ؤ
کرے چارہ سازی زیارت کسی کی
کرے چارہ سازی زیارت کسی کی
بھرے زخم دل کے ملاحت کسی کی
چمک کر یہ کہتی ہے طلعت کسی کی
کہ دیدارِ حق ہے زیارت کسی کی
نہ رہتی جو پردوں میں صورت کسی کی
نہ ہوتی کسی کو زیارت کسی کی
عجب پیاری پیاری ہے صورت کسی کی
ہمیں کیا خدا کو ہے اُلفت کسی کی
ابھی پار ہوں ڈوبنے والے بیڑے
سہارا لگا دے جو رحمت کسی کی
کسی کو کسی سے ہوئی ہے نہ ہو گی
خدا کو ہے جتنی محبت کسی کی
دمِ حشر عاصی مزے لے رہے ہیں
شفاعت کسی کی ہے رحمت کسی کی
رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم
رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی
ترا قبضہ کونین و مافیہا سب پر
ہوئی ہے نہ ہو یوں حکومت کسی کی
خدا کا دیا ہے ترے پاس سب کچھ
ترے ہوتے کیا ہم کو حاجت کسی کی
زمانہ کی دولت نہیں پاس پھر بھی
زمانہ میں بٹتی ہے دولت کسی کی
نہ پہنچیں کبھی عقلِ کل کے فرشتے
خدا جانتا ہے حقیقت کسی کی
ہمارا بھروسہ ہمارا سہارا
شفاعت کسی کی حمایت کسی کی
قمر اِک اشارے میں دو ٹکڑے دیکھا
زمانے پہ روشن ہے طاقت کسی کی
ہمیں ہیں کسی کی شفاعت کی خاطر
ہماری ہی خاطر شفاعت کسی کی
مصیبت زدو شاد ہو تم کہ اُن سے
نہیں دیکھی جاتی مصیبت کسی کی
نہ پہنچیں گے جب تک گنہگار اُن کے
نہ جائے گی جنت میں اُمت کسی کی
ہم ایسے گنہگار ہیں زہد والو
ہماری مدد پر ہے رحمت کسی کی
مدینہ کا جنگل ہو اور ہم ہوں زاہد
نہیں چاہیے ہم کو جنت کسی کی
ہزاروں ہوں خورشید محشر تو کیا غم
یہاں سایہ گستر ہے رحمت کسی کی
بھرے جائیں گے خلد میں اہلِ عصیاں
نہ جائے گی خالی شفاعت کسی کی
وہی سب کا مالک اُنہیں کا ہے سب کچھ
نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی
رَفِعْنَا لَکَ ذَکرَکَ پر تصدق
سب اُونچوں سے اُونچی ہے رفعت کسی کی
اُترنے لگے مَا رَمَیْتَ یَدُ اﷲ
چڑھی ایسی زوروں پہ طاقت کسی کی
گدا خوش ہوں خَیرٌ لَّک کی صد ا ہے
کہ دن دُونی بڑھتی ہے دولت کسی کی
فتََرْضیٰ نے ڈالی ہیں باہیں گلے میں
کہ ہو جائے راضی طبیعت کسی کی
خدا سے دعا ہے کہ ہنگامِ رُخصت
زبانِ حسنؔ پر ہو مدحت کسی کی
ؤ
جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے
جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے
صدقے جائوں میں تری انجمن آرائی کے
بزم آرا ہوں اُجالے تری زیبائی کے
کب سے مشتاق ہیں آئینے خود آرائی کے
ہو غبارِ درِ محبوب کہ گردِ رہِ دوست
جزو اعظم ہیں یہی سرمۂ بینائی کے
خاک ہو جائے اگر تیری تمنائوں میں
کیوں ملیں خاک میں اَرمان تمنائی کے
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ کے چمکتے خورشید
لامکاں تک ہیں اُجالے تری زیبائی کے
دلِ مشتاق میں اَرمانِ لقا آنکھیں بند
قابلِ دید ہیں انداز تمنائی کے
لبِ جاں بخش کی کیا بات ہے سبحان اﷲ
تم نے زندہ کیے اِعجاز مسیحائی کے
اپنے دامن میں چھپائیں وہ مرے عیبوں کو
اے زہے بخت مری ذلّت و رُسوائی کے
دیکھنے والے خدا کے ہیں خدا شاہد ہے
دیکھنے والے ترے جلوۂ زیبائی کے
جب غبارِ رہِ محبوب نے عزت بخشی
آئینے صاف ہوئے عینکِ بینائی کے
بار سر پر ہے نقاہت سے گرا جاتا ہوں
صدقے جائوں ترے بازو کی توانائی کے
عالم الغیب نے ہر غیب سے آگاہ کیا
صدقے اس شان کی بینائی و دانائی کے
دیکھنے والے تم ہو رات کی تاریکی میں
کان میں سمع کے اور آنکھ میں بینائی کے
عیبی نطفے ہیں وہ بے علم جنم کے اندھے
جن کو انکار ہیں اس علم و شناسائی کے
اے حسنؔ کعبہ ہی افضل سہی اِس دَر سے مگر
ہم تو خوگر ہیں یہاں ناصیہ فرسائی کے
ؤ
پردے جس وقت اُٹھیں جلوئہ زیبائی کے
پردے جس وقت اُٹھیں جلوئہ زیبائی کے
وہ نگہبان رہیں چشمِ تمنائی کے
دُھوم ہے فرش سے تا عرش تری شوکت کی
خطبے ہوتے ہیں جہانبانی و دارائی کے
حُسن رنگینی و طلعت سے تمہارے جلوے
گل و آئینہ بنے محفل و زیبائی کے
ذرّئہ دشتِ مدینہ کی ضیا مہر کرے
اچھی ساعت سے پھریں دن شبِ تنہائی کے
پیار سے لے لیے آغوش میں سر رحمت نے
پائے انعام ترے دَر کی جبیں سائی کے
لاشِ احباب اِسی دَر پر پڑی رہنے دیں
کچھ تو ارمان نکل جائیں جبیں سائی کے
جلو گر ہو جو کبھی چشمِ تمنائی میں
پردے آنکھوں کے ہوں پردے تری زیبائی کے
خاکِ پامال ہماری بھی پڑی ہے سرِ راہ
صدقے اے رُوحِ رواں تیری مسیحائی کے
کیوں نہ وہ ٹوٹے دلوں کے کھنڈر آباد کریں
کہ دکھاتے ہیں کمال انجمن آرائی کے
زینتوں سے ہیں حسینانِ جہاں کی زینت
زینتیں پاتی ہیں صدقے تری زیبائی کے
نام آقا ہوا جو لب سے غلاموں کے بلند
بالا بالا گئے غم آفتِ بالائی کے
عرش پہ کعبہ و فردوس و دلِ مومن میں
شمع افروز ہیں اِکے تری یکتائی کے
ترے محتاج نے پایا ہے وہ شاہانہ مزاج
اُس کی گُدڑی کو بھی پیوند ہوں دارائی کے
اپنے ذرّوں کے سیہ خانوں کو روشن کر دو
مہر ہو تم فلکِ انجمن آرائی کے
پورے سرکار سے چھوٹے بڑے اَرمان ہو سب
اے حسنؔ میرے مرے چھوٹے بڑے بھائی کے
ؤ
دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے
دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے
مرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے
تری وحشتوں سے اے دل مجھے کیوں نہ عار آئے
تو اُنھیں سے دُور بھاگے جنھیں تجھ پہ پیار آئے
مرے دل کو دردِ اُلفت وہ سکون دے الٰہی
مری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئے
مجھے نزع چین بخشے مجھے موت زندگی دے
وہ اگر مرے سرھانے دمِ احتضار آئے
سببِ وفورِ رحمت میری بے زبانیاں ہیں
نہ فغاں کے ڈھنگ جانوں نہ مجھے پکار آئے
کھلیں پھول اِس پھبن کے کھلیں بخت اِس چمن کے
مرے گل پہ صدقے ہو کے جو کبھی بہار آئے
