سید شہزاد ناصر
محفلین
اکثر ایسے بھی ہوا کہ تم نے اپنی پسند پر میری مرضی کو قربان کردیا اور میں نے پتہ نہیں کیوں قربان ہونے دیا۔ میں بالوں میں ٹیڑھی مانگ نکالتا تھا لیکن تم نے کہا “مجھے درمیان میں پسند ہے”۔ میں نے کنگھی تمہارے آگے بڑھادی تو تم نے کہا “میں خود نہیں نکالوں گی۔” پھر میری مانگ خودبخود سیدھی نکلنے لگی۔ پر ان بالوں کو حسرت ہی رہی کہ کبھی تمہارے ہاتھوں سے منت پزیر شانہ ہوتے۔
ایک بار جب میں کرائے کی سائیکل لے کر سارا دن ادھر ادھر گھومتا رہا تھا اور شام کو دکان بند ہوگئی تھی اور میں سائیکل لے کر گھر آگیا تھا تو رات کو کھلی ہوئی چاندنی دیکھ کر تمہارا جی چرایا۔ تم سائیکل برآمدے سے باہر گلی میں نکال لے گئیں لیکن چلاتا کون! اس وقت اگر میں نہ ہوتا تو پتہ نہیں تم کتنی دیر ایسے ہی کھڑی رہتیں۔ پھر میں نے ہی تمہیں آگے بٹھا کر گلی کے اس سرے تک سیر کروائی لیکن اونچے نیچے گڑھوں والی زمین پر سائیکل اچھلتی رہی اور میری ٹھوڑی تمہارے سر سے ٹکراتی رہی اور واپسی پر جب میں نے یہ رائے دی کہ دکانوں کی قطار کا چکر کاٹ کر اپنے گھر کے پچھواڑے جا اتریں گے کیونکہ وہ راستہ ہموار تھا تو تم نے خود میری تجویز رد کردی تھی۔ اگر اس طرح ایک بار پھر میری ٹھوڑی تمہاری مانگ کو چھو رہی تھی تو میرا قصور؟
جب تم کالج سے دوپہر کو گھر آتی تھیں تو میں اپنی کھڑکی کھولے ہوئے بیٹھا ہوتا۔ ہمارے گھر کے عین سامنے ایک چھوٹی سی کھائی تھی جسے تم ہمیشہ پھلانگ کر گزرا کرتی تھیں۔ تمہارے ساتھ اور دو تین لڑکیاں بھی ہوتیں مگر وہ کھبی اس طرح نہ گزری تھیں یا تو اس سے کترا جاتیں یا ایک پاؤں اس میں اتار کر دوسرا اگلے کنارے پر رکھ دیتیں۔ میں یہی نظارہ کرنے کے لئیے کھڑکی کے پٹ کھولے رکھتا تھا۔ تھوڑے عرصے بعد وہ کھائی پر ہوگئی لیکن تم نے اپنا انداز نہ بدلا۔ تم اس تازہ ڈھلی ہوئی مٹی پر سے اسی طرح گزرتی رہیں جیسے کھائی پر سے گزرتی تھیں اور وہ نشیب پر ہونے کے باوجود میری کھڑکی بند نہ ہوئی۔ جب میں نےخدا کو ماننا چھوڑ دیا تو اوروں کے ساتھ تمہیں بھی رنج ہوا بھائی جان سے میری لمبی لمبی بحثیں سن کر تم نے مجھ سے پوچھا تھا۔ “آخر آپ خدا کو مانتے کیوں نہیں؟”
تو میں نے کہا تھا کہ “اس کے ماننے یہ نہ ماننے سے انسانی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔” تو تم نے جواب دیا تھا کہ “میں تو سمجھتی تھی فلسفہ پڑھنے سے تمہارا دماغ روشن ہوجائے گا۔ پر…”
“روشن ہی تو ہوا ہے۔” میں نے کہا تھا “جب وقت…”
“وقت اور فاصلہ میں کچھ نہیں سمجھتی۔” تم نے بات کاٹ کر کہا۔ “آج سے خدا کو مانا کرو۔”
“لیکن… “
“لیکن کچھ نہیں۔ میں جو کہتی ہوں خدا ہے۔”
