(ردیف زاے معجمہ)
جتنا مرے خدا کو ہے میرا نبی عزیز
جتنا مرے خدا کو ہے میرا نبی عزیز
کونین میں کسی کو نہ ہو گا کوئی عزیز
خاکِ مدینہ پر مجھے اﷲ موت دے
وہ مردہ دل ہے جس کو نہ ہو زندگی عزیز
کیوں جائیں ہم کہیں کہ غنی تم نے کر دیا
اب تو یہ گھر پسند ، یہ دَر ، یہ گلی عزیز
جو کچھ تری رِضا ہے خدا کی وہی خوشی
جو کچھ تری خوشی ہے خدا کو وہی عزیز
گو ہم نمک حرام نکمّے غلام ہیں
قربان پھر بھی رکھتی ہے رحمت تری عزیز
شانِ کرم کو اچھے بُرے سے غرض نہیں
اُس کو سبھی پسند ہیں اُس کو سبھی عزیز
منگتا کا ہاتھ اُٹھا تو مدینہ ہی کی طرف
تیرا ہی دَر پسند، تری ہی گلی عزیز
اُس دَر کی خاک پر مجھے مرنا پسند ہے
تختِ شہی پہ کس کو نہیں زندگی عزیز
کونین دے دیے ہیں ترے اِختیار میں
اﷲ کو بھی کتنی ہے خاطر تری عزیز
محشر میں دو جہاں کو خدا کی خوشی کی چاہ
میرے حضور کی ہے خدا کو خوشی عزیز
قرآن کھا رہا ہے اِسی خاک کی قسم
ہم کون ہیں خدا کو ہے تیری گلی عزیز
طیبہ کی خاک ہو کہ حیاتِ ابد ملے
اے جاں بلب تجھے ہے اگر زندگی عزیز
سنگِ ستم کے بعد دُعاے فلاح کی
بندے تو بندے ہیں تمھیں ہیں مدعی عزیز
دِل سے ذرا یہ کہہ دے کہ اُن کا غلام ہوں
ہر دشمنِ خدا ہو خدا کو ابھی عزیز
طیبہ کے ہوتے خلد بریں کیا کروں حسنؔ
مجھ کو یہی پسند ہے ، مجھ کو یہی عزیز
0000000000000​
 
(ردیف سین مہملہ)
ہوں جو یادِ رُخِ پُر نور میں مرغانِ قفس
ہوں جو یادِ رُخِ پُر نور میں مرغانِ قفس
چمک اُٹھے چہِ یوسف کی طرح شانِ قفس
کس بَلا میں ہیں گرفتارِ اسیرانِ قفس
کل تھے مہمانِ چمن آج ہیں مہمانِ قفس
حیف در چشمِ زدن صحبتِ یار آخر شد
اب کہاں طیبہ وہی ہم وہی زندانِ قفس
روے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد
ہائے کیا قہر کیا اُلفتِ یارانِ قفس
نوحہ گر کیوں نہ رہے مُرغِ خوش اِلحانِ چمن
باغ سے دام ملا دام سے زِندانِ قفس
پائیں صحراے مدینہ تو گلستاں مل جائے
ہند ہے ہم کو قفس ہم ہیں اسیرانِ قفس
زخمِ دل پھول بنے آہ کی چلتی ہے نسیم
روز افزوں ہے بہارِ چمنستانِ قفس
قافلہ دیکھتے ہیں جب سوے طیبہ جاتے
کیسی حسرت سے تڑپتے ہیں اسیرانِِ قفس
تھا چمن ہی ہمیں زنداں کہ نہ تھا وہ گل تر
قید پر قید ہوا اور یہ زِندانِ قفس
دشتِ طیبہ میں ہمیں شکل وطن یاد آئی
بد نصیبی سے ہوا باغ میں ارمانِ قفس
اَب نہ آئیں گے اگر کھل گئی قسمت کی گرہ
اب گرہ باندھ لیا ہم نے یہ پیمانِ قفس
ہند کو کون مدینہ سے پلٹنا چاہے
عیشِ گلزار بھلا دے جو نہ دورانِ قفس
چہچہے کس گل خوبی کی ثنا میں ہیں حسنؔ
نکہتِ خلد سے مہکا ہے جو زِندانِ قفس
00000000000
 
(ردیف شین معجمہ)
جنابِ مصطفیٰ ہوں جس سے نا خوش
جنابِ مصطفیٰ ہوں جس سے نا خوش
نہیں ممکن ہو کہ اُس سے خدا خوش
شہِ کونین نے جب صدقہ بانٹا
زمانے بھر کو دَم میں کر دیا خوش
سلاطیں مانگتے ہیں بھیک اُس سے
یہ اپنے گھر سے ہے اُن کا گدا خوش
پسندِ حقِ تعالیٰ تیری ہر بات
ترے انداز خوش تیری ادا خوش
مٹیں سب ظاہر و باطن کے امراض
مدینہ کی ہے یہ آب و ہوا خوش
فَتَرْضٰی کی محبت کے تقاضے
کہ جس سے آپ خوش اُس سے خدا خوش
ہزاروں جرم کرتا ہوں شب و روز
خوشا قسمت نہیں وہ پھر بھی نا خوش
الٰہی دے مرے دل کو غمِ عشق
نشاطِ دَہر سے ہو جاؤں ناخوش
نہیں جاتیں کبھی دشت نبی سے
کچھ ایسی ہے بہاروں کو فضا خوش
مدینہ کی اگر سرحد نظر آئے
دلِ ناشاد ہو بے اِنتہا خوش
نہ لے آرام دم بھر بے غمِ عشق
دلِ مضطر میں خوش میرا خدا خوش
نہ تھا ممکن کہ ایسی معصیت پر
گنہگاروں سے ہو جاتا خدا خوش
تمہاری روتی آنکھوں نے ہنسایا
تمہارے غمزدہ دل نے کیا خوش
الٰہی دُھوپ ہو اُن کی گلی کی
مرے سر کو نہیں ظِلّ ہما خوش
حسنؔ نعت و چنیں شیریں بیانی
تو خوش باشی کہ کر دی وقتِ ما خوش
00000000000
 
(ردیف صاد معجمہ)
خدا کی خلق میں سب اَنبیا خاص
خدا کی خلق میں سب انبیا خاص
گروہِ انبیا میں مصطفیٰ خاص
نرالا حُسنِ انداز و اَدا خاص
تجھے خاصوں میں حق نے کر لیا خاص
تری نعمت کے سائل خاص تا عام
تری رحمت کے طالب عام تا خاص
شریک اُس میں نہیں کوئی پیمبر
خدا سے ہے تجھ کو واسطہ خاص
گنہگارو! نہ ہو مایوسِ رحمت
نہیں ہوتی کریموں کی عطا خاص
گدا ہوںخاص رحمت سے ملے بھیک
نہ میں خاص اور نہ میری اِلتجا خاص
ملا جو کچھ جسے وہ تم سے پایا
تمھیں ہو مالکِ مُلکِ خدا خاص
غریبوں بے نوائوں بے کسوں کو
خدا نے در تمہارا کر دیا خاص
جو کچھ پیدا ہوا دونوں جہاں میں
تصدق ہے تمہاری ذات کا خاص
تمہاری انجمن آرائیوں کو
ہوا ہنگامۂ قَالُوْا بَلٰی خاص
نبی ہم پایہ ہوں کیا تو نے پایا
نبوت کی طرح ہر معجزہ خاص
جو رکھتا ہے جمالِ مَنْ رَّاٰنِیْ
اُسی منہ کی صفت ہے وَالضُّحٰی خاص
نہ بھیجو اور دروازوں پر اِس کو
حسنؔ ہے آپ کے در کا گدا خاص
000000000000
 
(ردیف ضاد معجمہ)
سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض
سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض
یہ عرض ہے حضور بڑے بے نوا کی عرض
اُن کے گدا کے دَر پہ ہے یوں بادشاہ کی عرض
جیسے ہو بادشاہ کے دَر پہ گدا کی عرض
عاجز نوازیوں پہ کرم ہے تُلا ہوا
وہ دل لگا کے سنتے ہیں ہر بے نوا کی عرض
قربان اُن کے نام کے بے اُن کے نام کے
مقبول ہو نہ خاصِ جنابِ خدا کی عرض
غم کی گھٹائیں چھائی ہیں مجھ تیرہ بخت پر
اے مہر سن لے ذرّۂ بے دست و پا کی عرض
اے بے کسوں کے حامی و یاور سوا ترے
کس کو غرض ہے کون سنے مبتلا کی عرض
اے کیمیاے دل میں ترے دَر کی خاک ہوں
خاکِ دَر حضور سے ہے کیمیا کی عرض
اُلجھن سے دُور نور سے معمور کر مجھے
اے زُلفِ پاک ہے یہ اَسیرِ بلا کی عرض
دُکھ میں رہے کوئی یہ گوارا نہیں اُنہیں
مقبول کیوں نہ ہو دلِ درد آشنا کی عرض
کیوں طول دوں حضور یہ دیں یہ عطا کریں
خود جانتے ہیں آپ مرے مدعا کی عرض
دَامن بھریں گے دولتِ فضلِ خدا سے ہم
خالی کبھی گئی ہے حسنؔ مصطفیٰ کی عرض
00000000000000
 
(ردیف طاے مہملہ)
چشم ِدل چاہے جو اَنوار سے ربط
چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط
رکھے خاکِ درِ دلدار سے ربط
اُن کی نعمت کا طلبگار سے میل
اُن کی رحمت کا گنہگار سے ربط
دشتِ طیبہ کی جو دیکھ آئیں بہار
ہو عنادِل کو نہ گلزار سے ربط
یا خدا دل نہ ملے دُنیا سے
نہ ہو آئینہ کو زنگار سے ربط
نفس سے میل نہ کرنا اے دل
قہر ہے ایسے ستم گار سے ربط
دلِ نجدی میں ہو کیوں حُبِّ حضور
ظلمتوں کو نہیں اَنوار سے ربط
تلخیِ نزع سے اُس کو کیا کام
ہو جسے لعل شکر بار سے ربط
خاک طیبہ کی اگر مل جائے
آپ صحت کرے بیمار سے ربط
اُن کے دامانِ گہر بار کو ہے
کاسۂ دوست طلبگار سے ربط
کل ہے اجلاس کا دن اور ہمیں
میل عملہ سے نہ دربار سے ربط
عمر یوں اُن کی گلی میں گزرے
ذرّہ ذرّہ سے بڑھے پیار سے ربط
سرِ شوریدہ کو ہے دَر سے میل
کمر خستہ کو دیوار سے ربط
اے حسنؔ خیر ہے کیا کرتے ہو
یار کو چھوڑ کر اَغیار سے ربط
0000000000000000
 
(ردیف ظاد معجمہ)
خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وُقعت محفوظ
خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وقعت محفوظ
عیبِ کوری سے رہے چشمِ بصیرت محفوظ
دل میں روشن ہو اگر شمع وِلاے مولیٰ
دُزدِ شیطا ں سے رہے دین کی دولت محفوظ
یا خدا محو نظارہ ہوں یہاں تک آنکھیں
شکل قرآں ہو مرے دل میں وہ صورت محفوظ
سلسلہ زُلفِ مبارک سے ہے جس کے دل کو
ہر بَلا سے رکھے اﷲ کی رحمت محفوظ
تھی جو اُس ذات سے تکمیل فرامیں منظور
رکھی خاتم کے لیے مہر نبوت محفوظ
اے نگہبان مرے تجھ پہ صلوٰۃ اور سلام
دو جہاں میں ترے بندے ہیں سلامت محفوظ
واسطہ حفظِ الٰہی کا بچا رہزن سے
رہے ایمانِ غریباں دمِ رحلت محفوظ
شاہیِ کون و مکاں آپ کو دی خالق نے
کنز قدرت میں اَزل سے تھی یہ دولت محفوظ
تیرے قانون میں گنجائش تبدیل نہیں
نسخ و ترمیم سے ہے تری شریعت محفوظ
جسے آزاد کرے قامتِ شہ کا صدقہ
رہے فتنوں سے وہ تا روزِ قیامت محفوظ
اُس کو اَعدا کی عداوت سے ضرر کیا پہنچے
جس کے دل میں ہو حسنؔ اُن کی محبت محفوظ
 

(ردیف عین مہملہ)
مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع
مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع
عروج و اَوج ہیں قربانِ بارگاہِ رفیع
نہیں گدا ہی سرِ خوانِ بارگاہِ رفیع
خلیل بھی تو ہیں مہمانِ بارگاہِ رفیع
بنائے دونوں جہاں مجرئی اُسی دَر کے
کیا خدا نے جو سامانِ بارگاہِ رفیع
زمینِ عجز پہ سجدہ کرائیں شاہوں سے
فلک جناب غلامانِ بارگاہِ رفیع
ہے انتہاے علا ابتداے اَوج یہاں
ورا خیال سے ہے شانِ بارگاہِ رفیع
کمند رشتۂ عمر خضر پہنچ نہ سکے
بلند اِتنا ہے ایوانِ بارگاہِ رفیع
وہ کون ہے جو نہیں فیضیاب اِس دَر سے
سبھی ہیں بندۂ احِسانِ بارگاہِ رفیع
نوازے جاتے ہیں ہم سے نمک حرام غلام
ہماری جان ہو قربانِ بارگاہِ رفیع
مطیع نفس ہیں وہ سرکشانِ جن و بشر
نہیں جو تابعِ فرمانِ بارگاہِ رفیع
صلاے عام ہیں مہماں نواز ہیں سرکار
کبھی اٹھا ہی نہیں خوانِ بارگاہِ رفیع
جمالِ شمس و قمر کا سنگار ہے شب و روز
فروغِ شمسۂ ایوانِ بارگاہِ رفیع
ملائکہ ہیں فقط دابِ سلطنت کے لیے
خدا ہے آپ نگہبانِ بارگاہِ رفیع
حسنؔ جلالتِ شاہی سے کیوں جھجکتا ہے
گدا نواز ہے سلطانِ بارگاہِ رفیع
 
(ردیف غین معجمہ)
خوشبوے دشت طیبہ سے بس جائے گر دماغ
خوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ
مہکائے بوے خلد مرا سر بسر دماغ
پایا ہے پاے صاحبِ معراج سے شرف
ذرّاتِ کوے طیبہ کا ہے عرش پر دماغ
مومن فداے نور و شمیم حضور ہیں
ہر دل چمک رہا ہے معطر ہے ہر دماغ
ایسا بسے کہ بوے گل خلد سے بسے
ہو یاد نقشِ پاے نبی کا جو گھر دماغ
آباد کر خدا کے لیے اپنے نور سے
ویران دل ہے دل سے زیادہ کھنڈر دماغ
ہر خارِ طیبہ زینتِ گلشن ہے عندلیب
نادان ایک پھول پر اتنا نہ کر دماغ
زاہد ہے مستحقِ کرامت گناہ گار
اللہ اکبر اتنا مزاج اس قدر دماغ
اے عندلیب خارِ حرم سے مثالِ گل
بک بک کے ہرزہ گوئی سے خالی نہ کر دماغ
بے نور دل کے واسطے کچھ بھیک مانگتے
ذرّاتِ خاکِ طیبہ کا ملتا اگر دماغ
ہر دم خیالِ پاک اقامت گزیں رہے
بن جائے گر دماغ نہ ہو رہ گزر دماغ
شاید کہ وصف پاے نبی کچھ بیاں کرے
پوری ترقیوں پہ رسا ہو اگر دماغ
اُس بد لگام کو خر دجال جانئے
منہ آئے ذکر پاک کو سن کر جو خر دماغ
اُن کے خیال سے وہ ملی امن اے حسنؔ
سر پر نہ آئے کوئی بَلا ہو سپر دماغ
 