نہ حبیب سے محب کا کہیں ایسا پیار دیکھا
وہ بنے خدا کا پیارا تمھیں جس پہ پیار آئے
مجھے کیا اَلم ہو غم کا مجھے کیا ہو غم اَلم کا
کہ علاج غم اَلم کا میرے غمگسار آئے
جو امیر و بادشا ہیں اِسی دَر کے سب گدا ہیں
تمھیں شہر یار آئے تمھیں تاجدار آئے
جو چمن بنائے بَن کو جو جِناں کرے چمن کو
مرے باغ میں الٰہی کبھی وہ بہار آئے
یہ کریم ہیں وہ سرور کہ لکھا ہوا ہے دَر پر
جسے لینے ہوں دو عالم وہ اُمیدوار آئے
ترے صدقے جائے شاہا یہ ترا ذلیل منگتا
ترے دَر پہ بھیک لینے سبھی شہر یار آئے
چمک اُٹھے خاکِ تیرہ بنے مہر ذرّہ ذرّہ
مرے چاند کی سواری جو سر مزار آئے
نہ رُک اے ذلیل و رُسوا درِ شہریار پر آ
کہ یہ وہ نہیں ہیں حاشا جنھیں تجھ سے عار آئے
تری رحمتوں سے کم ہیں مرے جرم اس سے زائد
نہ مجھے حساب آئے نہ مجھے شمار آئے
گل خلد لے کے زاہد تمھیں خارِ طیبہ دے دوں
مرے پھول مجھ کو دیجے بڑے ہوشیار آئے
بنے ذرّہ ذرّہ گلشن تو ہو خار خار گلبن
جو ہمارے اُجڑے بَن میں کبھی وہ نگار آئے
ترے صدقے تیرا صدقہ ہے وہ شاندار صدقہ
وہ وقار لے کے جائے جو ذلیل و خوار آئے
ترے دَر کے ہیں بھکاری ملے خیر دم قدم کی
ترا نام سن کے داتا ہم اُمیدوار آئے
حسنؔ اُن کا نام لے کر تو پکار دیکھ غم میں
کہ یہ وہ نہیں جو غافل پسِ اِنتظار آئے
ؤ
تم ہو حسرت نکالنے والے
تم ہو حسرت نکالنے والے
نامرادوں کے پالنے والے
میرے دشمن کو غم ہو بگڑی کا
آپ ہیں جب سنبھالنے والے
تم سے منہ مانگی آس ملتی ہے
اور ہوتے ہیں ٹالنے والے
لبِ جاں بخش سے جِلا دل کو
جان مردے میں ڈالنے والے
دستِ اقدس بجھا دے پیاس مری
میرے چشمے اُبالنے والے
ہیں ترے آستاں کے خاک نشیں
تخت پر خاک ڈالنے والے
روزِ محشر بنا دے بات مری
ڈھلی بگڑی سنبھالنے والے
بھیک دے بھیک اپنے منگتا کو
اے غریبوں کے پالنے والے
ختم کر دی ہے اُن پہ موزونی
واہ سانچے میں ڈھالنے والے
اُن کا بچپن بھی ہے جہاں پرور
کہ وہ جب بھی تھے پالنے والے
پار کر نائو ہم غریبوں کی
ڈوبتوں کو نکالنے والے
خاکِ طیبہ میں بے نشاں ہو جا
اَرے او نام اچھالنے والے
کام کے ہوں کہ ہم نکمّے ہوں
وہ سبھی کے ہیں پالنے والے
زنگ سے پاک صاف کر دل کو
اندھے شیشے اُجالنے والے
خارِ غم کا حسنؔ کو کھٹکا ہے
دل سے کانٹا نکالنے والے
ؤ
اﷲ اﷲ شہِ کونین جلالت تیری
اﷲ اﷲ شہِ کونین جلالت تیری
فرش کیا عرش پہ جاری ہے حکومت تیری
جھولیاں کھول کے بے سمجھے نہیں دوڑ آئے
ہمیں معلوم ہے دولت تری عادت تیری
تو ہی ہے مُلکِ خدا مِلک خدا کا مالک
راج تیرا ہے زمانے میں حکومت تیری
تیرے انداز یہ کہتے ہیں کہ خالق کو تری
سب حسینوں میں پسند آئی ہے صورت تیری
اُس نے حق دیکھ لیا جس نے اِدھر دیکھ لیا
کہہ رہی ہے یہ چمکتی ہوئی طلعت تیری
بزم محشر کا نہ کیوں جائے بلاوا سب کو
