فلسفہ زیادہ ہے اس میں اور بعض جگہ ہندو نظریات کی جھلک بھی ملتی ہے۔
پہلے عالمی پائے کی ادیب ہونے کا سرٹیفکیٹ لانا پڑتا
قبلہ اگر عالمی پائے کے نہ ہوئے تو ہمارے پاس چار پائے ہیں وہ لگا لیں گے جیسا اکثر ادیب کرتے بھی ہیں -
آخر میں تو سب کو چار ہی پائے لگنے ہیں کوئی کم تو نہیں
آج کل تابوت میں بھی شفٹنگ ہو رہی ہے قبلہ!
پائے تو اس کے بھی 4 ہی ہوتے ہیں ۔ کیا ہو جو آپس میں اضافی مواد کے ذریعے ملے ہوئے ہوتے ہیں
میرا خیال تھا اب تک میّت دفنا دی گئی ہو گی ،،،،،،،،،،
" تمہیں بھی اپنے لیے کوئی راہ تلاش کرنا ہو گی سیمی ،،،،، پیچھے رہ جانے والوں کے لیے اور کوئی صورت نہیں ہوتی !"
وہ محبت کے ترازو میں برابر کا تلنا چاہتی تھی اور دوسری طرف مجھے کوئی ایسا بٹہ رکھنا نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے اس کا توازن ٹھیک ہو جاتا۔ اگر میں آفتاب کو خوش ظاہر کرتا تو وہ تنفر کی صورت میں بے قابو ہو جاتی ، اگر میں اسے اداس ظاہر کرتا تو بے یقینی ، ناامیدی اور شدید غم تلے دب کر آہیں بھرنے لگتی، محبت کا آرا اوپر تلے برابر اس کے تختے کاتتا چلا جا رہا تھا۔
میں سوشیالوجی کے طالبعلم کی طرح سوچنے لگا کہ جب انسان نے سوسائیٹی کو تشکیل دیا ہو گا تو یہ ضرورت محسوس کی ہو گی کہ فرد علیحدہ علیحدہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے، باہمی ہمدردی ، میل جول اور ضروریات نے معاشرہ کو جنم دیا ہو گا، لیکن رفتہ رفتہ سوسائٹی اتنی پیچ در پیچ ہو گئی کہ باہمی میل جول ، ہمدردی اور ضرورت نے تہذیب کے جذباتی انتشار کا بنیادی پتھر رکھا ۔ جس محبت کے تصور کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہ تھی شاید اسی محبت کو مبالغہ پسند انسان نے خداہی سمجھ لیا اور انسان دوستی کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا ،پھر یہی محبت جگہ جگہ نفرت حقارت اور غصے سے زیادہ لوگوں کی زندگیا سلب کرنے لگی ، محبت کی خاطر قتل ہونے لگے ، خود کشی وجود میں آئی ،،،،، سوسائٹی اغوا سے شبخون سے متعارف ہوئی ، رفتہ رفتہ محبت ہی سوسائٹی کا ایک بڑا روگ بن گئی ، اس جن کو ناپ کی بوتل میں بند رکھنا معاشرے کے لیے ممکن نہ رہا ، اب محبت کے وجود یا عدم وجود پر ادب پیدا ہونے لگا ، بچوں کی سائیکالوجی جنم لینے لگی ، محبت کے حصول پر مقدمے ہونے لگے ، ساس بن کر ماں ڈائن کا روپ دھارنے لگی ، معاشرے میں محبت کے خمیر کی وجہ سے کئی قسم کا ناگوار بیکٹیریا پیدا ہوا۔
نفرت کا سیدھا سادا شیطانی روپ ھے ۔ محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ھے ، ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ھے ۔ اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ھے ، محبتی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہیں ہوتی ہمیشہ عمر قید ہوتی ھے ، جس معاشرے نے محبت کو علم بنا کر آگے قدم رکھا وہ اندر ہی اندر اس کے انتظار سے بری طرح متاثر بھی ہوتی چلی گئی۔ جائز و ناجائز محبت کے کچھ ٹریفک رولز بنائے لیکن ہائی سپیڈ معاشرے میں ایسے سپیڈ بریکر کسی کام کے نہیں ہوتے کیونکہ محبت کا خمیر ہی ایسا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ خمیر لگ جائے تو بھی سوسائٹی پھول جاتی ھے ، کم رہ جائے تو بھی پپڑی کی طرح تڑخ جاتی ھے ۔
شکست و ریخت، بد بختی و سوختہ سامانی ۔
آج تک سوسائٹی جرائم کی بیخ کنی پر اپنی تمام قوت استعمال کرتی رہی ھے ، اس نے اندازہ نہیں لگایا کہ کتنے گھروں میں کتنے مسلکوں میں سارا نقص ہی محبت سے پیدا ہوتا ھے ، سوسائٹی کا بنیادی تضاد ہی یہ ھے کہ ابھی تک وہ محبت کا علم اٹھائے ہوئے ھے حالانکہ وہ اس کے ہاتھوں توفیق بھر تکلیف اٹھا چکی ھے ، جب تک یہ ن دوبارہ بوتل میں بند نہیں ہو جاتا اور اس کے ٹریفک رولز مقرر نہیں ہوتے ، تب تک شانتی ممکن نہیں کیونکہ محبت کا مزاج ہوا کی طرح ھے کہیں ٹکتا نہیں اور معاشرے کو کسی ٹھوس چیز کی ضرورت ھے ۔