(ردیف فا)
کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو بر خلاف
کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو بر خلاف
اُن کی مدد رہے تو کرے کیا اَثر خلاف
اُن کا عدو اسیرِ بَلاے نفاق ہے
اُس کی زبان و دل میں رہے عمر بھر خلاف
کرتا ہے ذکرِ پاک سے نجدی مخالفت
کم بخت بد نصیب کی قسمت ہے بر خلاف
اُن کی وجاہتوں میں کمی ہو محال ہے
بالفرض اک زمانہ ہو اُن سے اگر خلاف
اُٹھوں جو خوابِ مرگ سے آئے شمِیم یار
یا ربّ نہ صبحِ حشر ہو بادِ سحر خلاف
قربان جائوں رحمتِ عاجز نواز پر
ہوتی نہیں غریب سے اُن کی نظر خلاف
شانِ کرم کسی سے عوض چاہتی نہیں
لاکھ اِمتثالِ امر میں دل ہو ادھر خلاف
کیا رحمتیں ہیں لطف میں پھر بھی کمی نہیں
کرتے رہے ہیں حکم سے ہم عمر بھر خلاف
تعمیل حکمِ حق کا حسنؔ ہے اگر خیال
ارشادِ پاک سرورِ دیں کا نہ کر خلاف
:redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose:
رحمت نہ کس طرح ہو گنہگار کی طرف
رحمت نہ کس طرح ہو گنہگار کی طرف
رحمن خود ہے میرے طرفدار کی طرف
جانِ جناں ہے دشتِ مدینہ تری بہار
بُلبل نہ جائے گی کبھی گلزار کی طرف
انکار کا وقوع تو کیا ہو کریم سے
مائل ہوا نہ دل کبھی اِنکار کی طرف
جنت بھی لینے آئے تو چھوڑیں نہ یہ گلی
منہ پھیر بیٹھیں ہم تری دیوار کی طرف
منہ اُس کا دیکھتی ہیں بہاریں بہشت کی
جس کی نگاہ ہے ترے رُخسار کی طرف
جاں بخشیاں مسیح کو حیرت میں ڈالتیں
چُپ بیٹھے دیکھتے تری رفتار کی طرف
محشر میں آفتاب اُدھر گرم اور اِدھر
آنکھیں لگی ہیں دامنِ دلدار کی طرف
پھیلا ہوا ہے ہاتھ ترے دَر کے سامنے
گردن جھکی ہوئی تری دیوار کی طرف
گو بے شمار جرم ہوں گو بے عدد گناہ
کچھ غم نہیں جو تم ہو گنہگار کی طرف
یوں مجھ کو موت آئے تو کیا پوچھنا مرا
میں خاک پر نگاہ دَرِ یار کی طرف
کعبے کے صدقے دل کی تمنا مگر یہ ہے
مرنے کے وقت منہ ہو دَرِ یار کی طرف
دے جاتے ہیں مراد جہاں مانگیے وہاں
منہ ہونا چاہیے درِ سرکار کی طرف
روکے گی حشر میں جو مجھے پا شکستگی
دوڑیں گے ہاتھ دامنِ دلدار کی طرف
آہیں دلِ اسیر سے لب تک نہ آئی تھیں
اور آپ دوڑے آئے گرفتار کی طرف
دیکھی جو بے کسی تو انہیں رحم آ گیا
گھبرا کے ہو گئے وہ گنہگار کی طرف
بٹتی ہے بھیک دوڑتے پھرتے ہیں بے نوا
دَر کی طرف کبھی کبھی دیوار کی طرف
عالم کے دل تو بھر گئے دولت سے کیا عجب
گھر دوڑنے لگیں درِ سرکار کی طرف
آنکھیں جو بند ہوں تو مقدر کھلے حسنؔ
جلوے خود آئیں طالبِ دیدار کی طرف
 
(ردیف قاف)
ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونق
ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونق
ترا ہی نور ہے بزمِ ظہور کی رونق
رہے نہ عفو میں پھر ایک ذرّہ شک باقی
جو اُن کی خاکِ قدم ہو قبور کی رونق
نہ فرش کا یہ تجمل نہ عرش کا یہ جمال
فقط ہے نور و ظہورِ حضور کی رونق
تمہارے نور سے روشن ہوئے زمین و فلک
یہی جمال ہے نزدیک و دُور کی رونق
زبانِ حال سے کہتے ہیں نقشِ پا اُن کے
ہمیں ہیں چہرۂ غلمان و حور کی رونق
ترے نثار ترا ایک جلوۂ رنگیں
بہارِ جنت و حور و قصور کی رونق
ضیا زمین و فلک کی ہے جس تجلّی سے
الٰہی ہو وہ دلِ ناصبور کی رونق
یہی فروغ تو زیبِ صفا و زینت ہے
یہی ہے حسن تجلّی و نور کی رونق
حضور تیرہ و تاریک ہے یہ پتھر دل
تجلّیوں سے ہوئی کوہِ طور کی رونق
سجی ہے جن سے شبستانِ عالمِ امکاں
وہی ہیں مجلسِ روزِ نشور کی رونق
کریںدلوںکومنورسراج(۱)کے جلوے
فروغِ بزمِ عوارف ہو نور (۲) کی رونق
دعا خدا سے غمِ عشقِ مصطفیٰ کی ہے
حسنؔ یہ غم ہے نشاط و سُرور کی رونق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) سراج العوارف مصنفہ حضرت پیرو مرشد رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۱۲
(۲) متخلص حضرت سیدنا شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی رحمۃ اللہ علیہ۔۱۲
 
(ردیف کاف)
جو ہو سر کو رسائی اُن کے دَر تک
جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک
تو پہنچے تاجِ عزت اپنے سر تک
وہ جب تشریف لائے گھرسے در تک
بھکاری کا بھرا ہے دَر سے گھر تک
دُہائی ناخداے بے کساں کی
ٔکہ سیلابِ اَلم پہنچا کمر تک
الٰہی دل کو دے وہ سوزِ اُلفت
پُھنکے سینہ جلن پہنچے جگر تک
نہ ہو جب تک تمہارا نام شامل
دعائیں جا نہیں سکتیں اَثر تک
گزر کی راہ نکلی رہ گزر میں
ابھی پہنچے نہ تھے ہم اُن کے دَر تک
خدا یوں اُن کی اُلفت میں گما دے
نہ پائوں پھر کبھی اپنی خبر تک
بجائے چشم خود اُٹھتا نہ ہو آڑ
جمالِ یار سے تیری نظر تک
تری نعمت کے بُھوکے اہلِ دولت
تری رحمت کا پیاسا ابر تک
نہ ہو گا دو قدم کا فاصلہ بھی
الٰہ آباد سے احمد نگر تک
تمہارے حسن کے باڑے کے صدقے
نمک خوار ملاحت ہے قمر تک
شبِ معراج تھے جلوے پہ جلوے
شبستانِ دنیٰ سے اُن کے گھر تک
بلائے جان ہے اب ویرانیِ دل
چلے آئو کبھی اس اُجڑے گھر تک
نہ کھول آنکھیں نگاہِ شوقِ ناقص
بہت پردے ہیں حسنِ جلوہ گر تک
جہنم میں دھکیلیں نجدیوں کو
حسنؔ جھوٹوں کو یوں پہنچائیں گھر تک
 
(ردیف میم)
اے دین حق کے رہبر تم پر سلام ہر دم
اے دینِ حق کے رہبر تم پر سلام ہر دم
میرے شفیعِ محشر تم پر سلام ہر دم
اِس بے کس و حزیں پر جو کچھ گزر رہی ہے
ظاہر ہے سب وہ تم پر ، تم پر سلام ہر دم
دُنیا و آخرت میں جب میں رہوں سلامت
پیارے پڑھوں نہ کیوں کر تم پر سلام ہر دم
دِل تفتگانِ فرقت پیاسے ہیں مدتوں سے
ہم کو بھی جامِ کوثر تم پر سلام ہر دم
بندہ تمہارے دَر کا آفت میں مبتلا ہے
رحم اے حبیبِ دَاور تم پر سلام ہر دم
بے وارثوں کے وارث بے والیوں کے والی
تسکینِ جانِ مضطر تم پر سلام ہر دم
للہ اب ہماری فریاد کو پہنچئے
بے حد ہے حال اَبتر تم پر سلام ہر دم
جلادِ نفسِ بد سے دیجے مجھے رِہائی
اب ہے گلے پہ خنجر تم پر سلام ہر دم
دَریوزہ گر ہوں میں بھی ادنیٰ سا اُس گلی کا
لطف و کرم ہو مجھ پر تم پر سلام ہر دم
کوئی نہیں ہے میرا میں کس سے داد چاہوں
سلطانِ بندہ پرور تم پر سلام ہر دم
غم کی گھٹائیں گھر کر آئی ہیں ہر طرف سے
اے مہر ذرّہ پرور تم پر سلام ہر دم
بُلوا کے اپنے دَر پر اب مجھ کو دیجے عزت
پھرتا ہوں خوار دَر دَر تم پر سلام ہر دم
محتاج سے تمہارے سب کرتے ہیں کنارا
بس اک تمھیں ہو یاور تم پر سلام ہر دم
بہرِ خدا بچائو اِن خار ہاے غم سے
اک دل ہے لاکھ نشتر تم پر سلام ہر دم
کوئی نہیں ہمارا ہم کس کے دَر پہ جائیں
اے بے کسوں کے یاور تم پر سلام ہر دم
کیا خوف مجھ کو پیارے نارِ جحیم سے ہو
تم ہو شفیعِ محشر تم پر سلام ہر دم
اپنے گداے دَر کی لیجے خبر خدارا
کیجے کرم حسنؔ پر تم پر سلام ہر دم
:redrose::redrose::redrose::redrose: :redrose:

اے مدینہ کے تاجدار سلام
اے مدینہ کے تاجدار سلام
اے غریبوں کے غمگسار سلام
تری اک اک اَدا پر اے پیارے
سَو دُرودیں فدا ہزار سلام
رَبِّ سَلِّمْ کے کہنے والے پر
جان کے ساتھ ہو نثار سلام
میرے پیارے پہ میرے آقا پر
میری جانب سے لاکھ بار سلام
میری بگڑی بنانے والے پر
بھیج اے میرے کِردگار سلام
اُس پناہِ گناہ گاراں پر
یہ سلام اور کروڑ بار سلام
اُس جوابِ سلام کے صدقے
تا قیامت ہوں بے شمار سلام
اُن کی محفل میں ساتھ لے جائیں
حسرتِ جانِ بے قرار سلام
پردہ میرا نہ فاش حشر میں ہو
اے مرے حق کے راز دار سلام
وہ سلامت رہا قیامت میں
پڑھ لیے جس نے دل سے چار سلام
عرض کرتا ہے یہ حسنؔ تیرا
تجھ پہ اے خُلد کی بہار سلام
:redrose::redrose::redrose::redrose: :redrose:
تیرے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالم
ترے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالم
تو سلطانِ عالم ہے اے جانِ عالم
یہ پیاری ادائیں یہ نیچی نگاہیں
فدا جانِ عالم ہو اے جانِ عالم
کسی اور کو بھی یہ دولت ملی ہے
ٔگداکس کے دَر کے ہیں شاہانِ عالم
میں دَر دَر پھروں چھوڑ کر کیوں ترا دَر
اُٹھائے بَلا میری احسانِ عالم
میں سرکارِ عالی کے قربان جائوں
بھکاری ہیں اُس دَر کے شاہانِ عالم
مرے دبدبہ والے میں تیرے صدقے
ترے دَر کے کُتّے ہیں شاہانِ عالم
تمہاری طرف ہاتھ پھیلے ہیں سب کے
تمھیں پورے کرتے ہو ارمانِ عالم
مجھے زندہ کر دے مجھے زندہ کر دے
مرے جانِ عالم مرے جانِ عالم
مسلماں مسلماں ہیں تیرے سبب سے
مری جان تو ہی ہے ایمانِ عالم
مرے آن والے مرے شان والے
ٔگدائی ترے دَر کی ہے شانِ عالم
ُو بحرِ حقیقت تو دریاے عرفاں
ترا ایک قطرہ ہے عرفانِ عالم
کوئی جلوہ میرے بھی روزِ سیہ پر
خدا کے قمر مہرِ تابانِ عالم
بس اب کچھ عنایت ہوا اب ملا کچھ
انھیں تکتے رہنا فقیرانِ عالم
وہ دُولھا ہیں ساری خدائی براتی
اُنھیں کے لیے ہے یہ سامانِ عالم
نہ دیکھا کوئی پھول تجھ سا نہ دیکھا
بہت چھان ڈالے گلستانِ عالم
ترے کوچہ کی خاک ٹھہری اَزل سے
مری جاں علاجِ مریضانِ عالم
کوئی جانِ عیسیٰ کو جا کر خبر دے
مرے جاتے ہیں درد مندانِ عالم
ابھی سارے بیمار ہوتے ہیں اچھے
اگر لَب ہلا دے وہ دَرمانِ عالم
سَمِیْعًاخدارا حسن ؔکی بھی سن لے
بَلا میں ہے یہ لوث دامانِ عالم
:redrose::redrose::redrose::redrose: :redrose:
جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم
جاتے ہیں سوے مدینہ گھر سے ہم
باز آئے ہندِ بد اختر سے ہم
مار ڈالے بے قراری شوق کی
خوش تو جب ہوں اِس دلِ مضطر سے ہم
بے ٹھکانوں کا ٹھکانا ہے یہی
اب کہاں جائیں تمہارے دَر سے ہم
تشنگیِ حشر سے کچھ غم نہیں
ہیں غلامانِ شہِ کوثر سے ہم
اپنے ہاتھوں میں ہے دامانِ شفیع
ڈر چکے بس فتنۂ محشر سے ہم
نقشِ پا سے جو ہوا ہے سرفراز
دل بدل ڈالیں گے اُس پتھر سے ہم
گردن تسلیم خم کرنے کے ساتھ
پھینکتے ہیں بارِ عصیاں سر سے ہم
گور کی شب تار ہے پر خوف کیا
لَو لگائے ہیں رُخِ انور سے ہم
دیکھ لینا سب مرادیں مل گئیں
جب لپٹ کر روئے اُن کے دَر سے ہم
کیا بندھا ہم کو خد جانے خیال
آنکھیں ملتے ہیں جو ہر پتھر سے ہم
جانے والے چل دیئے کب کے حسنؔ
پھر رہے ہیں ایک بس مضطر سے ہم
:redrose::redrose::redrose::redrose: :redrose:
منقبت حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ
اﷲ برائے غوثِ اعظم
دے مجھ کو وِلاے غوثِ اعظم
دیدارِ خدا تجھے مبارک
اے محوِ لقاے غوث اعظم
وہ کون کریم صاحبِ جُود
میں کون گداے غوث اعظم
سوکھی ہوئی کھیتیاں ہری کر
اے ابرِ سخاے غوث اعظم
اُمیدیں نصیب مشکلیں حل
قربان عطاے غوث اعظم
کیا تیزیِ مہرِ حشر سے خوف
ہیں زیرِ لواے غوث اعظم
وہ اور ہیں جن کو کہیے محتاج
ہم تو ہیں گداے غوث اعظم
ہیں جانبِ نالۂ غریباں
گوشِ شنواے غوث اعظم
کیوں ہم کو ستائے نارِ دوزخ
کیوں رد ہو دعاے غوث اعظم
بیگانے بھی ہو گئے یگانے
دل کش ہے اداے غوث اعظم
آنکھوں میں ہے نور کی تجلی
پھیلی ہے ضیاے غوث اعظم
جو دم میں غنی کرے گدا کو
وہ کیا ہے عطاے غوث اعظم
کیوں حشر کے دن ہو فاش پردہ
ہیں زیرِ قباے غوث اعظم
آئینۂ رُوے خوب رویاں
نقشِ کفِ پاے غوث اعظم
اے دل نہ ڈر بلاوں سے اب
وہ آئی صداے غوث اعظم
اے غم جو ستائے اب تو جانوں
لے دیکھ وہ آئے غوث اعظم
تارِ نفسِ ملائکہ ہے
ہر تارِ قباے غوث اعظم
سب کھول دے عقدہاے مشکل
اے ناخنِ پاے غوث اعظم
کیا اُن کی ثنا لکھوں حسنؔ میں
جاں باد فداے غوث اعظم
:redrose::redrose::redrose::redrose: :redrose:
اَسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم
اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم
فقیروں کے حاجت رَوا غوث اعظم
گھرا ہے بَلائوں میں بندہ تمہارا
مدد کے لیے آئو یا غوث اعظم
ترے ہاتھ میں ہاتھ میں نے دیا ہے
ترے ہاتھ ہے لاج یا غوث اعظم
مریدوں کو خطرہ نہیں بحرِ غم سے
کہ بیڑے کے ہیں ناخدا غوث اعظم
تمھیں دُکھ سنو اپنے آفت زدوں کا
تمھیں درد کی دو دوا غوث اعظم
بھنور میں پھنسا ہے ہمارا سفینہ
بچا غوث اعظم بچا غوث اعظم
جو دکھ بھر رہا ہوں جو غم سہ رہا ہوں
کہوں کس سے تیرے سوا غوث اعظم
زمانے کے دُکھ درد کی رنج و غم کی
ترے ہاتھ میں ہے دوا غوث اعظم
اگر سلطنت کی ہوس ہو فقیرو
کہو شیئاً ﷲیا غوث اعظم
نکالا ہے پہلے تو ڈوبے ہوئوں کو
اور اب ڈوبتوں کو بچا غوث اعظم
جسے خلق کہتی ہے پیارا خدا کا
اُسی کا ہے تو لاڈلا غوث اعظم
کیا غورجب گیارھویں بارھویں میں
معمہ یہ ہم پر کھلا غوث اعظم
تمھیں وصلِ بے فصل ہے شاہِ دیں سے
دیا حق نے یہ مرتبہ غوث اعظم
پھنسا ہے تباہی میں بیڑا ہمارا
سہارا لگا دو ذرا غوث اعظم
مشائخ جہاں آئیں بہرِ گدائی
وہ ہے تیری دولت سرا غوث اعظم
مری مشکلوں کو بھی آسان کیجے
کہ ہیں آپ مشکل کشا غوث اعظم
وہاں سرجھکاتے ہیںسب اُونچے اُونچے
جہاں ہے ترا نقشِ پا غوث اعظم
قسم ہے کہ مشکل کو مشکل نہ پایا
کہا ہم نے جس وقت یا غوث اعظم
مجھے پھیر میں نفسِ کافر نے ڈالا
بتا جایئے راستہ غوث اعظم
کھلا دے جو مرجھائی کلیاں دلوں کی
چلا کوئی ایسی ہوا غوث اعظم
مجھے اپنی اُلفت میں ایسا گما دے
نہ پائوں پھر اپنا پتا غوث اعظم
بچا لے غلاموں کو مجبوریوں سے
کہ تو عبدِ قادِر ہے یا غوث اعظم
دکھا دے ذرا مہر رُخ کی تجلی
کہ چھائی ہے غم کی گھٹا غوث اعظم
گرانے لگی ہے مجھے لغزشِ َپا
سنبھالو ضعیفوں کو یا غوث اعظم
لپٹ جائیں دامن سے اُس کے ہزاروں
پکڑ لے جو دامن ترا غوث اعظم
سروں پہ جسے لیتے ہیں تاج والے
تمہارا قدم ہے وہ یا غوث اعظم
دوائے نگاہے عطائے سخائے
کہ شد دردِ ما لا دوا یا غوث اعظم
ز ہر رو و ہر راہ رویم بگرداں
سوے خویش را ہم نما غوث اعظم
اَسیر کمند ہوا یم کریما
بہ بخشائے بر حالِ ما غوث اعظم
فقیر تو چشمِ کرم از تو دارد
نگاہے بحالِ گدا غوث اعظم
گدایم مگر از گدایانِ شاہے
کہ گویندش اہل صفا غوث اعظم
کمر بست بر خونِ من نفسِ قاتل
اَغِثنی برائے خدا غوث اعظم
اَدھر میں پیا موری ڈولت ہے نیّا
کہوں کا سے اپنی بپا غوث اعظم
بپت میں کٹی موری سگری عمریا
کرو مو پہ اپنی دَیاَ غوث اعظم
بھیو دو جو بیکنٹھ بگداد توسے
کہو موری نگری بھی آ غوث اعظم
کہے کس سے جا کر حسنؔ اپنے دل کی
سنے کون تیرے سوا غوث اعظم
 
