یہ اس وڈیو کی مکمل transcript:
میں ایک خیالی تجربے سے شروعات کرنا چاہوں گا یہ خیال کریں کہ ہم 4000 سال مستقبل میں ہیں تمدن، جیسا ہم اب اسے سمجھتے ہیں ختم ہو چکی ہے نہ کتابیں، نہ کوئی برقی آلات، نہ ہی Facebook یا twitter ۔موجود ہیں انگریزی زبان اور انگریزی حروف کا تمام علم ۔کھو چکا ہے اب ماہرین آثار قدیمہ کو خیال میں لائیں جو ہمارے مدفوں شہروں کو کھود رہے ہیں۔ وہ کیا دریافت کریں گے؟ شائد کچھ پلاسٹک کے مستطیل ٹکڑے جن پر عجیب و غریب نشانات ہوں گے۔شائد کچھ گول دھات کے ٹکڑے شائد کچھ سلنڈر نما ڈبے جن پر کچھ نشانات ہوں۔ شائد ایک ماہر آثار قدیمہ فورا ہی مشہور ہو جائے جب وہ دریافت کرے۔۔ شمالی امریکہ میں کسی پہاڑی میں مدفوں۔۔ انہی نشانات کے بہت بڑے نمونے۔ آئے اپنے آپ سے پوچھیں، یہ نمونے ہمارے بارے میں کیا بتا سکتے ہیں لوگوں کو 4000 سال بعد؟
یہ کوئی فرضی سوال نہیں ہے۔ دراصل، یہ ہوبہو ایسے ہی سوالات ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے جب ہم وادی سندھ کے تمدن کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو 4000 سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ سندھ کی تہذیب تقریبا اسی وقت کی ہے جب پہتر طور پر جانے جانی والی مصری اور عراقی تہذیبیں ہوا کرتی تھیں، لیکن دراصل یہ ان دونوں تہذیبوں سے زیادہ پڑی تھی۔یہ تقریبا دس لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل تھی یہ آجکل کے پاکستان، شمالی انڈیا اور افغانستان اور ایران پر مشتمل تھی۔ چونکہ یہ اتنا وسیع تمدن تھا، ،آپ توقع رکھتے ہوں گے بہت ہی طاقتور حکمرانوں، بادشاہوں اور ان باسشاہوں کی شان میں کھڑی بڑی یادگاریں ملنے کی ،حقیقت میں ماہرینِ آثار کو ایسا کچھ نہ مل سکا۔ انہوں نے چھوٹی سی چیزیں دریافت کی ہیں، جیسے کہ یہ۔
یہ ان چھوٹی چیزوں کی ایک مثال ہے۔ اصل میں یہ ایک ایک نقل ہے۔ لیکن یہ شخص کون ہے؟ ایک باسشاہ؟ ایک خدا؟ایک پادری؟ یا شائد کوئی عام سا آدمی جیسا کہ آپ اور میں؟ ہمیں نہیں معلوم۔ لیکن سندھ کے لوگوں نے ایسے آثار چھوڑے ہیں جن پر لکھائی بھی ہے۔ خیر، پلاسٹک کے ٹکڑے تو نہیں، لیکن پتھر کی مہریں، تانبے کی سِلیں، برتن اور، حیرت انگیز طور پر، ایک پڑا اشاروں کا بورڈ جو کہ ایک شہر کے دروازے کے قریب مدفون پایا گیا۔ اب ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اس پر "ہالی ووڈ" لکھا ہوا ہے یہ پھربالی ووڈ حقیقت میں، ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ سب چیزیں کیا کہتی ہیںاور یہ اس لیئے کہ سندھ کی لکھائی ابھی تک قابلِ فہم نہیں ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کسی بھی اشارے کا کیا مطلب ہے۔
یہ اشارے زیادہ تر مہروں پر پائے گئے ہیں۔ اب آپ ایک ایسی ہی چیز اوپر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ چوکور چیز ہے جس پر کسی جانور نما چیز کی تصریر ہے۔ اب یہ آرٹ کا بہت ہی خوبصورت نمونہ ہے۔ آپ کے خیال سے یہ کتنا بڑا ہو گا؟ شائد اتنا؟ یا پھر اتنا؟ میں دکھاتا ہوں۔ یہ اسی مہر کی ایک نقل ہے۔ یہ ایک انچ ضرب ایک انچ ہے۔۔۔ کافی چھوٹا۔ ان کو کس لئے استعمال کیا جاتا تھا؟ ہمیں معلوم ہے کہ یہ مٹی کی سلوں پر مہر کے لئے استعمال ہوتی تھیں جو کہ سامان کے گھٹوں کے ساتھ لگی ہوتیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجے جاتے۔ جیسے کہ آپکے پارسل کے ڈبوں کیساتھ رسید لگی ہوتی ہے۔ ان کو اسی قسم کی رسیدوں کے بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ آپ سوچتے ہوں گے ان پر کیا سبط ہے لکھائی کے طور پر۔ شائد یہ بھیجنے والے کا نام ہے یا پھر سامان کے بارے میں کچھ معلومات جو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجی جا رہی ہیں۔۔ ہمیں نہیں معلوم۔ ہمیں اس لکھائی کو سمجھنا ہے ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے
لکھائی کو سمجھنا یہ صرف ذہنی معمہ ہی نہیں؛ یہ اصل میں ایسا سوال بن گیا ہے جو کہ گہرے طور پر جکڑا ہوا ہےسیاست اور جنوبی ایشیا کی سماجی تاریخ سے۔ اصل میں، یہ لکھائی ایک طرح کا میدانِ جنگ بن گئی ہے تین مختلف گروہوں کے بیچ۔ پہلے، ایک لوگوں کا گروہ ہے جو اس عقیدے کے معاملے میں بہت جذباتی ہیں کہ سندھ کی لکھائیسرے سے کسی زبان کی نمائندگی نہیں کرتی۔ یہ لوگ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ اشارے ٹریفک کے اشاروں سے ملتے جلتے ہیں یا پھر شیلڈ پر جو علامات ہوتی ہیں ایک دوسرا گروہ ہے جن کا یہ ماننا ہے کہ سندھی اسم الخط ایک ہند-یورپی زبان کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر آپ آج کے انڈیا کا نقشہ دیکھیں، آپ دیکھیں گے کہ اکثر زبانیں جو شمالی انڈیا میں بولی جاتی ہیں وہ ہند-یورپی زبانوں پر مشتمل ہیں پس کچھ لوگ یقین کرتے ہیں کہ سندھی رسم الخط ہند-یورپی زبان جیسا کہ سنسکرت کی نمائندگی کرتا ہے۔
اور ایک آخری گروہ ہے جو یہ مانتے ہیں کہ سندھ کے لوگ آجکل کے جنوبی انڈیا میں رہنے والے لوگوں کے اباواجداد ہیں- ان کا ماننا ہے کہ سندھی رسم الخط ایک قدیم شکل کی نمائندگی کرتا ہے دراوڑی زبانوں کے خاندان کے، .جو کہ زبانوں کا وہ خاندان ہے جو آجکل کے جنوبی آنڈیا میں بولا جاتا ہے اور اس نظرئیے کے حامی جو کہ شمال میں دروڑی زبان بولنے والے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، افغانستان کے قریب وہ کہتے ہیں کہ شائد، ماضی میں کسی وقت،دراوڑی زبانیں تمام انڈیا میں بولی جاتی ہوں اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ شائد سندھ کی تہذیب بھی دراوڑی ہے۔
ان میں سے کونسا مفروضہ سچ ہو سکتا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم، لیکن اگر آپ اس رسم الخط کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے، تو آپ اس کا جواب دے سکیں گے۔ لیکن اس لکھائی کو سمجھنا کافی مشکل کام ہے پہلے یہ کہ، کوئی روزیتا کا پتھر نہیں ہے۔ میری مراد سافٹوئر سے نہیں میرا مطلب ہے قریمی پتھر جس پر ایک ہی لکھائی موجود ہے دونوں، معلوم اور نامعلوم لکھائی۔ ہمارے پاس سنھ کی لکھائی کے لئے ایسا کچھ موجود نہیں۔ اور مزید یہ کہ، ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کونسی زبان بولتے تھے۔ اور مزید مشکل یہ ہے کہ، زیادہ تر لکھائی جو ہمارے پاس موجود ہے وہ بہت مختصر ہے۔جیسا میں نے دکھایا، جو زیادہ تر ان مہروں پر پائی جاتی ہے۔ جو بہت ہی چھوٹی ہے۔
