شاہ رخ خان کو اعزازی ڈگری تو دی جا سکتی ہے مگر وہ اعزاز جو اعجاز صاحب کو قدرت نے بخشا، وہ نہیں دیا جا سکتا۔۔۔ اردو سے محبت اور اردو کی خدمت کا جو جذبہ محترم
الف عین صاحب کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے وہ تو دیدنی ہے۔ زبان' خیال کی پیغام رساں ہوا کرتی ہے، اگرخیال بلند نہ ہو تو محض زبان شناس ہونا انسان کے باطن کو اطمینان نہیں بخش سکتا۔۔۔ زبان پراحسان اصل میں یہ ہے کہ ان لوگوں پراحسان کیا جائے جو اس زبان کو بولنے والے ہیں۔۔۔ 'انسان' کے ساتھ محبت نہ ہو تو زبان کے ساتھ محبت محض مفاد کی بنیاد پر ہوتی ہے۔۔ مگر اعجاز صاحب صرف علم دوست ہی نہیں بلکہ انسان دوست بھی ہیں۔۔۔ مفاد سے آزاد۔۔ 'کھرے آدمی'۔استاد ہونے اور شفیق استاد ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے' ویسے ہی جیسے انسان اور اچھے انسان میں فرق ہوا کرتا ہے۔۔۔۔ دیکھنے میں آیا کہ علم انسان کو مغرور بناتا ہے مگراعجاز صاحب کی طرف دیکھنے سے ایسا تاثر نہیں ملتا۔۔۔ علم و ہنر ان کے 'دل' کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔۔۔خوش نصیبی سے آج بھی ان کے پاس ایسا دل ہے جو احساس کی دولت رکھتا ہے۔۔۔ میں نے جو اعجاز صاحب کو اردو کی خدمت کرتے ہوئے یہاں دیکھا وہ اس طرح کہ بقول غالب۔۔۔۔
سرمہء مفتِ نظر ہوں مری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا