سید انور محمود
محفلین
تاریخ:5 مئی ، 2015
سابق وزیر داخلہ ذوالفقارمرزا پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک متنازہ سیاستدان ہیں۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کے شوہر ہیں۔ 2008ء میں بدین کے حلقہ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ذوالفقار مرزا جوسابق صدر آصف زرداری کے بچپن کے دوست ہیں پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں وزیر داخلہ بننے کے بعد یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اصل ہیرو وہی ہیں لیکن شاید وہ بھول گے تھے کہ اُنکی لگام آصف زرداری کے ہاتھ میں ہے، شاید وہ یہ بھی بھول گے تھے کہ ہمارئے ملک کی سیاسی شطرنج میں اُنکی اوقات ایک پیادہ سے زیادہ نہیں اور بادشاہ کو جب بھی ضرورت پڑئے گی وہ پیادئے کی قربانی دینے میں دیر نہیں کرئے گا۔ 2011ء میں جب ذوالفقار مرزا قران شریف سرپررکھ کر الطاف حسین کے گناہ گنوارہے تھے آصف زرداری ذوالفقار مرزا کو کوس رہے تھے کیونکہ اُس وقت آصف زرداری کو اپنے ذاتی اورسیاسی مفادات ایم کیو ایم سے سیاسی اتحاد میں نظر آرہے تھے اور ایم کیو ایم کو بھی اپنے ذاتی اورسیاسی مفادات پیپلز پارٹی سے اتحاد میں ہی نظر آرہے تھے۔28 اگست 2011ء کو ذوالفقارمرزا نے سندھ حکومت کی وزارت سےاورساتھ ہی بظاہرپیپلز پارٹی سے علیدگی اختیار کرلی۔ اپنی جماعت کے رہنماوں کی تنقید کے بعد ذوالفقارمرزا نے سیاست سے بھی سبکدوشی کا اعلان بھی کردیا تھا۔
آصف زرداری کے بارئے میں ایک بات مشہور ہے کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں، ذوالفقارمرزا تو اُن کے بچپن کے دوست ہیں پھر ایسا کیا ہوا کہ آج ذوالفقارمرزا آصف زرداری کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ذوالفقارمرزا کسی زمانے میں پی آئی ائے میں ملازمت کرتے تھےاور تنگدستی کا شکار تھے، اُس زمانے میں آصف زرداری اُنکی مدد کیا کرتے تھے۔ 1988ء میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور بینظیربھٹو وزیراعظم بنی تو آصف زرداری نے بھی نے بھی اپنے ہاتھ پیر کھولے اورنہ صرف خود بلکہ اپنے دوستوں کو بھی نوازنا شروع کیا۔ 1989ء میں آصف زرداری نے ذوالفقارمرزا کو شوگر مل لگوا کر دی پھر بدین سے ایم این اے بنوایا، 2008ء میں سندھ اسمبلی کا ممبر اور وزیر داخلہ بنایا جبکہ اُنکی بیگم فہمیدہ مرزا کو قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کروایا۔ فہمیدہ مرزا مسلم دنیا کی پہلی خاتون اسپیکرتھیں۔2011ء میں جب آصف زرداری سیاسی طور پر مشکلات کا شکار تھےٹھیک اُسی وقت ذوالفقارمرزا نے آصف زرداری کےلیے مشکلات بڑھانا شروع کردی، انہوں نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پر پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ الطاف حسین نے جب یہ بات کی تو سینئر صوبائی وزیر پیر مظہر الحق ان کے ساتھ موجود تھے، مگر پیر مظہر الحق نے ایک انٹرویو میں اس بات کی تردید کردی تھی۔ ایم کیو ایم کے دباؤ کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے ذوالفقارمرزا سے لاتعلقی کا اعلان بھی کیا تھا، بعد میں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں جب ایم کیو ایم کی ایک رکن نے ذوالفقارمرزا کے بیانات کے خلاف مذمتی قرار داد پیش کرنا چاہی تو ذوالفقارمرزا کے ہمدروں اور دوستوں نے اس پر اعتراض کیا جس کے بعد نام لیے بغیر یہ قرار داد منظور کرلی گئی۔
ڈاکٹر ذوالفقارمرزاکےاپنی پارٹی سے اختلاف2011ء میں ایم کیو ایم کی وجہ سے ہوئے، ذوالفقارمرزا نے وزارت سے استعفی بھی دئے دیا تھا اور سیاست سے بھی دور ہوگئے تھے لیکن اُنکی اپنے دوست آصف زرداری سے دوستی باقی تھی ، اُنکی بیگم فہمیدہ مرزا 19 مارچ 2008ء سے 3 جون 2013ء تک قومی اسمبلی کی اسپیکر رہیں اور اب بھی وہ قومی اور اُنکے صابزادئے صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ لیکن آج 2015ء میں صورتحال یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا اور آصف زرداری کے خاندانوں کے درمیان بدترین اختلافات ہیں۔ پہلے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور آصف زرداری میں سیاسی لیکن اب ذاتی اختلافات سامنے آرہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ماضی کے بزنس پارٹنرز اور دوست آصف زرداری اور ذوالفقار مرزا کے کاروباری مفادات کا شدید ٹکراو ہوا ہو جس کے بعد ذوالفقارمرزانے آصف زرداری خلاف سخت رویہ اپنایا ہوا ہے۔ ذوالفقار مرزا نے نیوز چینلز اور تقاریر میں اپنے دوست اور سابق صدر آصف زرداری اور اُنکی ہمشیرہ فریال ٹالپور پر ذاتی تنقید بھی کی۔جس کے بعد پیپلز پارٹی نےان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔گذشتہ ہفتے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ ماضی کے بزنس پارٹنرز کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم آصف زرداری کی چھوٹی بیٹی آصفہ کا ایک ٹوئٹ سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ اب ذوالفقارمرزا سے کوئی مفاہمت نہیں ہوگی۔یہ تو بہت جلد سامنے آجایگا کہ ذوالفقارمرزا کیوں آصف زرداری پر بہت ہی گرئے ہوئے الزامات لگارہے ہیں، موجودہ حالات اور خاصکرذوالفقارمرزا اور اُنکی فیملی کے رویے کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آصف زرداری کی جانب سے انہیں کافی معاشی نقصان پہنچاہے کیونکہ سیاست میں ذوالفقارمرزا کی حیثیت آصف زرداری کے سامنےکچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ آصف زرداری کو کہیں سیاسی طور پرچیلنج کرتے نظر آرہے ہیں۔
کراچی میں پیپلزپارٹی کی خواتین ارکان سندھ اسمبلی نے کہا ہے کہ اگر ذوالفقار مرزا کے خلاف خواتین کھڑی ہوجائیں تو ان کی زبان بند ہوجائے گی، سندھیوں کی روایت ہے وہ عورتوں کی عزت کرتے ہیں۔ کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران پیپلزپارٹی کی خواتین ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ ذوالفقار مرزا کے بیٹے اور بیوی کو پارٹی نے عہدہ دیا اور وہ مختلف چینلوں پر بیٹھ کر پارٹی قیادت کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، ذوالفقار مرزا نے غلیظ زبان استعمال کی تو اس کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ مونچھیں اور داڑھی رکھنے سے کوئی مرد نہیں بن جاتا ہے
اتوار 4 مئی کو بدین کے ماڈل تھانے پر تاجر اور پپیلز پارٹی کے رہنما امتیاز میمن کی فریاد پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ذوالفقار مرزا سمیت 20 افراد پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ذوالفقار مرزا نے ان کی دکان میں توڑ پھوڑ کی اور سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیں۔ ذوالفقار مرزا اپنے ساتھیوں سمیت ماڈل تھانے پہنچے اور ڈی ایس پی قادر سموں کو پاکستان پیپلز پارٹی کی ضلعی قیادت اور ایس ایس پی بدین خالد کورائی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے کہا۔پولیس حکام کی جانب سے مقدمہ نہ درج کرنے پر ذوالفقار مرزا ڈی ایس پی کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ٹی وی چینل پر دکھائے گئے مناظر کے مطابق ڈاکٹر مرزا نے میز پر ہاتھ مارکر شیشہ توڑ دیا اور ڈی ایس پی کا موبائیل فون اٹھاکر دیوار پر دئے مارا، جس کے بعد ڈاکٹر مرزا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہاں سے چلے گئے۔
