ربیع م
محفلین
راج ناتھ کا دورۂ کشمیر: ’صرف محبوبہ مفتی کا لہجہ بدلا‘
ریاض مسرور بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر
- ایک گھنٹہ پہلے
انڈیا کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کے کشمیر میں دو روزہ قیام کے دوران مزید دو نوجوانوں کی موت ہوگئی۔ راج ناتھ سنگھ کے سرینگر پہنچتے ہی جنوبی قصبہ اونتی پورہ میں مظاہرین پر فائرنگ کے واقعے میں کئی نوجوان زخمی ہوگئے اور ہسپتال لے جاتے ہوئے ایک کا انتقال ہوگیا۔
دورے کے اختتام پر وزیر داخلہ جب سرینگر کے ہوائی اڈے پر پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے تو ہسپتال میں گولیوں کے زخموں سے لڑنے والا ایک اور 25 سالہ نوجوان زندگی کی جنگ ہار گیا۔
ہلاکتوں کی تعداد 50 سے تجاوز کرگئی ہے اور خود راج ناتھ سنگھ نے زخمیوں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ بتائی۔
٭’کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ انڈیا نہیں کشمیری کریں گے‘
٭ ’پہلے امن پھر جس سے بات کرنی ہوگی کریں گے‘
انھوں نے دو روزہ قیام کے دوران حکمراں اتحاد پی ڈی پی اور بی جے پی کے علاوہ بعض سابق افسروں سے بات چیت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اتوار کے روز وہ جنوبی کشمیر گئے جہاں ان کی ملاقات بعض متاثرین سے کرائی گئی۔
تجارتی انجمنوں، معروف ہندنواز سیاسی جماعتوں، معتبر تجارتی انجمنوں اور اہم سماجی شخصیات نے ان سے ملاقات کی سرکاری دعوت کو پہلے مسترد کر دیا تھا۔
مقامی انگریزی روزنامہ رائزنگ کشمیر نے ذرائع کے حوالے سے ایک خبر شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ راج ناتھ سنگھ علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کا اعلان کریں گے۔
بی جے پی کی نطریاتی ساکھ اور دوسری مجبوریوں کے تناظر میں یہ بہت بڑی پیشن گوئی تھی اور لوگوں کو بھی ایسی کوئی توقع نہیں تھی۔
تاہم اکثر حلقوں کا خیال تھا کہ وزیر داخلہ ضرور کوئی ایسی بات کریں گے جسے زخموں کو مندمل کرنے میں کم از کم مدد ملے گی۔
انھوں نے سرینگر کے فوجی ہوائی اڈے پر آدھے گھنٹے کی پریس کانفرنس میں تین اہم باتیں کیں۔
1 ہم کشمیریوں کے ساتھ ضرورت ہی نہیں جذبات کا رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں، لیکن پاکستان کشمیریوں کو مسلح تشدد کی ترغیب نہ دے۔
2 کشمیر کے معاملے میں کسی تیسری طاقت کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
3 بات چیت کا عمل قیام امن کے بعد شروع ہوگا۔ بات کس سے اور کب کرنی ہے اس بارے میں وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی حتمی فیصلہ لیں گی۔
اکثر صحافیوں نے راج ناتھ سے پوچھا کہ آیا انھیں کشمیر میں ہوئی ہلاکتوں اور ظلم و زیادتیوں پر کوئی پچھتاوا یا افسوس ہے؟
اس کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ ’افسوس جتانے سے کچھ نہیں ہوگا۔‘
انھوں نے کہا کہ حکومت ہند تمام زخمیوں کا دلّی میں علاج کروانے پر آمادہ ہے اور زخمیوں کو خصوصی طیاروں میں منتقل کیا جائے گا۔
چھروں والی بندوق کے استعمال کا جائزہ لینے کے لیے وزیر داخلہ نے ماہرین کی ٹیم تشکیل دینے کا اعلان کیا جو دو ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرے گی۔
لیکن دو ماہ کے دوران اگر کہیں کوئی تصادم ہوا تو اُس وقت فورسز اہلکاروں کے لیے کیا ہدایت ہے؟
راج ناتھ سنگھ کہتے ہیں: ’میں نے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پُر امن رہیں، اور سکیورٹی فورسز سے بھی کہا ہے کہ چھرّوں والی بندوق یا پیلیٹ گن کے استعمال سے انھیں بچنا چاہیے۔‘
واضح رہے سو سے زائد نوجوانوں کی آنکھوں میں چھرے فائر کیے گئے ہیں اور ان کی عمریں دو سال سے 30 سال کے درمیان ہے۔
