شمشاد یہ بات سچ ہے کہ ہمارے کچھ چینلز دیکھ کر یہ لگتا ہی نہیں ہ کہ یہ پاکستانی چینلز ہیں یا ہندوستانی آئے دن ہندوستانی شوز فلمیں اور مختلف پروگرام چلتے رہتے ہیں اور تو اور خاص عید بقر عید پر ہندوستانی فلمیں اور ورائٹی پروگرام دکھائے جاتے ہیں لیکن شاید یہ انکی کاروباری مجبوری ہے کیوں کہ وہ وہی دکھاتے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اگر وہ حب الوطنی کا ثبوت دیں تو انکو وہ دکھانا چاہیئے جو اسوقت کی ضرورت ہے۔ یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) پر بننے والی فلم دی میسیج اسوقت آرہی ہے جیو ٹی وی پر اور ایک دم سے ایسے اشتہار آنا شروع ہوجاتے ہیں جن میں ناچ گانا دکھایا جارہا ہوتا ہے یعنی معرفت کی اتنی زیادہ کمی ہے کہ ایک دفعہ میں نے پروگرام دیکھا جس میں آپ (ص) کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالی جارہی تھی۔ اور اچانک ہارپک کا اشتہار شروع کردیا گیا جس میں ابتدا ہی کموڈ دکھا کر کی گئی جو لوگ اپنے کاروبار کا اشتہارات سے ہونے والی کمائی کا اتنا خیال کریں کے اسمیں یہ بھول جائیں کہ انکے دین کے پیشوا کی بے حرمتی تو نہیں ہورہی ان سے آپ کیا یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ دین کو اتنی اہمیت دینے لگیں گے ۔
پر میں کامل خان کی اس بات سے متفق ہوں کہ ہم دوسروں پر تو فوراََ انگلی اٹھانے کو تیار ہوجاتے ہیں جبکہ اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے ۔ یہاں روز ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو خون میں نہلا رہا ہے وہ بھی بے انتہا تشدد کے بعد ۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ برما میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہورہا ہے جس پر مسلم حکمرانوں کی بے حسی قابلِ مذمت ہے پر کیا اگر ایک مسلمان ملک میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کرے تو وہ اس سے بڑا گناہ نہیں کہ ایک غیر مسلم کافر ایک مسلمان کا قتل کرے ارے بھائی برما میں تو پھر بطھی ایک خاص مقصد کو لے کر مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا ہوگا نا یہاں تو ایک موبائل کے پیچھے قتل ہوجاتے ہیں کراچی میں کبھی دس کبھی پندرہ مسلمان (ہندو یا عیسائی نہیں ) خون میں نہلائے جاتے ہیں نا مارنے والے کو پتہ کہ میں نے کیوں مارا نہ مرنے والے کو پتہ کہ مجھ کو کیوں مارا جارہا ہے ۔ یہاں بہت سی اسلامی جماعتیں ہیں جو اس بات پر تو بہت واویلا مچاتی ہیں کہ فلاں جگہ مسلمانوں پر قتل ہورہا ہے اور فلاں جگہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے پر اگر انکی توجہ ایک خاص سوچ رکھنے والے مسلمان گروہ کے خود کش حملوں اور شرپسندی کی طرف دلائی جاتی ہے تو وہ اسکی وجہ ڈرون حملوں اور حکومتی کارندوں کی امریکہ حمایت بیان کرتے ہیں۔ ایران جانے والی زائرین کی پوری پوری بسیں خون میں نہلادی جاتی ہیں سانحہ چلاس بھی کسی طرح بھی برما میں ہونے والے ظلم سے مختلف نہیں مگر کیا اس پر کوئی بھی اسلامی تنظیم یا کسی اسلامی جماعت نے مظاہرہ کیا امت کا نام نہاد درد رکھنے والے اخبار نے کوئی فیچر لکھا۔ ہم لوگوں کو بھی تو یہ دوہرا معیار ختم کرنا چاہیئے
میں آپ کی بات سے بالکل متفق ہوں۔
یہاں قصور عوام کا ہے۔ عوام کیوں بار بار ان نا اہل لیڈروں کو منصبِ اقتدار پہ بٹھاتے ہیں۔ ایک آٹے کی بوری پہ یہ قوم بک جاتی ہے۔
مگر ہم میڈیا کو اس معاملے سے بری نہیں کر سکتے۔ عوام اسی بات کو سچ مانتی ہے جو میڈیا کہتی ہے۔ جیو، ایکسپریس وغیرہ کا ہماری عوام پہ بہت گہرا اثر ہے۔
جتنے پروگرام ہمارا میڈیا انڈین فنکاروں اور فنکاراؤں کی سالگرہ یا یومِ وفات پہ چلاتا ہے کیا ہمارے قومی لیڈرز کے یومِ پیدائش یا یومِ وفات پہ چلاتا ہے۔
ابھی چند دن پہلے مادرِ ملت کی برسی تھی، ہمارے میڈیا نے کتنا اس چیز کو دکھایا۔ جب ہماری نسل کو ہمارے لیڈرز کا ہی نہیں پتہ ہوگا تو ہم کیا خاک ترقی کریں گے۔
ہماری نئی نسل کی ایک بڑی تعداد منی، شیلا کے نام سے تو واقف ہے مگر اُن کے یہ نہیں پتہ کہ ہمارا نظریہ کیا ہے، قائد اعظم اور علامہ اقبال نے ہمیں کیا پیغام دیا ہے، کونسی راہ ہمارے لئے متعین کی ہے۔
اگر ہم اب بھی اپنے لیڈرز کی باتوں پہ عمل کریں تو ہم ناصرف سچے مسلمان اور پاکستانی بن جائیں گے بلکہ اپنا کھویا ہوا وقار بھی حاصل کر لیں گے۔ اور پھر پاکستان میں کوئی قتل و غارت گری نہیں ہو گی۔