حالاتِ زندگی
سلطان المشائخ حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیا محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ جامع علوم ظاہری و باطنی تھے۔ آپ کا دل انوار منزل ہمیشہ کتب معتبرہ تصوف کے مطالعہ کی طرف مائل رہتا تھا۔ آپ تفسیر و حدیث ، اصول و کلام اور فقہ امام ابوحنیفہ میں استخصار تمام رکھتے تھے۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت سید احمد بن دانیال غزنی( افغانستان ) سے ہندوستان آئے اور شہر بدایوں (بھارت) میں متوطن ہوئے۔
حضرت شیخ نظام الدین اولیا اسی شہر بدایوں میں ماہ صفر 634 ہجری میں متولد ہوئے۔ پانچ برس کے تھے کہ والد ماجد نے انتقال فرمایا۔ والدہ محترمہ نے انہیں ایک مکتب میں داخل کیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیمی استعداد کا یہ عالم تھا کہ بدایوں میں انہیں مزید تعلیم دینے والا کوئی مدرس موجود نہیں تھا۔ آخر حضرت اپنی والدہ ماجدہ کو لیکر دہلی آئے اور ہلال چشت دار کی مسجد کے نیچے ایک حجرہ میں سکونت اختیار کی۔
اس وقت دہلی میں ایک فاضل متبحر اور سرآمد علمائے وقت خواجہ شمس الدین خوارزی تھے جنہیں بعد میں سلطان غیاث الدین بلبن نے شمس الملک کا خطاب دیکر منصبِ وزارت تفویض کیا۔
تاج الدین سنگ ریزہ نے انکی مدح میں لکھا ہے
شمسا کنوں بکام دلِ دوستاں شدی
فرماندہِ ممالکِ ہندوستاں شدی
وزیر ہونے سے پہلے شمس الملک درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت نظام الدین اولیا ان سے مل کر ان کے شاگردوں کی سلک میں منسلک ہوگئے ۔ ان کے پاس ایک حجرہ خاص مطالعہ کے واسطے تھا جس میں صرف تین شاگرد ( جو انتہائی ذہین اور صاحبِ استعداد ہوتے) سبق پڑھتے تھے۔ باقی سب شاگرد حجرہ کے باہر سبق پڑھتے۔
حضرت شیخ نظام الدین کے زمانہ تدریس مین ان تین خوش قسمت شاگردوں میں سے ایک ملا قطب الدین ناقلہ ، دوسرے ملا برہان الدین عبدالباقی ، اور تیسرے حضرت شیخ نظام الدین اولیا تھے۔
شمس الملک کو جب حضرت شیخ نظام الدین اولیا کی تیزی فہم اور ذہانتِ طبعی کا اندازہ ہوا تو وہ سب شاگردوں سے زیادہ ان کی تعظیم کرنے لگے۔ مولانا شمس الدین کی عادت تھی کہ کسی روز کوئی شاگرد مدرسے میں نہ آتا تو اگلے روز اس سے ازرہِ دل لگی فرماتے:
میں نے کیا قصور کیا تھا کہ تو غیر حاضر ہوا۔ مجھے بتا، تاکہ میں پھر وہی قصور کروں،
لیکن شیخ نظام الدین اولیا جب کسی وجہ سے مدرسے میں نہ آتے تو مولانا شمس الدین انہیں یاد کرکے یہ شعر پڑھتے۔
باری کم از آنکہ گاہ گاہے
آئی و بما کنی نگاہے
شیخ نظام الدین اولیا زمانہ تدریس میں حضرت شیخ نجیب الدین متوکل (برادر حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر) کے ہمسایہ تھے۔جو بہت سے علماء دہلی پر فوقیت رکھتے تھے۔ حضرت شیخ نظام الدین اولیا اکثر ان کی صحبت بابرکت مین بیٹھتے اور مستفیض ہوتے۔
شیخ نظام الدین اولیا تدریس سے فارغ ہوکر مراتبِ عالیہ پر فائز ہوئے تو انہیں معاش کی فکر ہوئی۔ ایک روز انہوں نے دورانِ گفتگو شیخ نجیب الدین متوکل سے کہا کہ میرے لیے دعائے خیر فرمائیں کہ میں کسی مقام کا قاضی مقرر ہو جاوں اور خلقِ خدا کو انصاف سے راضی کروں۔ حضرت شیخ نجیب الدین یہ سن کر خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ شیخ نظام الدین اولیا کو گمان گزرا کہ شاید شیخ نجیب الدین متوکل نے ان کی بات نہیں سنی۔ اس لیے دوبارہ باآوازِ بلند کہا : حضرت ! دعا فرمائیے کہ میں کسی مقام کا قاضی بن جاوں۔ اس مرتبہ شیخ نجیب الدین متوکل نے فرمایا : نظام الدین ! قاضی نہ بنو ، کچھ اور بنو۔ پھر مشورہ دیا کہ میرے بھائی شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر سے ملاقات کرو۔
اس رات شیخ نظام الدین اولیا جامع مسجد دہلی میں مقیم تھے ۔ اتفاق سے صبح اذان سے قبل موذن نے مینارہ پر کھڑے ہوکر یہ آیت پڑھی :
الم یان للذین آمنوا ان تخشع قلوبھم لذکر اللہ۔
یہ سنتے ہی حضرت کا حال متغیر ہوا اور نورِ الہی نے ان کو گھیر لیا۔
اس وقت شیخ العالم فرید الدین مسعود گنج شکر کی بزرگی اور کرامات کا شہرہ عالمگیر تھا۔ یوں بھی شیخ نجیب الدین متوکل کی مجالس مین غائبانہ حضرت شیخ العالم کی سیرت کے اوصاف سن کر شیخ نظام الدین اولیا ان کی زیارت کے پہلے ہی مشتاق تھے۔ اب جو صبح ہوئی تو بغیر زادِ راہ کے پیادہ پا قصبہ اجودھن (پاک پتن شریف ) کی سمت روانہ ہوگئے اور پنجشنبہ کو ظہر کی نامز کے وقت حجرت شیخ العالم کی زیارت باسعادت سے مشرف ہوئے۔ حضرت شیخ العالم نے انہیں دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا
اے آتشِ فراقت جانہا خراب کردہ
سیلاب اشتیاقت دلہا کباب کردہ