یوسف ثانی بھائی یہ تحریر آج نظر سے گزری ہے
(×) کوئی بات نہیں۔ اس قسم کے ”آئینوں“ پر ویسے بھی خواتین کی نظر کم کم ہی پڑتی ہے
آپکا اندازِ تحریر بہت برجستہ و شگفتہ ہے ماشاءاللہ
(×)
مہ جبین بہن! تعریف کا بہت بہت بہت شکریہ
سارے دل جلے شوہروں کی اچھی ترجمانی کی ہے
(×) ہا ہا ہا۔ گویا آپ بھی تصدیق کرتی ہیں کہ کہ سارے شوہر دل جلے ہوتے ہیں۔
اب کوئی مجھے یہ بتائے کہ لطیفوں میں بیگم ظالم اور شوہر ہمیشہ مظلوم ہی کیوں ہوتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
(×) اس کی دو بنیادی وجہ ہے نمبر دو یہ کہ ایسے سارے لطیفے تجربہ کار شوہرون کی تخلیق ہوتے ہیں۔ اور نمبر ایک یہ کہ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
عورتیں خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں، لیکن جب وہ بیوی کے عہدہ پر فائز ہوتی ہیں تو۔۔۔ وہ رحمۃ اللعالیمن صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ”خفا“ ہوجاتی ہیں۔۔۔ (غالباً) دور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی اپنی بیوی کی ”بد زبانی“ سے تنگ آکر اس کی شکایت کرنے امیر المومنین کے گھر گئے۔ ابھی گھر پر دستک ہی دی تھی کہ اندر سے خاتوں خانہ کے ”شور شرابہ“ کی آواز سنائی دی۔ وہ یہ سوچ کر واپس مڑ گئے کہ یہاں بھی اپنے گھر والا معاملہ ہے، لہٰذا یہاں شکایت کرنے کا کیا فائدہ؟ اتنے میں امیر المونین دستک کے جواب میں باہر نکلے اور جاتے ہوئے صحابی کو آواز دی کہ دستک دے کر ملے بغیر واپس کیوں جارہے ہیں۔ صحابی کی بات سُن کر امیر المومنین مسکرائے اور بولے۔ بھئی یہ تو اُن کا ”حق“ ہے۔ (مفہوم)
ایک سوال اور ہے کہ اس تحریر پر آپ کی اہلیہ محترمہ کا کیا ردِعمل تھا؟ ؟؟
(×) انہیں پتہ ہے کہ میں ایک لکھاری اور مزاح نگار ہوں، لہٰذا انہوں نے کوئی خاص ”لفٹ“ نہیں کرائی۔ حالانکہ موصوفہ اردو ایڈوانس کے ساتھ ڈبل گریجویٹ ہیں