بدین کےماڈل تھانے میں ذوالفقار مرزا سمیت اُنکے 55 ساتھیوں کے خلاف دکانوں کو بند کرانے، اقدام قتل، تھانے میں ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت تین مقدمات درج کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کڈھن پولیس کی مدعیت میں بھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ساتھیوں کے خلاف دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اب ذوالفقار مرزا بھاگئے پھررہے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے ذوالفقارمرزا کی چھ مئی تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے۔ ذوالفقار مرزا کے وکیل اشرف سموں نے مؤقف اختیار کیا کہ درخواست گزار نے حکومت مخالف بیانات دیے ہیں جس سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔ پولیس نے مقدمات درج کیے ہیں لیکن ایف آئی آر کی نقول فراہم نہیں کررہی۔
اکیس مارچ کو میں نے ایک مضمون ایم کیو ایم کے ایک کارکن اور پھانسی کے منتظر صولت مرزا کے بارئے میں بعنوان ‘صولت مرزا تم تو میرئے ہیرو ہو’ لکھا تھا اور آج میں نے صولت کی جگہ ذوالفقار لکھ کریہ مضمون بعنوان ‘ذوالفقار مرزا تم تو میرئے ہیرو ہو’ لکھا ہے، ان دونوں مضامین میں صولت مرزا کی کہانی کچھ اور ہے جبکہ ذوالفقار مرزا کی کہانی کچھ اور ہے لیکن یہ دونوں شخصیات اپنی اپنی پارٹی کے سربراہ کے ہیرو تھے کیسے ہیرو ، 100 لفظوں کی کہانی کے خالق مبشر علی زیدی کی کہانی "ہیرو" صولت مرزا اور ذوالفقار مرزا کو ایک ہی جیسا ثابت کررہی ہے۔ "ہیرو" کو پڑھ کرآپکی سمجھ میں آیگا کہ جب پارٹی سربراہ آپکو اپنا ہیرو کہہ رہا ہو تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ:۔
’’تم لوگ میرے ہیرو ہو۔ میں بتا نہیں سکتا کہ تم میرے لئے کیا ہو۔‘‘، اپوزیشن کا رکن، ہمارا لیڈر یہ کہا کرتا تھا۔ ہم اُس کے دیوانے تھے، بے لوث کارکن تھے، صبح شام کام کرتے تھے۔ الیکشن میں ہماری پارٹی جیت گئی، ہمارا لیڈر منسٹر بن گیا۔ اس کے بعد اس نے کارکنوں سے ملنا چھوڑدیا۔ ایک دن ہم شکایتیں کرنے اس کے گھر پر جمع ہوگئے۔ کچھ دیر میں لیڈر اپنے کتے کے ساتھ جوگنگ کرتا ہوا آیا۔ کتے نے سڑک کنارے کسی چیز کو منہ مارا۔لیڈر نے آواز لگائی، ’’ کم آن ہیرو! کم آن‘‘۔
ذوالفقار مرزا تم تو میرئے ہیرو ہو
تحریر: سید انور محمود
تحریر: سید انور محمود
سابق وزیر داخلہ ذوالفقارمرزا پاکستان پیپلز پارٹی کے سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک متنازہ سیاستدان ہیں۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کے شوہر ہیں۔ 2008ء میں بدین کے حلقہ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ذوالفقار مرزا جوسابق صدر آصف زرداری کے بچپن کے دوست ہیں پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں وزیر داخلہ بننے کے بعد یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اصل ہیرو وہی ہیں لیکن شاید وہ بھول گے تھے کہ اُنکی لگام آصف زرداری کے ہاتھ میں ہے، شاید وہ یہ بھی بھول گے تھے کہ ہمارئے ملک کی سیاسی شطرنج میں اُنکی اوقات ایک پیادہ سے زیادہ نہیں اور بادشاہ کو جب بھی ضرورت پڑئے گی وہ پیادئے کی قربانی دینے میں دیر نہیں کرئے گا۔ 2011ء میں جب ذوالفقار مرزا قران شریف سرپررکھ کر الطاف حسین کے گناہ گنوارہے تھے آصف زرداری ذوالفقار مرزا کو کوس رہے تھے کیونکہ اُس وقت آصف زرداری کو اپنے ذاتی اورسیاسی مفادات ایم کیو ایم سے سیاسی اتحاد میں نظر آرہے تھے اور ایم کیو ایم کو بھی اپنے ذاتی اورسیاسی مفادات پیپلز پارٹی سے اتحاد میں ہی نظر آرہے تھے۔28 اگست 2011ء کو ذوالفقارمرزا نے سندھ حکومت کی وزارت سےاورساتھ ہی بظاہرپیپلز پارٹی سے علیدگی اختیار کرلی۔ اپنی جماعت کے رہنماوں کی تنقید کے بعد ذوالفقارمرزا نے سیاست سے بھی سبکدوشی کا اعلان بھی کردیا تھا۔
