رات تھی اور گھنا بن تھا 》 》اعجاز عبید

یاسر شاہ

محفلین
غزل
(اعجاز عبید)

رات تھی اور گھنا بن تھا
دل کا کیا وحشی پن تھا

پیار میں کیا کیا لڑتے تھے
ہم میں کتنا بچپن تھا

تو مرے گیتوں کی لے تھی
میں ترے پاؤں کی جھانجھن تھا

ہم دونوں زنجیر بپا
کیسا اپنا بندھن تھا

آگ تو تھی جنگل میں لگی
میں کیوں اس میں ایندھن تھا

پتوں کے گھنگھرو سے بجے
ورنہ گُپ چُپ آنگن تھا

ہلتے ہاتھ جو نیچے آئے
پھر سونا اسٹیشن تھا

 

یاسر شاہ

محفلین
اعجاز صاحب کی یہ غزل کچھ عرصے سے میرے موبائل نوٹس میں تھی۔سوچا آج یہاں پیش کروں ۔انھوں نے اردو کی خدمت میں خود کو اس قدر مٹا رکھا ہے کہ کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ آپ ایک بہترین شاعر بھی ہیں۔ ان کے اشعار پہ رومانوی رنگ غالب ہے۔ ہم ایسے خشک لوگوں کو بھی انھیں پڑھ کر رومانس کی سوجھتی ہے۔(رومانس بیگم سے وہ بھی اپنی)

اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی

کہیں کہیں ناصر کاظمی کے رنگ کو بھی خوب قبول کیا ہے۔یہ غزل بھی اس کا منھ بولتا ثبوت ہے۔پوری غزل ایک ماحول بناتی ہے گویا کہ آنکھوں کے آگے ایک فلم چل رہی ہو۔

آخری شعر تو غضب کا ہے۔بہت اچھوتے انداز میں رخصت کے لمحات کو قید کیا ہے۔یعنی بجائے یہ دعوی کرنے کے کہ میں آخر تک ہاتھ لہراتا رہا جب تک محبوب کی ریل آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئی، فرماتے کیا ہیں:

ہلتے ہاتھ جو نیچے آئے
پھر سونا اسٹیشن تھا

کوئی لفظ بھرتی کا نہیں۔"پھر" سے پتا چلتا ہے جب تک ریل تھی، رونق تھی ۔ریل چل پڑی تو اسٹیشن پہ ہاتھ لہرانے سے غم_ہجر کے ساتھ ساتھ ہل چل اور ہل جل کے سبب گرم بازاری_ عشق رہی۔ "پھر" سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ لہراتے ہی رہے تاوقتیکہ ریل اسٹیشن چھوڑ کے چلی نہ گئی۔

آخر میں" سونا اسٹیشن تھا" میں سب کچھ آگیا۔ریل جا چکی ہے ،رونق ختم ہو گئی ہے،لہراتے ہاتھ نیچے آگئے ہیں اور ہاتھوں کی ہل جل اور ریل کی ہل چل سے جو غم عشق میں ایک گرم بازاری تھی اس کی جگہ سونا پن آگیا ہے جو اردگرد کے ماحول پہ بھی چھایا محسوس ہوتا ہے۔

کیا خوب منظر کشی ہے اور کمال یہ ہے کہ محض منظر کشی میں سب کچھ ہے اور وہ بھی اس قدر مختصر بحر میں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
غزل
(اعجاز عبید)

رات تھی اور گھنا بن تھا
دل کا کیا وحشی پن تھا

پیار میں کیا کیا لڑتے تھے
ہم میں کتنا بچپن تھا

تو مرے گیتوں کی لے تھی
میں ترے پاؤں کی جھانجھن تھا

ہم دونوں زنجیر بپا
کیسا اپنا بندھن تھا

آگ تو تھی جنگل میں لگی
میں کیوں اس میں ایندھن تھا

پتوں کے گھنگھرو سے بجے
ورنہ گُپ چُپ آنگن تھا

ہلتے ہاتھ جو نیچے آئے
پھر سونا اسٹیشن تھا

کتنی چھوٹی بحر اور کتنا سب کچھ ۔ کیا خوب ۔ بہت خوب۔ شراکت کا شکریہ یاسر بھائی
 

زوجہ اظہر

محفلین
اعجاز صاحب کی یہ غزل کچھ عرصے سے میرے موبائل نوٹس میں تھی۔سوچا آج یہاں پیش کروں ۔انھوں نے اردو کی خدمت میں خود کو اس قدر مٹا رکھا ہے کہ کم لوگ ہی جانتے ہیں کہ آپ ایک بہترین شاعر بھی ہیں۔ ان کے اشعار پہ رومانوی رنگ غالب ہے۔ ہم ایسے خشک لوگوں کو بھی انھیں پڑھ کر رومانس کی سوجھتی ہے۔(رومانس بیگم سے وہ بھی اپنی)

اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی

کہیں کہیں ناصر کاظمی کے رنگ کو بھی خوب قبول کیا ہے۔یہ غزل بھی اس کا منھ بولتا ثبوت ہے۔پوری غزل ایک ماحول بناتی ہے گویا کہ آنکھوں کے آگے ایک فلم چل رہی ہو۔

آخری شعر تو غضب کا ہے۔بہت اچھوتے انداز میں رخصت کے لمحات کو قید کیا ہے۔یعنی بجائے یہ دعوی کرنے کے کہ میں آخر تک ہاتھ لہراتا رہا جب تک محبوب کی ریل آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئی، فرماتے کیا ہیں:

ہلتے ہاتھ جو نیچے آئے
پھر سونا اسٹیشن تھا

کوئی لفظ بھرتی کا نہیں۔"پھر" سے پتا چلتا ہے جب تک ریل تھی، رونق تھی ۔ریل چل پڑی تو اسٹیشن پہ ہاتھ لہرانے سے غم_ہجر کے ساتھ ساتھ ہل چل اور ہل جل کے سبب گرم بازاری_ عشق رہی۔ "پھر" سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ لہراتے ہی رہے تاوقتیکہ ریل اسٹیشن چھوڑ کے چلی نہ گئی۔

آخر میں" سونا اسٹیشن تھا" میں سب کچھ آگیا۔ریل جا چکی ہے ،رونق ختم ہو گئی ہے،لہراتے ہاتھ نیچے آگئے ہیں اور ہاتھوں کی ہل جل اور ریل کی ہل چل سے جو غم عشق میں ایک گرم بازاری تھی اس کی جگہ سونا پن آگیا ہے جو اردگرد کے ماحول پہ بھی چھایا محسوس ہوتا ہے۔

کیا خوب منظر کشی ہے اور کمال یہ ہے کہ محض منظر کشی میں سب کچھ ہے اور وہ بھی اس قدر مختصر بحر میں۔

بہت خوب

وداعی یا رخصتی کا آپ کے دل میں مقام خاص کا درجہ محسوس ہوتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
انستادِ محترم کے کلام کی کیا بات ہے !!!!!
پھر آپکے تبصرے نے چار چاند لگا دیے
دونوں کے لئے ڈھیر ساری دعائیں سلامت رہیے :flower::star2::flower::star2::flower:
 
آخری تدوین:
Top