میرا اس دھاگے میں دوبارہ آنے کا کوئی ارادہ تو نہیں تھا لیکن کچھ "دوستوں" کے مراسلے دیکھ کر سوچا کہ اپنی تھوڑی سی صفائی پیش کرتا جاؤں۔۔۔
میرا کمنٹ جس پر کچھ "نازک مزاجوں" کی رگِ حمیت پھڑک اٹھی ہے ، محض خوش طبعی میں کی جانے والی ایک بات تھی ، اس میں ذاتیات والی قطعاّ کوئی بات نہیں تھی۔۔اور جب میں نے دیکھا کہ مجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں اور کچھ لوگ بیزار بیٹھے ہیں تو میں نے فوراّ معذرت بھی کرلی۔۔۔لیکن بعد میں آنے والے انکے ذاتیات پر مبنی منٹس پڑھ کر افسوس ہی ہوا۔۔۔
ایک محترمہ نے فرمایا کہ :
اندھا کیا جانے بسنت کی بہار
اور دوسری محترمہ کچھ یوں گوہر افشاں ہوئیں:
اگر میں یہاں آپ کی بات کے جواب کا حق ادا کرنا چاہوں گی تو شاید بہت تلخی ہو جائے گی جناب محمود احمد غزنوی صاحب
صرف اتنا کہوں گی کہ میری زبان کو تضحیک کا نشانہ بنانے کی ابتدا آپ نے کی ہے اور ایک پٹھان ہوتے ہوئے مجھے آپ کی بات کی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بنتا ہے
لیکن میرا مزاج اور میری تہذیب مجھے یوں سرِ محفل کسی کی تضحیک کی اجازت نہیں دیتے
کیا نازک اور نفیس اظہار کسی ایک خاص زبان کے لیے وقف ہے؟
اور کہاں درج ہیں یہ قوانین؟ آپ بتانا پسند فرمائیں گے؟
اگر آپ کے طبع نازک پہ یہ ترجمہ بھاری گزرا تو آپ کو یہ حق تو حاصل نہیں ہوگیا کہ آپ اپنی نازک طبع کی خاطر پشتو زبان کو تضحیک کا نشانہ بناتے پھریں
میں نے انکے کمنٹ کے بعد دوبارہ معذرت کرلی، اور وضاحت بھی کردی لیکن اسکے جواب میں یہ ارشاد ہوا کہ :
پھر تو آپ نے خالصتا تنقید برائے تنقید کا مظاہرہ فرمایا ہے محترم
جب آپ ایک زبان کی سمجھ ہی نہیں رکھتے سرِے سے تو اس زبان کو آپ لطیف مضامین کے اظہار کے لیے نامناسب کیسے کہہ سکتے ہیں؟
یہی ناں کہ مقصد صرف اور صرف پشتو دشمنی ہے اور کچھ نہیں؟
میں نے حمیت کے اس شاندار مظاہرے کو دیکھنے پر پھر عرض کیا کہ میں نے اپنی صفائی پیش کردی ہے اور بات کو مزید بڑھانا نہیں چاہتا
حد چاہئیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
لیکن اسکے باوجود پٹھان خون کا جوش ختم نہیں ہوا اور محترمہ کے شوہرِ نامدار نے بھی آکر مقدور کے مطابق اپنے اندر کا کوئی پرانا غبار نکالا ا (معلوم نہیں کس بات پر ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ لیکن اچھا کیا کہ اندر کا زہر باہر اگل دیا، ورنہ اندر ہی پکتے پکتے نجانے کیا رخ اختیار کرتا) چنانچہ موصوف نے بیگم صاحبہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر خوب چلائی۔۔
یار بیگم صاحبہ تو اپنا کام کیے جا اور عرفی کا شعر یاد رکھا کر ۔۔ وہی آوازِ سگاں والا ۔۔۔
ہمارے ملک کا عجیب خاصہ ہےکہ نا اہل اپنے آپ کو اہل سمجھتا ہے اور نا بلد خود کو عقلِ کل سمجھنے لگا ہے کسی کی ذاتی پسند کو بھی تضحیک کا نشانہ بنا یا جاتا ہے اور علمی ادبی لڑیوں کا رخ کرنے والے اپنے مناسب کو حرفِ آخر سمجھتے ہوئے دال صاد کرنے میں نہ صرف یدِ طولی رکھتے ہیں بلکہ یہ بھی نہیں خیال کرتے کہ علم اور ادب کسی کی میراث نہیں ۔۔ بس جس کا جو منہ میں آتا ہے بولنا ضروری سمجھتا ہے ۔۔
بہرحال غلطی ہوئی صاحب، مجھے نہیں پتہ تھا کہ لوگ پشتو کے حوالے سے اتنے زیادہ حساس ہیں کہ اس پر کسی بھی انسان کی اچھی خاصی مٹی پلید کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔۔۔
روحانی بابا ایک خوش مزاج پشتون ہیں۔۔۔ بارہا انہوں نے اپنی پشتو زبان کے بارے میں بڑی بے تکلفی اور خندہ پیشانی سے اس قسم کے کئی شگوفے چھوڑے ہیں جن کو سن کر انسان مسکرا اٹھتا ہے۔۔۔۔مشتاق احمد یوسفی کی کتب میں ایسے کئی جملے ہیں جنکا یقیناّ ایک سلیم المزاج آدمی لطف لیتا ہے، لیکن اگر کوئی تلخی سے بھرا بیٹھا ہو تو یوسفی صاحب کے شگفتہ جملوں میں سے بھی اپنی مرضی کا زہر کشید کرسکتا ہے۔۔۔۔
بہرحال غلطی ہوئی صاحب کے ہم سے پشتو جیسی عظیم الشان زبان ۔۔۔جو یقیناّ اس بات کی مستحق تھی کہ اسے جنت کی سرکاری زبان قرار دے دیا جائے۔۔۔کے حق مین گستاخی سرزد ہوگئی۔