ذکر جن کا نہ تھا بیان ہو جاتے

جناب
الف عین صاحب
محمد یعقوب آسی صاحب
محمد اسامہ سَرسَری صاحب
مزمل شیخ بسمل صاحب
محمد وارث صاحب
ایک تازہ غزل اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں ... آپ سب کی توجہ چاہونگا ..

ذکر جن کا نہ تھا بیان ہو جاتے
خود سے گرہم بھی بد گمان ہو جاتے

شبِ حجر نے رلا دیاہمیں ورنہ
درد کی ایک داستان ہو جاتے

ہم کو جاتے ہوئے اگر بلا لیتا
سچ، ہما رے بھی کچھ گمان ہو جاتے

اس کے دل سے گزر اگر ہوا ہوتا
بے مکیں ہم سے، با مکان ہو جاتے

تیری الفت کی نم اگر زمیں ملتی
یہ شجرِ ِ عشق ، آسمان ہو جاتے

گل عدن بھی تری چشم نم کی شبنم میں
دھل دھلا کر چمن کی شان ہو جاتے

ملتفت بزم میں، وہ ہوتے جس جانب
قصے چھوٹے بھی، داستان ہو جاتے

اس کی انگڑائی کا یہ حال تھا کاشف
زاویے ڈھل کے سب کمان ہو جاتے
 

الف عین

لائبریرین
اس کی تقطیع کر کے دیکھی ہےاکثر اولیٰ مصرعے فاعلاتن مفاعلن فعلن میں تقطیع ہوتے ہیں۔ لیکن ثانی کسی بحر میں نہیں۔
 
محترم الف عین صاحب
بہت بہت شکریہ ...
لیکن میں نے دونوں مصرعوں تقطیع کچھ یوں کی ہے ....
٢ ١ ٢ ٢ ١ ٢ ١ ٢ ١ ٢ ٢ ٢
فاعلاتن مفاعلن مفاعیلن
کیا یہ غلط ہے ؟ رہنمائی فرمائیں .
 
از خود کوئی بحر منتخب کرنا غلط تو نہیں ہے اگر پوری غزل میں اسے نبھایا جائے ، مگر عروض میں جو بحریں مستعمل ہیں انھی میں طبع آزمائی کرنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ قاری غیر مانوس آہنگ کی وجہ سے آپ کے اشعار سے اجنبیت محسوس نہیں کرے گا۔ گویا ایک غیر مانوس بحر منتخب کرکے آپ نے صرف اپنے مزاج کی رعایت کی ، قاری کے مزاج کی نہیں۔
 
Top