کہ زمانے کو دکھانی ہے وجاہت تیری
عالم رُوح پہ ہے عالم اجسام کو ناز
چوکھٹے میں ہے عناصر کے جو صورت تیری
جن کے سر میں ہے ہوا دشتِ نبی کی رضواں
اُن کے قدموں سے لگی پھرتی ہے جنت تیری
تو وہ محبوب ہے اے راحتِ جاں دل کیسے
ہیزمِ خشک کو تڑپا گئی فرقت تیری
مہ و خورشید سے دن رات ضیا پاتے ہیں
مہ و خورشید کو چمکاتی ہے طلعت تیری
گٹھریاں بندھ گئی پر ہاتھ ترا بند نہیں
بھر گئے دل نہ بھری دینے سے نیت تیری
موت آ جائے مگر آئے نہ دل کو آرام
دم نکل جائے مگر نکلے نہ اُلفت تیری
دیکھنے والے کہا کرتے ہیں اﷲ اﷲ
یاد آتا ہے خدا دیکھ کے صورت تیری
مجمعِ حشر میں گھبرائی ہوئی پھرتی ہے
ڈھونڈنے نکلی ہے مجرم کو شفاعت تیری
نہ ابھی عرصۂ محشر نہ حسابِ اُمت
آج ہی سے ہے کمر بستہ حمایت تیری
تو کچھ ایسا ہے کہ محشر کی مصیبت والے
درد دُکھ بھول گئے دیکھ کے صورت تیری
ٹوپیاں تھام کے گر عرشِ بریں کو دیکھیں
اُونچے اُونچوں کو نظر آئے نہ رفعت تیری
حُسن ہے جس کا نمک خوار وہ عالم تیرا
جس کو اﷲ کرے پیار وہ صورت تیری
دونوں عالم کے سب ارمان نکالے تو نے
نکلی اِس شانِ کرم پر بھی نہ حسرت تیری
چین پائیں گے تڑپتے ہوئے دل محشر میں
غم کسے یاد رہے دیکھ کے صورت تیری
ہم نے مانا کہ گناہوں کی نہیں حد لیکن
تو ہے اُن کا تو حسنؔ تیری ہے جنت تیری
ؤ
باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے
باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے
کیا مدینہ پہ فدا ہو کے بہار آئی ہے
اُن کے گیسو نہیں رحمت کی گھٹا چھائی ہے
اُن کے اَبرو نہیں دو قبلوں کی یکجائی ہے
سنگریزوں نے حیاتِ ابدی پائی ہے
ناخنوں میں ترے اِعجازِ مسیحائی ہے
سر بالیں اُنھیں رحمت کی اَدا لائی ہے
حال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے
جانِ گفتار تو رفتار ہوئی رُوحِ رواں
دم قدم سے ترے اِعجازِ مسیحائی ہے
جس کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں حسن و جمال
اے حسیں تیری اَدا اُس کو پسند آئی ہے
تیرے جلوئوں میں یہ عالم ہے کہ چشمِ عالم
تابِ دیدار نہیں پھر بھی تماشائی ہے
جب تری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی
جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے
سر سے پا تک تری صورت پہ تصدق ہے جمال
اُس کو موزونیِ اَعضا یہ پسند آئی ہے
تیرے قدموں کا تبرک یدِ بیضاے کلیم
تیرے ہاتھوں کا دیا فضلِ مسیحائی ہے
دردِ دل کس کو سناؤں میں تمہارے ہوتے
بے کسوں کی اِسی سرکار میں سنوائی ہے
آپ آئے تو منور ہوئیں اندھی آنکھیں
آپ کی خاکِ قدم سرمۂ بینائی ہے
ناتوانی کا اَلم ہم ضعفا کو کیا ہو
ہاتھ پکڑے ہوئے مولا کی توانائی ہے
جان دی تو نے مسیحا و مسیحائی کو
تو ہی تو جانِ مسیحا و مسیحائی ہے