15 سال سے کم عمر کے نصف درجن بچے ایسے ہیں جن کی دونوں آنکھیں متاثر ہوئی ہیں جبکہ کُل ملا کر 50 سے زائد نوجوان بینائی سے محروم ہوگئے ہیں۔
26 سال کی مسلح شورش کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ صرف دو ہفتوں کی سرکاری کارروائی میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
انڈیا کے وزیر نے دعوی کیا کہ تین ہزار سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہیں۔
تاہم ذرائع نے بتایا کہ انڈین فوج کی 15ویں کور کے 92 ہسپتال میں پولیس اور سی آر پی ایف کے صرف 24 اہلکاروں کا علاج ہو رہا ہے۔
انھیں پتھروں یا کانچ کے ٹکڑوں سے چوٹیں آئی ہیں اور ڈاکڑوں کے مطابق کوئی بھی چوٹ مہلک نہیں ہے۔ تین ہزار سکیورٹی اہلکار زخمی ہوتے تو وزیر داخلہ پہلی فرصت میں ان کی خبر پرسی کے لیے جاتے۔
تجزیہ نگار اعجاز ایوب کہتے ہیں: ’یہ ایک جنگی صورتحال ہے۔ خاص طور پر جب پوری آبادی خود کو محصور اور مقہور سمجھ رہی ہو۔ ایسے میں انڈین وزیر داخلہ کی طرف سے مہلوکین کے پیاروں یا زخمیوں کے لیے کسی طرح کی کوئی مالی امداد یا باز آبادکاری کا وعدہ نہ کرنا پوری آبادی کو قابل سزا قرار دینا ہے۔‘
اکثر مبصرین اعجاز کی طرح راج ناتھ سنگھ کے دورے کو زخموں پر نمک پاشی کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
سماجیات کی محقق طاہرہ اقبال کہتی ہیں: ’راج ناتھ سنگھ کے دورے سے کچھ نہیں ہوا۔ ہاں محبوبہ کا لہجہ بدل گیا، اب وہ بھی حالات کا نزلہ پاکستان پرگرا رہی ہیں۔‘
واضح رہے راج ناتھ سنگھ کے ساتھ ملاقات کے بعد وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے جہاں انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی بحالی کی وکالت کی وہیں انھوں نے پاکستان سے اپیل کی کہ وہ کشمیری نوجوانوں کے جذبات کو بھڑکانا بند کرے۔
راج ناتھ کے ساتھ ملاقی ہوئے سابق افسر محمد شفیع پنڈت کہتے ہیں: ’یہ زخموں کا مرحم کرنے کا سنہری موقع تھا۔ فوجی قوانین کو نرم کرنے اور آبادیوں سے فوج نکالنے کا اعلان کر کے انڈین وزیر کشمیر کے حالات میں استحکام پیدا کرسکتے تھے، مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا اور اکثریت کو یقین تھا کہ یہ دورہ ناکام ہی ہوگا۔‘
دلّی میں قومی سلامتی کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ برہان وانی ایک دہشت گرد تھا اور اس کی حمایت میں نکلنے والے لوگ فورسز کے ساتھ اُلجھ گئے اور مارے گئے، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔
کافی عرصے سے حالات کشیدہ تھے۔ جون میں فوجی چھاونیوں سے گھرے شمالی ضلع کپوارہ میں ایک تصادم میں مسلح شدت پسند مارے گئے تو لوگوں نے فوج کے ساتھ کام کرنے والے ایک مزدور کا گھر نذر آتش کردیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع فوج کو دی تھی۔
اس سے قبل اپریل میں ایک لڑکی کے ساتھ فوجی اہلکار کی چھیڑ چھاڑ کے واقع پر پورا ضلع سراپا احتجاج بن گیا، اور سرکاری فورسز کی کارروائی میں خاتون سمیت پانچ افراد مارے گئے۔
کشمیر میں سابق فوجیوں اور وادی چھوڑ کر جانے والے کشمیری ہندوؤں کے لیے علیحدہ کالونیاں تعمیر کرنے کےمنصوبے پر غم و غصہ بڑھ رہا تھا۔
لوگوں کو یہ ڈر تھا کہ بی جے پی کی حکومت کشمیریوں کی شناخت ختم کرے گی۔ برہان کی ہلاکت گویا بھُس میں چنگاری کا کام کرگئی۔
راج ناتھ سنگھ نے اس صورتحال کا جائزہ نیشنل سکیورٹی کے زاویے سے لیا، ظاہر ہے ان کا ردعمل بھی نیشنل سکیورٹی کے پیرائے میں برآمد ہوا۔
لوگوں کو صرف اس بات پر افسوس ہے کہ مقامی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی راج ناتھ سنگھ کو قائل کرنے کی بجائے خود ہی اس قدر قائل ہوگئیں کہ انھوں نے بھی راج ناتھ کے سُر میں سُر ملا کر پاکستان کو دبے الفاظ میں دھمکی دے ڈالی۔
ماخذ