آپا نے ایک دوسرے دھاگے میں یہ بات کہی تھی ۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے وہاں سے اقتباس اٹھا کر یہاں ایک نیا دھاگہ بنا دیا ۔ اس سلسلے میں میری بہت سی تحاریر یہاں موجود ہیں ۔ بعض اوقات تو میں برسوں پہلے لکھی کوئی تحریر یہاں موجود ہ موضوع پر پوسٹ کردیتا ہوں کہ ہمیشہ ایک بات کی رٹ رہتی ہے ۔ کوئی نئی سوچ نظر نہیں آتی ۔ خیر۔یہ سارے چور ، چوری میں ہاتھ ملا لیتے ہیں ۔فضل الرحمنٰ کو سب سے زیادہ تکلیف ہے کہ سچ مچ بیکار ہوگیے۔
جس طرح کھاتے وقت پانچوں انگلیاں ایک ہوکر نوالے کو منہ میں پہنچادیتی ہے ۔ مگر کھانے کے بعد پھر الگ ہوجاتی ہیں ۔ یہ سب چور یہی کرتے ہیں اور ایک بار پھر ایک ہوکر "بڑے کھانے "کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔ مجھے تو اس کے ساتھ ساتھ عوام کی اس دور اندیشی اور عقلی بصیرت "علمی نہیں " پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ صرف سامنے ایک بریانی کی پلیٹ دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر مستقبل بعید پر نظر نہیں ہوتی کہ ان کی آنے والی نسلوں کے لیئے کیا آسانیاں ہوسکتیں ہیں ۔ اس قوم میں یہ وژن ہی نہیں ہے ۔ یہ لکیر کے فقیر ہیں ۔ ان کو صرف اپنے مشکلات ہی نظر آتیں ہیں ۔ مگر اس کے تدارک کے لیئے کوئی مشورہ یا اپنا حصہ نہیں ڈالتے ۔ بس سب کو کوستے ہی رہتے ہیں ۔ سوائے اپنے سوا۔
امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ تو پڑھیں کہ انہوں نے کس طرح مشکلات کا سامنا کیا ۔ کسی طرح خالی پیٹ رہ کر ملک کی ترقی کی راہ میں گامزن کیا ۔ حکومت اور چند لوگوں کی وجہ قومیں ترقی نہیں کرتیں ۔ بلکہ عوام کو خود بہت سی قیمتیں اور قربانیاں دینی پڑتیں ہیں ۔ قومیں غیبی امداد پر بھی ترقی نہیں کرتیں بلکہ ہر کسی کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے ۔ پتا نہیں اس قوم کو کب سمجھ آئے گی ۔ یہ صرف کوئی جاہل اور ان پڑھ لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے ۔ بلکہ اچھے پڑھے لکھوں کی بھی مت ماری گئی ہے ۔نہ جانے ان کے کون سے اپنے مفاد ایسے ہیں ہیں کہ وہ دوربینی اور دور اندیشی سے محروم ہیں ۔
قیامِ پاکستان خصوصا قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد یہ ملک ایسے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے ۔ جو اس ملک سےجانے والے کے ابھی تک غلام تھے۔ انہوں نے اپنے جانے والے آقاوں کے اطاعت کا سلسلہ (چاہے وہ وڈیروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، پٹواریوں یا مولویوں کی صورت میں ہو )، ہنوز جاری رکھا ہوا ہے ۔ اتنی چوریاں ، اتنی کرپشن ، اتنی لوٹ مار اور ملک میں انارکی پھیلانے کے باوجود کس دھڑلے سے میڈیا پر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے پیچھے وہی غیر ملکی آقا ہیں ۔ پورا نظام کرپٹ کردیا ہے کون سی چیز صحیح ہے ۔ اور ستم تو یہ ہے کہ لگتا ہے کہ قوم نے اس سارے نظام کو ٹھیک کا کرنے کا ٹھیکہ دو سال کے عرصے پر دیا تھا ۔ اپنی گلی سے کچرا ذرا صاف کرکے کوئی دکھائے۔ ملک سے کچرا سے صاف کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ پتا نہیں کب اس قوم کے ذہن سے کسی آسمان سے اترے ہوئے شخص کا تصور ختم ہوگا جو ایک جادو کی چھڑی سے چند دنوں میں سب ٹھیک کردے گا ۔
اگر اس ملک کی حالت سدھارنی ہے تو پہلے اپنا محاسبہ کریں ۔ ایمانداری سے اپنے شب و روز کا موازنہ کریں کہ اس قوم اور ملک کے لیئے آپ اپنا کتنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ سب اپنے ہی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ قومیں اس طرح نہیں بنتیں ۔اس کے لیئے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے ۔ مگر شاید قوم اس بات کے لیئے تیار نہیں ہے ۔ یا پھر قوم میں وہ احساس ہی موجود نہیں ہے ۔ جو ان کے ضمیر کو جھنجوڑ سکے ۔
آخری تدوین: