الف نظامی
لائبریرین
بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزار جنت کی
سواری آنے والی ہے شہیدان محبت کی
گلا کٹوا کے بیڑی کاٹنے آئے ہیں امت کی
کوئی تقدیر تو دیکھے اسیران محبت کی
شہید ناز کی تفریح زخموں سے نہ کیونکر ہو
ہوائیں آتی ہیں ان کھڑکیوں سے باغ جنت کی
کرم والوں نے در کھولا تو رحمت نے سماں باندھا
کمر باندھی تو قسمت کھول دی فضل شہادت کی
علی کے پیارے خاتون قیامت کے جگر پارے
زمیں سے آسماں تک دھوم ہے ان کی سیادت کی
زمین کربلا پر آج مجمع ہے حسینوں کا
جمی ہے انجمن روشن ہیں شمعیں نور و ظلمت کی
یہ وہ شمعیں نہیں جو پھونک دیں اپنے فدائی کو
یہ وہ شمعیں نہیں رو کر جو کاٹیں رات آفت کی
یہ وہ شمعیں ہیں جن سے جان تازہ پائیں پروانے
یہ وہ شمعیں ہیں جو ہنس کر گزاریں شب مصیبت کی
یہ وہ شمیعں نہیں جن سے فقط اک گھر منور ہو
یہ وہ شمیعں ہیں جن سے روح ہو کافور ظلمت کی
دل حور و ملائک رہ گیا حیرت زدہ ہو کر
کہ بزم گل رخاں میں لے بلائیں کس کی صورت کی
جدا ہوتی ہیں جانیں جسم سے جاناں سے ملتے ہیں
ہوئی ہے کربلا میں گرم مجلس وصل و فرقت کی
اسی منظر پہ ہر جانب سے لاکھوں کی نگاہیں ہیں
اسی عالم کو آنکھیں تک رہی ہیں ساری خلقت کی
ہوا چھڑکاؤ پانی کی جگہ اشک یتیماں پے
بجائے فرش آنکھیں بچھ گئیں اہل بصیرت کی
ہوائے یار نے پنکھے بنائے پر فرشتوں کے
سبیلیں رکھی ہیں دیدار نے خود اپنے شربت کی
اُدھر افلاک سے لائے فرشتے ہار رحمت کے
ادھر ساغر لئے حوریں چلی آتی ہیں جنت کی
سجے ہیں زخم کے پھولوں سے وہ رنگین گلدستے
بہار خوشنمائی پر ہے صدقے روح جنت کی
ہوائیں گلشن فردوس سے بس بس کر آتی ہیں
نرالی عطر میں ڈوبی ہوئی ہے روح نکہت کی
دل پُر سوز کے سلگے اگر سوز ایسی کثرت سے
کہ پہنچی عرش و طیبہ تک لپٹ سوز محبت کی
ادھر چلمن اٹھی حسن ازل کے پاک جلوؤں سے
ادھر چمکی تجلی بدر تابان رسالت کی
زمین کربلا پر آج ایسا حشر برپا ہے
کہ کھنچ کھنچ کی مٹی جاتی ہیں تصویریں قیامت کی
گھٹائیں مصطفٰے کے چاند پر گھر گھر کر آتی ہیں
سیہ کاران امت تیرہ بختان شقاوت کی
یہ کس کے خون کے پیاسے ہیں اُس کے خون کے پیاسے
بجھے گی پیاس جس سے تشنہ کامان قیامت کی
اکیلے پر ہزاروں کے ہزاروں وار چلتے ہیں
مٹا دی دین کے ہمراہ عزت شرم و غیرت کی
مگر شیر خدا کا شیر جب بپھرا غضب آیا
پَرے ٹوٹے نظر آنے لگی صورت ہزیمت کی
کہا یہ بوسہ دے کر ہاتھ پر جوش دلیری نے
بہادر آج سے کھائیں گے قسمیں اس شجاعت کی
تصدق ہو گئی جان شجاعت سچے تیور کے
فدا شیرانہ حملوں کی ادا پر روح جراءت کی
نہ ہوتے گر حسین ابن علی اس پیاس کے بھوکے
نکل آتی زمین کربلا سے نہر جنت کی
مگر مقصود تھا پیاسا گلا ہی ان کو کٹوانا
کہ خواہش پیاس سے بڑھتی ہے رویت کے شربت کی
شہید ناز رکھ دیتا ہے گردن آب خنجر پر
جو موجیں باڑ پر آ جاتی ہیں دریائے الفت کی
یہ وقت زخم نکلا خوں اچھل کر جسم اطہر سے
کہ روشن ہو گئی مشعل شبستان محبت کی
سر بے تن تن آسانی کو شہر طیبہ میں پہنچا
تن بے سر کو سرداری ملی ملک شہادت کی
حسن سنی ہے پھر افراط و تفریط اس سے کیونکر ہو
ادب کے ساتھ رہتی ہے روش ارباب سنت کی
از حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
سواری آنے والی ہے شہیدان محبت کی
گلا کٹوا کے بیڑی کاٹنے آئے ہیں امت کی
کوئی تقدیر تو دیکھے اسیران محبت کی
شہید ناز کی تفریح زخموں سے نہ کیونکر ہو
ہوائیں آتی ہیں ان کھڑکیوں سے باغ جنت کی
کرم والوں نے در کھولا تو رحمت نے سماں باندھا
کمر باندھی تو قسمت کھول دی فضل شہادت کی
علی کے پیارے خاتون قیامت کے جگر پارے
زمیں سے آسماں تک دھوم ہے ان کی سیادت کی
زمین کربلا پر آج مجمع ہے حسینوں کا
جمی ہے انجمن روشن ہیں شمعیں نور و ظلمت کی
یہ وہ شمعیں نہیں جو پھونک دیں اپنے فدائی کو
یہ وہ شمعیں نہیں رو کر جو کاٹیں رات آفت کی
یہ وہ شمعیں ہیں جن سے جان تازہ پائیں پروانے
یہ وہ شمعیں ہیں جو ہنس کر گزاریں شب مصیبت کی
یہ وہ شمیعں نہیں جن سے فقط اک گھر منور ہو
یہ وہ شمیعں ہیں جن سے روح ہو کافور ظلمت کی
دل حور و ملائک رہ گیا حیرت زدہ ہو کر
کہ بزم گل رخاں میں لے بلائیں کس کی صورت کی
جدا ہوتی ہیں جانیں جسم سے جاناں سے ملتے ہیں
ہوئی ہے کربلا میں گرم مجلس وصل و فرقت کی
اسی منظر پہ ہر جانب سے لاکھوں کی نگاہیں ہیں
اسی عالم کو آنکھیں تک رہی ہیں ساری خلقت کی
ہوا چھڑکاؤ پانی کی جگہ اشک یتیماں پے
بجائے فرش آنکھیں بچھ گئیں اہل بصیرت کی
ہوائے یار نے پنکھے بنائے پر فرشتوں کے
سبیلیں رکھی ہیں دیدار نے خود اپنے شربت کی
اُدھر افلاک سے لائے فرشتے ہار رحمت کے
ادھر ساغر لئے حوریں چلی آتی ہیں جنت کی
سجے ہیں زخم کے پھولوں سے وہ رنگین گلدستے
بہار خوشنمائی پر ہے صدقے روح جنت کی
ہوائیں گلشن فردوس سے بس بس کر آتی ہیں
نرالی عطر میں ڈوبی ہوئی ہے روح نکہت کی
دل پُر سوز کے سلگے اگر سوز ایسی کثرت سے
کہ پہنچی عرش و طیبہ تک لپٹ سوز محبت کی
ادھر چلمن اٹھی حسن ازل کے پاک جلوؤں سے
ادھر چمکی تجلی بدر تابان رسالت کی
زمین کربلا پر آج ایسا حشر برپا ہے
کہ کھنچ کھنچ کی مٹی جاتی ہیں تصویریں قیامت کی
گھٹائیں مصطفٰے کے چاند پر گھر گھر کر آتی ہیں
سیہ کاران امت تیرہ بختان شقاوت کی
یہ کس کے خون کے پیاسے ہیں اُس کے خون کے پیاسے
بجھے گی پیاس جس سے تشنہ کامان قیامت کی
اکیلے پر ہزاروں کے ہزاروں وار چلتے ہیں
مٹا دی دین کے ہمراہ عزت شرم و غیرت کی
مگر شیر خدا کا شیر جب بپھرا غضب آیا
پَرے ٹوٹے نظر آنے لگی صورت ہزیمت کی
کہا یہ بوسہ دے کر ہاتھ پر جوش دلیری نے
بہادر آج سے کھائیں گے قسمیں اس شجاعت کی
تصدق ہو گئی جان شجاعت سچے تیور کے
فدا شیرانہ حملوں کی ادا پر روح جراءت کی
نہ ہوتے گر حسین ابن علی اس پیاس کے بھوکے
نکل آتی زمین کربلا سے نہر جنت کی
مگر مقصود تھا پیاسا گلا ہی ان کو کٹوانا
کہ خواہش پیاس سے بڑھتی ہے رویت کے شربت کی
شہید ناز رکھ دیتا ہے گردن آب خنجر پر
جو موجیں باڑ پر آ جاتی ہیں دریائے الفت کی
یہ وقت زخم نکلا خوں اچھل کر جسم اطہر سے
کہ روشن ہو گئی مشعل شبستان محبت کی
سر بے تن تن آسانی کو شہر طیبہ میں پہنچا
تن بے سر کو سرداری ملی ملک شہادت کی
حسن سنی ہے پھر افراط و تفریط اس سے کیونکر ہو
ادب کے ساتھ رہتی ہے روش ارباب سنت کی
از حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