آصف زرداری کے بارئے میں ایک بات مشہور ہے کہ وہ دوستوں کے دوست ہیں، ذوالفقارمرزا تو اُن کے بچپن کے دوست ہیں پھر ایسا کیا ہوا کہ آج ذوالفقارمرزا آصف زرداری کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ذوالفقارمرزا کسی زمانے میں پی آئی ائے میں ملازمت کرتے تھےاور تنگدستی کا شکار تھے، اُس زمانے میں آصف زرداری اُنکی مدد کیا کرتے تھے۔ 1988ء میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی اور بینظیربھٹو وزیراعظم بنی تو آصف زرداری نے بھی نے بھی اپنے ہاتھ پیر کھولے اورنہ صرف خود بلکہ اپنے دوستوں کو بھی نوازنا شروع کیا۔ 1989ء میں آصف زرداری نے ذوالفقارمرزا کو شوگر مل لگوا کر دی پھر بدین سے ایم این اے بنوایا، 2008ء میں سندھ اسمبلی کا ممبر اور وزیر داخلہ بنایا جبکہ اُنکی بیگم فہمیدہ مرزا کو قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کروایا۔ فہمیدہ مرزا مسلم دنیا کی پہلی خاتون اسپیکرتھیں۔2011ء میں جب آصف زرداری سیاسی طور پر مشکلات کا شکار تھےٹھیک اُسی وقت ذوالفقارمرزا نے آصف زرداری کےلیے مشکلات بڑھانا شروع کردی، انہوں نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پر پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ الطاف حسین نے جب یہ بات کی تو سینئر صوبائی وزیر پیر مظہر الحق ان کے ساتھ موجود تھے، مگر پیر مظہر الحق نے ایک انٹرویو میں اس بات کی تردید کردی تھی۔ ایم کیو ایم کے دباؤ کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے ذوالفقارمرزا سے لاتعلقی کا اعلان بھی کیا تھا، بعد میں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں جب ایم کیو ایم کی ایک رکن نے ذوالفقارمرزا کے بیانات کے خلاف مذمتی قرار داد پیش کرنا چاہی تو ذوالفقارمرزا کے ہمدروں اور دوستوں نے اس پر اعتراض کیا جس کے بعد نام لیے بغیر یہ قرار داد منظور کرلی گئی۔
ڈاکٹر ذوالفقارمرزاکےاپنی پارٹی سے اختلاف2011ء میں ایم کیو ایم کی وجہ سے ہوئے، ذوالفقارمرزا نے وزارت سے استعفی بھی دئے دیا تھا اور سیاست سے بھی دور ہوگئے تھے لیکن اُنکی اپنے دوست آصف زرداری سے دوستی باقی تھی ، اُنکی بیگم فہمیدہ مرزا 19 مارچ 2008ء سے 3 جون 2013ء تک قومی اسمبلی کی اسپیکر رہیں اور اب بھی وہ قومی اور اُنکے صابزادئے صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ لیکن آج 2015ء میں صورتحال یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا اور آصف زرداری کے خاندانوں کے درمیان بدترین اختلافات ہیں۔ پہلے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور آصف زرداری میں سیاسی لیکن اب ذاتی اختلافات سامنے آرہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ماضی کے بزنس پارٹنرز اور دوست آصف زرداری اور ذوالفقار مرزا کے کاروباری مفادات کا شدید ٹکراو ہوا ہو جس کے بعد ذوالفقارمرزانے آصف زرداری خلاف سخت رویہ اپنایا ہوا ہے۔ ذوالفقار مرزا نے نیوز چینلز اور تقاریر میں اپنے دوست اور سابق صدر آصف زرداری اور اُنکی ہمشیرہ فریال ٹالپور پر ذاتی تنقید بھی کی۔جس کے بعد پیپلز پارٹی نےان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔گذشتہ ہفتے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ ماضی کے بزنس پارٹنرز کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاہم آصف زرداری کی چھوٹی بیٹی آصفہ کا ایک ٹوئٹ سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ اب ذوالفقارمرزا سے کوئی مفاہمت نہیں ہوگی۔یہ تو بہت جلد سامنے آجایگا کہ ذوالفقارمرزا کیوں آصف زرداری پر بہت ہی گرئے ہوئے الزامات لگارہے ہیں، موجودہ حالات اور خاصکرذوالفقارمرزا اور اُنکی فیملی کے رویے کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آصف زرداری کی جانب سے انہیں کافی معاشی نقصان پہنچاہے کیونکہ سیاست میں ذوالفقارمرزا کی حیثیت آصف زرداری کے سامنےکچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ آصف زرداری کو کہیں سیاسی طور پرچیلنج کرتے نظر آرہے ہیں۔
