رات گئے کا سنّاٹا تھا خاموشی سی گاؤں کی تھی -- ( اسحاق اطہر صدیقی)

یاسر شاہ

محفلین
رات گئے کا سنّاٹا تھا خاموشی سی گاؤں کی تھی
ہم جس وقت سفر پر نکلے چاپ خود اپنے پاؤں کی تھی

ریگِ رواں ہمراہِ سفر ہے سر پر سورج چلتا ہے
دھوپوں دھوپوں جلنے والے تیری دنیا چھاؤں کی تھی

کچھ تو کھلتا پیچ ہوا میں ڈال رہا تھا آخر کون
وحشت تھی آشفتہ سروں کی یا گردش صحراؤں کی تھی

ہم تو اک سنسان گلی سے آئے اور خاموش گئے
کہنے کو دنیا اپنی تھی رونق بزم آراؤں کی تھی

تم نے پکّی سڑک بنا کر کیسا رستہ کھول دیا
چکّر کھا کر لوٹ آتی تھی پگڈنڈی تو گاؤں کی تھی

آنے والے دن نے اطہر خواب میں بھی بے چین رکھا
رات کی دلداری کے صدقے رات مگر صحراؤں کی تھی

 
Top