راجہ گدھ (بانو قدسیہ )
اسلام و علیکم:
بھنا میرا نام علی ھے میں آپ کو کافی عرصہ سے دیکھ رھا ھوں کہ آپ کو راجہ گدھ بہت پسند آئ ھے اور آنی بھی چاھئے وھ ناول ھی کچھ ایسا ھے جو بھی ایک دفعہ پڑھتا ھے اس کا قائل ھو جاتا ھے آپ کی اتنی دلچسپی کو دیکھتے ھوئے میں آپ کو ایک ناول کا بتاتا ھوں اسکا نام ھے (عشق کاعین) اس کے مصنف کا نام علیم الھقی ھے چونکہ راجہ گدھ بھی عشق کی ایک عظیم داستان ھے اور مجھے لگتا ھے آپ کو ایسے ناول پسند بھی ھیں امید ھے آپ کو یہ ناول پسند آئے گا
وسلام؛
مگر یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو گڑے مردے تک اکھاڑنے میں کمال رکھتے ہوں -
اسلام و علیکم:
بھناء سفر نامہ تو پڑھے ھیں لیکن ابھی تک ایسا کوئ سفر نامہ نظر سے نھیں گزرا جو آپ کے معیار کے مطابق ھو اگر کبھی گزرا تو ضرور بتاوں گا
ماسلام:
خوب کہا زونی لیکن بانو قدسیہ اور غالب کا کوئی موازنہ ہی نہیں - بانو قدسیہ نے جن معاشرتی مسائل کو سمجھانے کے لئے افسانے، ناول، اور ڈرامے لکھ مارے ہیں - غالب نے اپنے اشعار میں ان مسائل کی بہت خوبصورتی سے وضاحت کی ہے - غالب کے چند اشعار ہی بانو قدسیہ کے تمام کام پر بھاری ہیں- اسی لئے میرا نثر سے رابطہ کچھ کٹ گیا ہے - کیونکہ نثر میں بہت لمبی لمبی تحریریں لکھنی پڑتی ہیں جبکہ نظم میں چند اشعار میں ہی ان مسائل پر بات کی جا سکتی ہے بہر حال اس سے نثر کی اہمیت کم نہیں ہوتی- یہ میری اپنی رائے ہے اس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں -
راجہ گدھ ایسا ناول ہے کہ جو بھی اسے پڑھتا ہے وہ اکثر اسکے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بہت عرصے تک مبتلا رہتا ہے - چاہے وہ زبان سے اسکا اظہار کرے یا نہ کرے - میں نے راجہ گدھ شاید 2 یا تین مرتبہ پڑھا ہے - پہلی بار تب پڑھا تھا جب میں کالج میں سالِ اوّل کا طالب علم تھا - راجہ گدھ پڑھنے کے بعد کچھ ایسا سحر میں گرفتار ہوا کہ جب بھی لارنس گارڈن (جناح باغ) جاتا تو بابا ترت مراد کے مزار پر بھی جاتا اور سوچتا کہ سیمی اور قیوم کہاں بیٹھتے ہوں گے وغیرہ وغیرہ - لیکن پھر کچھ سال بعد چیزیں زیادہ بہتر نظر آنے لگیں - میں نے شاید بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کا کوئی ڈرامہ ایسا نہیں ہوگا جو میں نے نہ دیکھا ہو - خیر اصل میں بانو قدسیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کچھ نظریات کو پہلے سے صحیح مان کر کہانی یا ناول لکھتی ہیں جسے انگریزی میں (pre supposition ) کہا جاتا ہے اور اسی فلسفلے یا نظریے کو بنیاد بنا کر وہ افسانہ، کہانی یا ناول لکھتی ہیں یعنی بنیادی طور پر وہ اپنی ہر تحریر میں ایک مخصوص نظریے کی تبلیغ کر رہی ہوتی ہیں جسکے نتیجے میں وہ تحریر تخلیقی نہیں بلکہ کسی حد تک پروپگنڈہ بن جاتا ہے -
بانو قدسیہ کا یہی ایک مسئلہ ہے جسکی وجہ سے وہ بہت پائے کی ادیب نہیں بن سکیں ورنہ انکے فقرے بہت کاٹ دار ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر انکی تحریر میں کوئی خاص بات یا تخلیقی ہنر نظر نہیں آتا - پورے راجہ گدھ میں ایک چھوٹے سے نظریے کو اتنا طول دیا ہے یعنی "حرام کھانے کے نتیجے میں انسان عشقِ لاحاصل سے دوچار ہوتا ہے جو کہ بے سمتی، بے راہ وری اور آخر میں ڈپریشن اور خودکشی پر منتج ہوتا ہے" صرف یہ بات بیان کرنے کے لئے انہوں نے پورا ناول لکھ مارا لیکن پورے ناول میں بات نکلی تو بس اتنی یعنی کھودا پہاڑ نکلا چوہا -