چشم بے خواب کے صدقے میں ہیں بیدار نصیب
آپ جاگے تو ہمیں چین کی نیند آئی ہے
باغِ فردوس کھلا فرش بچھا عرش سجا
اِک ترے دم کی یہ سب انجمن آرائی ہے
کھیت سر سبز ہوئے پھول کھلے میل دُھلے
اور پھر فضل کی گھنگھور گھٹا چھائی ہے
ہاتھ پھیلائے ہوئے دوڑ پڑے ہیں منگتا
میرے داتا کی سواری سرِ حشر آئی ہے
نااُمیدو تمھیں مژدہ کہ خدا کی رحمت
اُنھیں محشر میں تمہارے ہی لیے لائی ہے
فرش سے عرش تک اک دُھوم ہے اﷲ اﷲ
اور ابھی سینکڑوں پردوں میں وہ زیبائی ہے
اے حسنؔ حُسنِ جہاں تاب کے صدقے جائوں
ذرّے ذرّے سے عیاں جلوۂ زیبائی ہے
ؤ
حاضریِ حرمین طیبّین
حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے
بڑی سرکار میں پہنچے مقدر یاوری پر ہے
نہ ہم آنے کے لائق تھے نہ قابل منہ دِکھانے کے
مگر اُن کا کرم ذرّہ نواز و بندہ پرور ہے
خبر کیا ہے بھکاری کیسی کیسی نعمتیں پائیں
یہ اُونچا گھر ہے اِس کی بھیک اندازہ سے باہر ہے
تصدق ہو رہے ہیں لاکھوں بندے گرد پھر پھر کر
طوافِ خانۂ کعبہ عجب دلچسپ منظر ہے
خدا کی شان یہ لب اور بوسہ سنگِ اسود کا
ہمارا منہ اور اِس قابل عطاے ربِ اکبر ہے
جو ہیبت سے رُکے مجرم تو رحمت نے کہا بڑھ کر
چلے آئو چلے آئو یہ گھر رحمن کا گھر ہے
مقامِ حضرتِ خلّت پدر سا مہرباں پایا
کلیجہ سے لگانے کو حطیم آغوشِ مادر ہے
لگاتا ہے غلافِ پاک کوئی چشم پُر نم سے
لپٹ کر ملتزم سے کوئی محو وصلِ دلبر ہے
وطن اور اُس کا تڑکا صدقے اس شامِ غریبی پر
کہ نورِ رُکن شامی رُوکشِ صبحِ منور ہے
ہوئے ایمان تازہ بوسۂ رُکن یمانی سے
فدا ہو جائوں یمن و ایمنی کا پاک منظر ہے
یہ زمزم اُس لیے ہے جس لیے اس کو پئے کوئی
اِسی زمزم میں جنت ہے اِسی زمزم میں کوثر ہے
شفا کیوں کر نہ پائیں نیم جاں زہر معاصی سے
کہ نظارہ عراقی رکن کا تریاقِ اکبر ہے
صفاے قلب کے جلوے عیاں ہیں سعی مسعیٰ سے
یہاں کی بے قراری بھی سکونِ جانِ مضطر ہے
ہوا ہے پیر کا حج پیر نے جن سے شرف پایا
اُنھیں کے فضل سے دن جمعہ کا ہر دن سے بہتر ہے
نہیں کچھ جمعہ پر موقوف افضال و کرم ان کا
جو وہ مقبول فرما لیں تو ہر حج حجِ اکبر ہے
حسنؔ حج کر لیا کعبہ سے آنکھوں نے ضیا پائی
چلو دیکھیں وہ بستی جس کا رستہ دل کے اندر ہے
ؤ
سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہے
سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہے
نسیمِ روح پرور سے مشامِ جاں معطر ہے
قریب طیبہ بخشے ہیں تصور نے مزے کیا کیا
مرا دل ہے مدینہ میں مدینہ دل کے اندر ہے
ملائک سر جہاں اپنا جھجکتے ڈرتے رکھتے ہیں
قدم اُن کے گنہگاروں کا ایسی سر زمیں پر ہے
ارے او سونے والے دِل ارے اوسونے والے دِل
سحر ہے جاگ غافل دیکھ تو عالم منور ہے
سہانی طرز کی طلعت نرالی رنگ کی نکہت
نسیمِ صبح سے مہکا ہوا پُر نور منظر ہے