“پر…”
“اچھا تو جاکر اپنی کھڑکی بند کرلو۔ سمجھ لو آج سے وہ کھائی پر ہوچکی۔”
میں تم سے تو شاید نہ ڈرتا لیکن تمہاری دھمکی سے ڈر گیا اور اس دن سے مجھے ہر شے میں خدا کا ظہور نظر آنے لگا۔
ایک بار جب میں کرائے کی سائیکل لے کر سارا دن ادھر ادھر گھومتا رہا تھا اور شام کو دکان بند ہوگئی تھی اور میں سائیکل لے کر گھر آگیا تھا تو رات کو کھلی ہوئی چاندنی دیکھ کر تمہارا جی چرایا۔ تم سائیکل برآمدے سے باہر گلی میں نکال لے گئیں لیکن چلاتا کون! اس وقت اگر میں نہ ہوتا تو پتہ نہیں تم کتنی دیر ایسے ہی کھڑی رہتیں۔ پھر میں نے ہی تمہیں آگے بٹھا کر گلی کے اس سرے تک سیر کروائی لیکن اونچے نیچے گڑھوں والی زمین پر سائیکل اچھلتی رہی اور میری ٹھوڑی تمہارے سر سے ٹکراتی رہی اور واپسی پر جب میں نے یہ رائے دی کہ دکانوں کی قطار کا چکر کاٹ کر اپنے گھر کے پچھواڑے جا اتریں گے کیونکہ وہ راستہ ہموار تھا تو تم نے خود میری تجویز رد کردی تھی۔ اگر اس طرح ایک بار پھر میری ٹھوڑی تمہاری مانگ کو چھو رہی تھی تو میرا قصور؟
جب تم کالج سے دوپہر کو گھر آتی تھیں تو میں اپنی کھڑکی کھولے ہوئے بیٹھا ہوتا۔ ہمارے گھر کے عین سامنے ایک چھوٹی سی کھائی تھی جسے تم ہمیشہ پھلانگ کر گزرا کرتی تھیں۔ تمہارے ساتھ اور دو تین لڑکیاں بھی ہوتیں مگر وہ کھبی اس طرح نہ گزری تھیں یا تو اس سے کترا جاتیں یا ایک پاؤں اس میں اتار کر دوسرا اگلے کنارے پر رکھ دیتیں۔ میں یہی نظارہ کرنے کے لئیے کھڑکی کے پٹ کھولے رکھتا تھا۔ تھوڑے عرصے بعد وہ کھائی پر ہوگئی لیکن تم نے اپنا انداز نہ بدلا۔ تم اس تازہ ڈھلی ہوئی مٹی پر سے اسی طرح گزرتی رہیں جیسے کھائی پر سے گزرتی تھیں اور وہ نشیب پر ہونے کے باوجود میری کھڑکی بند نہ ہوئی۔ جب میں نےخدا کو ماننا چھوڑ دیا تو اوروں کے ساتھ تمہیں بھی رنج ہوا بھائی جان سے میری لمبی لمبی بحثیں سن کر تم نے مجھ سے پوچھا تھا۔ “آخر آپ خدا کو مانتے کیوں نہیں؟”
تو میں نے کہا تھا کہ “اس کے ماننے یہ نہ ماننے سے انسانی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔” تو تم نے جواب دیا تھا کہ “میں تو سمجھتی تھی فلسفہ پڑھنے سے تمہارا دماغ روشن ہوجائے گا۔ پر…”
“روشن ہی تو ہوا ہے۔” میں نے کہا تھا “جب وقت…”
“وقت اور فاصلہ میں کچھ نہیں سمجھتی۔” تم نے بات کاٹ کر کہا۔ “آج سے خدا کو مانا کرو۔”
“لیکن… “
“لیکن کچھ نہیں۔ میں جو کہتی ہوں خدا ہے۔”
“پر…”
“اچھا تو جاکر اپنی کھڑکی بند کرلو۔ سمجھ لو آج سے وہ کھائی پر ہوچکی۔”
میں تم سے تو شاید نہ ڈرتا لیکن تمہاری دھمکی سے ڈر گیا اور اس دن سے مجھے ہر شے میں خدا کا ظہور نظر آنے لگا۔