(ردیف نون)
کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں
کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں
لیکن اے دل فرقتِ کوے نبی اچھی نہیں
رحم کی سرکار میں پُرسش ہے ایسوں کی بہت
اے دل اچھا ہے اگر حالت مری اچھی نہیں
تیرہ دل کو جلوئہ ماہِ عرب درکار ہے
چودھویں کے چاند تیری چاندنی اچھی نہیں
کچھ خبر ہے میں بُرا ہوں کیسے اچھے کا بُرا
مجھ بُرے پر زاہدو طعنہ زنی اچھی نہیں
اُس گلی سے دُور رہ کر کیا مریں ہم کیا جئیں
آہ ایسی موت ایسی زندگی اچھی نہیں
اُن کے دَر کی بھیک چھوڑیں سروری کے واسطے
اُن کے دَر کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں
خاک اُن کے آستانے کی منگا دے چارہ گر
فکر کیا حالت اگر بیمار کی اچھی نہیں
سایۂ دیوارِ جاناں میں ہو بستر خاک پر
آرزوے تاج و تختِ خسروی اچھی نہیں
دردِ عصیاں کی ترقی سے ہوا ہوں جاں بلب
مجھ کو اچھا کیجیے حالت مری اچھی نہیں
ذرّۂ طیبہ کی طلعت کے مقابل اے قمر
گھٹتی بڑھتی چار دن کی چاندنی اچھی نہیں
موسمِ گل کیوں دکھائے جاتے ہیں یہ سبز باغ
دشتِ طیبہ جائیں گے ہم رہزنی اچھی نہیں
بے کسوں پر مہرباں ہے رحمتِ بیکس نواز
کون کہتا ہے ہماری بے کسی اچھی نہیں
بندۂ سرکار ہو پھر کر خدا کی بندگی
ورنہ اے بندے خدا کی بندگی اچھی نہیں
رُو سیہ ہوں منہ اُجالا کر دے اے طیبہ کے چاند
اِس اندھیرے پاکھ کی یہ تیرگی اچھی نہیں
خار ہاے دشتِ طیبہ چُبھ گئے دل میں مرے
عارضِ گل کی بہارِ عارضی اچھی نہیں
صبحِ محشر چونک اے دل جلوئہ محبوب دیکھ
نور کا تڑکا ہے پیارے کاہلی اچھی نہیں
اُن کے دَر پر موت آ جائے تو جی جائوں حسنؔ
اُن کے دَر سے دُور رہ کر زندگی اچھی نہیں
:redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose:
نگاہِ لطف کے اُ میدوار ہم بھی ہیں
نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں
لیے ہوئے یہ دلِ بے قرار ہم بھی ہیں
ہمارے دستِ تمنا کی لاج بھی رکھنا
ترے فقیروں میں اے شہر یار ہم بھی ہیں
اِدھر بھی توسنِ اقدس کے دو قدم جلوے
تمہاری راہ میں مُشتِ غبار ہم بھی ہیں
کھلا دو غنچۂ دل صدقہ باد دامن کا
اُمیدوارِ نسیمِ بہار ہم بھی ہیں
تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہے
پڑئے ہوئے تو سرِ رہ گزار ہم بھی ہیں
جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضور
تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں
یہ کس شہنشہِ والا کا صدقہ بٹتا ہے
کہ خسروئوں میں پڑی ہے پکار ہم بھی ہیں
ہماری بگڑی بنی اُن کے اختیار میں ہے
سپرد اُنھیں کے ہیں سب کاروبار ہم بھی ہیں
حسنؔ ہے جن کی سخاوت کی دُھوم عالم میں
اُنھیں کے تم بھی ہو اک ریزہ خوار، ہم بھی ہیں
:redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose:
کیا کریں محفل دلدار کو کیوںکر دیکھیں
کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیں
اپنے سرکار کے دربار کو کیوں کر دیکھیں
تابِ نظارہ تو ہو ، یار کو کیوں کر دیکھیں
آنکھیں ملتی نہیں دیدار کو کیوں کر دیکھیں
دلِ مردہ کو ترے کوچہ میں کیوں کر لے جائیں
اثرِ جلوۂ رفتار کو کیوں کر دیکھیں
جن کی نظروں میں ہے صحراے مدینہ بلبل
آنکھ اُٹھا کر ترے گلزار کو کیوں کر دیکھیں
عوضِ عفو گنہ بکتے ہیں اِک مجمع ہے
ہائے ہم اپنے خریدار کو کیوں کر دیکھیں
ہم گنہگار کہاں اور کہاں رؤیتِ عرش
سر اُٹھا کر تری دیوار کو کیوں کر دیکھیں
اور سرکار بنے ہیں تو انھیں کے دَر سے
ہم گدا اور کی سرکار کو کیوں کر دیکھیں
دستِ صیاد سے آہو کو چھڑائیں جو کریم
دامِ غم میں وہ گرفتار کو کیوں کر دیکھیں
تابِ دیدار کا دعویٰ ہے جنھیں سامنے آئیں
دیکھتے ہیں ترے رُخسار کو کیوں کر دیکھیں
دیکھیے کوچۂ محبوب میں کیوں کر پہنچیں
دیکھیے جلوۂ دیدار کو کیوں کر دیکھیں
اہل کارانِ سقر اور اِرادہ سے حسنؔ
ناز پروردۂ سرکار کو کیوں کر دیکھیں
:redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose:
نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دنیا کے ساماں میں
نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دُنیا کے ساماں میں
تمھیں دُولھا بنا کر بھیجنا تھا بزمِ امکاں میں
یہ رنگینی یہ شادابی کہاں گلزارِ رضواں میں
ہزاروں جنتیں آ کر بسی ہیں کوے جاناں میں
خزاں کا کس طرح ہو دخل جنت کے گلستاں میں
بہاریں بس چکی ہیں جلوئہ رنگینِ جاناں میں
تم آئے روشنی پھیلی ہُوا دن کھل گئی آنکھیں
اندھیرا سا اندھیرا چھا رہا تھا بزمِ اِمکاں میں
تھکا ماندہ وہ ہے جو پائوں اپنے توڑ کر بیٹھا
وہی پہنچا ہوا ٹھہرا جو پہنچا کوے جاناں میں
تمہارا کلمہ پڑھتا اُٹھے تم پر صدقے ہونے کو
جو پائے پاک سے ٹھوکر لگا دو جسمِ بے جاں میں
عجب انداز سے محبوبِ حق نے جلوہ فرمایا
سُرور آنکھوں میں آیا جان دل میں نور ایماں میں
فداے خار ہاے دشتِ طیبہ پھول جنت کے
یہ وہ کانٹے ہیں جن کو خود جگہ دیں گل رگِ جاں میں
ہر اک کی آرزو ہے پہلے مجھ کو ذبح فرمائیں
تماشا کر رہے ہیں مرنے والے عیدِ قرباں میں
ظہورِ پاک سے پہلے بھی صدقے تھے نبی تم پر
تمہارے نام ہی کی روشنی تھی بزمِ خوباں میں
کلیم آسا نہ کیونکر غش ہو اُن کے دیکھنے والے
نظر آتے ہیں جلوے طور کے رُخسارِ تاباں میں
ہوا بدلی گھرے بادل کھلے گل بلبلیں چہکیں
تم آئے یا بہارِ جاں فزا آئی گلستاں میں
کسی کو زندگی اپنی نہ ہوتی اِس قدر میٹھی
مگر دھوون تمہارے پائوں کا ہے شیرۂ جاں میں
اُسے قسمت نے اُس کے جیتے جی جنت میں پہنچایا
جو دم لینے کو بیٹھا سایۂ دیوارِ جاناں میں
کیا پروانوں کو بلبل نرالی شمع لائے تم
گرے پڑتے تھے جو آتش پہ وہ پہنچے گلستاں میں
نسیمِ طیبہ سے بھی شمع گل ہو جائے لیکن یوں
کہ گلشن پھولیں جنت لہلہا اُٹھے چراغاں میں
اگر دودِ چراغ بزمِ شہ چھو جائے کاجل سے
شبِ قدرِ تجلی کا ہو سرمہ چشمِ خوباں میں
کرم فرمائے گر باغِ مدینہ کی ہوا کچھ بھی
گل جنت نکل آئیں ابھی سروِ چراغاں میں
چمن کیونکر نہ مہکیں بلبلیں کیونکر نہ عاشق ہوں
تمہارا جلوۂ رنگیں بھرا پھولوں نے داماں میں
اگر دودِ چراغِ بزم والا مَس کرے کچھ بھی
شمیمِ مشک بس جائے گل شمعِ شبستاں میں
یہاں کے سنگریزوں سے حسنؔ کیا لعل کو نسبت
یہ اُن کی راہ گزر میں ہیں وہ پتھر ہے بدخشاں میں
:redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose:
عجب کرم شہِ والا تبار کرتے ہیں
عجب کرم شہ والا تبار کرتے ہیں
کہ نا اُمیدوں کو اُمیدوار کرتے ہیں
جما کے دل میں صفیں حسرت و تمنا کی
نگاہِ لطف کا ہم انتظار کرتے ہیں
مجھے فسردگیٔ بخت کا اَلم کیا ہو
وہ ایک دم میں خزاں کو بہار کرتے ہیں
خدا سگانِ نبی سے یہ مجھ کو سنوا دے
ہم اپنے کتوں میں تجھ کو شمار کرتے ہیں
ملائکہ کو بھی ہیں کچھ فضیلتیں ہم پر
کہ پاس رہتے ہیں طوفِ مزار کرتے ہیں
جو خوش نصیب یہاں خاکِ دَر پہ بیٹھتے ہیں
جلوسِ مسندِ شاہی سے عار کرتے ہیں
ہمارے دل کی لگی بھی وہی بُجھا دیں گے
جو دم میں آگ کو باغ و بہار کرتے ہیں
اشارہ کر دو تو بادِ خلاف کے جھونکے
ابھی ہمارے سفینے کو پار کرتے ہیں
تمہارے دَر کے گدائوں کی شان عالی ہے
وہ جس کو چاہتے ہیں تاجدار کرتے ہیں
گدا گدا ہے گدا وہ توکیا ہی چاہے ادب
بڑے بڑے ترے دَر کا وقار کرتے ہیں
تمام خلق کو منظور ہے رضا جن کی
رضا حضور کی وہ اختیار کرتے ہیں
سنا کے وصفِ رُخِ پاک عندلیب کو ہم
رہینِ آمدِ فصلِ بہار کرتے ہیں
ہوا خلاف ہو چکرائے نائو کیا غم ہے
وہ ایک آن میں بیڑے کو پار کرتے ہیں
اَنَا لَھَا سے وہ بازار کسمپرساں میں
تسلّیِ دلِ بے اختیار کرتے ہیں
بنائی پشت نہ کعبہ کی اُن کے گھر کی طرف
جنھیں خبر ہے وہ ایسا وقار کرتے ہیں
کبھی وہ تاجورانِ زمانہ کر نہ سکیں
جو کام آپ کے خدمت گزار کرتے ہیں
ہواے دامنِ جاناں کے جاں فزا جھونکے
خزاں رسیدوں کو باغ و بہار کرتے ہیں
سگانِ کوئے نبی کے نصیب پر قرباں
پڑے ہوئے سرِ راہ افتخار کرتے ہیں
کوئی یہ پوچھے مرے دل سے میری حسرت سے
کہ ٹوٹے حال میں کیا غمگسار کرتے ہیں
وہ اُن کے دَر کے فقیروں سے کیوں نہیں کہتے
جو شکوۂ ستمِ روزگار کرتے ہیں
تمہارے ہجر کے صدموں کی تاب کس کو ہے
یہ چوبِ خشک کو بھی بے قرار کرتے ہیں
کسی بَلا سے اُنھیں پہنچے کس طرح آسیب
جو تیرے نام سے اپنا حصار کرتے ہیں
یہ نرم دل ہیں وہ پیارے کہ سختیوں پر بھی
عدو کے حق میں دعا بار بار کرتے ہیں
کشودِ عقدۂ مشکل کی کیوں میں فکر کروں
یہ کام تو مرے طیبہ کے خار کرتے ہیں
زمینِ کوئے نبی کے جو لیتے ہیں بوسے
فرشتگانِ فلک اُن کو پیار کرتے ہیں
تمہارے دَر پہ گدا بھی ہیں ہاتھ پھیلائے
تمھیںسے عرضِ دُعا شہر یار کرتے ہیں
کسے ہے دید جمالِ خدا پسند کی تاب
وہ پورے جلوے کہاں آشکار کرتے ہیں
ہمارے نخلِ تمنا کو بھی وہ پھل دیں گے
درختِ خشک کو جو باردار کرتے ہیں
پڑے ہیں خوابِ تغافل میں ہم مگر مولیٰ
طرح طرح سے ہمیں ہوشیار کرتے ہیں
سنا نہ مرتے ہوئے آج تک کسی نے اُنھیں
جو اپنے جان و دل اُن پر نثار کرتے ہیں
اُنھیں کا جلوہ سرِ بزم دیکھتے ہیں پتنگ
انھیں کی یاد چمن میں ہزار کرتے ہیں
مرے کریم نہ آہو کو قید دیکھ سکے
عبث اسیرِ اَلم انتشار کرتے ہیں
جو ذرّے آتے ہیں پاے حضور کے نیچے
چمک کے مہر کو وہ شرمسار کرتے ہیں
جو موے پاک کو رکھتے ہیں اپنی ٹوپی میں
شجاعتیں وہ دمِ کارزار کرتے ہیں
جدھر وہ آتے ہیں اب اُس میں دل ہوں یا راہیں
مہک سے گیسوئوں کی مشکبار کرتے ہیں
حسنؔ کی جان ہو اُس وسعتِ کرم پہ نثار
کہ اک جہان کو اُمیدوار کرتے ہیں
:redrose::redrose::redrose::redrose::redrose::redrose:
منقبت حضور اچھے میاںرضی اﷲ عنہ
سن لو میری اِلتجا اچھے میاں
میں تصدق میں فدا اَچھے میاں
اب کمی کیا ہے خدا دے بندہ لے
میں گدا تم بادشا اچھے میاں
دین و دنیا میں بہت اچھا رہا
جو تمہارا ہو گیا اچھے میاں
اس بُرے کو آپ اچھا کیجیے
آپ اچھے میں بُرا اچھے میاں
ایسے اچھے کا بُرا ہوں میں بُرا
جن کو اچھوں نے کہا اچھے میاں
میں حوالے کر چکا ہوں آپ کے
اپنا سب اچھا بُرا اچھے میاں
آپ جانیں مجھ کو اِس کی فکر کیا
میں بُرا ہوں یا بھلا اچھے میاں
مجھ بُرے کے کیسے اچھے ہیں نصیب
میں بُرا ہوں آپ کا اچھے میاں
اپنے منگتا کو بُلا کر بھیک دی
اے میں قربانِ عطا اچھے میاں
مشکلیں آسان فرما دیجیے
اے مرے مشکل کشا اچھے میاں
میری جھولی بھر دو دستِ فیض سے
حاضرِ دَر ہے گدا اچھے میاں
دَم قدم کی خیر منگتا ہوں ترا
دَم قدم کی خیر لا اچھے میاں
جاں بلب ہوں دردِ عصیاں سے حضور
جاں بلب کو دو شفا اچھے میاں
دشمنوں کی ہے چڑھائی الغیاث
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
نفسِ سرکش دَر پئے آزار ہے
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
شام ہے نزدیک صحرا ہولناک
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
نزع کی تکلیف اِغواے عدو
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
وہ سوالِ قبر وہ شکلیں مہیب
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
پرسشِ اعمال اور مجھ سا اثیم
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
بارِ عصیاں سر پہ رعشہ پائوں میں
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
خالی ہاتھ آیا بھرے بازار میں
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
مجرمِ ناکارہ و دیوانِ عدل
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
پوچھتے ہیں کیا کہا تھا کیا کیا
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
پا شکستہ اور عبورِ پل صراط
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
خائن و خاطی سے لیتے ہیں حساب
ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں
بھول جائوں میں نہ سیدھی راہ کو
میرے اچھے رہنما اچھے میاں
تم مجھے اپنا بنا لو بہرِ غوث
میں تمہارا ہو چکا اچھے میاں
کون دے مجھ کو مرادیں آپ دیں
میں ہوں کس کا آپ کا اچھے میاں
یہ گھٹائیں غم کی یہ روزِ سیاہ
مہر فرما مہ لقا اچھے میاں
احمدِ نوری کا صدقہ ہر جگہ
منہ اُجالا ہو مرا اچھے میاں
آنکھ نیچی دونوں عالم میں نہ ہو
بول بولا ہو مرا اچھے میاں
میرے بھائی جن کو کہتے ہیں رضاؔ
جو ہیں اِس دَر کے گدا اچھے میاں
اِن کی منہ مانگی مرادیں ہوں حصول
آپ فرمائیں عطا اچھے میاں
عمر بھر میں اِن کے سایہ میں رہوں
اِن پہ سایہ آپ کا اچھے میاں
مجھ کو میرے بھائیوں کو حشر تک
ہو نہ غم کا سامنا اچھے میاں
مجھ پہ میرے بھائیوں پہ ہر گھڑی
ہو کرم سرکار کا اچھے میاں
مجھ سے میرے بھائیوں سے دُور ہو
دُکھ مرض ہر قسم کا اچھے میاں
میری میرے بھائیوں کی حاجتیں
فضل سے کیجے رَوا اچھے میاں
ہم غلاموں کے جو ہیں لخت جگر
خوش رہیں سب دائما اچھے میاں
پنجتن کا سایہ پانچوں پر رہے
اور ہو فضل خدا اچھے میاں
سب عزیزوں سب قریبوں پر رہے
سایۂ فضل و عطا اچھے میاں
غوثِ اعظم قطبِ عالم کے لیے
رَد نہ ہو میری دعا اچھے میاں
ہو حسنؔ سرکارِ والا کا حسن
کیجیے ایسی عطا اچھے میاں
 
(ردیف واؤ)
دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو
دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو​
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو​
آستانے پہ ترے سر ہو اَجل آئی ہو​
اَور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو​
خاک پامال غریباں کو نہ کیوں زندہ کرے​
جس کے دامن کی ہوا بادِ مسیحائی ہو​
اُس کی قسمت پہ فدا تخت شہی کی راحت​
خاکِ طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو​
تاج والوں کی یہ خواہش ہے کہ اُن کے دَر پر​
ہم کو حاصل شرفِ ناصیہ فرسائی ہو​
اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو​
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو​
آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے​
کب وہ چاہیں گے مری حشر میں رُسوائی ہو​
کیوں کریں بزمِ شبستانِ جناں کی خواہش​
جلوئہ یار جو شمع شبِ تنہائی ہو​
خلعتِ مغفرت اُس کے لیے رحمت لائے​
جس نے خاکِ درِ شہ جاے کفن پائی ہو​
یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نہ بنے​
ایسے یکتا کے لیے ایسی ہی یکتائی ہو​
ذکر خدّام نہیں مجھ کو بتا دیں دشمن​
کوئی نعمت بھی کسی اور سے گر پائی ہو​
جب اُٹھے دستِ اَجل سے مری ہستی کا حجاب​
کاش اِس پردہ کے اندر تری زیبائی ہو​
دیکھیں جاں بخشیِ لب کو تو کہیں خضر و مسیح​
کیوں مرے کوئی اگر ایسی مسیحائی ہو​
کبھی ایسا نہ ہوا اُن کے کرم کے صدقے​
ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو​
بند جب خوابِ اجل سے ہوں حسنؔ کی آنکھیں​
اِس کی نظروں میں ترا جلوئہ زیبائی ہو​
ؤ​
اے راحت ِجاں جو ترے قدموں سے لگا ہو
اے راحتِ جاں جو ترے قدموں سے لگا ہو​
کیوں خاک بسر صورتِ نقشِ کفِ پَا ہو​
ایسا نہ کوئی ہے نہ کوئی ہو نہ ہوا ہو​
سایہ بھی تو اک مثل ہے پھر کیوں نہ جدا ہو​
اﷲ کا محبوب بنے جو تمھیں چاہے​
اُس کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو​
دل سب سے اُٹھا کر جو پڑا ہو ترے دَر پر​
اُفتادِ دو عالم سے تعلق اُسے کیا ہو​
اُس ہاتھ سے دل سوختہ جانوں کے ہرے کر​
جس سے رطبِ سوختہ کی نشوونما ہو​
ہر سانس سے نکلے گل فردوس کی خوشبو​
گر عکس فگن دل میں وہ نقشِ کفِ پَا ہو​
اُس دَر کی طرف اس لیے میزاب کا منہ ہے​
وہ قبلۂ کونین ہے یہ قبلہ نما ہو​
بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبت​
مِٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو​
یہ میری سمجھ میں کبھی آ ہی نہیں سکتا​
ایمان مجھے پھیرنے کو تو نے دیا ہو​
اُس گھر سے عیاں نورِ الٰہی ہو ہمیشہ​
تم جس میں گھڑی بھر کے لیے جلوہ نما ہو​
مقبول ہیں اَبرو کے اشارہ سے دعائیں​
کب تیر کماندارِ نبوت کا خطا ہو​
ہو سلسلہ اُلفت کا جسے زُلفِ نبی سے​
اُلجھے نہ کوئی کام نہ پابندِ بَلا ہو​
شکر ایک کرم کا بھی اَدا ہو نہیں سکتا​
دل اُن پہ فدا جانِ حسنؔ اُن پہ فدا ہو​
ؤ​
-: دیگر :-​
تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو​
اﷲ کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو​
یہ کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو یہ عطا ہو​
وہ دو کہ ہمیشہ مرے گھر بھر کا بھلا ہو​
جس بات میں مشہورِ جہاں ہے لبِ عیسیٰ​
اے جانِ جہاں وہ تری ٹھوکر سے اَدا ہو​
ٹوٹے ہوئے دم جوش پہ طوفانِ معاصی​
دامن نہ ملے اُن کا تو کیا جانیے کیا ہو​
یوں جھک کے ملے ہم سے کمینوں سے وہ جس کو​
اﷲ نے اپنے ہی لیے خاص کیا ہو​
مِٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی​
جب خاک اُڑے میری مدینہ کی ہوا ہو​
منگتا تو ہیں منگتا کوئی شاہوں میں دکھا دے​
جس کو مرے سرکار سے ٹکڑا نہ ملا ہو​
قدرت نے اَزل میں یہ لکھا اُن کی جبیں پر​
جو اِن کی رِضا ہو وہی خالق کی رِضا ہو​
ہر وقت کرم بندہ نوازی پہ تُلا ہے​
کچھ کام نہیں اِس سے بُرا ہو کہ بھلا ہو​
سو جاں سے گنہگار کا ہو رختِ عمل چاک​
پردہ نہ کھلے گر ترے دامن سے بندھا ہو​
اَبرار نکوکار خدا کے ہیں خدا کے​
اُن کا ہے وہ اُن کا ہے جو بد ہو جو بُرا ہو​
اَے نفس اُنھیں رَنج دیا اپنی بدی سے​
کیا قہر کیا تو نے ارے تیرا بُرا ہو​
اﷲ یونہی عمر گزر جائے گدا کی​
سر خم ہو دَرِ پاک پر اور ہاتھ اُٹھا ہو​
شاباش حسنؔ اور چمکتی سی غزل پڑھ​
دل کھول کر آئینۂ ایماں کی جِلا ہو​
ؤ​
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو​
سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو​
کیوں اپنی گلی میں وہ روادارِ صدا ہو​
جو بھیک لیے راہِ گدا دیکھ رہا ہو​
گر وقتِ اجل سر تری چوکھٹ پہ جھکا ہو​
جتنی ہو قضا ایک ہی سجدہ میں اَدا ہو​
ہمسایۂ رحمت ہے ترا سایۂ دیوار​
رُتبہ سے تنزل کرے تو ظلِّ ہُما ہو​
موقوف نہیں صبح قیامت ہی پہ یہ عرض​
جب آنکھ کھلے سامنے تو جلوہ نما ہو​
دے اُس کو دمِ نزع اگر حور بھی ساغر​
منہ پھیر لے جو تشنۂ دیدار ترا ہو​
فردوس کے باغوں سے اِدھر مل نہیں سکتا​
جو کوئی مدینہ کے بیاباں میں گما ہو​
دیکھا اُنھیں محشر میں تو رحمت نے پکارا​
آزاد ہے جو آپ کے دامن سے بندھا ہو​
آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایسا​
خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کا بھلا ہو​
ویراں ہوں جب آباد مکاں صبحِ قیامت​
اُجڑا ہوا دل آپ کے جلوئوں سے بسا ہو​
ڈھونڈا ہی کریں صدرِ قیامت کے سپاہی​
وہ کس کو ملے جو ترے دامن میں چھپا ہو​
جب دینے کو بھیک آئے سرِ کوے گدایاں​
لب پر یہ دعا تھی مرے منگتا کا بھلا ہو​
جھُک کر اُنھیں ملنا ہے ہر اِک خاک نشیں سے​
کس واسطے نیچا نہ وہ دامانِ قبا ہو​
تم کو تو غلاموں سے ہے کچھ ایسی محبت​
ہے ترکِ اَدب ورنہ کہیں ہم پہ فدا ہو​
دے ڈالیے اپنے لبِ جاں بخش کا صدقہ​
اے چارۂ دل دردِ حسنؔ کی بھی دوا ہو​
 
(ردیف ہاے ہوز)
عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ
عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ​
کہ سب جنتیں ہے نثارِ مدینہ​
مبارک رہے عندلیبو تمھیں گل​
ہمیں گل سے بہتر ہے خارِ مدینہ​
بنا شہ نشیں خسروِ دو جہاں کا​
بیاں کیا ہو عز و وقارِ مدینہ​
مری خاک یا رب نہ برباد جائے​
پسِ مرگ کر دے غبارِ مدینہ​
کبھی تو معاصی کے خِرمن میں یا رب​
لگے آتشِ لالہ زارِ مدینہ​
رگِ گل کی جب نازکی دیکھتا ہوں​
مجھے یاد آتے ہیں خارِ مدینہ​
ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی​
شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ​
جدھر دیکھیے باغِ جنت کھلا ہے​
نظر میں ہیں نقش و نگارِ مدینہ​
رہیں اُن کے جلوے بسیں اُن کے جلوے​
مرا دل بنے یادگارِ مدینہ​
حرم ہے اسے ساحتِ ہر دو عالم​
جو دل ہو چکا ہے شکارِ مدینہ​
دو عالم میں بٹتا ہے صدقہ یہاں کا​
ہمیں اک نہیں ریزہ خوارِ مدینہ​
بنا آسماں منزلِ ابنِ مریم​
گئے لامکاں تاجدارِ مدینہ​
مرادِ دل بلبلِ بے نوا دے​
خدایا دکھا دے بہارِ مدینہ​
شرف جن سے حاصل ہوا اَنبیا کو​
وہی ہیں حسنؔ افتخارِ مدینہ​
 
(ردیف یاے تحتانی)
نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے​
نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے​
اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے​
تمہارے دَر کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اِک عالم​
گزارا سب کا ہوتا ہے اِسی محتاج خانے سے​
شبِ اسریٰ کے دُولھا پر نچھاور ہونے والی تھی​
نہیں تو کیا غرض تھی اِتنی جانوں کے بنانے سے​
کوئی فردوس ہو یا خلد ہو ہم کو غرض مطلب​
لگایا اب تو بستر آپ ہی کے آستانے سے​
نہ کیوں اُن کی طرف اللہ سو سو پیار سے دیکھے​
جو اپنی آنکھیں مَلتے ہیں تمہارے آستانے سے​
تمہارے تو وہ اِحساں اور یہ نافرمانیاں اپنی​
ہمیں تو شرم سی آتی ہے تم کو منہ دکھانے سے سے​
بہارِ خلد صدقے ہو رہی ہے روے عاشق پر​
کھلی جاتی ہیں کلیاں دل کی تیرے مسکرانے سے​
زمیں تھوڑی سی دے دے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں​
لگا دے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے​
پلٹتا ہے جو زائر اُس سے کہتا ہے نصیب اُس کا​
ارے غافل قضا بہتر ہے یاں سے پھر کے جانے سے​
بُلا لو اپنے دَر پر اب تو ہم خانہ بدوشوں کو​
پھریں کب تک ذلیل و خوار دَر دَر بے ٹھکانے سے​
نہ پہنچے اُن کے قدموں تک نہ کچھ حسنِ عمل ہی ہے​
حسنؔ کیا پوچھتے ہو ہم گئے گزرے زمانے سے​
ؤ​
مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے​
مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے​
گدائی کو زمانہ جس کے دَر پر آنے والا ہے​
چکوروں سے کہو ماہِ دل آرا ہے چمکنے کو​
خبر ذرّوں کو دو مہرِ منور آنے والا ہے​
فقیروں سے کہو حاضر ہوں جو مانگیں گے پائیں گے​
کہ سلطانِ جہاں محتاج پرور آنے والا ہے​
کہو پروانوں سے شمع ہدایت اب چمکتی ہے​
خبر دو بلبلوں کو وہ گل تر آنے والا ہے​
کہاں ہیں ٹوٹی اُمیدیں کہاں ہیں بے سہارا دل​
کہ وہ فریاد رس بیکس کا یاور آنے والا ہے​
ٹھکانہ بے ٹھکانوں کا سہارا بے سہاروں کا​
غریبوں کی مدد بیکس کا یاور آنے والا ہے​
بر آئیں گی مرادیں حسرتیں ہو جائیں گی پوری​
کہ وہ مختارِ کل عالم کا سرور آنے والا ہے​
مبارک درد مندوں کو ہو مژدہ بیقراروں کو​
قرارِ دل شکیبِ جانِ مضطر آنے والا ہے​
گنہ گاروں نہ ہو مایوس تم اپنی رہائی سے​
مدد کو وہ شفیعِ روزِ محشر آنے والا ہے​
جھکا لائے نہ کیوں تاروں کو شوقِ جلوۂ عارض​
کہ وہ ماہِ دل آرا اب زمیں پر آنے والا ہے​
کہاں ہیں بادشاہانِ جہاں آئیں سلامی کو​
کہ اب فرمانرواے ہفت کشور آنے والا ہے​
سلاطینِ زمانہ جس کے دَر پر بھیک مانگیں گے​
فقیروں کو مبارک وہ تونگر آنے والا ہے​
یہ ساماں ہو رہے تھے مدتوں سے جس کی آمد کے​
وہی نوشاہ با صد شوکت و فر آنے والا ہے​
وہ آتا ہے کہ ہے جس کا فدائی عالم بالا​
وہ آتا ہے کہ دل عالم کا جس پر آنے والا ہے​
نہ کیوں ذرّوں کو ہو فرحت کہ چمکا اخترِ قسمت​
سحر ہوتی ہے خورشیدِ منور آنے والا ہے​
حسنؔ کہہ دے اُٹھیں سب اُمتی تعظیم کی خاطر​
کہ اپنا پیشوا اپنا پیمبر آنے والا ہے​

ؤ​
جائے گی ہنستی ہوئی خلد میں اُمت اُن کی​
جائے گی ہنستی ہوئی خلد میں اُمت اُن کی​
کب گوارا ہوئی اﷲ کو رِقّت اُن کی​
ابھی پھٹتے ہیں جگر ہم سے گنہگاروں کے​
ٹوٹے دل کا جو سہارا نہ ہو رحمت اُن کی​
دیکھ آنکھیں نہ دکھا مہرِ قیامت ہم کو​
جن کے سایہ میں ہیں ہم دیکھی ہے صورت اُن کی​
حُسنِ یوسف دمِ عیسیٰ پہ نہیں کچھ موقوف​
جس نے جو پایا ہے پایا ہے بدولت اُن کی​
اُن کا کہنا نہ کریں جب بھی وہ ہم کو چاہیں​
سرکشی اپنی تو یہ اور وہ چاہت اُن کی​
پار ہو جائے گا اک آن میں بیڑا اپنا​
کام کر جائے گی محشر میں شفاعت اُن کی​
حشر میں ہم سے گنہگار پریشاں خاطر​
عفو رحمن و رحیم اور شفاعت اُن کی​
خاکِ دَر تیری جو چہروں پہ مَلے پھرتے ہیں​
کس طرح بھائے نہ اﷲ کو صورت اُن کی​
عاصیو کیوں غمِ محشر میں مرے جاتے ہو​
سنتے ہیں بندہ نوازی تو ہے عادت اُن کی​
جلوئہ شانِ الہٰی کی بہاریں دیکھو​
قد راء الحقَّکی ہے شرح زیارت اُن کی​
باغِ جنت میں چلے جائیں گے بے پوچھے ہم​
وقف ہے ہم سے مساکین پہ دولت اُن کی​
یاد کرتے ہیں عدو کو بھی دعا ہی سے وہ​
ساری دنیا سے نرالی ہے یہ عادت اُن کی​
ہم ہوں اور اُن کی گلی خلد میں واعظ ہی رہیں​
اے حسنؔ اُن کو مبارک رہے جنت اُن کی​

ؤ​
ہم نے تقصیر کی عادت کر لی​
ہم نے تقصیر کی عادت کر لی​
آپ اپنے پہ قیامت کر لی​
میں چلا ہی تھا مجھے روک لیا​
مرے اﷲ نے رحمت کر لی​
ذکر شہ سن کے ہوئے بزم میں محو​
ہم نے جلوت میں بھی خلوت کر لی​
نارِ دوزخ سے بچایا مجھ کو​
مرے پیارے بڑی رحمت کر لی​
بال بیکا نہ ہوا پھر اُس کا​
آپ نے جس کی حمایت کر لی​
رکھ دیا سر قدمِ جاناں پر​
اپنے بچنے کی یہ صورت کر لی​
نعمتیں ہم کو کھلائیں اور آپ​
جو کی روٹی پہ قناعت کر لی​
اُس سے فردوس کی صورت پوچھو​
جس نے طیبہ کی زیارت کر لی​
شانِ رحمت کے تصدق جاؤں​
مجھ سے عاصی کی حمایت کر لی​
فاقہ مستوں کو شکم سیر کیا​
آپ فاقہ پہ قناعت کر لی​
اے حسنؔ کام کا کچھ کام کیا​
یا یوہیں ختم پہ رُخصت کر لی​

ؤ​
کیا خداداد آپ کی امداد ہے​
کیا خداداد آپ کی اِمداد ہے​
اک نظر میں شاد ہر ناشاد ہے​
مصطفیٰ تو برسرِ اِمداد ہے​
عفو تو کہہ کیا ترا اِرشاد ہے​
بن پڑی ہے نفس کافر کیش کی​
کھیل بگڑا لو خبر فریاد ہے​
اس قدر ہم اُن کو بھولے ہائے ہائے​
ہر گھڑی جن کو ہماری یاد ہے​
نفسِ امارہ کے ہاتھوں اے حضور​
داد ہے بیداد ہے فریاد ہے​
پھر چلی بادِ مخالف لو خبر​
نائو پھر چکرا گئی فریاد ہے​
کھیل بگڑا نائو ٹوٹی میں چلا​
اے مرے والی بچا فریاد ہے​
رات اندھیری میں اکیلا یہ گھٹا​
اے قمر ہو جلوہ گر فریاد ہے​
عہد جو اُن سے کیا روزِ اَلست​
کیوں دلِ غافل تجھے کچھ یاد ہے​
میں ہوں میں ہوں اپنی اُمت کے لیے​
کیا ہی پیارا پیارا یہ اِرشاد ہے​
وہ شفاعت کو چلے ہیں پیشِ حق​
عاصیو تم کو مبارک باد ہے​
کون سے دل میں نہیں یادِ حبیب​
قلبِ مومن مصطفیٰ آباد ہے​
جس کو اُس دَر کی غلامی مل گئی​
وہ غمِ کونین سے آزاد ہے​
جن کے ہم بندے وہی ٹھہرے شفیع​
پھر دلِ بیتاب کیوں ناشاد ہے​
اُن کے دَر پر گر کے پھر اُٹھا نہ جائے​
جان و دل قربان کیا اُفتاد ہے​
یہ عبادت زاہدو بے حُبِّ دوست​
مفت کی محنت ہے سب برباد ہے​
ہم صفیروں سے ملیں کیوں کر حسنؔ​
سخت دل اور سنگدل صیاد ہے​
ؤ​
آپ کے دَر کی عجب توقیر ہے​
آپ کے دَر کی عجب توقیر ہے​
جو یہاں کی خاک ہے اِکسیر ہے​
کام جو اُن سے ہوا پورا ہوا​
اُن کی جو تدبیر ہے تقدیر ہے​
جس سے باتیں کیں اُنھیں کا ہو گیا​
واہ کیا تقریرِ پُر تاثیر ہے​
جو لگائے آنکھ میں محبوب ہو​
خاکِ طیبہ سرمۂ تسخیر ہے​
صدرِ اقدس ہے خزینہ راز کا​
سینہ کی تحریر میں تحریر ہے​
ذرّہ ذرّہ سے ہے طالع نورِ شاہ​
آفتابِ حُسن عالم گیر ہے​
لطف کی بارش ہے سب شاداب ہیں​
اَبرِ جودِ شاہِ عالم گیر ہے​
مجرمو اُن کے قدموں پر لوٹ جائو​
بس رِہائی کی یہی تدبیر ہے​
یا نبی مشکل کشائی کیجیے​
بندئہ در بے دل و دل گیر ہے​
وہ سراپا لطف ہیں شانِ خدا​
وہ سراپا نور کی تصویر ہے​
کان ہیں کانِ کرم جانِ کرم​
آنکھ ہے یا چشمۂ تنویر ہے​
جانے والے چل دیئے ہم رہ گئے​
اپنی اپنی اے حسنؔ تقدیر ہے​
ؤ​
نہ ہو مایوس میرے دُکھ درد والے​
نہ مایوس ہو میرے دُکھ درد والے​
درِ شہ پہ آ ہر مرض کی دوا لے​
جو بیمار غم لے رہا ہو سنبھالے​
وہ چاہے تو دَم بھر میں اس کو سنبھالے​
نہ کر اس طرح اے دلِ زار نالے​
وہ ہیں سب کی فریاد کے سننے والے​
کوئی دم میں اب ڈوبتا ہے سفینہ​
خدارا خبر میری اے ناخدا لے​
سفر کر خیالِ رُخِ شہ میں اے جاں​
مسافر نکل جا اُجالے اُجالے​
تہی دست و سوداے بازارِ محشر​
مری لاج رکھ لے مرے تاج والے​
زہے شوکتِ آستانِ معلّٰی​
یہاں سر جھکاتے ہیں سب تاج والے​
سوا تیرے اے ناخداے غریباں​
وہ ہے کون جو ڈوبتوں کو نکالے​
یہی عرض کرتے ہیں شیرانِ عالم​
کہ تو اپنے کتوں کا کتا بنا لے​
جسے اپنی مشکل ہو آسان کرنی​
فقیرانِ طیبہ سے آ کر دعا لے​
خدا کا کرم دستگیری کو آئے​
ترا نام لے لیں اگر گرنے والے​
دَرِ شہ پر اے دل مرادیں ملیں گی​
یہاں بیٹھ کر ہاتھ سب سے اُٹھا لے​
گھرا ہوں میں عصیاں کی تاریکیوں میں​
خبر میری اے میرے بدرالدجیٰ لے​
فقیروں کو ملتا ہے بے مانگے سب کچھ​
یہاں جانتے ہی نہیں ٹالے بالے​
لگائے ہیں پیوند کپڑوں میں اپنے​
اُڑھائے فقیروں کو تم نے دوشالے​
مٹا کفر کو ، دین چمکا دے اپنا​
بنیں مسجدیں ٹوٹ جائیں شوالے​
جو پیش صنم سر جھکاتے تھے اپنے​
بنے تیری رحمت سے اﷲ والے​
نگاہِ ز چشم کرم بر حسنؔ کن​
بکویت رسید ست آشفتہ حالے​
ؤ​
نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیالِ رحمت تھپک رہا ہے​
نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیالِ رحمت تھپک رہا ہے​
کہ آج رُک رُک کے خونِ دل کچھ مری مژہ سے ٹپک رہا ہے​
لیا نہ ہو جس نے اُن کا صدقہ ملا نہ ہو جس کو اُن کا باڑا​
نہ کوئی ایسا بشر ہے باقی نہ کوئی ایسا ملک رہا ہے​
کیا ہے حق نے کریم تم کو اِدھر بھی للہ نگاہ کر لو​
کہ دیر سے بینوا تمہارا تمہارے ہاتھوں کو تک رہا ہے​
ہے کس کے گیسوے مشک بو کی شمیم عنبر فشانیوں پر​
کہ جاے نغمہ صفیر بلبل سے مشکِ اَذفر ٹپک رہا ہے​
یہ کس کے رُوے نکو کے جلوے زمانے کو کر رہے ہیں روشن​
یہ کس کے گیسوے مشک بو سے مشامِ عالم مہک رہا ہے​
حسنؔ عجب کیا جو اُن کے رنگِ ملیح کی تہ ہے پیرہن پر​
کہ َرنگ پُر نور مہر گردوں کئی فلک سے چمک رہا ہے​
ؤ​
مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے​
مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے​
لبوں پر اِلتجا ہے ہاتھ میں روضے کی جالی ہے​
تری صورت تری سیرت زمانے سے نرالی ہے​
تری ہر ہر اَدا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے​
بشر ہو یا مَلک جو ہے ترے دَر کا سوالی ہے​
تری سرکار والا ہے ترا دربار عالی ہے​
وہ جگ داتا ہو تم سنسار باڑے کا سوالی ہے​
دَیا کرنا کہ اس منگتا نے بھی گُدڑی بچھا لی ہے​
منور دل نہیں فیضِ قدومِ شہ سے روضہ ہے​
مشبکِ سینۂ عاشق نہیں روضہ کی جالی ہے​
تمہارا قامتِ یکتا ہے اِکّا بزمِ وحدت کا​
تمہاری ذاتِ بے ہمتا مثالِ بے مثالی ہے​
فروغِ اخترِ بدر آفتابِ جلوئہ عارض​
ضیاے طالعِ بدر اُن کا اَبروے ہلالی ہے​
وہ ہیں اﷲ والے جو تجھے والی کہیں اپنا​
کہ تو اﷲ والا ہے ترا اﷲ والی ہے​
سہارے نے ترے گیسو کے پھیرا ہے بلائوں کو​
اِشارے نے ترے ابرو کے آئی موت ٹالی ہے​
نگہ نے تیر زحمت کے دلِ اُمت سے کھینچے ہیں​
مژہ نے پھانس حسرت کی کلیجہ سے نکالی ہے​
فقیرو بے نوائو اپنی اپنی جھولیاں بھر لو​
کہ باڑا بٹ رہا ہے فیض پر سرکارِ عالی ہے​
تجھی کو خلعتِ یکتائیِ عالم ملا حق سے​
ترے ہی جسم پہ موزوں قباے بے مثالی ہے​
نکالا کب کسی کو بزمِ فیضِ عام سے تم نے​
نکالی ہے تو آنے والوں کی حسرت نکالی ہے​
بڑھے کیونکر نہ پھر شکل ہلال اسلام کی رونق​
ہلالِ آسمانِ دیں تری تیغِ ہلالی ہے​
فقط اتنا سبب ہے اِنعقادِ بزمِ محشر کا​
کہ ُان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے​
خدا شاہد کہ روزِ حشر کا کھٹکا نہیں رہتا​
مجھے جب یاد آتا ہے کہ میرا کون والی ہے​
اُتر سکتی نہیں تصویر بھی حسنِ سراپا کی​
کچھ اس درجہ ترقی پر تمہاری بے مثالی ہے​
نہیں محشر میں جس کو دسترس آقا کے دامن تک​
بھرے بازار میں اِس بے نوا کا ہاتھ خالی ہے​
نہ کیوں ہو اِتحادِ منزلت مکہ مدینہ میں​
وہ بستی ہے نبی والی تو یہ اﷲ والی ہے​
شرف مکہ کی بستی کو ملا طیبہ کی بستی سے​
نبی والی ہی کے صدقے میں وہ اﷲ والی ہے​
وہی والی وہی آقا وہی وارث وہی مولیٰ​
میں اُن کے صدقے جائوں اور میرا کون والی ہے​
پکار اے جانِ عیسیٰ سن لو اپنے خستہ حالوں کی​
مرض نے درد مندوں کی غضب میں جان ڈالی ہے​
مرادوں سے تمہیں دامن بھرو گے نامرادوں کے​
غریبوں بیکسوں کا اور پیارے کون والی ہے​
ہمیشہ تم کرم کرتے ہو بگڑے حال والوں پر​
بگڑ کر میری حالت نے مری بگڑی بنا لی ہے​
تمہارے دَر تمہارے آستاں سے میں کہاں جائوں​
نہ کوئی مجھ سا بیکس ہے نہ تم سا کوئی والی ہے​
حسنؔ کا درد دُکھ موقوف فرما کر بحالی دو​
تمہارے ہاتھ میں دنیا کی موقوفی بحالی ہے​
 