تعالیٰ اﷲ یہ شادابی یہ رنگینی تعالیٰ اﷲ
بہارِ ہشت جنت دشتِ طیبہ پر نچھاور ہے
ہوائیں آ رہی ہیں کوچۂ پُر نورِ جاناں کی
کھلی جاتی ہیں کلیاں تازگی دل کو میسر ہے
منور چشمِ زائر ہے جمالِ عرشِ اعظم سے
نظر میں سبز قُبّہ کی تجلی جلوہ گستر ہے
یہ رفعت درگہِ عرش آستاں کے قرب سے پائی
کہ ہر ہر سانس ہر ہر گام پر معراجِ دیگر ہے
محرم کی نویں تاریخ بارہ منزلیں کر کے
وہاں پہنچے وہ گھر دیکھا جو گھر اﷲ کا گھرہے
نہ پوچھو ہم کہاں پہنچے اور اِن آنکھوں نے کیا دیکھا
جہاں پہنچے وہاں پہنچے جو دیکھا دل کے اندر ہے
ہزاروں بے نوائوں کے ہیں جمگھٹ آستانہ پر
طلب دل میں صداے یا رسول اﷲ لب پر ہے
لکھا ہے خامۂ رحمت نے دَر پر خط قدرت سے
جسے یہ آستانہ مل گیا سب کچھ میسر ہے
خدا ہے اس کا مالک یہ خدائی بھر کا مالک ہے
خدا ہے اس کا مولیٰ یہ خدائی بھر کا سرور ہے
زمانہ اس کے قابو میں زمانے والے قابو میں
یہ ہر دفتر کا حاکم ہے یہ ہر حاکم کا افسر ہے
عطا کے ساتھ ہے مختار رحمت کے خزانوں کا
خدائی پر ہے قابو بس خدائی اس سے باہرہے
کرم کے جوش ہیں بذل و نعم کے دَور دَورے ہیں
عطاے با نوا ہر بے نوا سے شیر و شکر ہے
کوئی لپٹا ہے فرطِ شوق میں روضے کی جالی سے
کوئی گردن جھکائے رُعب سے با دیدۂ تر ہے
کوئی مشغولِ عرض حال ہے یوں شادماں ہو کر
کہ یہ سب سے بڑی سرکار ہے تقدیر یاور ہے
کمینہ بندۂ دَر عرض کرتا ہے حضوری میں
جو موروثی یہاں کا مدح گستر ہے ثنا گر ہے
تری رحمت کے صدقے یہ تری رحمت کا صدقہ تھا
کہ اِن ناپاک آنکھوں کو یہ نظارہ میسر ہے
ذلیلوں کی تو کیا گنتی سلاطینِ زمانہ کو
تری سرکار عالی ہے ترا دربار برتر ہے
تری دولت تری ثروت تری شوکت جلالت کا
نہ ہے کوئی زمیں پر اور نہ کوئی آسماں پر ہے
مطاف و کعبہ کا عالم دکھایا تو نے طیبہ میں
ترا گھر بیچ میں چاروں طرف اﷲ کا گھر ہے
تجلی پر تری صدقے ہے مہر و ماہ کی تابش
پسینے پر ترے قربان رُوحِ مشک و عنبر ہے
غم و افسوس کا دافع اشارہ پیاری آنکھوں کا
دل مایوس کی حامی نگاہِ بندہ پرور ہے
جو سب اچھوں میں ہے اچھا جو ہر بہتر سے بہتر ہے
ترے صدقے سے اچھا ہے ترے صدقے میں بہتر ہے
رکھوں میں حاضری کی شرم ان اعمال پر کیونکر
مرے امکان سے باہر مری قدرت سے باہر ہے
اگر شانِ کرم کو لاج ہو میرے بُلانے کی
تو میری حاضری دونوں جہاں میں میری یاور ہے
مجھے کیا ہو گیا ہے کیوں میں ایسی باتیں کرتا ہوں
یہاں بھی یاس و محرومی یہ کیوں کر ہو یہ کیوں کرہے
بُلا کر اپنے کُتّے کو نہ دیں چمکار کر ٹکڑا
پھر اس شانِ کرم پر فہم سے یہ بات باہر ہے
تذبذب مغفرت میں کیوں رہے اِس دَر کے زائر کو
کہ یہ درگاہِ والا رحمتِ خالص کا منظرہے
مبارک ہو حسنؔ سب آرزوئیں ہو گئیں پوری
اب اُن کے صدقے میں عیشِ ابد تجھ کو میسر ہے