کیوں آزماتے ہیں؟
 

arifkarim

معطل
پتہ نہیں کیوں یہ دھاگہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ ایک ایک لفظ "حقیقت " کی عکاسی کر رہا ہے!!!! :)
زبردست راشد بھائی!
 

arifkarim

معطل
میرا سوال شہری لوگوں سے ہے کہ وہ تو پڑھے لکھے اور باشعور ہوتے ہیں، پھر آزمائے ہوئے لوگوں کو کیوں آزماتے ہیں؟

یہ غلط تاثر ہے جناب کہ پڑھے لکھے لوگ باشعور ہوتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں میں نے انسے بڑا معاشرتی غلام کسی کو نہیں دیکھا۔ گاؤں کے لوگوں میں‌پھر کچھ غیرت و تہذیب باقی ہے۔ جبکہ شہری لوگ تو بے حسی اور غداری میں نمبر 1 ہوتے ہیں۔ انکو ملک کی نہیں بلکہ صرف پیسے سے غرض ہے۔ مثال ہمارے سامنے ہے۔ آئے دن ملک کے صوبائی دارالحکومتوں میں‌دھماکے، لوڈشیڈنگ، مارپیٹ اور غنڈہ گردی چلتی ہے۔ اسکے باوجود نہ تو ان شہروں کی عوام متفقہ طور پر مشتعل ہوتی ہے اور نہ ہی سیاست دانوں کیخلاف کوئی باہمی آواز بلند ہوتی ہے۔ ہاں اگر ختم نبوت کیلئے جلسہ جلوس بلوایا جائے تو سب حاضر ہو جاتے ہیں :rollingonthefloor:
وجہ یہی ہے جو راشد بھائی نے اوپر لکھی ہے: خود غرضی، مادیت پرستی، بے حسی ، جہالت اور غداری!
 

ابن جمال

محفلین
بنیادی چیز ہے جواب دہی کا فقدان ۔ کونسا محکمہ ایسا ہے جس کے بارے میں عوام کو حق ہو کہ وہ اس کی کارکردگی کاجائزہ لیں۔اوردیکھ سکیں کہ واقعتا یہ محکمہ کچھ کربھی رہاہے یا نہیں۔ کرپشن کا حال دونوں ممالک میں یکساں ہے۔ لیکن جب سے حق اطلاعات قانون بناہے تب سے کچھ ہلکا سا سدھارآرہاہے ۔اس کے تحت ہر ہرمحکمہ سے عوام پوچھ سکتے ہیں کہ جو اسکیم یامنصوبہ تھا وہ کتنا کام ہو نہیں ہوا۔میرے خیال میں توبنیادی چیز جواب دہی ہی ہے۔ مغربی ممالک کی حکومتیں اسی لئے بہتر انداز میں کام کرتی ہیں کہ وہاں اوپر سے لے کر نیچے تک جواب دہی کا نظام قائم ہے اورکوئی بھی اس سے مستثنی نہیں۔یہ جب تک نہیں ہوگا۔ تب تک وہی حال رہے گا۔ دوسری چیز قانونی ڈھانچہ ہے میں کل ہندوستان میں بی بی سی کے بیورو چیف سرمارک ٹلی کا بیان سن رہاتھا اس میں انہوں نے کہاتھا کہ ہندوستان اپنے لحاظ سے قوانین خود منتخب کرنے چاہئے۔ ہوتایہ ہے کہ انگریزوں نے اپنی آسانی کیلئے پولس کو بہت زیادہ اختیارات دیئے جس سے وہ عوام کوقابو میں رکھ سکیں۔آزادی کے بعد بھی پولس کا وہی قانونی نظام ہے اور وہی اختیارات ہیں۔ انگریز چلے گئے لیکن سیاستداں اب نئے انگریز بن چکے ہیں اورپولس کے اختیارات سے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔اور اس کے ذریعہ وہ اپنے حریفوں اورباغیوں کو ٹھکانے لگانے یاان کوسبق سکھانے کا کام کرتے ہیں۔
 
Top