ؤ​
کرے چارہ سازی زیارت کسی کی​
کرے چارہ سازی زیارت کسی کی​
بھرے زخم دل کے ملاحت کسی کی​
چمک کر یہ کہتی ہے طلعت کسی کی​
کہ دیدارِ حق ہے زیارت کسی کی​
نہ رہتی جو پردوں میں صورت کسی کی​
نہ ہوتی کسی کو زیارت کسی کی​
عجب پیاری پیاری ہے صورت کسی کی​
ہمیں کیا خدا کو ہے اُلفت کسی کی​
ابھی پار ہوں ڈوبنے والے بیڑے​
سہارا لگا دے جو رحمت کسی کی​
کسی کو کسی سے ہوئی ہے نہ ہو گی​
خدا کو ہے جتنی محبت کسی کی​
دمِ حشر عاصی مزے لے رہے ہیں​
شفاعت کسی کی ہے رحمت کسی کی​
رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم​
رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی​
ترا قبضہ کونین و مافیہا سب پر​
ہوئی ہے نہ ہو یوں حکومت کسی کی​
خدا کا دیا ہے ترے پاس سب کچھ​
ترے ہوتے کیا ہم کو حاجت کسی کی​
زمانہ کی دولت نہیں پاس پھر بھی​
زمانہ میں بٹتی ہے دولت کسی کی​
نہ پہنچیں کبھی عقلِ کل کے فرشتے​
خدا جانتا ہے حقیقت کسی کی​
ہمارا بھروسہ ہمارا سہارا​
شفاعت کسی کی حمایت کسی کی​
قمر اِک اشارے میں دو ٹکڑے دیکھا​
زمانے پہ روشن ہے طاقت کسی کی​
ہمیں ہیں کسی کی شفاعت کی خاطر​
ہماری ہی خاطر شفاعت کسی کی​
مصیبت زدو شاد ہو تم کہ اُن سے​
نہیں دیکھی جاتی مصیبت کسی کی​
نہ پہنچیں گے جب تک گنہگار اُن کے​
نہ جائے گی جنت میں اُمت کسی کی​
ہم ایسے گنہگار ہیں زہد والو​
ہماری مدد پر ہے رحمت کسی کی​
مدینہ کا جنگل ہو اور ہم ہوں زاہد​
نہیں چاہیے ہم کو جنت کسی کی​
ہزاروں ہوں خورشید محشر تو کیا غم​
یہاں سایہ گستر ہے رحمت کسی کی​
بھرے جائیں گے خلد میں اہلِ عصیاں​
نہ جائے گی خالی شفاعت کسی کی​
وہی سب کا مالک اُنہیں کا ہے سب کچھ​
نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی​
رَفِعْنَا لَکَ ذَکرَکَ پر تصدق​
سب اُونچوں سے اُونچی ہے رفعت کسی کی​
اُترنے لگے مَا رَمَیْتَ یَدُ اﷲ​
چڑھی ایسی زوروں پہ طاقت کسی کی​
گدا خوش ہوں خَیرٌ لَّک کی صد ا ہے​
کہ دن دُونی بڑھتی ہے دولت کسی کی​
فتََرْضیٰ نے ڈالی ہیں باہیں گلے میں​
کہ ہو جائے راضی طبیعت کسی کی​
خدا سے دعا ہے کہ ہنگامِ رُخصت​
زبانِ حسنؔ پر ہو مدحت کسی کی​
ؤ​
جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے​
جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے​
صدقے جائوں میں تری انجمن آرائی کے​
بزم آرا ہوں اُجالے تری زیبائی کے​
کب سے مشتاق ہیں آئینے خود آرائی کے​
ہو غبارِ درِ محبوب کہ گردِ رہِ دوست​
جزو اعظم ہیں یہی سرمۂ بینائی کے​
خاک ہو جائے اگر تیری تمنائوں میں​
کیوں ملیں خاک میں اَرمان تمنائی کے​
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ کے چمکتے خورشید​
لامکاں تک ہیں اُجالے تری زیبائی کے​
دلِ مشتاق میں اَرمانِ لقا آنکھیں بند​
قابلِ دید ہیں انداز تمنائی کے​
لبِ جاں بخش کی کیا بات ہے سبحان اﷲ​
تم نے زندہ کیے اِعجاز مسیحائی کے​
اپنے دامن میں چھپائیں وہ مرے عیبوں کو​
اے زہے بخت مری ذلّت و رُسوائی کے​
دیکھنے والے خدا کے ہیں خدا شاہد ہے​
دیکھنے والے ترے جلوۂ زیبائی کے​
جب غبارِ رہِ محبوب نے عزت بخشی​
آئینے صاف ہوئے عینکِ بینائی کے​
بار سر پر ہے نقاہت سے گرا جاتا ہوں​
صدقے جائوں ترے بازو کی توانائی کے​
عالم الغیب نے ہر غیب سے آگاہ کیا​
صدقے اس شان کی بینائی و دانائی کے​
دیکھنے والے تم ہو رات کی تاریکی میں​
کان میں سمع کے اور آنکھ میں بینائی کے​
عیبی نطفے ہیں وہ بے علم جنم کے اندھے​
جن کو انکار ہیں اس علم و شناسائی کے​
اے حسنؔ کعبہ ہی افضل سہی اِس دَر سے مگر​
ہم تو خوگر ہیں یہاں ناصیہ فرسائی کے​
ؤ​
پردے جس وقت اُٹھیں جلوئہ زیبائی کے​
پردے جس وقت اُٹھیں جلوئہ زیبائی کے​
وہ نگہبان رہیں چشمِ تمنائی کے​
دُھوم ہے فرش سے تا عرش تری شوکت کی​
خطبے ہوتے ہیں جہانبانی و دارائی کے​
حُسن رنگینی و طلعت سے تمہارے جلوے​
گل و آئینہ بنے محفل و زیبائی کے​
ذرّئہ دشتِ مدینہ کی ضیا مہر کرے​
اچھی ساعت سے پھریں دن شبِ تنہائی کے​
پیار سے لے لیے آغوش میں سر رحمت نے​
پائے انعام ترے دَر کی جبیں سائی کے​
لاشِ احباب اِسی دَر پر پڑی رہنے دیں​
کچھ تو ارمان نکل جائیں جبیں سائی کے​
جلو گر ہو جو کبھی چشمِ تمنائی میں​
پردے آنکھوں کے ہوں پردے تری زیبائی کے​
خاکِ پامال ہماری بھی پڑی ہے سرِ راہ​
صدقے اے رُوحِ رواں تیری مسیحائی کے​
کیوں نہ وہ ٹوٹے دلوں کے کھنڈر آباد کریں​
کہ دکھاتے ہیں کمال انجمن آرائی کے​
زینتوں سے ہیں حسینانِ جہاں کی زینت​
زینتیں پاتی ہیں صدقے تری زیبائی کے​
نام آقا ہوا جو لب سے غلاموں کے بلند​
بالا بالا گئے غم آفتِ بالائی کے​
عرش پہ کعبہ و فردوس و دلِ مومن میں​
شمع افروز ہیں اِکے تری یکتائی کے​
ترے محتاج نے پایا ہے وہ شاہانہ مزاج​
اُس کی گُدڑی کو بھی پیوند ہوں دارائی کے​
اپنے ذرّوں کے سیہ خانوں کو روشن کر دو​
مہر ہو تم فلکِ انجمن آرائی کے​
پورے سرکار سے چھوٹے بڑے اَرمان ہو سب​
اے حسنؔ میرے مرے چھوٹے بڑے بھائی کے​
ؤ​
دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے​
دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے​
مرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے​
تری وحشتوں سے اے دل مجھے کیوں نہ عار آئے​
تو اُنھیں سے دُور بھاگے جنھیں تجھ پہ پیار آئے​
مرے دل کو دردِ اُلفت وہ سکون دے الٰہی​
مری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئے​
مجھے نزع چین بخشے مجھے موت زندگی دے​
وہ اگر مرے سرھانے دمِ احتضار آئے​
سببِ وفورِ رحمت میری بے زبانیاں ہیں​
نہ فغاں کے ڈھنگ جانوں نہ مجھے پکار آئے​
کھلیں پھول اِس پھبن کے کھلیں بخت اِس چمن کے​
مرے گل پہ صدقے ہو کے جو کبھی بہار آئے​
نہ حبیب سے محب کا کہیں ایسا پیار دیکھا​
وہ بنے خدا کا پیارا تمھیں جس پہ پیار آئے​
مجھے کیا اَلم ہو غم کا مجھے کیا ہو غم اَلم کا​
کہ علاج غم اَلم کا میرے غمگسار آئے​
جو امیر و بادشا ہیں اِسی دَر کے سب گدا ہیں​
تمھیں شہر یار آئے تمھیں تاجدار آئے​
جو چمن بنائے بَن کو جو جِناں کرے چمن کو​
مرے باغ میں الٰہی کبھی وہ بہار آئے​
یہ کریم ہیں وہ سرور کہ لکھا ہوا ہے دَر پر​
جسے لینے ہوں دو عالم وہ اُمیدوار آئے​
ترے صدقے جائے شاہا یہ ترا ذلیل منگتا​
ترے دَر پہ بھیک لینے سبھی شہر یار آئے​
چمک اُٹھے خاکِ تیرہ بنے مہر ذرّہ ذرّہ​
مرے چاند کی سواری جو سر مزار آئے​
نہ رُک اے ذلیل و رُسوا درِ شہریار پر آ​
کہ یہ وہ نہیں ہیں حاشا جنھیں تجھ سے عار آئے​
تری رحمتوں سے کم ہیں مرے جرم اس سے زائد​
نہ مجھے حساب آئے نہ مجھے شمار آئے​
گل خلد لے کے زاہد تمھیں خارِ طیبہ دے دوں​
مرے پھول مجھ کو دیجے بڑے ہوشیار آئے​
بنے ذرّہ ذرّہ گلشن تو ہو خار خار گلبن​
جو ہمارے اُجڑے بَن میں کبھی وہ نگار آئے​
ترے صدقے تیرا صدقہ ہے وہ شاندار صدقہ​
وہ وقار لے کے جائے جو ذلیل و خوار آئے​
ترے دَر کے ہیں بھکاری ملے خیر دم قدم کی​
ترا نام سن کے داتا ہم اُمیدوار آئے​
حسنؔ اُن کا نام لے کر تو پکار دیکھ غم میں​
کہ یہ وہ نہیں جو غافل پسِ اِنتظار آئے​
ؤ​
تم ہو حسرت نکالنے والے​
تم ہو حسرت نکالنے والے​
نامرادوں کے پالنے والے​
میرے دشمن کو غم ہو بگڑی کا​
آپ ہیں جب سنبھالنے والے​
تم سے منہ مانگی آس ملتی ہے​
اور ہوتے ہیں ٹالنے والے​
لبِ جاں بخش سے جِلا دل کو​
جان مردے میں ڈالنے والے​
دستِ اقدس بجھا دے پیاس مری​
میرے چشمے اُبالنے والے​
ہیں ترے آستاں کے خاک نشیں​
تخت پر خاک ڈالنے والے​
روزِ محشر بنا دے بات مری​
ڈھلی بگڑی سنبھالنے والے​
بھیک دے بھیک اپنے منگتا کو​
اے غریبوں کے پالنے والے​
ختم کر دی ہے اُن پہ موزونی​
واہ سانچے میں ڈھالنے والے​
اُن کا بچپن بھی ہے جہاں پرور​
کہ وہ جب بھی تھے پالنے والے​
پار کر نائو ہم غریبوں کی​
ڈوبتوں کو نکالنے والے​
خاکِ طیبہ میں بے نشاں ہو جا​
اَرے او نام اچھالنے والے​
کام کے ہوں کہ ہم نکمّے ہوں​
وہ سبھی کے ہیں پالنے والے​
زنگ سے پاک صاف کر دل کو​
اندھے شیشے اُجالنے والے​
خارِ غم کا حسنؔ کو کھٹکا ہے​
دل سے کانٹا نکالنے والے​
ؤ​
اﷲ اﷲ شہِ کونین جلالت تیری​
اﷲ اﷲ شہِ کونین جلالت تیری​
فرش کیا عرش پہ جاری ہے حکومت تیری​
جھولیاں کھول کے بے سمجھے نہیں دوڑ آئے​
ہمیں معلوم ہے دولت تری عادت تیری​
تو ہی ہے مُلکِ خدا مِلک خدا کا مالک​
راج تیرا ہے زمانے میں حکومت تیری​
تیرے انداز یہ کہتے ہیں کہ خالق کو تری​
سب حسینوں میں پسند آئی ہے صورت تیری​
اُس نے حق دیکھ لیا جس نے اِدھر دیکھ لیا​
کہہ رہی ہے یہ چمکتی ہوئی طلعت تیری​
بزم محشر کا نہ کیوں جائے بلاوا سب کو​
کہ زمانے کو دکھانی ہے وجاہت تیری​
عالم رُوح پہ ہے عالم اجسام کو ناز​
چوکھٹے میں ہے عناصر کے جو صورت تیری​
جن کے سر میں ہے ہوا دشتِ نبی کی رضواں​
اُن کے قدموں سے لگی پھرتی ہے جنت تیری​
تو وہ محبوب ہے اے راحتِ جاں دل کیسے​
ہیزمِ خشک کو تڑپا گئی فرقت تیری​
مہ و خورشید سے دن رات ضیا پاتے ہیں​
مہ و خورشید کو چمکاتی ہے طلعت تیری​
گٹھریاں بندھ گئی پر ہاتھ ترا بند نہیں​
بھر گئے دل نہ بھری دینے سے نیت تیری​
موت آ جائے مگر آئے نہ دل کو آرام​
دم نکل جائے مگر نکلے نہ اُلفت تیری​
دیکھنے والے کہا کرتے ہیں اﷲ اﷲ​
یاد آتا ہے خدا دیکھ کے صورت تیری​
مجمعِ حشر میں گھبرائی ہوئی پھرتی ہے​
ڈھونڈنے نکلی ہے مجرم کو شفاعت تیری​
نہ ابھی عرصۂ محشر نہ حسابِ اُمت​
آج ہی سے ہے کمر بستہ حمایت تیری​
تو کچھ ایسا ہے کہ محشر کی مصیبت والے​
درد دُکھ بھول گئے دیکھ کے صورت تیری​
ٹوپیاں تھام کے گر عرشِ بریں کو دیکھیں​
اُونچے اُونچوں کو نظر آئے نہ رفعت تیری​
حُسن ہے جس کا نمک خوار وہ عالم تیرا​
جس کو اﷲ کرے پیار وہ صورت تیری​
دونوں عالم کے سب ارمان نکالے تو نے​
نکلی اِس شانِ کرم پر بھی نہ حسرت تیری​
چین پائیں گے تڑپتے ہوئے دل محشر میں​
غم کسے یاد رہے دیکھ کے صورت تیری​
ہم نے مانا کہ گناہوں کی نہیں حد لیکن​
تو ہے اُن کا تو حسنؔ تیری ہے جنت تیری​
ؤ​
باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے​
باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے​
کیا مدینہ پہ فدا ہو کے بہار آئی ہے​
اُن کے گیسو نہیں رحمت کی گھٹا چھائی ہے​
اُن کے اَبرو نہیں دو قبلوں کی یکجائی ہے​
سنگریزوں نے حیاتِ ابدی پائی ہے​
ناخنوں میں ترے اِعجازِ مسیحائی ہے​
سر بالیں اُنھیں رحمت کی اَدا لائی ہے​
حال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے​
جانِ گفتار تو رفتار ہوئی رُوحِ رواں​
دم قدم سے ترے اِعجازِ مسیحائی ہے​
جس کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں حسن و جمال​
اے حسیں تیری اَدا اُس کو پسند آئی ہے​
تیرے جلوئوں میں یہ عالم ہے کہ چشمِ عالم​
تابِ دیدار نہیں پھر بھی تماشائی ہے​
جب تری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی​
جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے​
سر سے پا تک تری صورت پہ تصدق ہے جمال​
اُس کو موزونیِ اَعضا یہ پسند آئی ہے​
تیرے قدموں کا تبرک یدِ بیضاے کلیم​
تیرے ہاتھوں کا دیا فضلِ مسیحائی ہے​
دردِ دل کس کو سناؤں میں تمہارے ہوتے​
بے کسوں کی اِسی سرکار میں سنوائی ہے​
آپ آئے تو منور ہوئیں اندھی آنکھیں​
آپ کی خاکِ قدم سرمۂ بینائی ہے​
ناتوانی کا اَلم ہم ضعفا کو کیا ہو​
ہاتھ پکڑے ہوئے مولا کی توانائی ہے​
جان دی تو نے مسیحا و مسیحائی کو​
تو ہی تو جانِ مسیحا و مسیحائی ہے​
چشم بے خواب کے صدقے میں ہیں بیدار نصیب​
آپ جاگے تو ہمیں چین کی نیند آئی ہے​
باغِ فردوس کھلا فرش بچھا عرش سجا​
اِک ترے دم کی یہ سب انجمن آرائی ہے​
کھیت سر سبز ہوئے پھول کھلے میل دُھلے​
اور پھر فضل کی گھنگھور گھٹا چھائی ہے​
ہاتھ پھیلائے ہوئے دوڑ پڑے ہیں منگتا​
میرے داتا کی سواری سرِ حشر آئی ہے​
نااُمیدو تمھیں مژدہ کہ خدا کی رحمت​
اُنھیں محشر میں تمہارے ہی لیے لائی ہے​
فرش سے عرش تک اک دُھوم ہے اﷲ اﷲ​
اور ابھی سینکڑوں پردوں میں وہ زیبائی ہے​
اے حسنؔ حُسنِ جہاں تاب کے صدقے جائوں​
ذرّے ذرّے سے عیاں جلوۂ زیبائی ہے​
ؤ​
حاضریِ حرمین طیبّین​
حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے​
بڑی سرکار میں پہنچے مقدر یاوری پر ہے​
نہ ہم آنے کے لائق تھے نہ قابل منہ دِکھانے کے​
مگر اُن کا کرم ذرّہ نواز و بندہ پرور ہے​
خبر کیا ہے بھکاری کیسی کیسی نعمتیں پائیں​
یہ اُونچا گھر ہے اِس کی بھیک اندازہ سے باہر ہے​
تصدق ہو رہے ہیں لاکھوں بندے گرد پھر پھر کر​
طوافِ خانۂ کعبہ عجب دلچسپ منظر ہے​
خدا کی شان یہ لب اور بوسہ سنگِ اسود کا​
ہمارا منہ اور اِس قابل عطاے ربِ اکبر ہے​
جو ہیبت سے رُکے مجرم تو رحمت نے کہا بڑھ کر​
چلے آئو چلے آئو یہ گھر رحمن کا گھر ہے​
مقامِ حضرتِ خلّت پدر سا مہرباں پایا​
کلیجہ سے لگانے کو حطیم آغوشِ مادر ہے​
لگاتا ہے غلافِ پاک کوئی چشم پُر نم سے​
لپٹ کر ملتزم سے کوئی محو وصلِ دلبر ہے​
وطن اور اُس کا تڑکا صدقے اس شامِ غریبی پر​
کہ نورِ رُکن شامی رُوکشِ صبحِ منور ہے​
ہوئے ایمان تازہ بوسۂ رُکن یمانی سے​
فدا ہو جائوں یمن و ایمنی کا پاک منظر ہے​
یہ زمزم اُس لیے ہے جس لیے اس کو پئے کوئی​
اِسی زمزم میں جنت ہے اِسی زمزم میں کوثر ہے​
شفا کیوں کر نہ پائیں نیم جاں زہر معاصی سے​
کہ نظارہ عراقی رکن کا تریاقِ اکبر ہے​
صفاے قلب کے جلوے عیاں ہیں سعی مسعیٰ سے​
یہاں کی بے قراری بھی سکونِ جانِ مضطر ہے​
ہوا ہے پیر کا حج پیر نے جن سے شرف پایا​
اُنھیں کے فضل سے دن جمعہ کا ہر دن سے بہتر ہے​
نہیں کچھ جمعہ پر موقوف افضال و کرم ان کا​
جو وہ مقبول فرما لیں تو ہر حج حجِ اکبر ہے​
حسنؔ حج کر لیا کعبہ سے آنکھوں نے ضیا پائی​
چلو دیکھیں وہ بستی جس کا رستہ دل کے اندر ہے​
ؤ​
سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہے​
سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہے​
نسیمِ روح پرور سے مشامِ جاں معطر ہے​
قریب طیبہ بخشے ہیں تصور نے مزے کیا کیا​
مرا دل ہے مدینہ میں مدینہ دل کے اندر ہے​
ملائک سر جہاں اپنا جھجکتے ڈرتے رکھتے ہیں​
قدم اُن کے گنہگاروں کا ایسی سر زمیں پر ہے​
ارے او سونے والے دِل ارے اوسونے والے دِل​
سحر ہے جاگ غافل دیکھ تو عالم منور ہے​
سہانی طرز کی طلعت نرالی رنگ کی نکہت​
نسیمِ صبح سے مہکا ہوا پُر نور منظر ہے​
تعالیٰ اﷲ یہ شادابی یہ رنگینی تعالیٰ اﷲ​
بہارِ ہشت جنت دشتِ طیبہ پر نچھاور ہے​
ہوائیں آ رہی ہیں کوچۂ پُر نورِ جاناں کی​
کھلی جاتی ہیں کلیاں تازگی دل کو میسر ہے​
منور چشمِ زائر ہے جمالِ عرشِ اعظم سے​
نظر میں سبز قُبّہ کی تجلی جلوہ گستر ہے​
یہ رفعت درگہِ عرش آستاں کے قرب سے پائی​
کہ ہر ہر سانس ہر ہر گام پر معراجِ دیگر ہے​
محرم کی نویں تاریخ بارہ منزلیں کر کے​
وہاں پہنچے وہ گھر دیکھا جو گھر اﷲ کا گھرہے​
نہ پوچھو ہم کہاں پہنچے اور اِن آنکھوں نے کیا دیکھا​
جہاں پہنچے وہاں پہنچے جو دیکھا دل کے اندر ہے​
ہزاروں بے نوائوں کے ہیں جمگھٹ آستانہ پر​
طلب دل میں صداے یا رسول اﷲ لب پر ہے​
لکھا ہے خامۂ رحمت نے دَر پر خط قدرت سے​
جسے یہ آستانہ مل گیا سب کچھ میسر ہے​
خدا ہے اس کا مالک یہ خدائی بھر کا مالک ہے​
خدا ہے اس کا مولیٰ یہ خدائی بھر کا سرور ہے​
زمانہ اس کے قابو میں زمانے والے قابو میں​
یہ ہر دفتر کا حاکم ہے یہ ہر حاکم کا افسر ہے​
عطا کے ساتھ ہے مختار رحمت کے خزانوں کا​
خدائی پر ہے قابو بس خدائی اس سے باہرہے​
کرم کے جوش ہیں بذل و نعم کے دَور دَورے ہیں​
عطاے با نوا ہر بے نوا سے شیر و شکر ہے​
کوئی لپٹا ہے فرطِ شوق میں روضے کی جالی سے​
کوئی گردن جھکائے رُعب سے با دیدۂ تر ہے​
کوئی مشغولِ عرض حال ہے یوں شادماں ہو کر​
کہ یہ سب سے بڑی سرکار ہے تقدیر یاور ہے​
کمینہ بندۂ دَر عرض کرتا ہے حضوری میں​
جو موروثی یہاں کا مدح گستر ہے ثنا گر ہے​
تری رحمت کے صدقے یہ تری رحمت کا صدقہ تھا​
کہ اِن ناپاک آنکھوں کو یہ نظارہ میسر ہے​
ذلیلوں کی تو کیا گنتی سلاطینِ زمانہ کو​
تری سرکار عالی ہے ترا دربار برتر ہے​
تری دولت تری ثروت تری شوکت جلالت کا​
نہ ہے کوئی زمیں پر اور نہ کوئی آسماں پر ہے​
مطاف و کعبہ کا عالم دکھایا تو نے طیبہ میں​
ترا گھر بیچ میں چاروں طرف اﷲ کا گھر ہے​
تجلی پر تری صدقے ہے مہر و ماہ کی تابش​
پسینے پر ترے قربان رُوحِ مشک و عنبر ہے​
غم و افسوس کا دافع اشارہ پیاری آنکھوں کا​
دل مایوس کی حامی نگاہِ بندہ پرور ہے​
جو سب اچھوں میں ہے اچھا جو ہر بہتر سے بہتر ہے​
ترے صدقے سے اچھا ہے ترے صدقے میں بہتر ہے​
رکھوں میں حاضری کی شرم ان اعمال پر کیونکر​
مرے امکان سے باہر مری قدرت سے باہر ہے​
اگر شانِ کرم کو لاج ہو میرے بُلانے کی​
تو میری حاضری دونوں جہاں میں میری یاور ہے​
مجھے کیا ہو گیا ہے کیوں میں ایسی باتیں کرتا ہوں​
یہاں بھی یاس و محرومی یہ کیوں کر ہو یہ کیوں کرہے​
بُلا کر اپنے کُتّے کو نہ دیں چمکار کر ٹکڑا​
پھر اس شانِ کرم پر فہم سے یہ بات باہر ہے​
تذبذب مغفرت میں کیوں رہے اِس دَر کے زائر کو​
کہ یہ درگاہِ والا رحمتِ خالص کا منظرہے​
مبارک ہو حسنؔ سب آرزوئیں ہو گئیں پوری​
اب اُن کے صدقے میں عیشِ ابد تجھ کو میسر ہے​
 
ؤ​
یہ نعت پہلی بار ’الرضا‘ بریلی کے ایک شمارہ میں شائع ہوئی۔​
یہ نایاب تحفہ بھی ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے :​
عالم ہمہ صورت ہے، گر جان ہے تو تُو ہے​
سب ذرّے ہیں گر مہر، درخشاں ہے تو تُو ہے​
سب کو ہے خیال اپنا، نہیں کوئی کسی کا​
محشر میں اگر اُمتی گویاں ہے تو تُو ہے​
پروانہ کوئی شمع کا، بلبل کوئی گُل کا​
اللہ ہے شاہد، مرا جاناں ہے تو تُو ہے​
طالب ہوں ترا، غیر سے مطلب نہیں مجھ کو​
گر دین ہے تو تُو ہے، ایمان ہے تو تُو ہے​
عرصات کے میدان میں اے دامنِ سلطاں​
مجھ بے سر و سامان کا جو ساماں ہے تو تُو ہے​
اے روئے منور کے تصور تیرے قرباں​
اک روشنی گورِ غریباں ہے تو تُو ہے​
اے چشم نبی کون ہے محشر میں حسنؔ کا​
ہاں پیشِ خدا عفو کو گریاں ہے تو تُو ہے​
ؤ​
ذکر شہادت​
بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزارِ جنت کی​
سواری آنے والی ہے شہیدانِ محبت کی​
کھلے ہیں گل بہاروں پر ہے پھلواری جراحت کی​
فضا ہر زخم کی دامن سے وابستہ ہے جنت کی​
گلا کٹوا کے بیڑی کاٹنے آئے ہیں اُمت کی​
کوئی تقدیر تو دیکھے اَسیرانِ محبت کی​
شہیدِ ناز کی تفریح زخموں سے نہ کیوں کر ہو​
ہوائیں آتی ہیں ان کھڑکیوں سے باغِ جنت کی​
کرم والوں نے دَر کھولا تو رحمت نے سماں باندھا​
کمر باندھی تو قسمت کھول دی فضل شہادت کی​
علی کے پیارے خاتونِ قیامت کے جگر پارے​
زمیں سے آسماں تک دُھوم ہے اِن کی سیادت کی​
زمین کربلا پر آج مجمع ہے حسینوں کا​
جمی ہے انجمن روشن ہیں شمعیں نور و ظلمت کی​
یہ وہ شمعیں نہیں جو پھونک دیں اپنے فدائی کو​
یہ وہ شمعیں نہیں رو کر جو کاٹیں رات آفت کی​
یہ وہ شمعیں ہیں جن سے جانِ تازہ پائیں پروانے​
یہ وہ شمعیں ہیں جو ہنس کر گزاریں شب مصیبت کی​
یہ وہ شمعیں نہیں جن سے فقط اک گھر منور ہو​
یہ وہ شمعیں ہیں جن سے رُوح ہو کافور ظلمت کی​
دلِ حور و ملائک رہ گیا حیرت زدہ ہو کر​
کہ بزم گل رُخاں میں لے بلائیں کس کی صورت کی​
جدا ہوتی ہیں جانیں جسم سے جاناں سے ملتے ہیں​
ہوئی ہے کربلا میں گرم مجلس وصل و فرقت کی​
اسی منظر پہ ہر جانب سے لاکھوں کی نگاہیں ہیں​
اسی عالم کو آنکھیں تک رہی ہیں ساری خلقت کی​
ہوا چھڑکائو پانی کی جگہ اشکِ یتیماں سے​
بجائے فرش آنکھیں بچھ گئیں اہلِ بصیرت کی​
ہواے یار نے پنکھے بنائے پر فرشتوں کے​
سبیلیں رکھی ہیں دیدار نے خود اپنے شربت کی​
اُدھر افلاک سے لائے فرشتے ہار رحمت کے​
ادھر ساغر لیے حوریں چلی آتی ہیں جنت کی​
سجے ہیں زخم کے پھولوں سے وہ رنگین گلدستے​
بہارِ خوشنمائی پر ہے صدقے رُوح جنت کی​
ہوائیں گلشن فردوس سے بس بس کر آتی ہیں​
نرالی عطر میں ڈوبی ہوئی ہے رُوح نکہت کی​
دلِ پُر سوز کے سُلگے اگر سوز ایسی حرکت سے​
کہ پہنچی عرش و طیبہ تک لَپٹ سوزِ محبت کی​
ادھر چلمن اُٹھی حسنِ ازل کے پاک جلوئوں سے​
ادھر چمکی تجلی بدرِ تابانِ رسالت کی​
زمین کربلا پر آج ایسا حشر برپا ہے​
کہ کھنچ کھنچ کر مٹی جاتی ہیں تصویریں قیامت کی​
گھٹائیں مصطفیٰ کے چاند پر گھر گھر کر آئی ہیں​
سیہ کارانِ اُمت تِیرہ بختانِ شقاوت کی​
یہ کس کے خون کے پیاسے ہیں اُس کے خون کے پیاسے​
بجھے گی پیاس جس سے تشنہ کامانِ قیامت کی​
اکیلے پر ہزاروں کے ہزاروں وار چلتے ہیں​
مٹا دی دین کے ہمراہ عزت شرم و غیرت کی​
مگر شیر خدا کا شیر جب بپھرا غضب آیا​
پَرے ٹوٹے نظر آنے لگی صورت ہزیمت کی​
کہا یہ بوسہ دے کر ہاتھ پر جوشِ دلیری نے​
بہادر آج سے کھائیں گے قسمیں اِس شجاعت کی​
تصدق ہو گئی جانِ شجاعت سچے تیور کے​
فدا شیرانہ حملوں کی اَدا پر رُوح جرأت کی​
نہ ہوتے گر حسین ابن علی اس پیاس کے بھوکے​
نکل آتی زمین کربلا سے نہر جنت کی​
مگر مقصود تھا پیاسا گلا ہی اُن کو کٹوانا​
کہ خواہش پیاس سے بڑھتی رہے رُؤیت کے شربت کی​
شہید ناز رکھ دیتا ہے گردن آبِ خنجر پر​
جو موجیں باڑ پر آ جاتی ہیں دریاے اُلفت کی​
یہ وقتِ زخم نکلا خوں اچھل کر جسمِ اطہر سے​
کہ روشن ہو گئی مشعل شبستانِ محبت کی​
سرِ بے تن تن آسانی کو شہر طیبہ میں پہنچا​
تنِ بے سر کو سرداری ملی مُلکِ شہادت کی​
حسنؔ سُنّی ہے پھر افراط و تفریط اِس سے کیوں کر ہو​
اَدب کے ساتھ رہتی ہے روش اربابِ سُنت کی​
ؤ​
کشف ِرازِ نجدیت​
نجدیا سخت ہی گندی ہے طبیعت تیری​
کفر کیا شرک کا فضلہ ہے نجاست تیری​
خاک منہ میں ترے کہتا ہے کسے خاک کا ڈھیر​
مِٹ گیا دین ملی خاک میں عزت تیری​
تیرے نزدیک ہوا کذب الٰہی ممکن​
تجھ پہ شیطان کی پھٹکار یہ ہمت تیری​
بلکہ کذّاب کیا تو نے تو اِقرار وقوع​
اُف رے ناپاک یہاں تک ہے خباثت تیری​
علم شیطاں کا ہوا علمِ نبی سے زائد​
پڑھوں لاحول نہ کیوں دیکھ کے صورت تیری​
بزمِ میلاد ہو ’کانا‘ کے جنم سے بدتر​
ارے اندھے ارے مردود یہ جرأت تیری​
علمِ غیبی میں مجانین و بہائم کا شمول​
کفر آمیز جنوں زا ہے جہالت تیری​
یادِ خر سے ہو نمازوں میں خیال اُن کا بُرا​
اُف جہنم کے گدھے اُف یہ خرافت تیری​
اُن کی تعظیم کرے گا نہ اگر وقتِ نماز​
ماری جائے گی ترے منہ پہ عبادت تیری​
ہے کبھی بوم کی حلت تو کبھی زاغ حلال​
جیفہ خواری کی کہیں جاتی ہے عادت تیری​
ہنس کی چال تو کیا آتی ، گئی اپنی بھی​
اِجتہادوں ہی سے ظاہر ہے حماقت تیری​
کھلے لفظوں میں کہے قاضی شوکاں مدد دے​
یا علی سُن کے بگڑ جائے طبیعت تیری​
تیری اٹکے تو وکیلوں سے کرے اِستمداد​
اور طبیبوں سے مدد خواہ ہو علت تیری​
ہم جو اﷲ کے پیاروں سے اِعانت چاہیں​
شرک کا چرک اُگلنے لگے ملت تیری​
عبدِ وہاب کا بیٹا ہوا شیخِ نجدی​
اُس کی تقلید سے ثابت ہے ضلالت تیری​
اُسی مشرک کی ہے تصنیف ’کتاب التوحید‘​
جس کے ہر فقرہ پہ ہے مہرِ صداقت تیری​
ترجمہ اس کا ہوا ’تفویۃ الایماں‘ نام​
جس سے بے نور ہوئی چشمِ بصیرت تیری​
واقفِ غیب کا اِرشاد سنائوں جس نے​
کھول دی تجھ سے بہت پہلے حقیقت تیری​
زلزلے نجد میں پیدا ہوں فتن برپا ہوں​
یعنی ظاہر ہو زمانے میں شرارت تیری​
ہو اِسی خاک سے شیطان کی سنگت پیدا​
دیکھ لے آج ہے موجود جماعت تیری​
سر مُنڈے ہونگے تو پاجامے گھٹنے ہونگے​
سر سے پا تک یہی پوری ہے شباہت تیری​
اِدعا ہو گا حدیثوں پہ عمل کرنے کا​
نام رکھتی ہے یہی اپنا جماعت تیری​
اُن کے اعمال پہ رشک آئے مسلمانوں کو​
اس سے تو شاد ہوئی ہو گی طبیعت تیری​
لیکن اُترے گا نہ قرآن گلوں سے نیچے​
ابھی گھبرا نہیں باقی ہے حکایت تیری​
نکلیں گے دین سے یوں جیسے نشانہ سے تیر​
آج اس تیر کی نخچیر ہے سنگت تیری​
اپنی حالت کو حدیثوں کے مطابق کر لے​
آپ کھل جائے گی پھر تجھ پہ خباثت تیری​
چھوڑ کر ذکر تیرا اب ہے خطاب اپنوں سے​
کہ ہے مبغوض مجھے دل سے حکایت تیری​
مرے پیارے مرے اپنے مرے سُنّی بھائی​
آج کرنی ہے مجھے تجھ سے شکایت تیری​
تجھ سے جو کہتا ہوں تو دل سے سُن انصاف بھی کر​
کرے اﷲ کی توفیق حمایت تیری​
گر ترے باپ کو گالی دے کوئی بے تہذیب​
غصہ آئے ابھی کچھ اور ہو حالت تیری​
گالیاں دیں اُنھیں شیطانِ لعیں کے پیرو​
جن کے صدقے میں ہے ہر دولت و نعمت تیری​
جو تجھے پیار کریں جو تجھے اپنا فرمائیں​
جن کے دل کو کرے بے چین اَذیت تیری​
جو ترے واسطے تکلیفیں اُٹھائیں کیا کیا​
اپنے آرام سے پیاری جنہیں راحت تیری​
جاگ کر راتیں عبادت میں جنھوں نے کاٹیں​
کس لیے ، اِس لیے کٹ جائے مصیبت تیری​
حشر کا دن نہیں جس روز کسی کا کوئی​
اس قیامت میں جو فرمائیں شفاعت تیری​
اُن کے دشمن سے تجھے ربط رہے میل رہے​
شرم اﷲ سے کر کیا ہوئی غیرت تیری​
تو نے کیا باپ کو سمجھا ہے زیادہ اُن سے​
جوش میں آئی جو اِس درجہ حرارت تیری​
اُن کے دشمن کو اگر تو نے نہ سمجھا دشمن​
وہ قیامت میں کریں گے نہ رفاقت تیری​
اُن کے دشمن کا جو دشمن نہیں سچ کہتا ہوں​
دعویٰ بے اصل ہے جھوٹی ہے محبت تیری​
بلکہ ایمان کی پوچھے تو ہے ایمان یہی​
اُن سے عشق اُن کے عدو سے ہو عداوت تیری​
اہلِ سنت کا عمل تیری غزل پر ہو حسنؔ​
جب میں جانوں کہ ٹھکانے لگی محنت تیری​
 