اور ان بڑی رکاوٹوں کی وجہ سے، کوئی پریشان ہو کرایسا سوچ سکتا ہے کہ کیا کبھی بھی سندھی لکھائی کا ادراک ممکن ہے۔ باقی کے دورانیے مں، میں یہ بتاوں گا کہ میں نے کیسے پریشان ہونا چھوڑا اور سندھی لکھائی کے اس چیلنج کو دل سے قبول کیا۔ میں ہمیشہ سے سندھی لکھائی سے مرعوب رہا ہوں جب سے میں نے اس کے بارے میں مڈل سکول کی کتاب میں پڑھا اور میں کیوں مرعوب ہوا؟ خیر یہ دنیا کی آخری بڑی سمجھ میں نہ آنے والی لکھائی ہے ، بنایا computational neuroscientis میرے کئریر نے مجھے ،دن کے وقت جاب میں میں دماغ کے کمپیوٹر ماڈل بناتا ہوں،یہ سمجھنے کے لئے کہ دماغ پیشنگوئی کیسے کرتا ہے ،دماغ فیصلے کیسے کرتا ہے دماغ سیکھتا کیسے ہے وغیرہ۔
لیکن 2007 میں میرا راستہ سندھی تحریر سے پھر ٹکرایا۔ ،یہ تب کی بات ہے جب میں انڈیا میں تھا اور میرے ہاتھ یہ زبردست موقع آیا کہ میں انڈیا کے کچھ سائنسدانوں سے ملوں جو کمپیوٹر ماڈل کی مدد سے اس لکھائی کو سمجھنے کے لئے کوشاں تھے۔ تب میں نے یہ محسوس کیا ،کہ میرے پاس ان سائنسدانوں کیساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ہے اور میں اس پر کود پڑا۔ اور میں کچھ نتیجے بیان کرنا چاہوں گا جو ہم نے حاصل کئے۔ یا اس سے بھی بہتر، کیوں نا ہم سب مل کر اس کو سمجھیں۔ کیا آپ تیار ہیں؟
جو پہلی چیز آپ کو کرنی ہے جب غیر فہم تحریر ہو آپکے پاس وہ یہ ہے کہ تحریر کی سمت کا اندازہ لگایا جائے۔ یہاں دو تحریریں ہیں جن پر کچھ نشانات ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کیا تحریر کی سمت دائیں سے بائیں طرف ہے یا بائیں سے دائیں میں آپ کو چند سیکنڈ دیتا ہوں اچھا۔ دائیں سے بائیں، کتنے لوگ؟ اچھا۔ اچھا۔ بائیں سے دائیں؟ او، یہ تقریبا 50/50 ہیں۔ اچھا۔ :جواب ہے اگر آب دونوں تحریروں کی بایئں جانب دیکھیں، آپ مشاہدہ کریں گے کہ یہاں اشارے بہت قریب ہیں ،اور ایسا لگتا ہے کہ 4000 سال پہلے ،جب لکھاری دائیں سے بائیں جانب لکھ رہا تھا تو جگہ ختم ہو گئی۔ تو ان کو یہ اشارے ایک دوسرے کے اندر گھسا کر لکھنے پڑے۔ ایک نشان اوپر کی طرف تحریر کے نیچے ہے۔ یہ لکھنے کی سمت کے بارے میں بتاتا ہے ،کہ ممکن ہے کہ دائیں سے بائیں ہو ،اور اسطرح ہمیں سب سے پہلی چیز معلوم ہو جاتی ہے کہ سمت زبانوں کی تحریر کا بہت ہی ضروری جز ہے۔ اور سندھ کی تحریر کی اب یہ والی خاصیت ہے۔
اس کے علاوہ یہ تحریر کونسی خصوصیات بتاتی ہے؟ زبانوں کے اندر حروف خاص شکل میں ہوتے ہیں۔ دوں Q اگر میں آپ کو حرف اور آپ سے اگلے حرف کے بارے میں اندازہ لگانے کو کہوں، آپ کے خیال سے وہ کیا ہوگا؟ آپ میں سے اکثر نے ' یو' کہا، جو درست ہے اگر میں آپ سے کہوں کہ ایک اور حرف کا اندازہ لگائیں، آپ کے خیال سے وہ کیا ہوگا؟ اب کہیں خیالات ہو سکتے ہیں۔ 'ای' بھی ہو سکتا ہے۔ 'آی' بھی ہو سکتا ہے۔ 'کیو' بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن'بی' ,'سی' ,'ڈی' نہیں ہو سکتے۔ ٹھیک؟ سندھ کی تحریریں بھی اس قسم کی مخصوص اشکال کا مظہر ہیں کافی ساری تحریریں اس ہیرے کی طرح کے نشان سے شروع ہوتی ہیں۔ اور اس کے بعد اکثر یہ واوین کی طرح کا نشان آتا ہے اور یہ 'کیو' اور 'یو' والی مثال کی طرح کا ہی ہے۔ اس نشان کے بعد مچھلی کے طرح کے یا اور کوئی نشان آسکتے ہیں، لیکن کبھی بھی یہ نشان نہیں آ سکتے جو کہ نیچے کی طرف ہیں۔ مزید یہ کہ، کچھ نشان ہیں جو کہ تحریروں کے آخر کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جیسا کہ یہ گلدان کی طرح کا نشان ،اور یہ نشان، اصل میں تحریر میں مب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔
اسطرح کی مخصوص اشکال اگردی کئی ہوں تو ہمارا خیال یہ تھا کہ کمپیوٹر کو ،ان نشانات کو سمجھنے پر لگایا جائے ۔اور اسطرح ہم نے کمپیوٹر کو پہلے سے موجود تحریریں دیں اور کمپیوٹر نے ایک شماریاتی ماڈل سمجھ لیا کہ کون سے نشانات ایک ساتھ پائے جاتے ہیں اور کونسے ایک دوسے کے آگے پیچھے ،اگر کمپیوٹر ماڈل دیا گیا ہو تو ہم اس ماڈل کو اس سے سوالات پوچھ کر ٹیسٹ کر سکتے ہیں۔ ،ہم کچھ نشان جان بوجھ کر مٹا کر اور کمپیوٹر سے پوچھیں کہ ان نشانات کی پیشنگوئی کرے۔ یہ کچھ مثالیں ہیں۔ آپ اسکو شائد قسمت کے پہئیے کا سب سے قدیم کھیل سمجھ سکتے ہیں۔
ہم نے یہ دیکھا پچھتر فی صد کمپیوٹر کامیاب رہا صحیح نشان کی پیشنگوئی کرنے میں۔ باقی کیسز میں عام طور پر دوسے یا تیسرے نمبر پر آنے والی پیشینگوئی صحیح ہوتی تھی۔ ایک عملی استعمال بھی ہے اس طریقہ کار کا۔ ۔کافی ساری تحریریں خراب ہیں یہ ایک ایسی ہی مثال ہے۔ ہم کمپیوٹر ماڈل کے ذریعے اس تحریر کو مکمل کر سکتے ہیں اور سب سے اچھے اندازے کی بنیاد پر پیشنگوئی کر سکتے ہیں۔ یہ اک مثال ہے ایک نشان کی جس کی پیشنگوئی ہوئی۔ اور یہ تحریر کو سمجھنے میں کافی مفید ہو سکتا ہے کافی مقدار میں نشان بنا کر جس کو ہم پرکھ سکتے ہیں۔
اب ایک اور کام جو اس کمپِوٹر ماڈل سے کر سکتے ہیں۔ ایک بندر کو ذہن میں لائیں جو کی بورڈ پر بیٹھا ہو۔ میرے خیال میں آپ اس طرح کی تحریر حاصل کر سکیں گے جو حروف کا ملغوبہ ہو گا اسطرح حروف کے بے مقصد ملغوبے کی اینٹراپی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ فزکس اور نظریہ معلومات کی اصطلاح ہے۔ لیکن صرف سوچیں یہ حقیقت میں بالکل حروف کا بے مقصد ملغوبہ ہے۔ آپ میں سے کتنے لوگوں نے کی بورڈ پر کافی گرائی ہے؟ آپ کو پھنسی ہوئے بٹن والے مسئلے کا سامنہ ہوا ہوگا۔۔ اصل میں ایک ہی حرف بار بار لکھا جائے اس طرح کے سلسلے کی اینٹراپی بہت کم ہوتی ہےکیونکہ اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں ہے۔ زبان کی، دوسری طرف، معتدل اینٹراپی ہوتی ہے؛ یہ بہت سخت بھی نہیں، اور بہت بے ترتیب بھی نہیں۔ سندھ کی تحریر کر بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں؟ یہاں پر ایک گراف ہے، جو کہ کافی سارے سلسلوں کی اینٹراپی دکھا رہا ہے۔ سب سے اوپر آپ یکساں بے ترتیب سلسلے کی اینٹراپی دیکھ سکتے ہیں۔ جو حروف کا ایک ملغوبہ ہے۔۔ دلچسپ طور پر، ہم دیکھ سکتے ہیں ڈی-این-اے' کے سلسلے کو اور ساز کے سلسلے کو۔' اور یہ دونوں ہی بہت ہی لچکدار ہیں، تبھی یہ آپ کو بہت اوپر دکھائی دے رہی ہیں۔ پیمانے کے بالکل نیچے کی طرف آپ بالکل غیر لچکدار سلسلہ، تمام 'اے'ظ' کا سلسلہ دیکھ سکتے ہیں، اور آپ کمپیوٹر پروگرام بھی دیکھ سکتے ہیں، اس مثال میں فورٹران لیگویج میں ضو کہ بہت ہی سخت اصولوں کی پابند ہے۔ زبانوں کی تحریریں درمیان میں پائی جاتی ہیں۔
(جاری ہے)