ہندوستان میں ایک جگہ مشاعرہ تھا۔
ردیف دیا گیا:
"دل بنا دیا"
اب شعراء کو اس پر شعر کہنا تھے۔
سب سے پہلے حیدر دہلوی نے اس ردیف کو یوں استعمال کیا:
اک دل پہ ختم قدرتِ تخلیق ہوگئی
سب کچھ بنا دیا جو مِرا دل بنا دیا
اس شعر پر ایسا شور مچا کہ بس ہوگئی ، لوگوں نے سوچا کہ اس سے بہتر کون گرہ لگا سکے گا؟
لیکن جگر مراد آبادی نے ایک گرہ ایسی لگائی کہ سب کے ذہن سے حیدر دہلوی کا شعر محو ہوگیا۔
انہوں نے کہا:
بے تابیاں سمیٹ کر سارے جہان کی
جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنا دیا۔
میں آپ کو بتاتا چلوں کہ حیدر دہلوی اپنے وقت کے استاد تھےاور خیام الہند کہلاتے تھے۔ جگر کے کلام کو سنتے ہی وہ سکتے کی کیفیت میں آگئے، جگر کو گلے سے لگایا،ان کے ہاتھ چومے اور وہ صفحات جن پر ان کی شاعری درج تھی جگر کے پاوں میں ڈال دیے۔
اس واقعے سے قبل دہلی کی لال قلعہ میں ایک طرحی مشاعرہ تھا۔ قافیہ " دل" رکھا گیا تھا۔ اُس وقت تقریبا سبھی استاد شعراء موجود تھے۔ان میں سیماب اکبرآبادی اور جگر مرادآبادی بھی تھے۔سیماب نے اس قافیہ کو یوں باندھا۔۔۔۔۔
خاکِ پروانہ،رگِ گل،عرقِ شبنم سے
اُس نے ترکیب تو سوچی تھی مگر دل نہ بنا
شعر ایسا ہوا کہ شور مچ گیا کہ اس سے بہتر کوئی کیا قافیہ باندھے گا؟۔ سب کی نظریں جگر پر جمی ہوئی تھیں۔
معاملہ دل کا ہو اور جگر چُوک جائیں۔۔وہ شعر پڑھا کہ سیماب کو شعر لوگوں کے دماغ سے محو ہوگیا۔
زندگانی کو مرے عقدہء مشکل نہ بنا
برق رکھ دے مرے سینے میں، مگر دل نہ بنا
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنا دیا
پہلے مصرع میں کر کی جگہ ( کے ) ہے شاید ( کر ) کی وجہ سے پہلا مصرع وزن سے خارج لگتا ہے
جبکہ جگر مراد آبادی کا دوسرا شعر بھی کچھ یوں ہے
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
زندگانی کو مرے عقدۂ مشکل نہ بنا
برق رکھ دے مرے سینے میں، مگر دل نہ بنا
( عقدۂ )