مسدسات​
تمہید ذکر معراج شریف​
ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہے​
ہم بے کسوں کے حال پہ تجھ کو نظر بھی ہے​
جوشِ عطش بھی شدّتِ سوزِ جگر بھی ہے​
کچھ تلخ کامیاں بھی ہیں کچھ دردِ سر بھی ہے​
ایسا عطا ہو جام شرابِ طہور کا​
جس کے خمار میں بھی مزہ ہو سُرور کا​
اب دیر کیا ہے بادۂ عرفاں قوام دے​
ٹھنڈک پڑے کلیجہ میں جس سے وہ جام دے​
تازہ ہو رُوح پیاس بجھے لطف تام دے​
یہ تشنہ کام تجھ کو دعائیں مدام دے​
اُٹھیں سرور آئیں مزے جھوم جھوم کر​
ہو جائوں بے خبر لبِ ساغر کو چوم کر​
فکرِ بلند سے ہو عیاں اقتدارِ اوج​
چہکے ہزار خامہ سرِ شاخسارِ اوج​
ٹپکے گل کلام سے رنگِ بہارِ اوج​
ہو بات بات شانِ عروج افتخارِ اوج​
فکر و خیال نور کے سانچوں میں ڈھل چلیں​
مضموں فرازِ عرش سے اُونچے نکل چلیں​
اِس شان اِس اَدا سے ثناے رسول ہو​
ہر شعر شاخِ گل ہو تو ہر لفظ پھول ہو​
حُضّار پر سحابِ کرم کا نزول ہو​
سرکار میں یہ نذرِ محقر قبول ہو​
ایسی تعلّیوں سے ہو معراج کا بیاں​
سب حاملانِ عرش سنیں آج کا بیاں​
معراج کی یہ رات ہے رحمت کی رات ہے​
فرحت کی آج شام ہے عشرت کی رات ہے​
ہم تیرہ اختروں کی شفاعت کی رات ہے​
اعزاز ماہِ طیبہ کی رُؤیت کی رات ہے​
پھیلا ہوا ہے سرمۂ تسخیر چرخ پر​
یا زلف کھولے پھرتی ہیں حوریں اِدھر اُدھر​
دل سوختوں کے دل کا سویدا کہوں اِسے​
پیر فلک کی آنکھ کا تارا کہوں اِسے​
دیکھوں جو چشمِ قیس سے لیلیٰ کہوں اِسے​
اپنے اندھیرے گھر کا اُجالا کہوں اِسے​
یہ شب ہے یا سوادِ وطن آشکار ہے​
مشکیں غلافِ کعبۂ پروردگار ہے​
اس رات میں نہیں یہ اندھیرا جھکا ہوا​
کوئی گلیم پوشِ مراقب ہے با خدا​
مشکیں لباس یا کوئی محبوبِ دلربا​
یا آہوے سیاہ یہ چرتے ہیں جا بجا​
ابرِ سیاہ مست اُٹھا حالِ وجد میں​
لیلیٰ نے بال کھولے ہیں صحراے نجد میں​
یہ رُت کچھ اور ہے یہ ہوا ہی کچھ اور ہے​
اب کی بہارِ ہوش رُبا ہی کچھ اور ہے​
روے عروسِ گل میں صفا ہی کچھ اور ہے​
چبھتی ہوئی دلوں میں اَدا ہی کچھ اور ہے​
گلشن کھلائے بادِ صبا نے نئے نئے​
گاتے ہیں عندلیب ترانے نئے نئے​
ہر ہر کلی ہے مشرق خورشیدِ نور سے​
لپٹی ہے ہر نگاہ تجلیِ طور سے​
روہت ہے سب کے منہ پہ دلوں کے سُرور سے​
مردے ہیں بے قرار حجابِ قبور سے​
ماہِ عرب کے جلوے جو اُونچے نکل گئے​
خورشید و ماہتاب مقابل سے ٹل گئے​
ہر سمت سے بہار نواخوانیوں میں ہے​
نیسانِ جودِ ربّ گہر افشانیوں میں ہے​
چشمِ کلیم جلوے کے قربانیوں میں ہے​
غل آمدِ حضور کا رُوحانیوں میں ہے​
اک دُھوم ہے حبیب کو مہماں بلاتے ہیں​
بہرِ براق خلد کو جبریل جاتے ہیں​
 
Top