کراچی میں پیپلزپارٹی کی خواتین ارکان سندھ اسمبلی نے کہا ہے کہ اگر ذوالفقار مرزا کے خلاف خواتین کھڑی ہوجائیں تو ان کی زبان بند ہوجائے گی، سندھیوں کی روایت ہے وہ عورتوں کی عزت کرتے ہیں۔ کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران پیپلزپارٹی کی خواتین ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ ذوالفقار مرزا کے بیٹے اور بیوی کو پارٹی نے عہدہ دیا اور وہ مختلف چینلوں پر بیٹھ کر پارٹی قیادت کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، ذوالفقار مرزا نے غلیظ زبان استعمال کی تو اس کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ مونچھیں اور داڑھی رکھنے سے کوئی مرد نہیں بن جاتا ہے
اتوار 4 مئی کو بدین کے ماڈل تھانے پر تاجر اور پپیلز پارٹی کے رہنما امتیاز میمن کی فریاد پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ذوالفقار مرزا سمیت 20 افراد پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ذوالفقار مرزا نے ان کی دکان میں توڑ پھوڑ کی اور سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیں۔ ذوالفقار مرزا اپنے ساتھیوں سمیت ماڈل تھانے پہنچے اور ڈی ایس پی قادر سموں کو پاکستان پیپلز پارٹی کی ضلعی قیادت اور ایس ایس پی بدین خالد کورائی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے کہا۔پولیس حکام کی جانب سے مقدمہ نہ درج کرنے پر ذوالفقار مرزا ڈی ایس پی کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ٹی وی چینل پر دکھائے گئے مناظر کے مطابق ڈاکٹر مرزا نے میز پر ہاتھ مارکر شیشہ توڑ دیا اور ڈی ایس پی کا موبائیل فون اٹھاکر دیوار پر دئے مارا، جس کے بعد ڈاکٹر مرزا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہاں سے چلے گئے۔
بدین کےماڈل تھانے میں ذوالفقار مرزا سمیت اُنکے 55 ساتھیوں کے خلاف دکانوں کو بند کرانے، اقدام قتل، تھانے میں ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت تین مقدمات درج کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کڈھن پولیس کی مدعیت میں بھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ساتھیوں کے خلاف دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ اب ذوالفقار مرزا بھاگئے پھررہے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ نے ذوالفقارمرزا کی چھ مئی تک حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے۔ ذوالفقار مرزا کے وکیل اشرف سموں نے مؤقف اختیار کیا کہ درخواست گزار نے حکومت مخالف بیانات دیے ہیں جس سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔ پولیس نے مقدمات درج کیے ہیں لیکن ایف آئی آر کی نقول فراہم نہیں کررہی۔
اکیس مارچ کو میں نے ایک مضمون ایم کیو ایم کے ایک کارکن اور پھانسی کے منتظر صولت مرزا کے بارئے میں بعنوان ‘صولت مرزا تم تو میرئے ہیرو ہو’ لکھا تھا اور آج میں نے صولت کی جگہ ذوالفقار لکھ کریہ مضمون بعنوان ‘ذوالفقار مرزا تم تو میرئے ہیرو ہو’ لکھا ہے، ان دونوں مضامین میں صولت مرزا کی کہانی کچھ اور ہے جبکہ ذوالفقار مرزا کی کہانی کچھ اور ہے لیکن یہ دونوں شخصیات اپنی اپنی پارٹی کے سربراہ کے ہیرو تھے کیسے ہیرو ، 100 لفظوں کی کہانی کے خالق مبشر علی زیدی کی کہانی "ہیرو" صولت مرزا اور ذوالفقار مرزا کو ایک ہی جیسا ثابت کررہی ہے۔ "ہیرو" کو پڑھ کرآپکی سمجھ میں آیگا کہ جب پارٹی سربراہ آپکو اپنا ہیرو کہہ رہا ہو تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ:۔
’’تم لوگ میرے ہیرو ہو۔ میں بتا نہیں سکتا کہ تم میرے لئے کیا ہو۔‘‘، اپوزیشن کا رکن، ہمارا لیڈر یہ کہا کرتا تھا۔ ہم اُس کے دیوانے تھے، بے لوث کارکن تھے، صبح شام کام کرتے تھے۔ الیکشن میں ہماری پارٹی جیت گئی، ہمارا لیڈر منسٹر بن گیا۔ اس کے بعد اس نے کارکنوں سے ملنا چھوڑدیا۔ ایک دن ہم شکایتیں کرنے اس کے گھر پر جمع ہوگئے۔ کچھ دیر میں لیڈر اپنے کتے کے ساتھ جوگنگ کرتا ہوا آیا۔ کتے نے سڑک کنارے کسی چیز کو منہ مارا۔لیڈر نے آواز لگائی، ’’ کم آن ہیرو! کم آن‘‘۔